کوروناوائرس نے دنیا کے نظام کو درہم برہم کر کے رکھ دیا
ہے،ترقی یافتہ ممالک بھی ایسی صورت حال میں خوف و حراس میں لاک ڈاؤن کی
پوزیشن میں آ چکے ہیں ۔چین میں ہوبائی کے شہر ووہان سے شروع ہونے والی وبا
نے پورے کرہ ارض کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔دنیا میں مذہبی قیادت کے دو
مراکز ہیں،یعنی اٹلی (جہاں ویٹی گن سٹی میں پوپ موجود ہیں)دوسرا اسلامی
مرکز مکہ اور مدینہ شریف،جہاں پوپ نے سنڈے سرمن موقوف کرنے کا حکم دیا ہے ،وہاں
سعودی عرب کی قیادت نے جمعہ کے اجتماعات کو عارضی طور پر ترک کر دیا
ہے۔ایسے بین الاقوامی بحران میں پاکستان بھی شدید متاثر ہو رہا ہے۔ہمارے
حکمرانوں کے تو بلندو بانگ دعوے ہوتے ہیں کہ میرے حکمران رہنے سے پاکستان
ترقی یافتہ ممالک کی صف میں نمایاں پوزیشن میں آ چکا ہے۔اگرچہ ملک میں کچھ
شعبوں میں بہتری آئی،مگر اس کے مقابلے میں بیروزگاری اور کساد بازاری بھی
دوگنا بڑھی ہے۔اگر کورونا کی وجہ سے امریکہ میں بیروزگاری 20فیصد تک بڑھنے
کا کہا جا رہا ہے تو پاکستان میں صورت حال یقیناًسنگین ہو گی۔لیکن بدقسمتی
سے پاکستان میں حکومت اور عوام کا کردار نہایت غیر ذمہ دارانہ نظر آ رہا ہے
۔حکومت نے جب سے اقتدار سنبھالا ہے،مسلسل غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کر رہی
ہے،لیکن ہمیں من حیث القوم مثبت کردار ادا کرنے کی شدید ضرورت ہے۔
صورت حال واقعی گمبھیر ہو رہی ہے،دنیامیں ایک نیا معاشی بحران جنم لے سکتا
ہے۔پاکستان پہلے ہی معاشی بحران کی زد میں ہے ۔ان حالات میں حکومت کو نہایت
ذمہ داری کے ساتھ اپنا مثبت کردار اپنانے کی ضرورت ہے۔جہاں داخلی معیشت کے
بحران اور عدم اعتمادی کی فضا ختم کی جائے،وہاں قومی ادارے دیہی اور شہری
علاقوں میں عوام کو بہتر طبی سہولیات فراہم کریں۔کورونا وائرس کا با آسانی
مقابلہ کیا جا سکتا تھا اگر ہم نے اپنا طبی نظام درست کیا ہوتا۔ایسا نہیں
کہ اس طرح کی بحرانی صورت حال سے نمبردآزما ہونے کے لئے حکومت کو تجاویز
نہیں دی گئی ۔بہت سے ماہرین طب نے بار ہا ماضی اور موجودہ حکومت کو توجہ
دلائی کہ ہمارے ملک میں عوام کی فلاح و بہبود کے لئے طبی نظام کو درست کرنا
نہایت ضروری ہے،مگر کیوں کہ ان سیاسی اور نام نہاد سماجی لیڈران کی ترجیحات
ہمیشہ ذاتی نوعیت کی رہی ہیں۔یہی وجہ رہی ہے کہ کورونا وائرس ملک میں پھیل
رہا ہے۔پاکستان میں کورونا وائرس کی موجودگی کا انکشاف سب سے پہلے کراچی
میں ہوا،جس پر سندھ حکومت نے اچھے اقدامات کئے،پہلے پہل تو سندھ حکومت کو
سیاسی نشانے پر رکھا گیا ،مگر بین الاقوامی اور پاکستانی میڈیا نے صورت حال
کی سنگینی اجاگر کی،تب حکومت کے کان کھڑے ہوئے۔لیکن تب تک کافی دیر ہو چکی
تھی ۔ایران کی طرف سے زائرین کے آنے اور حکومت کا ایران باڈر تفتان پر (Qarntin)سنٹر
نہ بنانے کا مجرمانہ فعل کا نتیجہ ملک میں ایسی صورت حال پیدا کرنے کا سبب
بنا ۔اب ملک بھر میں کورونا وائرس کے مریضوں کی تعداد 644 تک پہنچ چکی ہے
اورمزید کیسز سامنے آ رہے ہیں۔اس سے چاروں صوبے متاثر ہوئے ہیں۔
گو کہ میڈیا اور خاص طور پر سوشل میڈیا نے کورونا وائرس کے بارے میں آ گہی
دینے کی بھر پور کوشش کی ہے،مگر عوام اس وائرس کی سنگینی سے آشنا نہیں ہیں
۔اس کا اندازہ یوں لگایا جا سکتا ہے کہ اگر کورونا وائرس کا مریض ایک چھینک
مارے تو تقریباً چار لاکھ وائرس پھینک دیتا ہے ،اگر چھینک سے وائرس کاپر پر
پڑ جائے تو چار گھنٹے تک زندہ رہتا ہے۔برتن ،پلاسٹک ،کارڈ یا پیپر پر تین
دن تک زندہ رہتا ہے ۔اب جس کا ہاتھ ان چیزوں پر لگنا ہے،وہ اس سے متاثر
ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔تحقیق کے مطابق ایک مریض چار سو افراد کو متاثر کر
سکتا ہے۔اس کورونا وائرس کی سنگینی یہ بھی ہے کہ اس مرض کے ایک مہنے بعد
اثرات ظاہر ہوتے ہیں ۔یاد رہے کہ کورونا وائرس خون یا رطوبت کے ذریعے منتقل
نہیں ہوتا ۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حکومت کی غیرسنجیدگی کے ساتھ ساتھ عوام کی غیر
ذمہ داری افسوس ناک ہے۔حکومت نے غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کیا کہ ان کی ناقص
منصوبہ بندی سے ایران سے 70ہزار افراد بغیر ٹیسٹ کے پاکستان منتقل
ہوئے۔وہاں انہیں کوارنٹین سنٹر میں محتاط طریقے سے رکھنے کی ضرورت تھی۔عوام
کی طرف سے افسوس ہوتا ہے کہ کسی شہری کے ایک غیر ذمہ دارانہ فعل سے وہ
دوسرے درجنوں کے لئے خطرہ جان بن جاتا ہے اور مزید کرب کی بات یہ ہے کہ اسے
اس کا احساس بھی نہیں ہوتا۔
ڈاکٹر صابر حسین جہاں ماہر صحت ہیں وہاں ملک میں طبی نظام کی بہتری کے لئے
درد دل بھی رکھتے ہیں ۔انہیں شکوہ ہے کہ اگر حکومت پہلے سے ملک میں طبی
نظام پر توجہ دیتے ہوئے (BHU بیسک ہلتھ یونٹ ) کو مننظم طریقے سے کر لیتی
تو آج کورونا وائرس سے مقابلہ کرنا بہت آسان ہو جاتا۔کیوں کہ یونین میں
20،25ہزار افراد مقیم ہوتے ہیں ۔انہیں آسانی سے لاک ڈاؤن اورکوارنٹین کیا
جا سکتا ہے،تمام BHUکو حکومت کی طرف سے کورونا وائرس ٹیسٹ کے لئے سامان
پہنچایا جاتا اور اس کی روک تھام کے لئے کام شروع ہو سکتا تھا ،مگر کیوں کہ
ہمارے ملک میں یہ نظام جو ہر کسی وبا،فلاحی پروگرام یا احتیاطی تدابیر کے
لئے ضروری ہے کسی قسم کی توجہ نہیں دی جاتی ۔ہاں غیر ممالک سے فنڈ اکھٹے
کرنے ہوں تو زچہ بچہ کے سنٹر کی بھر مار ہے،لیکن اس سے بھی خاطر خواہ فائدہ
اس لئے نہیں ہو رہا کہ دکھاوے کے لئے زیادہ اورحقیقی حکمت عملی کے تحت کم
کام ہو رہا ہے۔
کورونا وائرس کے لئے ہمیں فرداً فرداً اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔احتیاطی
تدابیر پر سختی سے عمل کیا جائے ،ہاتھ بار بار صابن سے صاف کرنے کا اہتمام
کیا جائے۔ماس پہنا جائے اور کوشش کی جائے کہ مجمے میں جانے سے گریز کیا
جائے۔حزب اقتدار اور حزب اختلاف کو سیاست نہیں بلکہ عوام کی زندگیاں بچانے
کے لئے ہر ممکن سنجیدہ کاوش کرے۔یکجتی سے اس وبا سے مقابلہ کیا جا سکتا
ہے،صرف لاک ڈاؤن کی کال یا عوام کوتکلیف دینے والے حل سے بہتر ہے کہ تمام
تر زور کورونا وائرس کے ٹیسٹ کو آسان بنانے کے لئے لگائے۔تاکہ جلد ان
مریضوں تک پہنچا جا سکے جو اس مرض سے متاثر ہوئے ہیں اور آنکھ سے اوجھل ہیں
۔ڈاکٹرز کی پروٹیکشن کو یقینی بنایا جائے ۔یہی دفاع کی پہلی لائن ہے ۔
|