نئے صوبوں کے قیام کی بازگشت

ن لیگی رہنماﺅں کی کراچی میں سیاسی سرگرمیاں

پاکستان مسلم لیگ (ن) کے مرکزی رہنما اور پنجاب کے وزیر اعلیٰ شہباز شریف کے اس بیان ”صرف پنجاب میں نہیں، سندھ میں بھی نئے صوبے بننے چاہئیں۔ کراچی سمیت نئے صوبے بنائے جائیں تو ن لیگ کو کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔“ کے بعد پاکستان کی سیاست میں نئے صوبوں کی بازگشت سنائی دینے لگی ہے.... پیپلزپارٹی ، متحدہ قومی موومنٹ، اے این پی اور قوم پرست جماعتوں کے رہنماﺅں نے سندھ میں نئے صوبے کی تجویز پر سخت برہمی کا اظہار کیا ہے۔ وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ کا کہنا ہے کہ ”پنجاب میں کئی صوبے بن سکتے ہیں لیکن سندھ میں فی الحال اس کی کوئی گنجائش نہیں۔ شہباز شریف اپنے صوبے کی فکر کریں۔“ سندھ کے صوبائی وزراءشرجیل میمن، ایاز سومرو اور دیگر نے بیان کو نفرت انگیز قرار دیتے ہوئے وزیراعلیٰ پنجاب سے سندھ کے عوام سے معافی مانگنے کا مطالبہ کیا ہے۔ خادم اعلیٰ کے بیان پر کراچی میں رد عمل نے جارحانہ اور پر تشدد رنگ بھی اختیار کرلیا۔ کارساز روڈ پر واقع (ن) لیگ کے دفتر پر نامعلوم افراد نے حملہ کیا۔ توڑ پھوڑ اور ملازمین پر تشدد بھی کیا۔ جبکہ بوٹ بیسن پر واقع نواز لیگ کے مقامی رہنما کے ہوٹل پر بھی حملہ کیا گیا۔ بلاشبہ سیاسی احتجاج کے اس طریق کار کی کوئی بھی محب وطن شہری حمایت نہیں کرسکتا اور یہ قابل مذمت بھی ہے اور قابل ملامت بھی۔ لیکن کیا کیجئے کہ اس ملک میں احتجاج ریکارڈ کرانے کی یہی روایت بن گئی ہے۔

اگرچہ شہباز شریف نے بعد میں سختی سے تردید کرتے ہوئے کہا کہ ”بیان کی غلط تشریح کی گئی، کراچی کو صوبہ بنانے کی کبھی بات نہیں کی۔ میں نے سوالیہ انداز میں کہا تھا کہ کیا کراچی کو صوبہ بننا چاہیے؟“ تاہم اپنے تردیدی بیان میں بھی وہ اس حقیقت سے انکار نہیں کرسکے کہ انہوں نے کراچی کو علیحدہ صوبہ بنانے کے امکان کی جانب اشارہ کیا تھا۔

ملک کو درپیش مسائل پہلے ہی کیا کم تھے کہ نئے صوبوں کا شوشہ چھوڑ دیا گیا۔ پاکستان اس وقت جن سنگین خطرات میں گھرا ہوا ہے ان کے پیش نظر اس قسم کے حساس مسائل چھیڑنے کے لیے یہ وقت قطعی مناسب نہیں، اس سے قوم میں مزید انتشار پیدا ہوگا اور اس وقت ذرا سی غفلت کسی بڑے طوفان کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتی ہے۔ حکومت امن و امان، مہنگائی، بے روزگاری، صحت، تعلیم، بجلی، پانی اور دیگر مسائل حل کرنے میں ناکام ہوگئی ہے۔ عوام کے مسائل کم ہونے کی بجائے پہلے سے کئی گنا بڑھ گئے ہیں۔ ایسے میں مشکلات کی دلدل میں دھنسے ہوئے پاکستانیوں کو مزید کسی زیادتی، مجبوری اور آزمائش سے دو چار ہونا پڑا تو حالات مزید خطرناک رخ اختیار کرجائیں گے۔ ان حالات میں رہنمایان قوم پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ قوم کو مزید تقسیم ہونے سے بچائیں اور اصلاح احوال کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔

صوبوں کے قیام کے حوالے سے پاکستان مسلم لیگ (ق) کے مرکزی رہنما چودھری پرویز الٰہی کا کہنا ہے کہ پنجاب تقسیم ہونا چاہیے، سندھ نہیں جبکہ (ق) لیگ کے پیپلزپارٹی کے ساتھ اتحاد کے ایجنڈے میں ہزارہ اور سرائیکی کو الگ صوبہ بنانے کا مطالبہ بھی شامل ہے۔ وزیراعظم نے بھی کہہ دیا ہے کہ سرائیکی صوبہ کا قیام پی پی کے منشور کا حصہ ہے۔ اگر انتظامی یونٹوں سے ہٹ کر ہزارہ اور سرائیکی صوبے لسانیت کی بنیاد پر بنائے گئے تو پھر یہ معاملہ خیبر پختونخوا یا پنجاب تک محدود نہیں رہے گا۔ سندھ اور بلوچستان بھی پھر اس کی زد میں آئیں گے کیونکہ ان دو صوبوں میں بھی مختلف قومیتوں سے تعلق رکھنے والے افراد آباد ہیں۔ پھر وہ بھی زبان کی بنیاد پر الگ صوبے کا مطالبہ کریں گے تب سندھ کی تقسیم کے مخالف زعما اس صورت حال سے کیسے نمٹیں گے؟

پنجاب ملک کا سب سے زیادہ آبادی والا صوبہ ہے جبکہ اس سے قبل مشرقی پاکستان سب سے بڑا صوبہ تھا۔ پنجاب کی آبادی باقی 3 صوبوں کی مجموعی آبادی سے زیادہ ہے۔ دوسری طرف سندھ ملک کا انتہائی حساس صوبہ ہے۔ اس کے قیام کو پاکستان کی اساس بھی قرار دیا جاتا ہے۔ جبکہ کراچی پاکستان کا معاشی حب ہے جسے منی پاکستان بھی کہا جاتا ہے۔ یہ پاکستان کا سابق دارالحکومت بھی رہا ہے۔ کراچی کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس کی معیشت کا پہیہ جام ہونے سے ملکی معیشت پر انتہائی منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ کچھ عرصے سے اس شہر میں بدامنی اور لاقانونیت نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔ اس بدنصیب شہر اور اس کے باسیوں کو پر امن فضا کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے تمام سیاسی جماعتوں کے رہنماﺅں کو خود میں صبر اور برداشت کا مادہ پیدا کرنا ہوگا اور بھائی چارے کی فضا کو فروغ دینے سے ہی خفیہ قوت کی سازشوں کو ناکام بنایا جاسکتا ہے۔ چنانچہ ان دگرگوں حالات میں لسانیت کی بنیاد پر صوبوں کی تقسیم کے بارے میں لب کشائی کی ضرورت نہیں۔ اور یہ قضیہ درحقیقت اصل مسائل سے عوام کی توجہ ہٹانے کی کوشش ہے۔ ایم کیو ایم جب مہاجر قومی موومنٹ تھی تب اس نے کراچی کو الگ صوبہ بنانے کے لیے تحریک بھی شروع کررکھی تھی۔ اب اگر وہ کراچی کو الگ صوبہ بنانے کی مخالفت کررہی ہے تو اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ گزرے برسوں ہی اس نے اندرون سندھ میں اپنا امیج کچھ بنایا ہے لہٰذا وہ سندھی قوم پرستوں کو ناراض کر کے اپنا ووٹ بینک متاثر نہیں کرنا چاہتی۔

پل پل بدلتی سیاسی صورت حال اور پی پی کے ق لیگ سے اتحاد کی کوششوں کے بعد مسلم لیگ (ن) نے بھی سندھ میں فعال ہونے کے لیے سیاسی سرگرمیاں شروع کردی ہیں اس سلسلے میں حمزہ شہباز نے مسلم لیگ (ق) سندھ کے ارکان اسمبلی کو کھانے کی دعوت دے ڈالی، جبکہ نواز لیگ کے سینئر رہنما ذوالفقار کھوسہ نے بھی کراچی میں ممتاز بھٹو، جلال محمود شاہ سمیت مختلف قوم پرست رہنماﺅں سے ملاقات کی۔ سابق گورنر پنجاب کا ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو میں کہنا تھا کہ (ن) لیگ لسانی بنیادوں پر صوبوں کی تقسیم کے خلاف ہے۔ اگر انتظامی بہتری کے لیے صوبے بنائے جائیں تو حرج نہیں۔ (ن) لیگی رہنما نے لسانی بنیادوں پر صوبوں کے قیام کے خلاف بیان دے کر سندھی قوم پرستوں کی حمایت کے حصول اور انہیں خوش کرنے کی کوشش کی ہے جبکہ اپنے ووٹروں اور حمایتوں کو مطمئن کرنے کے لیے انہوں نے انتظامی بہتری کے لیے صوبوں کے قیام کی حمایت کا عندیہ دے دیا۔ ذوالفقار کھوسہ نے کراچی میں مسلم لیگ (ن) کے دفتر پر حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اس کا جواب سیاست کے میدان میں دیں گے۔ اب وہ کس طرح کے جوابی پلان کے بارے میں اشارہ دے رہے ہیں اس کا فیصلہ آنے والے وقت پر چھوڑتے ہیں۔
Usman Hassan Zai
About the Author: Usman Hassan Zai Read More Articles by Usman Hassan Zai: 111 Articles with 86487 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.