کوروناکادیکھتے دیکھتے دنیا بھر میں پھیلنا ایک
بڑاسوالیہ نشان جبکہ مقتدرقوتوں کوسرجوڑنے اورشانہ بشانہ کرداراداکرنے کی
سنجیدہ دعوت ہے ۔مہذب برطانوی معاشرہ کروناکے مدمقابل سینہ سپر ہے اوراس
وباکوسرنڈرکرنے پرمجبورکردے گا۔کوروناسے ڈروناں ،تاہم راقم سمیت سبھی کو
احتیاطی تدابیر کی پاسداری یقینی بناناہوگی۔برطانیہ میں بھی کرونا تقریبا ً
ایک ہزارانسانوں کے خون سے پیاس بجھانے کے باوجود ابھی تک پیاسا ہے ۔ویسے
تو کورونا دنیا بھر سے 21ہزار سے زائد جانیں لے چکا ہے،لیکن ابھی تک اس کی
پیاسی روح اپنے شکنجے پھیلائے ہوئے باقی ہے۔بلا لحاظ مذہب و ملت کورونا کا
خوف طاری ہے،جو خوف خدا سے عاری تھے وہ بھی دہل گئے ہیں،لیکن کورونا نے ایک
کام یہ بھی کیا ہے کہ انسانوں پر حملہ آور ہو کر ان کے ضمیر کو جھنجھوڑ کر
رکھ دیا ہے۔جو بے جا اختلافات،تنازعات کی وجہ سے بے یقینی کا شکار تھے،عدم
تحفظ اور اندیشوں کے سائے میں زندگیاں گزاری جا رہی تھی،ہر سو نفسانفسی کا
عالم اور انسانیت اقدار کی پامالی نے انسان کو اکیلا کر کے رکھ دیا
تھا۔کورونا نے تمام اختلافات،خدشات کو پسِ پشت ڈال کر بقائے انسانیت کی
خاطر ایک صف میں لا کھڑا کیا ہے۔
یہ سیاست نہیں انسانیت کی انتھک خدمت کاوقت ہے۔ پی ایس پی کے مرکزی چیئرمین
سیّد مصطفی کمال کی تقلیدکرتے ہوئے حکومت اورمتحدہ اپوزیشن والے بلیم گیم
کے نام پرقیمتی وقت بربادکرنے کی بجائے اپنی توانائیاں پاکستانیوں کومہلک
کروناوبا سے بچا نے اور اس کامستقل سدباب کرنے کیلئے صرف کریں۔اس وقت
حکمران پارٹی سمیت کوئی جماعت تنہا اس آفت کامقابلہ نہیں کرسکتی ،اس
پرقابوپانے کیلئے ایک دوسرے کوبرداشت کرنے اورایک دوسرے کاساتھ دینے کی
ضرورت ہے ۔شہریوں کو ڈرکی کیفیت سے باہرنکلناہوگا،کروناقابل شکست ہے۔مناسب
اختیاطی تدابیر سے کروناکابھوت بوتل میں بند اور سمندربردکیاجاسکتا ہے۔
حکمرانوں سمیت سیاستدان پی ایس پی کے مرکزی چیئرمین سیّد مصطفی کمال کے نقش
قدم پرچلیں اور عوام کامورال بلندکریں ۔جس طرح ہمسایہ ملک چین نے
کروناکوشکست فاش دی اس طرح پاکستان بھی اس وباکونابودکردے گا۔پاکستان کے
لوگ بہت پرجوش ،پرعزم اورپرامید ہیں ،کرونا وبا پاکستانیوں کومرعوب نہیں
کرسکتی تاہم عوام کروناسے بچاؤکیلئے بتائی جانیوالی اختیاطی تدابیر
پرضرورکاربند رہیں۔انہوں نے کہا کہ پاکستانیوں کوسیاسی قیادت کے شانہ بشانہ
کرونا کیخلاف جاری مزاحمت کوکامیاب بناناہوگا۔سیاسی قیادت نے اپنے ہم وطنوں
کی خدمت اورحفاظت کابیڑااٹھایا ہے ،سیّد مصطفی کمال اورانیس احمدقائم خانی
اس نازک وقت میں اپنے ہم وطنوں کوتنہا نہیں چھوڑیں گے۔
پاکستان کے اندرہمارے ہم وطنوں کا رویہ دنیا سے مختلف ہے ،ہم ان حالات میں
کیا کر رہے ہیں؟حکومت پر تنقید کہ عمران خان کے دوست زلفی بخاری کے حکم پر
ایران زائرین کا ملک میں واپس آنا اور ان کو قرنطینہ سنٹر میں مقرر وقت تک
نہ رکھنا ،کورونا وائرس کے پھیلاؤ کا سبب بنا ہے،اگر کچھ دیرکیلئے یہ بات
مان لی جائے توپھرامریکا اوربرطانیہ میں یہ مہلک وباکہاں سے آئی ہے۔اس میں
کوئی شک نہیں کہ اس معاملے کی انکوائری ہونی چاہیے اور جو بھی قصور وار ہے
اسے سخت سزا بھی ملنی چاہیے،کیوں کہ جس طرح چائینا کا باڈر کو سیل کیا گیا
تھا اگر ایران کا باڈر سفتان بھی سختی سے بند کرنے کا فیصلہ کر لیا جاتا تو
حالات مختلف ہو سکتے تھے۔لیکن یہاں عمران خان کا قصور نہیں ہے۔اب وزیراعظم
ہر معاملے پر غور فکر اور مشیران سے گفت و شنید کرتے ہیں،اس میں کافی وقت
صرف ہو جاتا ہے،پھر انہوں نے ’’کہیں سے‘‘فیصلے پر مہر ثبت کروانا ہوتی
ہے(اس امرکو ان کی مجبوری سمجھ لیاجائے) اسلئے انہیں وقت درکار ہوتا
ہے۔ہمیں ان کی حب الوطنی ،دیانتدار اور خلوص پر شک نہیں کرنا چاہیے،لیکن
حقیقت یہ بھی ہے کہ لوگوں کے جان و مال کے تحفظ کی ذمہ داری آئین و قانون
کے مطابق وزیر اعظم اور ان کے رفقاء پر آتی ہے۔
اس صورتحال میں پاک سرزمین پارٹی کے مرکزی چیئرمین سیّد مصطفی کمال ،مرکزی
صدرانیس احمدقائم خانی سمیت متحدہ اپوزیشن کی قیادت نے نہایت مثبت سوچ کا
مظاہرہ کرتے ہوئے، حکومت سے تمام تر اختلافات اور تحفظات پس پشت ڈال کر
کورونا وائرس کی وبا کے مقابلے پر ایک صف میں کھڑے ہونے کا اصولی فیصلہ کیا
جو خوش آئند ہے،لیکن پھر بھی عمران خان فیصلہ سازی میں اتنے کمزور ہیں کہ
ابھی تک کرفیو اور لاک ڈاؤن کی تشریح وضع نہیں کر سکے۔حالاں کہ حکومت سندھ
نے کورونا وائرس کا مقابلہ کرنے کے لئے اپنے فیصلوں اور عملی اقدامات سے
صورت حال واضع کر دی ہے اور بہت دبنگ اوردرست فیصلے کیے ہیں۔جس کی وجہ سے
سندھ حکومت نے کورونا جیسی وبا کا با خوبی مقابلہ کیا ہے،مگروزیر اعظم کی
اس بات پر تحسین دینا چاہیے کہ انہوں نے گمبھیر صورت حال سے نبردآزماہونے
کیلئے غلط فیصلے کرنے یا عجلت سے کام لینے کی بجائے محتاط رویہ اختیار کر
رکھا ہے۔ہر سمت سے عمران خان پر دباؤ ہے کہ کرفیو لگانے کے احکامات
صادرکریں مگر عمران خان کا مؤقف ہے کہ اگر لوگوں کو زبردستی گھروں میں بند
کر دیاتو غربت کی لکیر سے نیچے رہنے والے لوگ جن کی ہمارے ملک میں ایککثیر
تعداد ہے،وہ کورونا وائرس سے شاید بچ جائیں مگروہ فاقوں سے مر جائیں گے۔اب
وزیر اعظم نے صاف صاف کہہ دیا کہ ہمارے پاس وسائل نہیں ہیں کہ ان غریبوں کو
زندہ رہنے کے لئے خوراک مہیا کر سکیں ۔یہ ایک تلخ حقیقت ہے۔انہیں کورونا
وائرس سے خطرہ نہیں بلکہ خوف میں آ کر غلط فیصلے کرنے کا خطرہ ہے۔
یہ درست ہے کہ پاکستان پر اﷲ کا ہمیشہ بڑا فضل رہا ہے،ابھی بھی دوسرے تمام
ممالک سے پاکستان میں کورونا وائرس سے جاں بحق ہونے والوں کی تعداد کم ترین
ہے۔ورنہ اٹلی اور پاکستان تقریباً پہلا کیس اوپر نیچے رہا ہے ،لیکن اٹلی
میں چھ ہزار سے زائد افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں اور ہمارے چھے سات اموات کی
خبر ہے،لیکن اس بات کا خاص خیال رکھنے کی ضرورت ہے کہ خزاں رسیدہ ہوائیں
ہمارے ہاں بھی آ پہنچی ہیں ۔چیخوں کی آوازیں آ رہی ہیں ۔آزمائش کے سیاہ
بادل چھا گئے ہیں،مگر وزیر اعظم کا یہ رویہ سمجھ سے بالا تر ہے کہ
پارلیمانی لیڈرز کا اجلاس ہوتا ہے اور وزیر اعظم اٹھ کر چلے جاتے ہیں۔کس
بات کا تکبر اور سریا ہے جو خم نہیں ہونے دیتا۔بچے بچے کو صورت حال کی
سنگینی کا علم ہے ۔دنیا کے بڑے دشمن آپس میں سر جوڑ کر بیٹھ گئے ہیں۔کیا نا
گہانی آفات کا مقابلہ اس انداز میں کیا جا سکتا ہے۔حیرت ہے کہ کون انہیں
ایسا کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔یہ رویے غلط ہیں،جس کا خمیازہ پوری قوم کو
بھگتنا پڑ سکتا ہے۔
عمران خان تحریک انصاف کے چیئرمین اور اسی پارٹی کے وزیر اعظم بن کر سامنے
نہ آئیں بلکہ وہ پوری قوم کے وزیر اعظم بنیں ۔اپنی بے روح ،بے جان اور
کھوکھلی باتوں پر وقت ضائع نہ کریں،وہ وائرس کے خلاف جنگ کو لیڈ کر رہے ہیں
۔یہ عوام میں خوف کی آگ نہیں بلکہ حوصلے اور امید دینے کا وقت ہے۔ہمیں بھی
من حیث القوم کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔لاک ڈاؤن کا مقصد اسی وقت پورا
ہوسکتا ہے جب عوام اس صورت حال کی سنگینی کو سمجھتے ہوئے حکومت اور اداروں
کے اہلکاروں کے ساتھ پورا تعاون کرے ۔یہ حفاظتی اقدامات عوام کی زندگیوں کے
لئے ہی تو ہیں؛سب سے پہلے خراج تحسین کے مستحق وہ ڈاکٹرز،پیرا میڈیکل سٹاف
ہیں جواپنی جانوں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے صف اوّل پر کام کر رہے ہیں۔پھر
قانون نافذ کرنے والے ادارے لائق تحسین ہیں ۔جو دن رات کام کر رہے ہیں ۔اس
لئے ہر فرد پر فرض ہے کہ وہ اپنی ،فیملی اور دوسروں کی زندگیوں سے کھیلنے
کا سبب نہ بنے۔ہر ممکن کوشش کی جائے کہ گھروں میں رہا جائے۔ہاتھوں اور ارد
گرد کے ماحول کی صفائی انتہائی ضروری ہے۔اپنے لباس،بستراور استعمال کی تمام
اشیاء کو صاف رکھنے کا اہتمام کریں۔خاص طور پر اﷲ بزرگ وبرتر سے کثرتِ
استغفارکریں۔ہمیں اپنی غلطیوں پر نادم ہوکر اپنی اصلاح کرنے کا موقع مل رہا
ہے،جسے فراموش نہ کریں۔ صرف اﷲ سبحان تعالیٰ کی ذاتِ واحد ہمیں اس وبا کے
چنگل سے نجات دے سکتی ہے۔
|