پرے ہٹو اے دشمنو!

سوشل میڈیا نے ہمیں ایک دوسرے کے قریب کر دیا ہے لیکن اپنے عزیزوں رشتے داروں سے ہم تو پہلے ہی دور تھے اب کہا جا رہا ہے اور دور ہو جائیں پاکستان میں کرونا آیا تو ایک لڑائی بھی ساتھ میں چلی آئی تفتان بارڈر سے پاکستان آنے والے کیا آئے ساتھ میں ایک بحث سی چھڑ گئی کسی وقت ایسا لگا کہ اس وائرس کی بھی کوئی مذہب ہے بلکہ ایسا محسوس ہوا کہ وائرس شیعہ ہے وائرس سنی ہے۔زلفی بخاری علی زیدی اور اعظم خان کا نام لیا جانے لگا کہ انہوں نے ان لوگوں کو ڈھیل دی ہے ایک پیارے دوست نے تو ہلا کے رکھ دیا کہ یہ وہ لوگ تھے جو پاسداران انقلاب کی مدد سے شام اور عراق میں سنی مسلمانوں کو قتل کرنے گئے تھے اور واپسی پر انہیں کھلی چھوٹ دی گئی سکھر سے انہیں چھڑوایا گیا اور جب ان کے شناختی کارڈ چیک ہوئے تو تو ان کے پتے جعلی نکلے دوسرے لوگوں نے تبلیغی جماعت کو نشانے پر لے لیا اس وقت محسوس ہوا کہ کرونا سنی ہے بلکی دیو بندی ہے۔ویسے یار لوگ جو مسجد میں جمعے کے جمعے جایا کرتے تھے ان لوگوں نے بھی پوسٹیں لگانا شروع کر دیں کہ مسجد نہ جائیے ایک مولوی صاحب نے کہا کہ حضور جو لوگ اس قسم کی تلقین کر رہے ہیں انہیں مسجد میں کبھی دیکھا نہیں بلکہ ان میں اکثر وہ ہوتے ہیں جو صرف جمعے کو آتے ہیں پہلی رکعت میں شامل ہوتے ہیں اور جیسے ہی جمعے کی نماز ختم ہوتی ہے دوران دعا نمازیوں کو پھلانگتے گھر کی راہ ناپتے ہیں۔قارئین بس ایسا ہی ہے سوشل میڈیا پر جتنے منہ اتنی باتیں اب سنا ہے عدالت نے زلفی بخاری کو طلب کیا ہے عدلیہ جانے اور وہ لیکن ہمیں یہ علم ہے کہ زلفی بخاری ایسا شخص نہیں ہے جو اس قسم کے مکروہ کام میں شامل نہیں ہو سکتا۔بس ہوتا یوں ہے کہ عمران خان کو تنگ کرنے کے لئے ان کے جو دست و بازو ہیں ان کو کاٹنے کی کوشش جاری ہے۔ایک طرف زلفی بخاری نشانے پر ہے دوسری جانب مولانا طارق جمیل کو رگڑا جاتا ہے اب مجھے علم نہیں کہ لوگ چاہتے کیا ہیں قدیر گجر نے کمال کی بات کی ہے ان موضوعات کو چھوڑیں ان پاکستانیوں کی بات کریں جو ملک سے باہر ہیں ابھی شکیل دلدار کی امی کہہ رہی تھیں بیٹوں نے کہا خدارا اپنا خیال کریں اپنے کھانے پینے پر توجہ دیں ابو کو کہیں آرام کریں مجھے سچی بات ہے ایک ڈر سا لگ گیا ہے شکیل کا کہنا تھا کہ خیال رکھیں اگر ایسے میں کچھ ہو گیا تو ہم پاکستان آ بھی نہیں سکتے۔حقیقت یہ ہے کہ ہم جو ملک کے اندر ہیں ہمیں ان کا احساس نہیں ہے۔جب کبھی ریالوں پونڈوں اور ڈالروں کی ضرورت ہوتی ہے ہم بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو یاد کر لیتے ہیں سب حکومتیں سب لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان کے یہ لاکھوں لوگ بس دودھ دینے والی گائیں ہیں۔عمران خان گرچہ ان سے مختلف ہیں اور انہیں اوورسیز پاکستانیوں کے دکھوں کا احساس ہے جس کا مظاہرہ کر چکے ہیں لیکن مجھے کہنے دیجئے کہ ابھی بھی یہ لوگ لاوارث ہیں۔میں مڈل ایسٹ میں ربع صدی رہا ہوں الخفجی سے جیزان تک قریہ قریہ گھوما ہوں جو دکھ وہاں کے لوگوں کے ہیں اس کا احساس یہاں کے لوگوں کو بلکل نہیں ہے۔سعودی عرب کے قوانین بڑے سخت ہیں آج کل تو ان کی کمائی کا بڑا حصہ وہیں کے ٹیکسز کی صورت میں وہیں رہ جاتا ہے فیملیز رکھنا ایک عیاشی کے زمرے میں آتا ہے میرے ایک دوست ہیں سردار گجر صاحب ان کا کہنا ہے دنیا میں لوگوں کی کمائیوں پر ٹیکس ہوتا ہے یہاں ہمارے سروں کی گنتی پر ٹیکس لاگو ہیں۔ہر پیدا ہونے والے بچے کو ایک بڑے کمائی دار جوان کے برابر ٹیکس دینا ہوتا ہے۔اس ملک میں لاکھوں پاکستانی رہتے ہیں وہاں کے قوانین پر عمل کرتے ہیں لیکن سچ پوچھئے ڈرے سہمے دڑبوں میں بند یہ لوگ اپنے وطن آنا چاہتے ہیں لیکن ایک ڈر اور خوف ان کے سر منڈلاتا رہتا ہے شکیل دو ماہ پہلے پاکستان آ کر مزہ چکھ چکا ہے جس دن پہنچا اسی رات گھر میں ڈاکو آ گئے اور اسے شدید تشدد کا نشانہ بنایا گیا آج تیسرا مہینہ ہے لولی پاپ کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے ابھی تو کرونا آ گیا ہے خاک تفتیش ہو گی۔پاکستانی کا یہ سوال اب بھی زندہ ہے کہ کیا جب میں پاکستان آؤں گا میری جان محفوظ ہو گی؟اس کے لئے ہم نے پنجاب پولیس کو اختیارات دے رکھے ہیں پولیس آزاد ہے اس قدر آزاد کہ کہ بس آزاد ہی آزاد۔راولپنڈی پولیس کے متحرک سی پی او احسن یونس،ایس پی علی اے ایس پی بینش میں کتنا آپ کی ستائیش کروں۔آپ کی نگری میں ترجمان حکومت پنجاب محفوظ نہیں آپ نے عام شہری کو کیا دینا ہے آپ کا ایس ایچ او ایک ڈاکے کے بعد دس ڈاکے دے گیا آپ اس کی پروٹیکشن کرتے ہیں۔آپ کرونا ایشو میں شہباز شریف کی طرح سیف گارڈ نہیں کہ کلورین سپرے پر نکلے ہوئے ہیں کہ آپ کسی کو خود پہنچ کر کیس کی تفصیلات نہیں دے سکتے۔ہر دس دن بعد ایک فون کرتا ہوں جس کے جواب میں ایک کتھا سنا دی جاتی ہے۔میرا کیس ایک چیلینج کی حیثیت سے نہیں لیا گیا عام آدمی کی جراء ت کیا ہے شہر یار آفریدی نے سو بار ایس ایچ او کو سراہا مگر ایسی کئی ستائشیں ان پر کوئی اثر نہیں کرتیں میں بھی مولوی ناصر کی طرح پریس کانفرنس کروں؟میں بھی ایک دوسرے فیز میں ہوں صرف میرا کیس نہیں ہر اوورسیز پاکستانی کے پیچھے ڈاکو لگ جاتے ہیں اور پھر رات کو اس کے گھر پہنچ جاتے ہیں اور سب کچھ لوٹ لے جاتے ہیں میرے کیس کو صرف انجینئر افتخار کا کیس نہ لیں یہ کیس اوورسیز پاکستانی کا ہے جو رات دن ایک کر کے ماں باپ سے دور رہ کر اپنوں کے جنازے چھوڑ کر محنت مزدوری کرتا ہے اور جب پاکستان پہنچتاہے تو ڈاکو اور پولیس اپنا حصہ لینے پہنچ جاتے ہیں۔اگلے روز ملک محی الدین کا بھائی ملک سلیم حیات فوت ہو گیا وہ جدہ سے نہیں آ سکا اس کا جنازہ اس کا بھائی نہیں پڑھ سکا اس کے بیٹے باپ کا منہ نہیں دیکھ سکے

ریال چالیس کا ایسے نہیں ہے اس کے لئے بھائیوں کے مرے ہوئے منہ نہیں دیکھے جاتے ماں کو قبر میں اتارنے بیٹے نہیں پہنچتے یہ سالا ریال بہت مہنگا ہے ہمارے بہت سے پاکستانی اس قرب میں مبتلا ہیں اور رات دن دعا گو ہیں کہ اللہ اس پابندی کے دوران گھر میں کوئی موت نہ ہو جائے۔مجھے کہنے دیجئے کہ جناب وزیر اعظم اب آپ کا لاڈلا پاکستانی آپ سے اس طرح کی محبت نہیں کرتا۔ہم نے انہیں دیا کیا ہے ایک موبائل پر ٹیکس بھی معاف نہیں کیا جب کہ ہم تاجروں کی لاڈیاں برداشت کر رہے ہیں انہیں ان کا ربیٹ اس وقت واپس کر رہے ہیں جب پاکستان کو پائی پائی کی ضرورت ہے۔

ہم اوورسیز پاکستانیوں کو کیا صرف لولی پاپ دیں گے ہم تو نواز شریف اور زرداری نہیں جو قرض اتارو کے پیسے کھا جائیں گے ہمیں انہیں ریلیف دینا ہو گا۔ان کے بچوں کی بہتر تعلیم کا بند و بست کرنا ہو گا ان کی جان کا تحفظ کون دے گا؟ مجھے سچ پوچھئے آج بہت کچھ کہنا ہے اس سوشل میڈیا کے توسط سے جو چیزیں میرے علم میں آ رہی ہیں وہ آپ کے گوش گزار کروں گا۔

ہم نے اداروں کو جو مادر پدر آزادی دے رکھی ہے اس کا عوام کو فائدے کی بجائے سخت نقصان ہو رہا ہے۔ایک مثال راولپنڈی کے ڈی سی کی دیتا ہوں ٹویٹر پر یہ لوگ بڑے طرم خان بنے ہوئے ہیں پچھلے سال سے رو رہا ہوں کہ محلوں کے اندر گاڑیاں دھونے کے اسٹیشن بنے ہیں ایک گلی میں پانچ ڈینگی کے مریض ہوئے ان کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔خدارا ان کارکنوں کو عزت دیجئے ج یا ہمیں ان اسمبلیوں کو تالے لگانا ہوں گے و تبدیلی کے لئے آئی آئی کا نعرہ لگاتے تھے آج ان کی سنتا کوئی نہیں کوئی پرائس کنٹرول کمیٹی نہیں ہے طاقت ہے تو تھانے دار کے پاس ڈی سی کے پاس کارکنوں کا کہنا ہے ایک تو ہم نے نکھٹو اور نکمے ایم این ایز ایم پی ایز اسمبلیوں میں بھیج رکھے ہیں اوپر سے تنظیموں میں ذاتی پسند اور ناپسند کو ترجیح دی ہے اکیلا سیف اللہ کیا کرے گا۔میں جب کالم لکھتا ہوں تو مجھے بار بار اپنے آپ کو چٹکی کاٹنی پڑتی ہے کہ تم خود پی ٹی آئی ہو لیکن کالم نویس کالم نگار ہوتا ہے اس نے معاشرے میں پھیلی نا انصافیوں کو سامنے لانا ہوتا ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ اب وہ لمبے چولوں والے نہیں ہیں لیکن میں سمجھتا ہوں وہ بھی چھپے اس لئے ہیں کہ عمران خان کا دباؤ جیسے ہی کم ہو ہم جبپٹیں گے۔
سب اچھا نہیں ہے اس لئے کہ سب اچھے طاقت میں نہیں ہیں طاقت ان کے پاس ہے جو اشرافیہ ایک مدت سے پاکستان کو لوٹ رہی ہے۔کاروباری مکار لوگ اب بھی اپنے حصے کا کیک لے جاتے ہیں بیوروکریسی ایک خواب دکھاتی ہے اور لٹیرے اپنا کام کئے جا رہے ہیں۔بارہ سو ارب کا پیکیج کہیں تھیلے میں ہی نہ لگ جائےکس نے ان زبان درازوں کو وزیر اعظم کے سامنے بٹھایا؟کون تھا وہ جو روء ف کلاسرہ،مالک،ارشاد بھٹی کو سبق پڑھا کر وہاں لے گیا اس کی بھی تحقیق کیجئے اس کا بھی معاملہ دیکھا جانا چاہئے۔

ہم نے اللہ کے فضل سے اس پارٹی کو جان دی خون دیا ہے قربانیاں دی ہیں ہم کیوں نہیں کہا جاتا کالم نگاروں کو لاؤ صحافیوں کو بلاؤ ہمیں علم ہے کہ کون نفیس ہے کس کے سیاسی مقاصد نہیں ہیں۔یہاں اسی کو وزیر اعظم کے سامنے بٹھایا گیا جو جتنی بڑی گالی عمران خان کو دینے کی جسارت کرتا ہے۔کیا وزیر اعظم کو ایجینسیوں نے نہیں بتایا کہ بد زبان اینکرز کس سے ملے کس نے پیڈ کنٹینٹ کا سودا کرایا؟وزیر اعظم کے تحت کام کرنے والی دنیا کی مایہ ناز ایجینسی کیا کرتی رہی؟حضور یہ سب کچھ کب سمجھ آئے گی۔کوئی نہیں بتائے گا کہ وزیر اعظم ہاؤس کی راہداریوں میں کیا ہو رہا ہے۔ پیچھے مڑ کے دیکھتا ہوں تو ان میں کوئی ہمارے ساتھ نہ تھا منزل انہیں ملی جو شریک سفر نہ تھے

اب ایک اور بات بھی سن لیجئے ایک تھیوری یہ بھی ہے کہ شہباز شریف آئے نہیں انہیں لایا گیا ہے بس استعفی آیا کے آیا اسے کون شہہ دے رہا ہے۔ایک جانب وزیر اعظم وزیر اعلی بزدار کمال کا کام کر رہے ہیں ہم لوگ ان کاموں کی تشہیر میں جان لڑا رہے ہیں فیاض چوہان پوری توجہ سے کام میں لگے ہوئے ہیں ان کی میڈیا ٹیم کا جواب نہیں۔کرونا کو اللہ کے فضل سے شکست دی جائے گی لوگ اب بھی
اکیانوے فی صد سروے میں رائے دے رہے کہ عمران خان کا توڑ نہیں یہ سروے مریم اورنگ زیب کرا چکی ہیں۔اور دوسری جانب میرے قائد کی بغلیں مونڈھی جا رہی ہیں اس کی گود میں بیٹھ کے مسافر اس کی داڑھی نوچ رہے ہیں۔کارکنوں گھبرانا نہیں ہے عمران کل بھی ہمارا تھا آج بھی ہمارا ہے۔اس کے ارد گرد گھیرا اب ہمارا ہو گا ہم اسے داخلی اور خارجی لٹیروں سے چھڑوائیں گے پرے ہٹو اے دشمنو عمران خان ہمارا ہے

Engr Iftikhar Ahmed Chaudhry
About the Author: Engr Iftikhar Ahmed Chaudhry Read More Articles by Engr Iftikhar Ahmed Chaudhry: 418 Articles with 323881 views I am almost 60 years of old but enrgetic Pakistani who wish to see Pakistan on top Naya Pakistan is my dream for that i am struggling for years with I.. View More