’’آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پہ آسکتا نہیں ، محو حیرت ہوں
کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی‘‘ آج پوری دنیا کو نا معلوم وبائی مرض کرونا
وائرس نے اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے ۔ اس کا مرکز چین ہو یا یورپ مگر اب یہ
عالمگیر خطرہ بن چکا ہے اس کی روک تھام کے لیے ہر ملک حفاظتی اقدامات کر
رہا ہے مگر یہ ایسی خدائی پکڑ ہے جس کے ذمہ دار تو انسان ہی ہیں کیونکہ
انسانوں نے ایسے ایسے تجربات اس زمین پر کئے ہیں ، ایسے ہولناک طریقوں سے
انسانی زندگی کو ختم کرنے کی کوشش کی ہے اور دنیا میں جعلسازوں نے ایسے
طریقوں سے خوراک اور فضا کو آلودہ کیا ہے کہ آج ہم مکافات عمل کے نتیجے میں
یہ سب بھگت رہے ہیں ۔دنیا خدا سے دور جانا چاہتی ہے جبکہ دنیا کا ہر مذہب
کسی نہ کسی طریقے سے انسان کو خدا تک لے جاتاہے ۔وہ مذاہب جو آسمانی ہیں ان
کا رابطہ تو براہ راست اﷲ تعالیٰ سے ہے لیکن وہ جو انسانوں نے ایجاد کئے
ہیں وہ بھی بالآخر یہی کہتے ہیں کہ کوئی نہ کوئی ہے جو اس نظام ہستی کو چلا
رہا ہے اور وہ اس کا نام بدل کر کچھ بھی رکھتے ہیں مگر اشارہ آسمان کی طرف
ہی کرتے ہیں اس کے بعد اگر اختلاف آتا ہے تو اس کی خدائی میں شریک کار
بنانے میں آتا ہے کہ بعض لوگ اﷲ کا شریک بنا لیتے ہیں اور نہیں جانتے کہ اﷲ
تو بے نیاز ہے اسے کسی دوسرے ساتھی کی ضرورت نہیں اور وہ اس شرکت کو اتنا
سنگین جرم قرار دیتا ہے کہ شریک ٹھہرانے والے اور اس فعل قبیح سے باز نہ
آنے اور توبہ نہ کرنے والے کوکبھی معاف نہیں کیا جائے گا اورایسے عقائد
رکھنے والے لوگوں کو بڑے قہر سے ڈرایا گیا ہے ۔
جہاں تک وباؤں اور بیماریوں کا مسئلہ ہے انسانوں نے جس طریقے سے خدا کی
وحدانیت کو الجھایا ، حلال و حرام کے فرق کو مٹا یا ، قدرتی خوراک اور
فضاکو آلودہ کیا اور نئے سے نئے تجربات کئے اور مہلک ہتھیار ایجاد کئے تو
اس کے بعد یہ نتائج ہوئے ہیں کہ ایک خدائی امر کے تحت یہ وبا پھیلتی اور
بڑتی جا رہی ہے اور یہاں تک اس کے نتائج مہلک ثابت ہو گئے ہیں کہ ’’اب نہیں
کوئی بات خطرے کی ۔۔کہ اب سبھی کو سبھی سے خطرہ ہے ‘‘ کل تک صر ف امت مسلمہ
روح فرسا مظالم کا شکار تھی اور کوئی مسیحا بننے کو تیار نہیں تھا مگر اب
یہ حال ہے کہ تمام ممالک کے زمینی اور فضائی رابطے ایک دوسرے سے ٹوٹ چکے
ہیں۔ سب کو اپنی فکر لاحق ہے کہ تمام ائیر پورٹس بند ہو گئے ہیں حتہ کہ
تعلیمی ادارے بھی بند ہوگئے ہیں اور یہاں تک مسئلہ بن چکا ہے کہ عبادت
گاہیں بھی بند ہو رہی ہیں کہ بیت اﷲ میں عمرہ و حج پر بھی پابندی لگ چکی ہے
۔اس کے علاوہ تمام دینی و دنیوی اجتماعات اور جتنے اکٹھ ہونے تھے ان سب پر
بھی پابندی لگ چکی ہے اور یہ کہا جا رہا ہے کہ انسان انسان سے ’’بے ربطی‘‘
اختیار کریں تو اس موذی’’ وبا ‘‘سے بچ سکتے ہیں یعنی ’’عجیب مرض ہے جس کی
دوا ہے تنہائی ،بقائے شہر ہے اب شہر کے اجڑنے میں ‘‘ اس میں کوئی شک نہیں
کہ حدیث پاک تھی کہ اﷲ کے نبیؐ نے فرمایا تھا کہ اگر کسی علاقے میں وبا
پھیل جائے تو اس علاقے کے لوگوں کا فرض بنتا ہے کہ وہ علاقے سے باہر نہ
نکلیں اور وہاں سے نہ بھاگیں ۔اﷲ سے دعا واستغفارکریں اور ممکنہ علاج
اپنائیں ۔
انسان غافل تھا اور ہے کہ آج جبکہ حالات اس نہج پر پہنچ گئے ہیں کہ موت کی
دستک سے دل دہل رہے ہیں مگر آج بھی کچھ نادان لوگ خدا کی خدائی کو چیلنج کر
رہے ہیں جیسا کہ کچھ ممالک میں روحانی علاج معالجوں اور دم درود کے ذریعے
عوام الناس کو اس موذی مرض سے بچاؤ کے لیے گمراہ کیا جا رہا ہے اور کچھ میں
غیر انسانی سلوک کی اطلاعات ہیں یہ سب خدائی رحمت سے مایوسی ہے اور میں نے
دیکھا ہے کہ سوشل میڈیا پر کچھ لوگ ایسی چیزیں پوسٹ کر رہے ہیں جومسلمان کے
یقین کو متزلزل کرتی ہیں یہ انسانی حقوق اور انسانیت کی رٹ کے خلاف سارا
اقدام ہے کیونکہ اگر ہم تاریخ اقوام عالم کا صحیح مطالعہ کریں تو واضح ہوتا
ہے کہ دعائیں کرنے اوراﷲ کے حضور قربانیاں پیش کرنے سے یہ بلائیں اور
وبائیں ٹلی ہیں اور اﷲ نے بڑے بڑے امتحانوں سے سرخرو کیا ہے ۔دراصل مسئلہ
یہ ہے کہ اﷲ اپنی مخلوق کا دشمن نہیں ہے مگر اﷲ پاک یہ بھی چاہتے ہیں کہ جب
گمراہی حد سے بڑھ جائے ،اﷲ کا شریک بنانے والون کو خوف خدا ختم ہو جائے کہ
لوگ نبی کی سنت کو چھوڑ کر اپنے بنائے ہوئے طریقوں کے مطابق زندگی گزارنے
لگیں توپھر ایسے تنبیہ کی جائے کہ بھٹکے ہوئے راہ راست اپنائیں اس سے آپ
اتفاق کریں گے کہ کرونا ایسا وبائی مرض ہے جس کا علاج تاحال دریافت نہیں
ہوسکا مگر حفاظتی تدابیر میں اسلامی نظام حیات میں نجات بتائی جارہی ہے
یقینا ہر کام میں مصلحت پوشیدہ ہے جو ہم انسان نہیں سمجھ سکتے ۔ یہ خدائی
پکڑ نہیں تو کیا ہے کہ پوری دنیا کا نظام حیات رک گیا ہے یہی وجہ ہے کہ تیل
کی قیمتیں تاریخ کی کم ترین سطح پر آگئی ہیں، عالمی سٹاک مارکیٹیں بیٹھ گئی
ہیں اور پوری دنیا حفاظتی اقدامات میں اپنی توانائیاں صرف کر رہی ہے
بہرحال چین اس خطرناک وائرس پر قابو پا چکا ہے سوچنا یہ ہے کہ ہم کیا کر
رہے ہیں ؟ وزیراعظم پاکستان عمران خان نے قوم سے خطاب میں واضح کر دیا ہے
کہ یہ مرض پھیلے گا اور ہمارے پاس علاج اور دیگر طبی سہولیات بھی نہیں ہیں
تو ٓآپ گھروں میں رہیں ،احتیاط کریں اور گھبرانا نہیں تو آپ کیا کر یں گے
کیونکہ پاکستان میں کرونا سے دو اموات رپورٹ ہو گئی ہیں ایسے میں وزیروں
اور مشیروں کی فوج ظفر موج نظر کیوں نہیں آرہی ؟امداد فنڈ اور امدادی طبی
آلات پر چیک اینڈ بیلنس رکھنے کی ذمہ داری کسے سونپی گئی ہے؟ ہر جگہ کچرے
کے ڈھیر ہیں تو صفائی کے نظام کو بہتر بنانے کے لیے کیا کیاجارہا ہے ؟
ہسپتالوں میں طبی سہولیات کی فراہمی کے لیے کیا کیا گیا ہے ؟میں مانتی ہوں
کہ بحیثیت مسلمان ہمارا یقین ہے کہ زندگی اور موت اﷲ کی طرف سے ہے مزید
میرے ملک میں اتنے زیادہ حادثات اور صدمات ہیں کہ اخباروں کو نچوڑوں تو خون
نکلتا ہے مگر میرے مخاطب تمہارے کان نہیں بلکہ تمہارے دل ہیں کیونکہ غلطی
کی گنجائش نہیں ہے |