کئی ہفتوں سے مسلسل کرونا کے ذکر نے طبیعت پہ اکتاہٹ سی
طاری کردی ہے ، میرے پچھلے دوکالمز بھی اسی موضوع پر تھے ، یہ یکسانیت دور
کرنے کے لئے آج میں اپنے کالم میں ہندو سکھ اتحاد اور سکھوں کے مشہور لیڈر
ماسٹر تارا سنگھ کی مسلمانوں سے نفرت کے نتیجے میں سکھ قوم کو ہونے والے
نقصانات کا ذکر کروں گا ۔ سکھ کمیونٹی کے برے دور کی اصل کہانی تقسیم ہند
کے بعد شروع ہوئی لیکن ہم بات ذرا پہلے بھگت سنگھ سے شروع کرتے ہیں ۔
آزادئ ہند کے عظیم ہیرو بھگت سنگھ اور ان کے ساتھی بٹو کیشور ناتھ نے جب
اسمبلی میں عالمی ضمیر بیدار اور اپنا احتجاج ریکارڈ کرنے کے لئے بم پھینکے
تو قائداعظم محمد علی جناح بھی اسمبلی کے رکن ہونے کی وجہ سے وہاں موجود
تھے ، فطری طور پہ انہیں اس حملے کی مذمت کرنی چاہئے تھی ، لیکن بعد از
گرفتاری جب بھگت سنگھ اور ان کے ساتھیوں نے 116 دن کی تاریخی بھوک پڑتال کی
تو گاندھی جی نے کبھی ایک لفظ بھی بھگت سنگھ اور انکے ساتھیوں کی حمائت میں
نہیں کہا جبکہ قائداعظم اسی اسمبلی کے فلور پہ مسلسل دو دن تک بھگت سنگھ کا
دفاع کرتے رہے ۔
پورے ہندوستان کی اپیلوں کے باوجود گاندھی جی نے ایک بار بھی بھگت سنگھ اور
انکے ساتھیوں کو بچانے کی کوشش نہیں کی۔
تقیسم ہند کے وقت قتل عام کی اصل ذمہ دار مکار ہندو ذہنیت اور ان کا پروردہ
ماسٹر تارا سنگھ تھا جس نے بڑی چالاکی سے ہندووں کو پیچھے دھکیل کر
مسلمانوں کے قتل عام میں سکھوں کو صف اول میں لاکھڑا کیا، نتیجے میں لاکھوں
مسلمانوں کے ساتھ ہزاروں سکھ بھی اس نفرت کی بھینٹ چڑھ گئے ، سکھ لیڈروں کو
کبھی فرصت میں تقسیم کے وقت ہوئے قتل عام کے اعداد وشمار پہ نظر ضرور ڈالنی
چاہئے کہ ان دو قوموں کے مقابلے میں کتنے ہندو مارے گئے ؟ ۔
کانگریس کا اصل منصوبہ سکھ قوم کو بے وقوف بناکر اپنی حکمرانی کو دوام
بخشنا تھا ، سکھوں کو ہمیشہ حب الوطنی کا چورن کھلا کر استعمال کیا گیا ذرا
ایک نظر ہندوستان کی پاکستان اور چائنہ کے ساتھ ہوئی جنگوں میں سکھوں کی
افرادی قوت کے نقصان پر بھی ڈالئے بات سمجھ میں آجائے گی ، بھارتی نیتا
سکھوں کو صرف فوجی عہدوں تک محدود رکھنا چاہتے تھے تاکہ مرنے مارنے کے کام
آسکیں یا پھر انہیں گیانی زیل سنگھ اور منموہن سنگھ جیسے کٹھ پتلی نیتا
چاہئے تھے جو ان کے اشاروں پر چلیں ۔
1980کے شروع میں جب پنجاب میں بیداری کی لہر اٹھ رہی تھی ، سکھ نوجوان جاگ
رہے تھے ہندو نیتاوں کو بڑی تکلیف ہورہی تھی، تو ایسے میں مارچ 1982ء کو
شیو سینا لیڈر بال ٹھاکرے نے ایک جلسے میں متعصب ہندو لیڈر اندرا گاندھی
کادفاع کرتے ہوئے مشہور سکھ لیڈر سنت جرنیل سنگھ بھنڈرانوالہ کو چیلنج کرتے
ہوئے کہا " اگر تم میں ہمت ہے تو ایک بار بمبئی آ کے دکھاو ، پھر پتہ چلے
گا کون اصلی یودھا( جنگجو) ہے"
بھنڈرانوالہ کے پاس جب اس چیلنج کی خبر پہنچی تو اس نے فورا" بمبئی کی طرف
رخت سفر باندھا، بمبئے پہنچتے پہنچتے یہ قافلہ کئی سو گاڑیوں پر مشتمل
ہوگیا ، بھنڈرانوالہ سیدھے " دارد گردوارے " پہنچے اور اعلان کیا بال
ٹھاکرے میں تمہارے شہر میں آگیا ہوں اور کل اکیلا اس کی سڑکوں پر گھوموں گا
، روک سکتے ہوتو روک لو" ۔ اس کے بعد جرنیل سنگھ بھنڈرانوالہ کئی دن بمبئی
رہے لیکن بال ٹھاکرے کو سامنے آنے یا کوئی بیان دینے کی ہمت نہ ہوئی ۔
6جون 1984ء کو اسی حریت پسند آزاد خالصتان کے حامی سکھ لیڈر کی آڑ میں
سکھوں کی مقدس ترین عبادت گاہ ( گولڈن ٹیمپل )کو مسمار کردیا گیا اور پانچ
ہزار سے زائد بے گناہوں کو بھارتی فوج نے روند کر رکھ دیا، اسی دوران پورے
ملک سے چن چن کر تقریبا" سارے ہی خالصتان کے ہمدرد سکھوں کو تہہ تیغ کردیا
گیا ، اندرا گاندھی کے قتل کے بعد ایک اور بدترین وقت شروع ہوا جس میں ایک
بار پھر سکھوں کا لہو بے دریغ بہایا گیا ، کہا جاتا ہے صرف دہلی شہر میں
تین ہزار سکھوں کو جلایا اور مارا گیا ، سرعام سکھ عورتوں کی عصمتیں لوٹی
گئیں ۔اس کے برعکس پاکستان میں سکھ ناصرف خود محفوظ ہیں بلکہ آج تک
مسلمانوں کی طرف سے ان کی کسی عبادت گاہ کا کبھی بلب بھی نہیں توڑا گیا۔
پاکستان نے کرتارپور کی شکل میں دنیا بھر کے سکھوں کو ایسا تحفہ دیا جس کا
کوئی نعم البدل ہوہی نہیں سکتا ، تاریخ ماسٹر تارا سنگھ کی قوم سے ایک سوال
ضرور پوچھے گی کہ" ہندووں کو ہندوستان ملا ، مسلمانوں کو پاکستان لیکن کیا
آپ کو کبھی خالصتان ملےگا ؟" جس غلامی میں ماسٹر تاراسگنھ نے انہیں دھکیلا
تھا کیا یہ قوم کبھی اس غلامی سے نکل پائے گی ؟۔
|