4 مئی کو ہندوستان کے اولین
مجاہد ِ آزادی حضرت سلطان فتح محمد ٹیپو شہید رحمتہ اﷲ علیہ کا یومِ شہادت
ہے
اورنگ زیبؒ کے دور حکومت میں ہندوستان کی مسلم حکومت اپنے بام ِ عروج پر
پہنچ چکی تھی۔ مگر جب کوئی چیز اپنی انتہاء کو پہنچتی ہے تو اسے زوال بھی
اتنی ہی تیزی سے لاحق ہوتا ہے ۔ اورنگ زیب ؒ نے فوجی، سیاسی ، داخلی غرض کہ
ریاست کے کل انتظامات اپنے ہاتھ میں لے رکھے تھے ۔ وہ تھے بھی بڑے اعلیٰ
درجے کے منتظم ،مگر اورنگ زیب اس مسلم ریاست کو ایک بھی مدبرو باصلاحیت
جانشین دینے میں ناکام رہے۔ جس کے نتیجے میں انکی وفات کے بعد ہی یہ مسلم
سلطنت زوال کے طرف اس قدر تیزی سے راغب ہوئی کہ جس کی مثال ہندوستان کی
تاریخ میں ملنا مشکل ہے۔ جسکا نتیجہ یہ ہوا کہ غلام قادر روہیلہ جیسا
معمولی جاگیردار بھی دلی کے شاہ کو قید کرلیتا ہے تو کبھی علی برادران جیسے
درباری امراء بھی دلی کے تخت کے فیصلے کرنے لگتے ہیں۔ مراہٹے جن کی سلطنت
کے بانی راجہ شیواجی اور انکے جانشین تقریباً 3 نسلیں گزار کر بھی اورنگ
زیب کے زمانے میں اپنی سلطنت مستحکم نہیں کر پائے اب وہ اس قدر طاقتور ہو
چکے تھے کہ شاہ عالم کو غلام قادر سے جان بچانے کے لیے نہ صرف مراہٹوں کی
مدد لینی پڑی بلکہ مراہٹوں نے دلی کی مستقبل میں تحفظ کی ضمانت دی جس کے
بدلے میں مراہٹوں کو دلی کے شہنشاہ سے بے پناہ تاوان سلطنت کے زرخیز علاقے
اور کئی قسم کے دیگر حقوق حاصل ہوگئے۔
جنوبی ہند میں بھی اورنگ زیب کی پالیسی (دکن کی مہم) کی وجہ سے کوئی مسلم
مملکت باقی نہ رہی۔ بیجاپور کی عادل شاہی، برار کی برید شاہی، احمدنگر کی
نظام شاہی اور حیدرآباد کی قطب شاہی ان سب کا خاتمہ اورنگ زیب کے ہاتھو ں
عمل میں آیا ۔ وہ تو بھلا ہو مدبر دکن قمرالدین چین خلیج خاں صف جاہ اول کا
جنھوں نے ختم ہوتی ہوئی مغلیہ سلطنت سے ریاستِ حیدرآباد کو بچا کر سارے
ہندوستان میں جنگِ آزادی کے بعد تک کے لیے ایک مسلم ریاست کی بقا کو ممکن
بنایا لیکن افسوس کہ یہ فراست و حکمت آصف جاہ اول کے بعد کسی بھی حکمراں کو
نصیب نہیں ہوئی جس کا خمیازہ انھیں جلد ہی بھگتنا پڑا۔
ایسے دور میں جنوبی ہند میں ایک نئی مسلم سلطنت نے جنم لیا۔ جس کے بانی ایک
معمولی سردار کے بیٹے تھے ۔ اس سلطنت کا نام ’سلطنت خداداد ‘ تھا اور اسکے
بانی تھے فرزند اسلام سپوت ملت سلطان حیدر علی( 1134تا1195 ہجری بمطابق
1722 تا1782 )۔ حیدر علی بچپن میں اپنے والد کے سائے سے محروم ہوگئے والدہ
نے بڑی تکالیف سہ کر انکی پرورش کی ۔ حیدر علی میسور کے راجہ واڈیار کی فوج
میں بحیثیت سپاہی شامل ہوئے ۔ اپنی ذہانت و حکمت سے ترقی کرتے ہوئے فوج کے
سپہ سالار بن گئے ۔ جس وقت میسور کے راجہ کی وفات ہوئی تب حیدر علی نے راجہ
کے بیٹے کو تخت پر بٹھا کر اپنی وفاداری و دیانت داری کا ثبوت دیا۔
ریاست حیدرآباد میں بصالت جنگ اور صلابت جنگ کے درمیان اقتدار کی جنگ شروع
ہوئی صلابت جنگ کو قید کردیا گیا۔ مراہٹے جو دکن میں تین مسلم سلطنتوں کے
خاتمے کے بعد کافی طاقتور ہوگئے تھے ریاستِ حیدرآباد میں جاری خانہ جنگی کی
صورتحال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ریاست دکن ( حیدرآباد) کے علاقوں پر دراندازی
کرنے لگے تھے۔ جب صلابت جنگ اقتدار پر قابض ہوگئے تب مراہٹوں کی سرکوبی کے
لیے نکلے۔ صلابت جنگ کو اس کام کے لیے حیدر علی کی مدد درکار ہوئی۔ حیدر
علی ایک موقع شناس فرد تھا اس نے نواب حیدرآباد کی مدد کی جس پر نواب
حیدرآباد نے مغل شہنشاہِ سے حیدر علی کے لیے جنوبی ہند کی نوابیت کے لیے
سفارش کی جس پر شہنشاہِ دلی نے انھیں’ سرا‘ کا نواب مقرر کیا۔
حیدر علی کو نوابیت ملنے پر مرحوم راجہ واڈیار کی بیوی اور دیگر درباری
تشویش میں مبتلاء ہوگئے ۔ انھیں ڈر تھا کہ کہیں حیدر علی اپنے بڑھتے اثرات
کی وجہ سے میسو ر جو کہ ایک ہندو ریاست تھی اُسے کہیں ایک مسلم ریاست میں
تبدیل نہ کردے ۔ حیدر علی کے خاص ہندو سردار جن میں کھنڈے راﺅ سرفہرست تھا
اور مراہٹوں سے ساز باز کر کے سری نگا پٹم (ریاستِ میسور) کی مہارانی نے
حیدر علی کے خلاف سازش کی ۔ حیدر علی اپنی جان بچا کر بھاگ نکلا۔ حیدر علی
کو جب تمام حالات سمجھ آئے تب اس نے خود کی فوج مرتب کی اور سری نگاپٹم پر
حملہ ٓاور ہوا۔ کھنڈے راﺅ کو قید کردیا گیا جس کی دورانِ قید ہی موت ہوگئی۔
سری نگا پٹم کو فتح کر کے حیدر علی نے” سلطنتِ خداداد “(1761 تا 1799)کی
بنیاد رکھی۔
سلطنتِ خداداد کا قیام حیدر علی نے میسور فتح کر کے کیا ۔ حیدر علی جب تک
میسور کے سپہ سالار رہے انھوں نے پوری دیانتداری کے ساتھ میسور کے ساتھ
وفاداری روا رکھی ۔ یہی وفاداری و ایمانداری سرا کی نوابی ملنے کے بعد بھی
برقرار رہی۔ جب میسور انکے خلاف سازشوں کا اڈا بن چکا تھا جہاں سے انھیں
اپنے اہل وعیال کو چھوڑ کر فرار ہونا پڑا تب انھوں نے میسور کو باقاعدہ جنگ
جیت کر حاصل کیا جیسا کہ اس زمانے میں رائج و عام تھا۔ اگر کوئی حکومت
کمزور یا حکمراں نااہل ہوتے تب اس ریاست پر کسی اور کا قبضہ ہوجاتا۔ لیکن
ہند کی تاریخ لکھنے والوں نے اپنی تعصبانہ زہرآلود ذہنیت کو منظر عام پر
لاتے ہوئے حیدر علی کو ایک غاصب سلطنت حکمراں ثابت کرنے کی کوشش کی ہے ۔
وہیں پورنیا جیسے مکار و غدار برہمن کو سلطنت ِ خداد کا وفادار وہنمک حلال
بتلایا ہے۔
حیدر علی نے اپنے حیات میں بہت سی جنگیں لڑی جن میں فتح کے ساتھ ساتھ شکست
کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ حیدر علی کا دربار جہاں غازی خان،محمد علی کمیدان
جیسے وفاداروں سے بھرا پڑا تھا وہیں پورنیا اور میر صادق جیسے غداروں نے
بھی اپنے قدم جما لیے تھے ۔ حیدر علی نے ان غداروں کی فہرست مرتب کی لیکن
اس سے پہلے کہ وہ کچھ کر پاتے انکی وفات ہوگئی ۔ تاریخ کے مطالعے سے پتہ
چلتا ہے کہ حیدر علی سرطان کے مرض میں مبتلا ہوگئے اور اسی میں اُنکی وفات
واقع ہوگئی۔ ان للہ و انا الیہ راجعون۔
حیدر علی کے بعد اس مسلم مملکت کو اس سپوت ملت نے سنبھالا جس پر تاریخ و
ملت کو ہمیشہ فخر رہے گا۔ وہ ہے حیدر علی کے فرزند سلطان شیہد فتح محمد
ٹیپو ؒ ۔ سلطان ٹیپو جنھیں تاریخ میں شیر میسور کے نام سے جانا جاتا ہے وہ
فرزند ملت ہے جس پر تمام ملت اسلامیہ کو فخر ہے ۔ سلطان ٹیپو کے متعلق
سلمان خطیب نے جو شعر کہا وہ بالکل صحیح ہے۔
سلطان شہید فتح محمد ٹیپو ؒ کی پیدائش 1195 ہجری بمطابق 20نومبر 1750
کوبمقام دیوان ہلی ہوئی۔ ٹیپو کی ولادت سے ایک حکایت منسوب ہے کہ ٹیپو
سلطان کے والدین کو جنوبی ہند ( میسور ) کے مشہور بزرگ حضرت ٹیپو مستان ؒ
سے بڑی عقیدت تھی ۔ جس کی وجہ سے ٹیپو کا نام بھی انہیں کی عقیدت کے بنا پر
فتح محمد ٹیپو رکھا گیا جو آگے چل کر سلطان فتح محمد ٹیپو ہوگیا۔ سلطان
ٹیپو کی پرورش و تربیت کا اندازہ ، انکے نظام حکو مت پر ایک نگاہ ڈالنے سے
ہی ہو جاتا ہے ۔ سلطان کی سیر ت، کردار واخلاق نہایت اعلیٰ تھے۔ سلطان کے
والدین نے انکی پرورش کیسے کی اس کا اندازہ اس واقعے سے بآسانی لگایا
جاسکتا ہے کہ ٹیپو جب کم عمر ہی تھے حیدر علی، ٹیپو کو اپنے ساتھ شکار پر
لے گئے ، واپس آنے پر انہوں نے ٹیپو سلطان کی والدہ کو بتایا کہ دورانِ
شکار ایک عجیب واقعہ پیش آیا ۔ اچانک ایک شیر کہیں سے آپہنچا، سارے لوگ جان
بچاکر بھاگنے لیکن ٹیپو نے اپنے حواس نہیں کھوئے ، شیر کے مقابلے کے لیے
فوراً تنہا کھڑے ہوگئے۔ جیسے ہی شیر نزدیک پہنچا ٹیپو نے اپنی تلوار سے شیر
کے دو ٹکڑے کر دیے۔ جب ٹیپو کی والدہ نے یہ بات سنی تو بنا کسی تعجب کے
جواب دیا کہ اس میں کونسی بات ہے مجھے اپنے بیٹے پر مکمل بھروسہ ہے۔ اسکی
پیدائش سے لے کر اسکے دور شیر خواری تک میں نے کبھی بنا وضو کیے دودھ نہیں
پلایا یہ ہمت و فراست ٹیپو کو ملنی ہی تھی۔
افسوس آج ہمارے معاشرے کی حالت بے حد بدترہو چکی ہے کہ گھروں میں TV کا چلن
عام ہے ۔ ماں جب بچے کو دودھ پلا رہی ہوتی تو وضو تو درکنا رTV پر کوئی فحش
سین، کسی سیریل میں بھجن یا قابلِ شرم مناظر چلتے ہیں۔ یا کم از کم کسی کی
چغلی و غیبت تو زبان سے ضرور جاری رہتی ہے۔ پھر ہم ملت کے سپوتوں سے نیکی
کی راہ پر چلنے ، دین دار متقی یا باکردار اور ملت کے ہمدرد سپوت بننے کی
توقع کیسے کر سکتے ہیں؟
سلطان ٹیپو کے لیے انکے والد حیدر علی نے تعلیم و تربیت کا پختہ انتظام کیا
تھا ۔ جہاں انہیں اسلامی تعلیمات ،فقہ دیگر علوم سکھائے گئے وہیں جنگی جو
ہر سکھانے میں بھی کوئی کسر باقی نہیں رکھی گئی۔ جسکا نتیجہ یہ نکلا کہ عمر
کے سولہ سال پورے کرتے کرتے سلطان ایک بہترین فوجی کمانڈر بن چکے تھے
چنانچے 16 برس کی عمر میں ہی ٹیپو نے ارکاٹ کی جنگ (میسور ۔کرناٹک جنگ 1761
) میں نہ صرف قیادت کی بلکہ فتحیاب بھی ہوئے۔ تاریخ کے مطالعے سے پتہ چلتا
ہے کہ ٹیپو نے اپنے جنگی جوہر اپنے والد کے ہمراہ انگریز مراٹھا پہلی جنگ (
1766-1769 ) میں بھی دکھلائے۔ اس جنگ میں نظام اور حیدر علی نے متحدہ طور
پر مراٹھوں کا ساتھ دیا وہیں ارکاٹ ( کرناٹک) کے نواب نے انگریزوں کا ساتھ
دیا۔
ٹیپو سلطان کی شادی 24 سال کی عمر میں ہوئی انکی شادی کی دلچسپ بات یہ ہے
کہ سلطان کے لیے ایک لڑکی کا انتخاب انکی والدہ نے کیا تھا او ر ایک لڑکی
حیدر علی نے پسند کی تھی فرماں بردار بیٹے نے آدابِ فرزندی ادا کرتے ہوئے
ایک ہی محفل میں دونوں شادیا ں کیں۔ 1782 میں جب حیدر علی کی وفات ہو ئی تب
شہزادہ فتح محمد ٹیپو نے جانشینی اختیار کی او ر ریاست کے کاروبار کی ذمہ
داری سنبھالی اور شہزادہ ٹیپو سے ٹیپو سلطان بنے۔
سلطان کی تمام عمر جنگوں اور ریاست کے فلاحی کاموں میں صرف ہوئی ۔ تمنا کے
باوجود حج نہیں کر سکے۔ ٹیپو نے انگریزوں کی بڑھتی طاقت اور انکے خطر ناک
عزائم کا اندازہ لگالیا تھا اور میسور کو اس قابل بنا دیا تھا کہ صرف اکیلے
میسور کی طاقت انگریزوں کو ملک سے باہر نکال سکتی تھی۔ لیکن اپنے دربار میں
موجود غداروں نے اور خصوصی طور پر مراہٹہ سرداران، نظامان دکن و ارکاٹ نے
سلطان کے خلاف نہ صرف مورچہ کھولے رکھا بلکہ انگریزوں سے ساز باز کر کے
سازشیں کرنے لگے۔ جس کے نتیجے میں انگریز -میسور 2جنگیں ہوچکی تھیں۔ جب
ٹیپو نظامانِ دکن و مراٹھا سرداران سے مایوس ہوگئے تب سلطان نے امیر
المومنیں خلیفہ ترکی کی خدمت میں بھی خطوط ارسال کیے مگر سلطان کو کیا خبر
تھی جن سے وہ انگریزوں کے خلاف مدد طلب کر رہے ہیں وہ خود ہی فرنگیوں کو گو
د میں لیے بیٹھے ہیں۔ جس وقت سلطان کا خط خلیفہ کے دربار پہنچا وہاں پر
برطانوی سفیر موجود تھا۔ خلیفہ نے وہ خط بلا جھجک سفیر کے سامنے رکھ دیا۔
سفیر کی رائے مطابق سلطان کو جھوٹا دلاسہ و یقین دلاکر سلطان کے ایلچی کو
سلطان کے لیے کچھ تحائف اور القاب کی اسناد دے کر روانہ کردیا۔
حیدر علی نے مرنے سے پہلے حکومت میں موجو د غداروں کی فہرست مرتب کی جن میں
سرِ فہرست غداروں کے سردار پورنیا برہمن اور میر صادق جیسے نمک حرام امراء
وسردار موجد تھے ۔ جو ٹیپو سلطان کے ہاتھ بھی لگی ۔ لیکن ٹیپو سلطان کی
رحمدلی کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے ان غداروں نے نہ صرف خود کو معاف کروالیا
بلکہ آئندہ سلطان سے وفاداری و نمک حلالی کے عہد لے کر اپنے عہدوں کو واپس
پا لیا۔ جس کا نتیجہ نکلا کہ جب انگریز میسور تیسری جنگ ہوئی تو اکیلے
سلطان کا مقابلہ پانچ طاقتوں سے ہوا۔ ایک طرف مراٹھے،نظام دکن اور نواب
ارکاٹ تھے تو دوسری طرف انگریز اور تیسرا محاذ سلطان کے دربار میں موجود
غداروں کا تھا جو سلطان کے تمام منصوبوں کی خبریں او ر بھاری رسد دشمن محاذ
کو پہنچا رہے تھے۔ آخر کا ر سلطان کو ریاست کا بڑا حصہ اور کثیر خراج اپنے
دشمنوں کو اداکرنا پڑا ۔ انگریزوں کے ساتھ ناجنگ معاہد ہ بھی ہوا ۔ لیکن ان
حالات سے نکلتے ہی سلطان ریاست کے فلاحی کاموں میں مشغول ہوگئے میسور
دوبارہ معاشی طور پر مستحکم ہوگیا۔ رعایا خوشحالی کی طرف مائل ہونے لگی۔
انگریز سلطان کو اپنی راہ کا کانٹا تو مانتے ہی تھے۔ ساتھ ہی نظامِ دکن ،
مراہٹے بھی میسور کی بڑھتی طاقت اور ترقی کو برداشت نہیں کرپائے ۔ غداروں
کی چالبازیاں بھی عروج پر تھی ۔
انگریز سلطان پر دباﺅ ڈال رہے تھے کہ وہ کسی طری تعیناتی فوج کا معاہدہ
قبول کرلے مگر سلطان نے انکار کردیا ۔ جس پر جنگ کے لیے انگریزوں کو جو
بہانہ چاہیے تھا وہ سلطان کے انکار سے مل گیا۔ انگریزوں نے سلطان کے سامنے
جنگ سے پہلے ایک تجویز رکھی کہ سلطان انگریزوں کی ماتحتی قبول کرلیں اور
انگریزوں کی طرف سے پیش کردہ تعیناتی فوج کی تجویز قبول کرلیں۔ جسکے بدلے
میں سلطان کا مقام برقرار رہے گا اور ریاست کے تمام اہم اختیارات انگریزوں
کے ہاتھ رہیں گے ۔ کچھ اختیارا ت برائے نام سلطان کے ہاتھ بحال رکھے جائیں
گے ۔ سلطان کی خوددار طبیعت نے اس خوش نما غلامی کو اپنے تاریخ ساز قول کے
ساتھ رد کردیا کہ،’ ’شیر کی زندگی کا ایک دن گیدڑ کی صد سالہ زندگی سے بہتر
ہے“۔ یہ جملہ سلطان کی ساری زندگی کی ترجمانی کر تا ہے۔
انگریزوں کی طرف سے پیش کردہ تعیناتی فوج کی تجویز کو سلطان نے مسترد کردیا
۔ سازشی غدار ، مراہٹے ، نظام دکن و نواب ارکاٹ تو موقع کی تلاش میں تھے
انگریزوں نے جیسے ہی اشارہ کیا سب نے ملکر سلطان پر یلغار کر دی ۔ انگریز
میسور چوتھی جنگ ہوئی جس کے نتیجے میں4مئی1799 کو سلطان بہادری و جوانمردی
سے لڑتے ہوئے شہید ہوگئے۔ ان للہ و انا الیہ راجعون ۔اللہ انکی مغفرت
فرمائے اور انکے درجات بلند کرے ۔ ( آمین)
میر صادق کو دوران جنگ ہی سلطان کے شیدائیوں نے موت کے گھاٹ اتار دیا۔
پورنیا کو انگریز وں نے سلطان سے غداری کا انعام وجئے نگر کا وزیراعظم
منتخب کر کے دے دیا۔ انگریزوں نے میسور کی مسلم حکومت کا خاتمہ کر کے
دوبارہ وجئے نگر سلطنت (جو کہ سلطنت ِ خداد اد سے کافی مختصر و سری نگا پٹم
تک ہی محدود ریاست تھی ) کی بنیاد رکھی جسکا راجا کرشن راج واڈیار (دوم) کو
بنایا۔ سلطان کی وفات کے بعد دو دن تک انکی تلاش جاری رہی کسی کو بھی سلطان
کی شہادت کی خبر نہیں تھی۔ جب میسور کے قلعے میں نعشوں کو ہٹایا گیا تب
شہادت کے دوسرے یا تیسر ے روز کئی سپاہیوں کی نعشوں میں دبی ہوئی، زخموں سے
چھلنی ہاتھ میں ٹوٹی تلوار لیے سلطان کی نعش ملی ۔ اس درمیان سارے میسور
میں لوٹ مار عام رہی۔ درباریوں ، عوام سبھی کی مال ودولت اور عزت و عصمت کے
ساتھ متحدہ فوجیں کھیلتی رہیں ۔ ریاست کی جوان بیٹیاں اس عالم میں اپنے
سرپرست سلطان کو آواز دیتی اور پورنیا اور میر صادق کو کوستی رہیں۔ سلطان
کی نعش کے قریب ایک برہمن لڑکی کی نعش بھی دستیاب ہوئی جو سلطان کی نعش کی
حفاظت کرتے ہوئے ماری گئی۔ اس طرح انگریزوں کی راہ کی آخری رکاوٹ ختم ہوئی۔
مگر افسوس کے جنگِ آزادی کے اس اولین شہید کو ہندوستان کی مفاد پرست حکومت
اور یہاں کی من گھڑت تاریخ نے انکی حب الوطنی کو یاد رکھناتو درکنار اس
مجاہدِ آزادی اور انکے والد حیدر علی کو غاصبِ سلطنت کا نام دے رکھا ہے ۔
کئی من گھڑت روایات کو عام کرنے کی کوششیں کی گئیں جو اب بھی جاری ہے۔ جن
میں سلطان حیدر علی اور سلطان شہید ٹیپو کو ظالم بادشاہ بتایا گیا ۔ جنکے
ظلم سے تنگ آکر یا پھر خوف کی وجہ سے ہندو آبادیاں جبراً مسلم بننے پر
مجبور ہوئیں۔ جبکہ حقیقت اس سے بالکل اُلٹ ہے۔ سلطان ٹیپو کی ریاست میں ہر
فرد کو بلا تفریق مذہب ہر قسم کی سہولیات و ترقی کے مواقع میسر تھے۔ سلطان
کے دربار و فوج میں کئی ہندو وزراء اور فوجی سردار موجود تھے ۔ بلکہ سلطان
کا غدار پورنیا جو کہ ایک برہمن تھا وہ بھی اہم وزارت پر مامور تھا۔
سلطان کی مذہبی رواداری کے لےے درج ذیل چند مثالیں موجود ہیں:
”ٹیپو نے مندروں کے لیے بڑی دریادلی وفیاضی سے جائدادیں وقف کیں اور خود
اُس محل کے چاروں طرف سری وینکٹا رمنا، سری واس اور شری رنگ ناتھ کے مندروں
کی موجودگی سلطان کی وسیع النظری کا ثبوت ہے“( ’ینگ انڈیا‘ 23 جنوری 1930
از ’مہاتما گاندھی‘)
انگریز۔ میسور تیسری جنگ میں مراہٹے اور نظام نے انگریزوں کا ساتھ دیا ۔
جنگ کے دوران مراہٹوں نے میسور کے کچھ علاقوں میں لوٹ پاٹ کی اور سرینگری
میں موجود دیوی شاردا کے مندر کو مورتی سمیٹ لوٹ کر لے گئے اور مندر کے
برہمنوں کا قتل بھی کیا۔ سلطان کو جب خبر ہوئی تو سلطان نے اپنی شاہی فوج
کو مندر کے لیے تحائف اور ایک خط دے کر روانہ کیا جو مندر کے مہنت کے نام
تھا۔ جس میں سلطان نے مندر کے مہنت کو لکھا کہ ”اُن لوگوں کو جو مقدس
مقامات کی بے حرمتی کرنے سے باز نہیں آئے، ہمیں یقین ہے کہ کل یگ میں بہت
جلد اپنے کرتوتوں کی سزا ملے گی۔ بدی ہنستے ہوئی کرتے ہیں لیکن سزا روتے
ہوئے بھگتیں گے۔“(از مسٹر شیام سندر : ہندوستان ٹائمز 16نومبر1985)
سلطان نے سرینگری مندر کے مہنت کو ایک اور خط لکھا جس میں مہنت جو خوف کی
وجہ سے مندر چھوڑ کر دوسری جگہ چلے گئے تھے انھیں واپس آنے کے لیے کہا گیا
تھا۔
مالابار،اراندا،پونانی، تریچور، سیرنگری میں موجود مختلف منادر آج بھی
سلطان کی مذہبی رواداری کا ثبوت دیتے ہیں ۔ جنھیں سلطان نے کئی زرخیزگاﺅں،
کئی ایکڑ اراضی انعامات میں دی تھی۔ (جو آج بھی انہیں مندروں کے نام ہے۔)
ہندوستان کے فرقہ پرست عناصر حیدر علی او رٹیپو پر الزام لگاتے ہیں کہ
انھوں نے کئی دیہاتوں کی آبادیوں کو جبراً اسلام قبول کروایا اگر وہ اسلام
قبول نہ کرتے تو قتل کردیے جاتے، اس طرح کئی برہمنوں اور ہندﺅں کا قتل عام
کیا گیا۔ جبکہ حقائق بالکل مختلف ہیں ۔ البتہ حید ر علی اور ٹیپو کی رعا یا
کے لیے کی گئی اصلاحات کی وجہ سے کئی دیہاتوں کی آبادیاں اسلام میں داخل
ہوئیں۔ سلطان نے ریاست میں عضو تناسل کی پوجا پر پابندی عائد کی، کثرتِ
خاوند کی خبیث رسم بعض قبائلی گاﺅوں میں رائج تھی ٹیپو نے اس بیہودہ رسم کو
بزور ختم کیا۔
نائر قبائل جن کی کثیر آبادی ریاست کے مختلف دیہاتوں میں بسی ہوئی تھی ، یہ
لوگ چوری ، ڈاکہ زنی و لوٹ مار جیسے جرائم پیشہ لوگ تھے ۔ حیدر علی نے ان
کی تربیت کے لیے کئی انتظامات کیے۔ نائروں کی آبادی میں مدارس و مذہبی
اصلاحات کے لیے کڑے اقدامات کیے۔ نائروں کو کاشتکاری کے لیے ترغیب دی۔ نائر
قبائل کی خواتین سینہ کھلا رکھا کرتی تھیں اس پر پابندی عائد کی گئی ۔ ان
اصلاحات کا نتیجہ یہ نکلا کہ اسلامی تعلیمات سے متاثر ہوکر نائر قبائل کی
آبادیوں پر مبنی کئی گاﺅں اسلام میں داخل ہو گئے۔
سلطان ٹیپو دنیا کے وہ پہلے بادشاہ جنکے دور میں جوہری توانائی پر تحقیق کر
کے باضابطہ جنگی میزائلس کی ایجاد کی گئی جس کا استعمال سلطان نے جنگ کے
موقعوں پر کیا۔ جسے دیکھ کر انگریز دنگ رہ گئے۔ ہمارے سابقہ صدر جمہوریہ
ڈاکٹر اے۔پی۔جے عبدالکلام جنھیں ہم سب میزائل مین آف انڈیا کے نام سے جانتے
ہیں۔ وہ جب میزائل ٹیکنالوجی پر ریسرچ کے لیے امریکہ گئے تب انہوں نے ریسرچ
انسٹی ٹیوٹ کے برامدے میں ایک بادشاہ کی تصویر دیکھی جو اپنی فوج کو دشمن
انگلستانی فوج پر میزائل داغنے کا اشارہ دے رہا تھا۔ تحقیق کرنے پر پتہ چلا
کہ وہ ایک ہندوستانی بادشاہ تھا اور اسکا نام ٹیپو سلطان تھا۔ اس واقعہ کا
ذکر ڈاکٹر اے۔پی۔جے عبدالکلام نے اپنی سوانح عمری ’ ونگس آف فائر ‘ میں کیا
ہے۔ اس واقعہ سے پتہ چلتا ہے کہ نہ صرف ہندوستان میزائل ٹکنالوجی کا موجد
ہے بلکہ اسکا سہرا سلطان ٹیپو کے تحقیقاتی منصوبوں کی وجہ سے ملتِ اسلامیہ
کے سر جاتا ہے ۔
ان سچائیوں کو فراموش کر کے ہندوستان کے فرقہ پرست عناصر نے تاریخ کو مسخ
کرنے کا کام بڑے زوروں سے جاری رکھا ہے ۔ ملت کے ان عظیم سپوتوں کو یہاں کی
عوام میں ہندو مخالف ، تنگ نظر اور ظالم کی حیثیت سے متعارف کیا جاتا ہے ۔
یہ سب حکومت کی شہ پر ہی ہوتا ہے ۔ حکومت اول تو ان چیزوں سے لاعلمی کا
اظہار کرتی ہے اور جب کچھ درد مندانِ ملت ان حرکات پر حکومت کی توجہ دلاتے
ہیں تب بھی خاطر خواہ نتائج برآمد نہیں ہوتے ۔ مانو حکومت ان فرقہ پرست
عناصر کو دبے لفظوں میں منظوری دے رہی ہو۔
حکومت ِ ہند سے ملت کے ان عظیم سپوتوں کو فراموش کرنے کا گلہ کرنا ایک بے
معنی بات ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ جس طرح سے شیواجی،امبیڈکر و دیگر کی
جینتی( یومِ پیدائش ) انکے ماننے والے مناتے ہیں ۔ ویسے ہند کی مسلم عوام
نہ کبھی سراج الدولہ،ٹیپو سلطان ، اشفاق اللہ خان اور شہید عبدالحمید جیسے
ملت کے عظیم سپوتوں کو خراج محبت پیش کرتے ہوئے انکے یومِ پیدائش پر خوشی
مناتی ہے اور نہ ہی انکی برسی پر خراج پیش کرتی ہے ۔ جو قوم اپنے اسلاف کی
خدمات کو خود فراموش کرنا چاہتی ہے اسے حکومت، سیاست کا بہانہ بازی بنا کر
حکومت کو مجرم قرار دینے کا کوئی حق نہیں، حقیقت میں وہ بھی اتنی ہی مجرم
ہے ۔ اب تو ڈر لگتا ہے کہ کہیں ملت بھی انھیں فراموش نہ کردے ۔ |