اے حمید۔ ۔ ۔ ۔ لو وہ چل دیئے

اے حمید۔ ۔ ۔ ۔ لو وہ چل دیئے اک جہان ِنو کے پھولوں، پتوں، پرندوں، خوشبوؤں اور تتلیوں سے ملنے۔

رات کافی گہری ہوچکی تھی، مال روڈ پر ایک ہو کا سا عالم طاری تھا۔ شاید روزافزٌوں بڑھتی ہوئی دہشت گردی اسکا سبب تھی یا پھر ذندہ دلان۔لاہورِِ، شہر میں دن دہاڑے ہونے والیں ڈکیتیوں اور لوٹ مار کی وارداتوں سے شدید نالاں ہیں اور ویسے یہ تو وقت بھی آدھی رات کا تھا، لٰہذا انہیں اتنی رات گئے شہر کی سڑکیں ناپنے سے بہتر اَپْنے تَئِیں گھروں میں دٌبکے رہنے میں ہی عافیت محسوس ہوئی ہوگی۔

پھر آج تو کارپوریشن کی جانب سے نصب شدہ کھمبوں کے قٌمقٌمے بھی اجالوں کی بجائے اندھیرے ہی اٌگل رہے تھے۔ اندھیرا، سناٹا اور ویرانی، ایک آسیب کی مانند ساری مال دوڑ پر مسلط تھا۔

اچانک مال روڈ پر قائم ایک بہت بڑے کتب خانے کے صدر دروازے کے پاس ٹمٹماتے تاروں کی دھیمی دھیمی سی روشنی میں چند تاریک سائے حرکت کرتے نظر آئے۔

وہ تمام سائے اٌس کتب خانے ہی سے برآمد ہوئے تھے اور انکی تیز رفتار چال اس امر کی غماز تھی کے وہ سب جلد ہی کہیں پہنچنا چاہتے ہیں۔ مسلسل کافی دیر تک چلنے کے بعد وہ تمام سائے لاہور کے میانی صاحب قبرستان میں داخل ہورہے تھے۔ رات کے اٌس پہر میں قبرستان ایک عجب ہیبتناک ماحول پیش کررہا تھا، ایسا محسوس ہوتا تھا کہ جیسے تمام محو۔استراحت اہل ِقبور گھپ اندھیرے ہی کو اپنی چارد بنا کر اسے ہی اوڑھے سو رہے ہوں۔ دٌور قبرستان کے گورکن کی کوٹھری کے بند کواڑوں کے عین اوپر پیشانی پر جلتا ہوا ایک ذرد کمزور سا بلب اپنی ملگجی سی روشنی سے اندھیروں سے لڑنے کی ناکام کوشش کررہا تھا۔ گھپ اندھیروں سے سر پٹکتی ہوئی ذرد مَلْگِجاہَٹ قبرستان کے ماحول کو مزید خوفناک بنا کر پیش کررہی تھی اور وقفے وقفے سے قبرستان کے مختلف کونوں سے اٹھتیں سگان۔آوارہ کی صدایں ماحول کی سنگینی کو مزید دوچند کردیتی۔

وہ تمام سائے ایک تازہ قبر کے سامنے آ جمع ہوئے۔ اس کچی قبر کی مٹی بھی ابھی خٌشک نہ ہوئی تھی،اس ہر بکھریں گلاب کی پتیاں بھی پوری طرح سے نا مرجھائیں تھی اور بعد ِتدفین لگائیں گئیں اگر بتیاں گو کے بجھ تو ضرور گئیں تھیں لیکن اب بھی قبر کے اطراف کا ماحول انکی مہک سے معطر ہورہا تھا۔

تاروں کی دھیمی روشنی میں اٌن تمام نفوس کے چہروں پر ثبت غم و اَنْدوہ کی گہری پرچھائیوں کو بآسانی پڑھا جاسکتا تھا اور ایسا محسوس ہوتا تھا کہ جیسے وہ تمام اہل ِقبر سے کوئی خصوصی نسبت رکھتے ہوں اور اٌس سے اٌنکا کوئی انتہائی قریبی رشتہ تھا۔

ان سایوں میں سے ایک نوجوان نے اپنے ساتھیوں کو فاتحہ خوانی کا اشارہ کرتے ہوئے اپنے دونوں ہاتھ اٹھا کے باآواز۔بلند فاتحہ خوانی کرنا شروع کردی اور اسکے دیگر ساتھی بھی اسکی کی تقلید میں فاتحہ خوانی کرنے لگے۔

فاتحہ خوانی سے بعد از فراغت سب قبر ہی کے اردگرد ادب و احترام کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے زمین پر براجمان ہوگئے۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ جیسے کسی مزار پر مجاورین کی جماعت عقیدمندوں کی آمد سے قبل اپنے پیر و مرشد کو اپنا اجتماعی نذرانہ ِعقیدت پیش کرنے کی غرص سے اکھٹے ہوئے ہوں۔

فاتحہ خوانی کروانے والا نوجوان جسکے چہرے سے وقار، سنجیدگی اور متانت جلھکتی تھی، قدرے طویل قامت، ہلکے سنہرے بال، گہری نیلی آنکھیں اور رنگت کھلتی ہوئی سی تھی، دیگر حاضرین سے مخاطب ہوا:۔


’’میں اور آپ سب ہی جناب اے حمید مرحوم و مغفور کے لافانی قلم کی نوک سے ٹپکے ہوئے چند کردار ہیں اور دیکھا جائے تو وہ ہم سب کے خالق تھے لیکن فرق صرف اتنا ہے کے خالق ِحقیقی کی ابدیت اور مخلوق کا مٹنا ایک امر ِلازم ہے، جبکہ یہاں تو معاملہ ہی الٹ ہے، کہاں خالق خود تو جسمانی طور پر فنا ہوگیا لیکن اپنے تخلیق کردہ کرداروں کو ابدیت عطا کر گیا، شاید انہیں یہ حقیت معلوم تھی کہ ایک نا ایک روز تو انہیں جانا ہی ہوگا تو کیوں نا میں کچھ ایسے لافانی کرداروں تخلیق کر جاؤں جو کہ نا صرف خود لافانی ہوں بلکہ میرا نام بھی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے زندہ و تابندہ رکھیں‘‘ ۔

اس نوجوان نے فرداً فرداً شرکاء کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے، سلسلہ ِبیان جاری رکھا:۔

’’میں اور میرے ساتھی ایک کٌتب خانے کی کتابوں سے نکل کر اپنے تخلیق کار کو خراج ِتحیسن پیش کرنے کے لیے یہاں آنے کی سعارت حاصل کرسکے ہیں، یہ دراصل ہماری خوش نصیبی ہے، کیونکہ جناب اے حمید ہی لکھی ہوئی ان ہی انگنت کتابوں میں شامل رنگ برنگے پھول، حسین چہچہاتے پرندے اور ان پرندوں کی چہکار سے گونجتے گھنے درختوں کی سبز شاخوں سے چھتے ہوئے جنگل، ان جنگلوں کی ہواؤں اور فضاؤں میں لہراتے ہرے بھرے، سرسبز و شاداب درخت و پودے، حتیٰ کے ان درختوں پر لگا پتہ پتہ اور ان پتوں کی اوٹ میں گھونسلے بنا کر رہنے والے پرندے، ملک ِدمشق کے قہوہ خانوں میں فرشی نَشِسْتوں پر گاؤ تکیوں سے ٹیک لگا کر گرما گرم بھاپ اڑاتے قہوے کی پالیوں سے رھ رھ کر چسکیاں بھرتے اور تارہ بھرے ہوئے حقوں سے کش لگا لگا کر اس کے دھویں سے قہوے خانے کی فضاؤں کو دھندلاتے، کسی اجنبی و جہاں ِ نامعلوم کے وہ سب مُسافِران، قاہرہ کے قدیمی و چھتے ہوئے طلسماتی بازار جہاں کاندھے سے کاندھا چھلتا ہے، کی رونقوں سے دل بہلاتے وہ سب راہگیر، وہ سب آبشار، تالاب، ندیاں، جھیلیں دریا و سمندر اور ان میں چلتے بادبانی جہاز اور ان جہازوں کے عرشوں پر کھٹرے افق پار کے دھندلکوں میں بناء کسی مقصد تکتے وہ مسافر اور تو اور ان ہی سمندروں مین اپنے ٹوٹے پھوٹے جہازوں میں بھٹکتے بحری قزاق اور ان ہی سمندروں سے لگے وہ سب جزائر اور ان میں بسنے والے غیر مہذب قَبائِل کے جن پر آج تک مُہَذِّب دنیا کوئی سایہ تک نہیں پڑا اور ہاں پیرس کی گلیوں میں بھٹکتا ہوا وہ بے روزگار مُصَوَّر بھی جسے جنگ ِ عظیم کی تباہ کاریوں و کساد بازاریوں نے فٹ پاتھ پر چلتے پھرتے راگیروں کے پنسل اسکیچ بنا کر اپنا پیٹ پالنے پر محبور کردیا تھا، جنگ ِعظیم دوئم میں برما فرنٹ پر گورے جرنلوں کی کمانڈ میں اتحادی فوجوں کی جانب سے لڑتے ہوئے وہ سب کے سب کالے دیسی فوجی اور دروان جنگ وہ نوخیز مقامی گہری سانولی رنگت والیں دوشیزائیں جن کے گھنے اور کالے سیاہ بال ناریل کے تیل سے چپپڑے ہوئے ہوتے ہیں اور جو اپنے جوڑوں میں چمپئی رنگ کے پھول اڑستیں ہیں، پانچ ہزار سال قبل مصر کے قدیم شہر تھیبس میں آبادی سے کافی دور بیچ صحرا فرعون ِمصر کے اپنے حکم پر خود اٌسی کے اِس جہاں ِفانی سے کوچ کر جانے کے بعد اٌسکی آخری آرام گاہ قرار پانے والے اہرام ِمصر کی تعمیر میں مصروف وہ تمام پتھر تراش اور بطور ِ خاص رات کے سناٹے میں صحرا کی وسعتوں میں گونجتیں ان پتھر تراشوں کی چھینیوں کی چھن چھناہٹ، وہ نسطور عرف عینک والا جن اور وہ ’’زے بی ناٹ‘‘ کا نعرہ لگاتا زکوٹا جن اور ہامون جادوگر اور چڑیل بل بتوڑی، ہمیشہ حیات پانے والا عنبر الغرض اے حمید کے قلم سے نکلا اور اس قلم کی سیاہی کے خشک ہونے سے بھی پہلے شہرت کے آسمانوں کو چھو لینے والا وہ کون سا کردار، واقعہ، مقام، جگہ اور میری بیان کردہ وہ تمام تر چیزیں جو آج یہاں اپنے اس عظیم تحلیق کار اور نابِغَۂِ روزْگار مصنف کو خراج ِتحسین پش کرنے کے لیے حاصری دنیے نا آنا چاہتے ہوں لیکں سچ تو یہ ہے کے اگر اے حمید صاحب کیں لکھیں ہوئیں سبھی کتابوں کے جملہ کردار و لوازمات، ان کے پھول، تتلیاں، خوشبویں، جنگل، درخت، پتے، سماور، قہوہ خانے، چھتے ہویے قدیمی بازار اور انمیں چلتے پھرتے سودا بیچنے والے سوداگر اور ان سے حِیل و حُجَّت کرتے گاہک سب ہی یہاں آجائیں تو یہ قبرستان تو کیا یہ سارے کا سارے شہر بھی ان سب کے لیے بہت ہی چھوٹا پڑجائیگا اور اٌن سب کی فوج ِظفر موج کو سنبھالنے کے لیے کئی ممالک کی افواج بھی شاید کافی ثابت نا ہوسکے‘‘۔


اتنا کہہ کر نیلی آنکھوں والا وہ نوجوان اک لحضہ رکا اور پھر گویا ہوا:۔

’’اے حمید کے دوست عطا الحق قاسمی اپنے کالم میں لکھتے ہیں کہ:۔’’اے حمید سے میری آخری ملاقات آج سمن آباد لاہور کی مسجد ِخضریٰ کی گراؤنڈ میں ہوئی جہاں ایک چارپائی پر انکا جسد ِخاکی سفید کفن میں لپٹا ہوا پڑا تھا، میں ان کے پاس گیا، میں نے پوچھا’’حمید صاحب! آپ جارہے ہیں؟‘‘ انہوں نے کہا ’’ہاں میں جارہا ہوں لیکن میں پھولوں، خوش رنگ پتوں، رنگ برنگے پرندوں، اور یادوں کے دریچوں سے تمھیں ملنے آتا رہوں گا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میرا انتظار کرنا!‘‘۔

’’کہنے کو تو اے حمید صاحب نے کہہ دیا کہ میں پھولوں، پتوں، پرندوں سے ملنے آؤں گا لیکن اب وہ کیوں یہاں آنے لگے؟‘‘ ’’جہاں وہ گئے ہیں وہاں کے پھولوں، تتلیوں، خوشبوؤں، ررختوں، پتوں، جنگلوں، قہوؤں اور چائے کے سماوروں کا بھلا اس عارضی جہان ِرنگ و بو سے کیا مقابلہ؟ اور ہم آپ سب ان کے رومانچک مزاج سے بخوبی آشنا ہیں، لہٰذا ان کی رومان پسند طبیعت کو وہاں کی رومان پرور فضاء ایسے مقید کرلیگی کہ وہ سدا کے لیے وہیں کے ہو رہینگے اور اپنی برخٌواست شدہ محافل کو نیاء رنگ و روپ دیکر کچھ یوں بپا کریں گے کے اٌس کا ثانی ڈھونڈے بھی اِس جہاں ِفانی میں میسر نہیں آسکتا۔
Amin Sadruddin Bhayani
About the Author: Amin Sadruddin Bhayani Read More Articles by Amin Sadruddin Bhayani: 43 Articles with 55063 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.