سچ کہتے ہیں تندرستی ہزار نعمت
ہے اس حقیقت کو اصل میں وہی شخص بہتر طور پر سمجھ سکتا ہے جو کسی نہ کسی
بیماری یا معذوری میں مبتلا ہوتا ہے پاکستان میں معذور افراد کی تعداد میں
روزبروز ہوتا ہوا خطرناک اضافہ نہ صرف حکومت بلکہ پوری دنیا میں انسانی
حقوق کیلئے سرگرمِ عمل نام نہاد NGO,sاور دیگر اداروں کیلئے ایک لمحہ فکریہ
ہے کہ جنہوں نے شائد معذور افراد کے حقوق و دیکھ بھال کو انسانی حقوق کی
لسٹ سے ہی نکال رکھا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ حکومت آج بھی معذور افراد کے حوالے
سے1998ء کی مردم شماری پر ہی اکتفا کئے ہوئے ہے جس کے مطابق ملک میں معذور
افراد کی تعداد42لاکھ ہے حالانکہ آج 12سال بعد ایک نیا سروے کر نے کی اشد
ضرورت ہے تاکہ معذور افراد کی درست تعداد اور ان کے مسائل کے بارے میں
آگاہی حاصل ہو سکے لیکن شائد حکومت کے پاس ایسے کاموں کیلئے فرصت ہی نہیں
ہے لیکن یہاں بھی whoنے حکومت کی اس مشکل کو اس حکم سے کم کردیا ہے جس کے
مطابق اس نے اپنے تمام رکن ممالک کو اس کا پابند کیا ہے کہ وہ اپنی کل
آبادی کے 10%کو معذور افراد countکرتے ہوئے ان کی فلاح و بہبود کیلئے مناسب
اقدامات کرے۔اس adviceکے مطابق تو اگر دیکھا جائے تو پاکستان کی آبادی اس
وقت تقریباََ اٹھارہ کروڑ ہو چکی ہے جس کا 10%پونے دو کروڑ بنتا ہے اس لحاظ
سے تو اتنی بڑی تعداد کیلئے تو حکومت کو ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کرنے
چاہئے تھے لیکن دوسری جانب معذور افراد کیلئے حکومت نے اب تک یہ تو کیا ہے
کہ ان کے ماتھے پرspecial personکا تمغہ تو سجا دیا ہے اور سالانہ کی
بنیادوں پر چند رٹے رٹائے بیانات بھی جاری ہوتے رہتے ہیں لیکن عملی طور پر
حقیقت''ہنوز دلی دور است''کی عکاسی کرتی نظر آتی ہے۔مثلاََ آپ دیکھیں کہ
وفاقی حکومت نے 10اگست 2009ء کو معذور افراد کیلئے سپیشل کارڈز کا اِجراء
کیا جس کے تحت معذور افراد کیلئے ہر ضلع میں کمپلیکس،ہسپتالوں میں مفت علاج
معالجہ،مفت سفری سہولیات،کریڈٹ کارڈ کے ذریعے قرضِ حسنہ اور دیگر کئی
سہولیات ملنے کی نوید سنائی گئی اور ساتھ ہی پاکستان کو معذور دوست ملک
بنانے کے عزم کا اظہار کیا گیا جس پر بجا طور پر ملک بھر کی معذور کمیونٹی
نے اطمینان کا اظہار کیا۔لیکن اس دلفریب اعلان کے دو سال بعد بھی اس پر
عملدرآمد نہ ہونے سے معذور افراد میں ایک بار پھر مایوسی بڑھ رہی ہے۔اس کی
سب سے بڑی وجہ تو یہ ہے کہ حکومت نے ان تمام سہولیات کو جس special cardسے
نتھی کیا ہے سب سے پہلے تو اس کا حصول ہی جُوئے شیر لانے سے کم نہیں ہے
کیوں کہ اس کے حصول کیلئے سوشل ویلفئیر، معائنہ بورڈ(جو مہینہ میں صرف ایک
دن کیلئے بیٹھتا ہے)اور پھر نادرا آفس میں بے شمار چکروں اور جن انتہائی
کٹھن حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اسے دیکھ کر اکثر بے چارے معذور افراد تو
دلبرداشتہ ہو کر گھروں میں بیٹھ جاتے ہیں ۔ سپیشل کارڈ کے حصول میں معذوروں
کو متعلقہ دفاتر میں عوام کے ''خدمتگاروں'' کی جن کڑوی کسیلی باتوں کا
سامنا کرنا پڑتا ہے اس کا ایک مظاہرہ اس وقت دیکھنے کو ملا جب گزشتہ دنوں
ہماری جماعت انجمن بحالی معذوراں کی ماہانہ میٹنگ میں محمد بشیر نامی ایک
بزرگ آن دھمکے (جن کا ایک بازو کسی حادثے میں ضائع ہو گیا تھا)انہوں نے آتے
ہی بڑے دل شکستہ انداز میں ہمیں بتایا ''کہ وہ سرٹیفیکیٹ کے حصول کیلئے جب
سوشل ویلفئیر آفس پہنچے تو انہوں نے مجھے DHQہسپتال اوکاڑہ میں بھیج دیا کہ
وہاں موجود ایک معائنہ بورڈ آپ کو چیک کرے گا کہ آپ معذور ہیں یا نہیں ،بڑی
مشکل سے جب میں وہاں پہنچا تو بڑا عجیب منظر میرے سامنے تھا کہ درجنوں
معذور افراد وہاں معائنہ بورڈ کے سامنے حاضری کیلئے اپنی باری کا انتظار کر
رہے تھے اور دلچسپ بات یہ تھی کہ وہاں ان لوگوں کے بیٹھنے کا بھی کوئی خاص
انتظام نہیں کیا گیا تھا حالانکہ بعض معذوروں کی معذوری کچھ اس نوعیت کی
تھی کہ ہسپتال انتظامیہ کو ان کیلئے وہیل چئیرز وغیرہ کا انتظام کرنا چاہئے
تھا لیکن ایسا کچھ بھی نہیں تھا تمام معذور افراد کے ساتھ آئے ہوئے ان کے
عزیزواقارب انہیں اُٹھا اٹھا کر ڈپٹی ایم ایس صاحب کے پاس لے جا رہے تھے جو
معذور پر ایک نگاہِ غلط کچھ اس انداز میں ڈالتے جیسے وہ معذور نہ ہو بلکہ
ملزم ہو پھر اس سے تفتیش کے سے انداز میں کچھ سوالات کرتے اور موقع ملنے پر
طنز کے تیر چلانا بھی نہ بھولتے بہرحال خدا خدا کر کے جب میری باری آئی تو
باوجود یہ دیکھنے کے کہ میرا ایک بازو کٹا ہوا ہے انہوں نے مجھ سے بڑے
کھردرے لہجے میں سوال کیا کہ آپ کا کیا مسئلہ ہے میں نے کہا کہ قدرت نے
مجھے ایک بازو سے محروم کر دیا ہے تو فوراََ ان کے چہرے پر ایک طنزیہ
مسکراہٹ ابھری اور یہ فرمایا آپ کا سرٹیفیکیٹ تو نہیں بن سکتا میں نے حیرت
سے پوچھا وہ کیوں صاحب جی تو اس کے جواب میں انہوں نے جو کہا وہ سُن کر مجھ
اتنا دکھ ہوا کہ اس قدر دکھ مجھے اپنا بازو کٹنے کا نہیں ہوا ہوگا ان کے
سنہری الفاظ یہ تھے کہ ''ابھی آپ کا ایک بازو ٹھیک ہے''یہ بتاتے ہوئے بابا
بشیر آبدیدہ ہو گیا اور جاتے ہوئے ہم سے یہ وعدہ لیا کہ آپ میرا یہ پیغام
اربابِ اختیار تک ضرور پہنچائیں گے کہ وہ اگر وسائل کی عدم دستیابی یا کسی
اور وجہ سے ہماری مشکلات کو کم کرنے سے قاصر ہیں تو کم از کم ہماری عزتِ
نفس کو مجروح کرنے کا سامان تو نہ کریں'' یہ تو ایک معذور کی داستان تھی جب
کہ معذوروں کے ساتھ اس طرح کے ''حسنِ سلوک '' کے واقعات اکثر پیش آتے رہتے
ہیں ۔جس سے معذور افراد کے حوالے سے ہماری انتظامیہ کی سوچ کی عکاسی ہوتی
رہتی ہے۔اسی لئے ہمارا یہ مطالبہ ہے کہ حکومت خواتین کو ہراساں کرنے کے بِل
کی طرز کا ایک بل ہمارے لئے بھی فوری طور پر منظور کرے تا کہ انہیں کچھ تو
احساسِ تحفظ حاصل ہو ۔دوسرے مرحلے میں حکومت فوری طور پر پورے ملک میں ایسی
موبائل ٹیمیں تشکیل دے جو گھر گھر جا کر معذور افراد کی درست تعداد اور
مسائل کا سروے کریں ۔اس کے بعد ان مسائل کو ترجیحی و ہنگامی بنیادوں پر حل
کرنے کیلئے تمام شہری و دیہی علاقوں میں غیر جانبدار و غیر سیاسی کمیٹیاں
تشکیل دی جائیں تاکہ یہ منصوبہ بھی دیگر فلاحی منصوبوں کی طرح اقربا پروری
کی نظر نہ ہو سکے اس کیلئے معذوروں کی ان تنظیموں کا تعاون بھی لیا جا سکتا
ہے جو معذوروں کے حقوق کیلئے پہلے سے سرگرمِ عمل ہیں اور یہ کریڈٹ بجا طور
پر ان تنظیموں کو جاتا ہے کہ ان کی محنت کے باعث ملک بھر میں معذوروں کو
اپنے حقوق کے بارے میں کچھ شعور حاصل ہو رہا ہے۔لیکن وسائل کی عدم دستیابی
ان تنظیموں کی کارکردگی میں آڑے آرہی ہے یہاں پر حکومت اگر اپنی ذمہ داری
کو محسوس کرتے ہوئے ان فعال تنظیموں کو اپنا کندھا فراہم کرے تو امید ہے کہ
معذوروں کو ان کی منزل بہت جلد مل جائے گی اور بظاہر اس کے آثار اس وقت
پیدا ہوتے نظر بھی آئے جب گزشتہ دنوں اسلام آباد کے F9ُٓ پارک میں ملک بھر
سے 47تنظیمیں اپنے حقوق کے حصول کیلئے یکجا ہوئیں اور آئندہ مل جل کر
جدوجہد کرنے پر اتفاق کیا اس موقع پر چئیرمین پاکستان بیت المال جناب زمرد
خان،پاکستان پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما قمرالزماں کائرہ اور ڈی جی سپیشل
ایجوکیشن محترم خالد نعیم کی موجودگی اس بات کی دلالت کر رہی تھی کہ حکومت
نے شائد اس گھمبیر مسئلے کو حل کرنے کی ضرورت محسوس کر ہی لی ہے خصوصاََ
جناب زمرد خان نے اس تقریب میں معذوروں کیلئے جس قسم کے خیالات کا اظہار
کیا وہ واقعی قابلِ تحسین ہیں ۔انہوں نے اگرچہ معذور افراد کو کہا کہ وہ
خود کو معذور لکھنے سے گریز کیا کریں لیکن میں اپنے تمام کالموں میں ایسا
احتجاجاََ لکھتا ہوں اور ایسا اس وقت تک لکھتا رہوں گا جب تک حکومت معذور
وں کو وہ حقوق نہیں دے دیتی جو انہیں اسلام اور اقوامِ متحدہ نے دیئے ہیں
اور وہ اُن وعدوں کو پورا نہیں کر لیتی جو اس نے ہم سے کر رکھے ہیں ۔ |