ارنب گوسوامی ایک باصلاحیت صحافی تھالیکن عرصۂ دراز سے
اس کی سوقیانہ حرکات وسکنات کے سبب سنجیدہ لوگوں نے اسے دیکھنا اور سننا
بند کردیا ہے۔ اب تو صحافی برادری اس کو اپنی برادری میں شمار کرنے سے بھی
شرماتی ہے۔ ارنب کے لیے سب سے محتاط لقب حکومت کے ترجمان کا ہے لیکن حقیقت
تو یہ ہے کہ صحافی برادری پر جسم فروشی بمعنیٰ ضمیر فروشی کا جو الزام
لگایا جاتا تھا اس کو موصوف نے درست ثابت کردیا ہے۔ کوٹھے پر بیٹھنے والی
طوائف بھی فریب کاری کی خاطر جھوٹ نہیں بولتی اور نہ اشتعال انگیزی کرتی ہے
اس لیے ارنب جیسے لوگ تو ان سے بھی گئے گزرے ہیں۔ ہر صحافی کسی نہ کسی
نظریہ کا حامل ہوتا ہے لیکن وہ بددیانت نہیں ہوتا۔ صحافی کو اپنی فکر و نظر
کی ترویج و اشاعت کا حق ہے لیکن وہ اس کے لیے ناجائز طریقہ اختیار نہیں
کرسکتا ۔ صحافی کا سب سے بڑا سرمایہ اس کی حق گوئی و بیباکی ہے لیکن اگر کو
ئی بیباک ہوکر جھوٹ بولنے لگے تو وہ اپنے مقام و منصب سے گر جاتا ہے ۔ ایک
زمانے تک ہندوستانی صحافت میں ایسے لوگ خال خال تھے ۔ اس کے بعد کچھ لوگوں
نے ڈھکے چھپے انداز میں یہ کام کرنے لگے اور اب تو قومی ذرائع ابلاغ پر
علامہ اقبال کا یہ شعر صادق آتا ہے؎
گزر گیا اب وہ دور ساقی کہ چھپ کے پیتے تھے پینے والے
بنے گا سارا جہان مے خانہ ہر کوئی بادہ خوار ہوگا
ہندوستان کے ٹیلیویژن کی دنیا میں ایک دو چائے کی دوکان کو چھوڑ دیں تو
ساری دوکانیں فسطائیت کی شراب بیچ رہی ہیں اور ان میں کام کرنےزبان کے
مزدور خود فرقہ واریت کے نشے میں دھت ہیں ۔ ارنب نے پالگھر کے قابلِ مذمت
سانحہ پر جو کچھ کہا اس کی حقیقت کا جائزہ لینا سب سے اہم ہے۔ اسی کے ساتھ
ارنب کو سوچ اور فکر کا ےجزیہ بھی ضروری معلوم ہوتا ہے۔ ارنب کی حمایت کرنے
والوں میں اندھ بھکتوں فوج کے علاوہ مرکزی وزیر اور پالگھر کے واقعہ پر
ہندو اکھاڑے کے سادھو سنت بھی شامل ہیں ۔ یہ سارے لوگ ایک ہی تھیلی کے چٹے
بٹے ہیں اور سب مل کر اشتعال انگیز ی کررہے ہیں ۔ پالگھر کی بنیادی حقیقت
یہ ہے کہ وہاں پر قبائلی لوگوں کے گاوں میں دو سادھووں اور ان کے ڈرائیور
کو بچہ چوری کے شک میں لاٹھی ڈنڈے سے مار مار کر ہلاک کردیا۔ وہاں پولس
فورس موجود تھی مگر وہ ان کو مشتعل بھیڑ سے بچانے میں ناکام رہی ۔
ہندوتوا وادیوں کے ستارے فی الحال کورونا کی وجہ سے گردش میں ہیں ۔ ان پر
پہلی مصیبت تو دبئی میں آئی اور اس سے ابھی سنبھلنے بھی نہیں پائے تھے کہ
دوسری آفت کا شکار ہوگئے۔ ایک طرف پردیس میں چھپے ہوئے پڑھے لکھے سرمایہ
دار اپنے خول سے باہر نکل آئے اور دوسری جانب اپنے ہی دیش میں گیانی
وگیانی سادھو سنت قبائلی بھیڑ کے ہتھے چڑھ گئے ۔ کورونا کی وبا نے دونوں کو
مصیبت میں ڈال دیا ۔ نہ ہوتا کورونا اور نہ لکھے جاتے وہ ٹویٹ ، آتا
کورونا اور نہ ان سادھو سنتوں کو ہائی وے چھوڑ کر اس قبائلی گاوں میں گزرنا
پڑتا جہاں بچہ چوری کے خوف سے پہرہ دیا جارہا تھا۔ خیر جو ہوا بہت برا ہوا
، کسی روزی چھن گئی اور کسی جان چلی گئی لیکن ارنب نے دبئی کے ہندو مسلمان
والے معاملے کو تو نظر انداز کردیا مگر پالگھر کی آپسی لڑائی کو ہندو اور
عیسائی دھرم یدھ بنا کر سونیا گاندھی کو اس کے لیے ذمہ دار ٹھہرا دیا ۔
مہاراشٹر کی حکومت میں کانگریس شامل ضرور ہے لیکن یہاںکے وزیراعلیٰ ادھو
ٹھاکرے کا تعلق شیوسینا سے ہے اور وزیر داخلہ انل دیشمکھ این سی پی سے آتے
ہیں ۔ کسی کواگر اس اندوہناک سانحہ کے لیے ذمہ دار ٹھہرایا جاسکتا تھا تو
یہ دو لوگ تھے لیکن مسئلہ یہ ہے تھا کہ وہ دونوں ہندو ہیں ۔ ادھو ٹھاکرے
کہہ چکے ہیں کہ اس کا فرقہ واریت سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ مارنے والے اور
مرنے والے کا تعلق ایک ہی مذہب سے ہے۔ انل دیشمکھ نے گرفتار لوگوں کی فہرست
جاری کردی ۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان ۱۰۱ لوگوں میں سے کوئی بھی مسلمان یا
عیسائی نہیں ہے۔ اس گاوں میں دس سالوں سے بی جے پی کی سرپنچ ہے۔ پالگھر کے
پارلیمانی سیٹ پر بی جے پی نے سونیا کی کانگریس سے ایک مقامی رہنما کو
درآمد کرکے کامیابی درج کرائی ہے ۔
اس صورتحال میں ارنب کو قتل کی ذمہ داری تھوپنے کے لیے نہ تو مارنے والے
۔نہ گاوں کا سرپنچ ، نہ رکن اسمبلی، نہ وزیر داخلہ اور نہ وزیراعلی بلکہ
سرکار میں شامل تیسرے نمبر کی پارٹی کے صدر پر ہاتھ ساف کرنا پڑتا ہےکیونکہ
وہی ایک بیچاری غیر ہندو ہے۔ افسوس کہ ارنب کو اس واقعہ میں فرقہ واریت کا
رنگ بھرنے کے لیے بہت دور جاناپڑا۔ اتفاق سے کسی زمانے میں سونیا گاندھی
چونکہ اطالوی بھی تھیں اس لیے وہ سیدھے ویٹیکن پہنچ گیا۔ یہ صحافتی پستی کی
انتہا ہے۔ارنب کو اس بات کا دکھ ہے کہ سونیا گاندھی نےسادھووں کے بہیمانہ
قتل کی مذمت کیوں نہیں کی ؟ یہی سوال ان کو ملک کے وزیراعظم سے کرنا چاہیے
تھا کہ وہ سانحہ پر کیوں خاموش ہیں جبکہ ان سے بڑا ہندوتواوادی فی الحال
پوری کائنات میں دوسرا کوئی نہیں ہے۔ یوگی ادیتیہ ناتھ بھی مودی کے آگے
پانی بھرتے ہیں۔
ملک نے اندر نظم و نسق کو قائم رکھنا وزیر داخلہ کی ذمہ داری ہے ۔ امیت شاہ
نے اس بابت صرف وزیر اعلیٰ سے بات کرکے رپورٹ طلب کرنے پر اکتفاء کیا تاکہ
اگر کوئی صحافی پوچھ بیٹھے تو اس سے کہا جاسکے کہ رپورٹ کا انتظار ہے لیکن
شاہ جی نے بھی مذمت کرنے زحمت نہیں کی ۔ ارنب کے اندر یہ جرأت تو ہے نہیں
ہے کہ وہ ملک کے وزیر اعظم یا وزیر داخلہ کی جانب آنکھ اٹھا کر دیکھے اس
لیے سونیا گاندھی پر برس پڑے۔ پالگھر کے حادثے کی ذمہ داری بنیادی طور پر
چار فریقین پر آتی ہے۔ سب سے پہلے تو حملہ آور جنہیں اگر شک ہو گیا تھا
کہ یہ بچہ چور ہیں تو چاہیے تھا کہ انہیں پکڑ کر پولس کے حوالے کرتے الٹا
ان لوگوں نے پولس سے چھین کا مشکوک سادھووں کو مار ڈالا۔ کسی ہجوم کو قانون
ہا تھ میں لینے کی اجازت نہیں دی جاسکتی ۔ اس معاملے دوسری ذمہ داری ان
سادھووں کی ہے جنہوں نے لاک ڈاون کے باوجود مہاراشٹر سے گجرات جانے کا
فیصلہ کیا ۔ یہ کوئی ایسا قصور نہیں ہے کہ اسے جواز بنا کر ہجوم کو انہیں
ہلاک کرنے کی اجازت دے دی جائے ۔
پالگھر میں ہلاک ہونے والے اگر سادھو سنت نہ ہوکر تبلیغی جماعت کے وابستگان
ہوتے تو یہی میڈیا ان کے ڈانڈے داعش سے جوڑ دیتا لیکن اب کسی کی زبان پر
لاک ڈاوں کی خلاف ورزی کا سوال نہیں آرہا ہے ۔ باندرہ اسٹیشن کے پاس جمع
ہونے والے مسافروں کو مسجد سے جوڑنے والا میڈیا یہ نہیں پوچھ رہا ہے کہ ان
لوگوں نے ہائی وے کے بجائے گاوں دیہات کے درمیان سے سورت کا رختِ سفر کیوں
باندھا ؟ اس کے باوجود وہ سادھو مہاراشٹر سے صحیح سلامت گزر کر دادرہ نگر
حویلی کی سرحد پر پہنچ گئے۔ وہاں کی سر کار نے انہیں روک کر واپس بھیج دیا
۔ دادرہ نگر حویلی کا انتظامیہ مرکز کے تحت ہے ۔ وہاں کی پولس اگر ان کو
نکل جانے دیتی یا اپنے پاس روک کر صبح سویرے روانہ کرتی تو ممکن ہے یہ
حادثہ رونما نہیں ہوتا ۔ اس طرح معاملے کی بلا واسطہ ذمہ داری امیت شاہ پر
جاتی ہے ۔ کاش کے ارنب ان سے سوال کرتا ؟ کہ انہوں اپنی نگرانی میں کام
کرنے والے پولس والوں کو کیا سزا دی ؟
اس سانحہ کی چوتھی ذمہ داری مہاراشٹر سرکار کی بھی ہے ۔سابق وزیر اعلیٰ
دیویندر فڈنویس صوبائی حکومت پر دباو ڈالنے کا الزام لگا رہے ہیں۔ اس واقعہ
کی تفصیل جاننے کے بعد راتوں رات پولس دباو ڈال کر سادھو سنتوں کو قتلکروا
دینا کسی حکومت کے بس میں نہیں ہے ۔ ویسے اگر ماضی میں ہندوستانکے اندر
ہونے والے ہجومی تشدد کی طرح یہ سرکار بھی الٹاہلاک ہونے والے پر مقدمہ جڑ
دیتی یا بی جے پی کی صوبائی حکومتیں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ویڈیوز کے
باوجود نامعلوم لوگوں کے خلاف مقدمہ درج کرکے قاتلوں کو تحفظ فراہم کر تی
تو فردنویس کی شکایت بجا ہوتی ۔ مہا راشٹر کے وزراء بھی اگر قاتلوں کو
ضمانت دلوا کر ان کی پذیرائی کرتے تو ان کی مذمت بجا ہوتی لیکن یہ سب تو
یہاں نہیں ہوا ۔ حکومتِ مہاراشٹر نے فوراً اقدام کرتے ہوئے ا۰ا لوگوں کو
گرفتار کرلیا اور انہیں پولس حراست میں بھیج دیا ۔ اسی کے ساتھ سخت سزا
دلوانے کی یقین دہانی بھی کرائی ۔ اس سے قبل ایسا کسی حکومت نے نہیں کیا
تھا اس لیے ارنب کو ادھو سرکار کا شکریہ ادا کرنا چاہیے تھا ۔ ادھو ٹھاکرے
اگر بی جے پی اور شیوسینا کے مشترکہ وزیر اعلیٰ ہوتے ارنب یہی کرتے لیکن
چونکہ مہاراشٹر میں بی جے پی کے منہ سے کانگریس اور این سی پی نے نوالہ
چھین لیا ہے اس لیےمرکزی حکومت کی گود میں پلنے والے میڈیا کی جانب سے یہ
معاندانہ رویہ اختیار کیا جارہا ہے۔
(۰۰۰۰۰۰جاری)
|