امریکہ سے مقابلے کیلئے سپر پاور بننا ہوگا

امریکی میرینز نے اسامہ بن لادن کو پاکستان کے شہر ایبٹ آباد سے برآمد کر کے ہمارے تمام اداروں کو چاروں شانے چت کر کے رکھ دیا ہے۔ ایبٹ آباد ایک ایسی فوج چھاﺅنی ہے جہاں افواج پاکستان کی ممتاز ملٹری اکیڈمی کے علاوہ بلوچ رجمنٹ، فرنٹیر فورس اور میڈیکل کور کے ٹریننگ سنٹرز ہیں۔جہاں آئے روز فوج کی تربیتی سرگرمیاں جاری رہتی ہیں۔ اس لحاظ سے اسے ایک انتہائی حساس علاقہ ہی تصور کیا جائے گا۔ یہاں ہونے والی مختلف تقریبات کے سلسلے میں افواجِ پاکستان کے سینئرز کمانڈرز کی آمدورفت جاری رہتی ہے لہٰذا اس علاقے میں خفیہ ایجنسیوں کی ذمہ داری اور بھی بڑھ جاتی ہے کہ وہ اردگرد کے ماحول پر کڑی سے کڑی نظر رکھیں۔ اسامہ کو پکڑنے کے امریکی آپریشن سے چند روز قبل ہی چیف آف آرمی سٹاف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے پاکستان ملٹری اکیڈمی کی پاسنگ آﺅٹ پریڈ میں شرکت کی تھی۔ یقیناً ہمارے خفیہ اداروں نے اس تقریب سے قبل اردگرد خوب چھان پھٹک کی ہوگی۔ مشکوک مقامات اور افراد پر نظر رکھی ہوگی۔ کچھ اطلاعات یا پھر یوں کہہ لیجئے کہ امریکی پراپیگنڈہ کے مطابق یہاں اسامہ گزشتہ پانچ سال سے رہائش پذیر تھا۔ ظاہر ہے اس دوران پی ایم اے میں ٹریننگ کے کئی کورس پاس آﺅٹ ہوئے ہوں گے مگر نجانے ہماری خفیہ اہلکار اسامہ کے اس پراسرار گھر کو ہر بار کیوں نظر انداز کر گئے؟ یہ وہ سوال ہے جو زبان زد عام ہے ۔ جس کے لئے پوری دنیا کی انگلیاں پاکستان پر اٹھ رہی ہیں۔ جتنے منہ اتنی باتوں کے مصداق، ان کا ہر چھوٹا بڑا اپنے تئیں مختلف خدشات کا اظہار کر رہا ہے۔ ”اسامہ ہنٹ“ آپریشن کی کامیابی کا سہرا سجا کر سبکدوش ہونے والے سی آئی اے کے سربراہ جان پنیٹا نے پاکستان کی اس بے خبری کو ان الفاظ کا جامہ پہنایا ہے: ”اسامہ ایبٹ آباد میں پاکستان کی مرضی سے یا پھراس کی نااہلیت کی وجہ سے مقیم تھا“۔

اسی طرح امریکی میڈیا بھی آئی ایس آئی کے اسامہ کے ساتھ رابطوں کے بارے میں پراپیگنڈہ میں مصروف ہے۔ ایبٹ آباد آپریشن کے بعد امریکہ نے اسامہ کی لاش کی ویڈیو اور تصاویر بنائے بغیر جس عجلت میں اسے سمندر برد کیا اس سے دنیا میں اس کاروائی کے بارے میں شکو ک و شبہات پائے جاتے ہیں مگر حکومت پاکستان اور عسکری قیادت کی جانب سے فوری ردعمل نہ ہونے کے باعث دنیا بھر کے تمام حلقے امریکی پراپیگنڈے اور موقف کو تسلیم کرنے پر مجبور ہوگئے۔ اب پاکستان کے خلاف ایک یکطرفہ تنقید سامنے آرہی ہے۔ طوفان بدتمیزی کی کئی فٹ اونچی لہریں ہمیں بہائے لے جارہی ہیں۔ ہر کوئی ہمیں مجرم تصور کررہا ہے۔ اس صورتحال کا فائدہ اٹھا کر ہمارا روایتی حریف بھارت اور افغانستان دنیا کے سامنے مظلوم بن کر یہ واویلا کر رہے ہیں کہ دیکھا، ہم نہ کہتے تھے کہ پاکستان دہشت گردوں کی پشت پناہی کررہا ہے۔ دیکھا، دنیا کا ہر خطرناک دہشت گرد پاکستان سے برآمد ہوتا ہے۔ یقیناً یہاں کے ادارے ان کی ”سرکاری “ پشت پناہی کررہے ہیں۔ دنیا اب ان کے اس پراپیگنڈے کو درست تسلیم کررہی ہے۔ اب دنیا پاکستان کی بات سننے کو تیار نہیں۔ کوئی ہماری قربانیوں کو تسلیم کرنا نہیں چاہتا۔ کوئی بھی عقلی دلیل انہیں قائل نہیں کرسکتی۔

بہرحال پراپیگنڈہ کا یہ سونامی اگر کچھ دیر کے لئے تھما تو دنیا پر یہ حقیقت آشکار ہوجائے گی کہ آئی ایس آئی اور فوج کی مدد کے بغیر امریکہ کی خفیہ ایجنسی اور فوج دہشت گردی کی جنگ میں ذرہ سی بھی کامیابی حاصل نہ کرسکتی تھیں۔دونوں کے مشترکہ تعاون سے بہت سے دہشت گرد پکڑے گئے۔ بہت سی وارداتوں کی پیشگی اطلاع ملنے پر بڑے نقصان سے بچنا ممکن ہوا۔ اگر اسامہ کی ایبٹ آباد میں موجودگی سے آئی ایس آئی بے خبر تھی تو سی آئی اے کا نیٹ ورک بھی اسے تلاش کرنے میں ناکام رہا۔ یہ مصدقہ اطلاعات بھی ہیں کہ اسامہ کے ٹھکانے تک رسائی میں آئی ایس آئی کی بنیادی معلومات نے اہم کردار ادا کیا جسے امریکہ نے خود بھی تسلیم کیا ہے مگر انتہائی دھیمے انداز میں تاکہ اسامہ کو گرفتار کرنے کا سارا کریڈٹ سی آئی اے اور اس کے کمانڈوز کو جائے بلکہ اس کے اثرات اوبامہ ایڈمنسٹریشن تک پہنچیں جسے اگلے انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کے لئے ایسے ہی کسی سہارے کی اشد ضرورت تھی۔بہرحال آئی ایس آئی کی ان بنیادی معلومات کے تجزیے کے بعد امریکہ کی جانب سے مذکورہ کمپاﺅنڈ پر یکطرفہ حملے سے متعلق” اسٹریٹجک پارٹنر“ کو بے خبر رکھنا بہت بڑے دھوکے کے مترادف ہے۔ جو یقیناً ہمارے سیاسی اور عسکری بڑوں کے لئے مایوسی کے علاوہ عبرت انگیز بھی ہے کہ امریکہ نے ”یار کو شکار“ کرنے کی روایت برقرار رکھی۔ واقعی ہم امریکی یاری کے دھوکے میں بہت کچھ گنوا بیٹھے۔

امریکہ کی جانب سے اس غیر معمولی ، اچانک مہم جوئی اور دھوکہ دہی کا اندازہ شاید ہمارے کسی بھی ادارے کو نہ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ افواج پاکستان نے کور کمانڈرز کانفرنس میں اسامہ کی موجودگی اور امریکی آپریشن کے متعلقہ پیشگی اطلاعات، آپریشن سے متعلق لاعلمی اور بے خبری پر اپنی غلطی تسلیم کرتے ہوئے واقعے کی تحقیقات کا اعلان کیا ہے۔ائر چیف نے بھی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ 2مئی کو ریڈار جام نہیں بلکہ بند تھے کیونکہ انہیں مغربی سرحدوں کی جانب سے کسی بھی خطرے کی توقع نہیں تھی۔ اپنی غلطی کا اعتراف اس لحاظ سے ایک مثبت اقدام ہے کہ غلطی اپنی صفوں کو سیدھا کرنے اور ازسر نو ترتیب دینے کا موقع فراہم کرتی ہے۔ ایسی غلطیاں صرف ہمارے اداروں سے ہی سرزد نہیں ہوئیں بلکہ امریکہ سمیت عالمی طاقتیں بھی ان سے مبرا نہیں رہیں۔ 7دسمبر1941ءکو امریکہ کے پرل ہاربرنیول بیس پر جاپانیوں نے اچانک حملہ کر کے اسے اسلحے سازو سامان سمیت غرق کردیا تھا۔ اس حملے میں تین ہزار کے قریب امریکی فوجی مارے گئے اور اتنی ہی تعداد میں زخمی ہوئے۔ یہ واقعہ امریکی خفیہ ایجنسیوں کی بہت بڑی ناکامی تھی۔ اسی طرح 9/11کا واقعہ بھی سی آئی اے سمیت امریکہ کے تمام ایلیٹ خفیہ اداروں کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ یہ واقعہ اس وقت ہوا جب امریکہ دنیا کی واحد سپر پاور بن چکا تھا اور اس کی عسکری صلاحیت، ٹیکنالوجی اور جاسوسی آلات و طریقہ کار کی جدت کا کوئی مقابلہ نہ تھا۔ لیکن القاعدہ جو اس وقت غیر معروف تھی ایک منظم انداز سے امریکہ کے ہی طیارے بیک وقت اغوا کرکے تاریخ کی سب سے بڑی دہشت گردی میں کامیاب ہوئے۔ بلکہ ایک طیارے نے تو پینٹا گون کے ایک حصے کو تباہ کر کے رکھ دیا تھا۔ صدام کے کویت پر حملے کی پیشگی معلومات کے بارے میں بھی عالمی خفیہ ایجنسیاں ناکام رہیں۔ موساد جس کے درجنوں اہلکار عرب ممالک ، ایران اور عراق میں موجود تھے،صدام کی اس سوچ سے کلی طور پر ناواقف تھے۔ اسی طرح کارگل کا واقعہ ”را“ کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ممبئی حملے بھی بھارتی خفیہ ایجنسیوں کا ناکامی کا واضح اظہار ہیں۔ میں یہاں اپنی افواج اور خفیہ ایجنسی کی معصومیت کی وکالت نہیں کررہا بلکہ اس طرف اشارہ کررہا ہوں کہ ترقی یافتہ ممالک کے جدید ادارے بھی غلطیوں سے مبر انہیں بلکہ انہوں نے اپنی ان کمزوریوں اور سقم کی نشاندہی کر کے انہیں دور کیا۔ افواج پاکستان، آئی ایس آئی بھی اپنی کمزوریوں پر قابو پانے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ ایبٹ آباد آپریشن امریکہ کی جانب سے جدید ٹیکنالوجی کا ایک اظہار تھا جس کے توڑ کے لئے ہمیں بھی کمر بستہ ہوجانا چاہئے۔ جدید دفاعی ٹیکنالوجی صرف ڈیفنس بجٹ بڑھانے سے نہیں ملے گی بلکہ اس کے لئے ہمیں پاکستان کو سپر پاور بنانا ہوگا۔ سپر پاور وہ ہوتی ہے جس کے سیاسی اور انتظامی ادارے ایمانداری سے کام کر رہے ہوں۔ جس کی معیشت مضبوط ہو۔ جہاں تعلیم و ہنر پر بھرپور توجہ دی جاتی ہو۔جہاں ہر ادارہ ملکی مفاد کیلئے کام کر رہا ہو۔ دفاع وطن کی ذمہ داری ہم سب کی ہے۔ آئیے ہم سب مل کر پاکستان کو سپر پاور بنائیں کیونکہ اس خواب کی تکمیل سے ہی ہماری سالمیت، دفاع، وقار اور سب سے بڑھ کر وجود قائم رہے گا۔
Muhammad Amjad Ch
About the Author: Muhammad Amjad Ch Read More Articles by Muhammad Amjad Ch: 94 Articles with 69655 views Columnist/Journalist.. View More