آرایس ایس اور مسلم تنظیموں کا تاریخی پس منظر قسط 3 امارت شرعیہ پٹنہ

یہ ہندوستانی مسلمان، بالخصوص ریاست بہارواڑیسہ اور جھارکھنڈ کے مسلمانوں کی ایک منفرد اور ممتاز مذہبی تنظیم ہے۔ دراصل 1857ء کے انقلاب کے بعد سے ہی علمائے کرام کو یہ فکر ستانے لگی کہ کس طرح ملک کے مسلمانوں کو ان کی سماجی، ثقافتی اورمذہبی زندگیوں کے تعلق سے اسلامی تعلیمات اور شرعی اصولوں پرمتحد و منظم کیا جا سکے؟ کیونکہ اسلامی ریاست میں مرکزی طاقت کے تحت جمعیت ممکن ہے، جہاں ملک و ملت کے سارے اختیارات خلیفہ کے پاس ہوتے ہیں، لیکن غیراسلامی ممالک میں شرعی قوانین پرمبنی کسی ایک امیر کی نگرانی میں اس طرح کی تنظیم کی واقعی بڑی ضرورت تھی، تاکہ وہ مسلمانوں کی رہنمائی کرسکے، ان کا حوصلہ بڑھا سکے اور ان کو اس قابل بنا سکے کہ وہ اسلامی احکامات کی روشنی میں اجتماعی زندگی گزار سکیں۔ قوم کے اس درد کو محسوس کرتے ہوئے گاؤں پھنسہ،ضلع نالندہ کے ایک عالم دین ابو المحاسن مولانا محمد سجادؒ نے اس کی طرف پیش رفت کی اور اس اسلامی عمارت کا پورا خاکہ تیار کیا، چنانچہ 19 شوال 1339ھ بہ مطابق 26 جون 1921ء کو امام الہند حضرت مولانا ابوالکلام آزاد کی زیر صدارت پتھر کی مسجد پٹنہ میں علمائے کرام اور مشائخ کے ایک تاریخی اجتماع میں امارت شرعیہ بہار و اڑیسہ کا قیام عمل میں آیا۔ اس اجتماع میں شریک تقریباً 500 علما و مشائخ کی موجودگی میں خانقاہ مجیبیہ پھلواری شریف کے سجادہ نشیں حضرت مولانا سید شاہ بدرالدین قادریؒ امیر شریعت اوّل مقرر کیے گئے اورنائب امیر شریعت مولانا ابوالمحاسن محمد سجادؒ بنائے گئے۔اس موقع پرجو مجلس استقبالیہ بنائی گئی تھی اس کے صدر خانقاہ عمادیہ منگل تالاب کے بزرگ حضرت مولانا سید شاہ حسیب الحقؒ تھے۔ اس طرح علما و مشائخ کا یہ کارواں بلاتفریق مسلک و مشرب اور فکر ونظر جب آگے بڑھا تو اس نے مڑکر پھر کبھی نہیں دیکھا اور ملت اسلامیہ پر جب کبھی کوئی افتاد آئی تو اس نے سینہ سپر ہوکراس کا مقابلہ کیا۔

امارت شرعیہ کا بنیادی مقصد شرعی اصولوں کی بنیاد پر بلا تفریق مذہب و ملت انسانیت کے لیے انصاف قائم کرنا،لوگوں کو علم وعمل سے ہم آہنگ کرنا اوران کو ان کے ان حقوق سے روشناس کرانا جو اللہ نے ان پر یا ان کے لیے عائد کیے ہیں؛چنانچہ امارت شرعیہ تقریباً 97 سالوں سے مسلسل ملت کی ہمہ جہت خدمت و رہنمائی کرتی آرہی ہے۔ امت واحدہ کو ایک پلیٹ فارم پر متحد و منظم کرنے کے لیے تنظیم واتحاد،دعوت وتبلیغ،افتا وقضا،اصلاح معاشرہ،مسلم پرسنل لا کا تحفظ،فرقہ پرستی کے خلاف جدوجہد،فسادات وقدرتی حادثات کے موقع پر امداد رسانی وباز آباد کاری، ماہانہ اور وقتی امداد سے ضرورت مندوں کی حاجت روائی، غریب ویتیم لڑکیوں کی شادی، بیوگان اورطلبائے مدارس کووظائف جیسے تمام ملی،سماجی اوررفاہی امور میں کارہائے نمایاں انجام دیتی آرہی ہے۔ اللہ کے بندوں تک اللہ کا پیغام پہنچانے کے لیے باضابطہ مرکز الدعوۃ کے نام سے ایک شاندار عمارت مرکزی دفتر کی چوتھی منزل پر زیرتعمیر ہے۔نیزایک کلمہ کی بنیاد پرامت کے درمیان اتحاد و اتفاق قائم کرنے کے لیے امارت اپنے قیام کے اول دن سے ہی کوشاں ہے اور ہمہ وقت مسلمانوں کی شیرازہ بندی کے لیے فکر مند رہتی ہے،غرضے کہ فرقہ وارانہ فسا دات ہوں یا مسلکی بنیاد پر امت کو منتشر کرنے کی سازشیں، ہرموقع پرامارت شرعیہ نے مسلمانوں کے مفاد کی حفاظت کر کے انھیں واعتصموا بحبل اللہ جمیعاً کا سبق دیا ہے۔

تعلیم کی افادیت و اہمیت سے کسی کو مجال انکار نہیں۔ خود معلم انسانیت حضور پر نور محمد ﷺنے ہر مسلمان مرد اورعورت پرحصول علم کو فرض قرار دیا ہے،اسی وجہ سے مسلمانون کے درمیان تعلیم کو فروغ دینا امارت شرعیہ کا اولین ہدف رہا ہے؛خواہ وہ دینی تعلیم ہو یا عصر حاضر سے ہم آہنگ جدید تعلیم۔ایک طرف دینی تعلیم کے فروغ کے لیے المعہد العالی للتدریب فی الافتا و القضا، دارالعلوم الاسلامیہ اورتحفیظ القرآن جیسے ادارے قائم ہیں، تودوسری طرف تکنیکی تعلیم کے لیے مولانا منت اللہ رحمانی میموریل ٹیکنیکل انسٹی ٹیوٹ، مولانا منت اللہ رحمانی پارا میڈیکل انسٹی ٹیوٹ،امارت انسٹی ٹیوٹ آف کمپیوٹراینڈالیکٹرونکس اور ڈاکٹرعثمان غنی گرلس کمپیوٹرانسٹی ٹیوٹ پٹنہ میں قائم ہیں،نیز پٹنہ سے باہرپورنیہ،راوڑکیلا،مغربی چمپارن اور دربھنگہ وغیرہ میں بھی تکنیکی ادارے چل رہے ہیں،اس کے ساتھ ہی ایک وسیع تعلیمی نظام کے قیام کے منصوبے پر کام چل رہا ہے،جس کے تحت مختلف مقامات پر سی بی ایس ای کے طرز پر بارہویں تک کے معیاری اسکول کھولے جائیں گے ان شاء اللہ! اس کے علاوہ بنیادی دینی تعلیم کے فروغ کے لیے بھی امارت شرعیہ کی کوشش مثالی ہے۔اس کام کے لیے امارت شرعیہ نے خود کفیل نظام تعلیم کے تحت صوبے کے مختلف دیہاتوں میں مکاتب قائم کیے ہیں۔ امارت غریب و یتیم بچوں کو بنیادی اوراعلیٰ تعلیم سے روشناس کرانے کے لیے بھی ان کو بنیادی سہولتیں فراہم کرتی ہے۔ بہار،اڑیسہ اور جھارکھنڈ میں 600 سے زائد بے گھر بیواؤں کو مالی امداد فراہم کرتی ہے،اس کے علاوہ غریب خانوادوں سے تعلق رکھنے والے تقریبا 150 طلبا کو بنام تعلیمی وظیفہ ماہانہ مالی امداد بھی فراہم کرتی ہے،تاکہ وہ ملک کے مختلف مکاتب اور مدارس میں اپنی تعلیم کو جاری رکھ سکیں اوراس کے ساتھ ساتھ مختلف تکنیکی اداروں میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والے غریب طالب علموں کوبھی مالی امداد فراہم کرتی ہے۔10 سے زائد تکنیکی ادارے پہلے ہی سے چل رہے ہیں، جہاں درمیانی یا کم درجے کے خاندانوں سے تعلق رکھنے والے طالب علموں کے لیے جو دیگر اداروں میں زیادہ فیس نہیں دے سکتے، بلاتفاوت ذات،برادری اور مذہب کے بہت ہی کم فیس میں جدید تکنیکی تعلیم بھی فراہم کرتی ہے۔اسی طرح زلزلہ، سیلاب، آگ زنی قدرتی آفات کے موقع سے نہ صرف بہار،اڑیسہ اور جھارکھنڈ میں بلکہ قومی سطح پر لاکھوں متاثرین کے لیے بھی امداد اور ریلیف کا کام کرتی ہے۔نیز معاشرے میں کمزور اور بیمارلوگوں کی امداد کے لئے مولانا سجاد میموریل ہسپتال کے ذریعہ روزانہ طبی خدمات مہیا کی جا رہی ہیں۔امارت نہ صرف پٹنہ بلکہ مختلف مقامات پر آنکھوں کے مفت علاج کے لیے مختلف طبی کیمپ اور حفاظتی کیمپیں لگاتی رہتی ہے۔بہاراور جھارکھنڈ کے مختلف حصوں میں اس کے مزید تین ہسپتال اور طبی مراکز بھی قائم ہیں۔

امارت شرعیہ کی دوسری اہم سرگرمیوں میں دارالقضا کا نظام بھی ہے،جہاں شرعی قانون کے مطابق مسلم پرسنل لا سے متعلق مختلف معاملات کے فیصلے کیے جاتے ہیں۔دارالافتا امارت شرعیہ کا ایک بہت ہی اہم حصہ ہے جہاں مسلمانوں کے عائلی مسائل کو شریعت اسلامی اور کتاب و سنت کے مطابق حل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس کے لیے مرکزی دارا لقضا کے علاوہ 56 مقامات پرذیلی دارا لقضا بھی قائم ہیں،جہاں مسلمانوں کے طلاق و نکاح، فسخ وخلع،وصیت اوروراثت سے متعلق مسائل کم خرچ اور کم وقت میں کتاب و سنت کے مطابق حل کیے جاتے ہیں۔ امارت شرعیہ کا نظام قضا آج نہ صرف ہندوستان میں اپنی نوعیت کا واحد نظام ہے؛ بلکہ پوری دنیا میں اس کو نظیر بنایا جا رہا ہے۔ امریکہ، کینیڈا، افریقہ،ویسٹ انڈیز،انگلینڈ کے علاوہ کئی یورپی ممالک کے علما وفضلااور ماہرین قانون کی ٹیم نے امارت شرعیہ کے اس نظام کو دیکھا،اس کی تحسین کی اور اس کو نمونہ بنا کر اپنے اپنے ممالک میں اس نظام کو نافذ کیا۔ ان ممالک کے علما نے امارت شرعیہ آکر قضا کی تربیت بھی حاصل کی اور اپنے اپنے ملکوں میں یہاں کے طرز پر دار القضا کے نظام کو قائم کیے ہوئے ہیں۔

اسلام میں غریبوں، بیواؤں، یتیموں اور محتاج لوگوں کی مدد کرنے کی بہت فضیلت ہے۔ اس مقصد کے لیے نبی ﷺ کے زما نے میںبیت المال کا نظام قائم کیا گیا تھا،جس کے ذریعے ضرورت مند لوگوں کی مدد کی جاتی تھی۔اسی کو مد نظر رکھتے ہوئے امارت شرعیہ کے پاس شروع ہی سے بیت المال کا نظام ہے،جس سے ہزاروں بیواؤں اور یتیموں کو فائدہ پہنچتا ہے۔ بیت المال امارت شریعت کا بہت ہی اہم حصہ ہے جو مسلمانوں سے زکات اورعطیات وغیرہ جمع کرتا ہے اوران جمع شدہ فنڈز کو ضرورت مند لوگوں میں تقسیم کرتا ہے اور امت مسلمہ کی تعمیر و ترقی اور وطن عزیز کے ساتھ خیرو فلاح کی تمام مہم میں ہمہ وقت اپنا حصہ درج کرواتا ہے۔
قسط جاری۔۔۔۔۔۔

Rameez Ahmad Taquee
About the Author: Rameez Ahmad Taquee Read More Articles by Rameez Ahmad Taquee: 89 Articles with 65854 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.