لاکھ لاکھ بارشکرہے اللہ پاک کا جس نے حدیکھنے کے لیے
حسین مناظر،رنگین نظارے،سورج کی امید بھری کرنیں،چاند کی پر سکون روشنی،
ستاروں کی بیکراں جھلملاہٹ اور زمین کے فرحت بخش مناظر. سننے کے لیے من
موہنی آوازیں. محسوس کرنے کے لیے محبتیں،مسرت بخش ساعتیں،پیاروں کے ساتھ
گزرتے لمحے اور تکلیفوں کا سامنا کرنے کے لیے ہمت اور بہادری. مگر اس کے
علاوہ بھی قدرت کے عطا کردہ ہر نعمت کا حقیقی لطف تب محسوس ہوتا ہے،جب صحت
اچھی ہو. صحت نا ہو تو سب کچھ بیکار سا لگتا ہے. کیوں کہ "جان ہے توجہاں
ہے".
صحت جسمانی اور ذہنی طور پر درست ہونے کی حالت کو کہا جاتا ہے. یا بیماریوں
اور کمزوریوں کی عدم موجودگی کا نام صحت ہے.
عام طور پر جسمانی اور ذہنی صحت سر فہرست ذکر کئے جاتے ہیں. تاہم
روحانی،جذباتی،اور معاشی صحت بھی مکمل صحت کو بحال کرنے میں معاون ہیں.
مثال کے طور پر؛ روحانی طور پر مطمئن انسان،پر سکون محسوس کرتا ہے. ذہنی
صحت کا تعلق بھی روحانی اطمینان سے ہے. معاشی طور پر خوشحال شخص بیماری کی
حالت میں آسانی سے علاج کروا سکتا ہے،متوازن غذا خرید سکتا ہے،معاشی بحران
کی فکر سے آزاد رہ کر ذہنی دباؤ سے بھی محفوظ رہ سکتا ہے.
جسمانی صحت
جسمانی صحت سے مراد یہ ہے کہ؛ جسم کے سارے اعضا بھرپور نمونے سے کام کر
سکتے ہوں. اگر کوئی جسمانی طور پر صحت مند ہے تو،وہ اپنے روزمرہ کے معاملات
بخوبی نبھا سکتا ہے. جسمانی صحت میں ہر عضو کی مخصوص اہمیت ہے. آنکہیں کام
نا کریں تو،دنیا اندھیری اور زندگی بے رونق ہو جائے. سماعت کی حس سے محروم
ہو جائے تو، نا چاہتے ہوئے بھی معاشرے سے غافل ہو جائے، سننا تو چاہے مگر
سنے کیسے؟ اسی طرح نظام انہضام متاثر ہو تو، صحت بخش غذائیں بے لطف اور بے
کار بن جائیں. جسمانی صحت بحال رکھنے کے لیے ورزش اور متوازن غذا کی بھی
خاص اہمیت ہے. ورزش کرنے سے خون کی گردش بہتر ہوتی،ہر عضو کو تازگی ملتی،
پھیپھڑوں میں آکسیجن کی فراہمی بہتر نمونے سے ہوتی، پورے جسم کی توانائی
بحال ہوتی، پٹھے اور نسیں لچکدار ہوتیں،کولیسٹرول میں کمی واقع ہوتی،جسم
فعال ہو جاتا، اور ذہنی صحت بھی سدھر جاتی ہے. پوری نیند بھی صحت کے لیے
معاون ہے.
لوگ توازن قائم رکھنے کےلئے دوائیں بھی استعمال کرتی ہیں. صفائی ستھرائی کا
خیال رکھنا چاہیے اور بیماریوں سے بچاؤ کی مجوزہ ویکسینیشن کروانی چاہیے.
صحت مند رہنے کے لیے صحت مند طرزِ عمل اختیار کرنا بیحد ضروری ہے. جسمانی
صحت ذہنی صحت سے مل کر مکمل صحت کو بحال رکھتی ہے. ایک تحقیق کے مطابق
اداسی/depression کے لیے استعمال ہونے والی دوائیں جسمانی صحت کو بگاڑ سکتی
ہیں. یہ ایک حقیقت ہے کہ، دوائوں میں کئی منفی اثرات ہوتے ہیں. اس لیے بہتر
یہ ہے کہ، قدرتی طریقہ علاج اختیار کیا جائے اور جب تک ضروری نہ ہو تب تک
دوائوں سے پرہیز کریں اور دوائوں کے لیے ماہر ڈاکٹر کا مشورہ ضروری ہے.
اچھی صحت کے لیے ضروری ہے کہ؛ تماک،الکحل اور غیر قانونی دوائوں سے پرہیز
کی جائے.
ذہنی صحت
ذہنی صحت کی نسبت جذباتی اور نفسیاتی طور پر صحت مند ہونے سے ہے، فعال طرز
زندگی کے لیے ذہنی صحت اتنی اہم ہے جتنی جسمانی صحت. ذہنی صحت کی درجہ بندی
فقط افسردگی/depression یا تشویش/anxiety کی عدم موجودگی سے نہیں کی جا
سکتی، اس کا دار و مدار کسی شخص کے زندگی سے لطف اٹھانے، تکلیفوں کا مقابلہ
کرنے، خاندان اور معیشت میں توازن قائم رکھنے، محفوظ محسوس کرنے، اور اپنی
صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کی قابلیت پر ہے. ذہنی اور جسمانی صحت کا آپس
میں گہرا تعلق ہے.
بیماری کے سبب کسی شخص کے روزمرہ کے کام متاثر ہوں تو یہ اس کو ذہنی دباؤ
میں مبتلا کر سکتا ہے. ذہنی نا چاقی جیسا کے،افسردگی یا anorexia جسمانی
وزن اور سارے کاموں کو متاثر کر سکتا ہے. یہ ضروری ہے کہ؛ صحت کو مکمل طور
پر بحال کرنا چاہیے، نا کہ کسی ایک، دو عناصر پر دھیان دینا چاہیے.
صحت کئی عناصر پر دار و مدار رکھتی ہے،جن میں سے کچھ عناصر درج کرنے کی
کوشش کرتا ہوں.
جینیاتی عناصر/genetic factors. کچھ لوگ اپنے والدین سے ایسے جینس پا کر
پیدا ہوتے ہیں،جن کی وجہ سے مخصوص بیماریوں کا خدشہ ہوتا ہے.
ماحولیاتی عناصر
کبھی تو صحت پر اثر انداز ہونے کے لیے ماحول ہی کافی ہوتا ہے، کبھی پھر لوگ
جینیاتی طور پر مرض کے خطرے میں ہوتے ہیں اور ماحول اس خطرے کو حقیقت میں
بدل دیتا ہے. اس کے سوا بھی کچھ عناصر ہوتے ہیں، جیسا کہ؛ کوئی کہاں رہتا
ہے؟ اس کے آس پاس کا ماحول،روزگار کے حالات وغیر.
اس سے پہلے کہ کوئی بیماری یا کمزوری صحت کو بگاڑ کہ رکھ دے، بہتر ہوگا کہ
احتیاطی اقدام اٹھائے جائیں، اور صحت مند طرزِ زندگی اختیار کی جائے، تا کہ
ممکن حد تک صحت مند رہا جا سکے.
کچھ اقدام ذکر کر رہا ہوں؛
متوازن غذا کھائی جائے، ہفتے میں کم سے کم 150 منٹ سخت ورزش کی جائے. بہتر
ہوگا اگر روزانا ورزش کی جائے یا 45 منٹ پیدل چلا جائے. جس بیماری کا امکان
ہو اس کا معائنہ کروانا چاہیے، تا کہ وقت پر علاج ہو سکے. جو بیماریاں
خاندان میں جینیاتی طور منتقل ہوتی رہی ہوں، ان سے بچاؤ کی احتیاطیں کی
جائیں. ویکسینیشن کر وائی جائے. ذہنی دباؤ کو قابو کرنے کے طریقے سیکھے
جائیں.
ذہنی دباؤ سے بچنے کے کچھ اصول مندرجہ ذیل ہیں؛
معاشرے کے افراد سے بغیر کسی توقع کے خوش گوار رویا قائم رکھیں، حسد سے
بچیں. بردباری کی عادت بنائیں. معاف کرنا سیکھیں. سب سے بہترین اصول یہ ہے
کہ، صحت کے لیے استعمال میں لائے ہوئے سارے اسباب کے باوجود یہ بات ذہن
نشین کرلیں "اور اگر اللہ تجھے کوئی برائی پہنچائے تو اس کے سوا اس برائی
کو کوئی دور کرنے والا نہیں اور اگر اللہ تجھے بھلائی پہنچائے تو وہ ہر شے
پر قادر ہے۔ (الانعام،آیت 17) رب کی رضا پر راضی رہنے سے دکھ بھی سکھ میں
تبدیل ہو جاتا ہے.
حقیقتاً ذہنی صحت اس وقت برباد ہوتی ہے،جب توقعات کے خلاف کچھ ہوتا ہے. جب
انسان کی ساری کوششوں کے باوجود توقع یہ ہو کہ، "زمین پر جتنی مخلوق ہے سب
فنا ہونے والی ہے" (الرحمٰن،آیت 26) تو نہ اس کی توقع کے خلاف کچھ ہوگا اور
نا ہی اس کی ذہنی صحت پر اثر پڑے گا کیونکہ تندرستی ہزارنعمت ہے۔
|