قارئین جس وقت یہ تحریر لکھی جارہی ہے اس وقت تک دنیا بھر
میں کرونا وائرس 2,38,826/انسانی جانیں نگل چکا ہے جبکہ 33،46،297/- انسان
ایسے ہیں جن کو یہ مرض لگ چکا ہے۔ ہو سکتا ہے جب تک یہ تحریر اخبارات میں
شائع ہو مزید ہزاروں زندگیاں ختم ہو چکی ہوں۔ جبکہ پاکستان میں 18,144 مریض
اس موذی وباء کا شکار ہو چکے ہیں اور 417افراداس جہان فانی سے گزر گئے
ہیں۔اسی طرح پنجاب کی بات کی جائے تو پنجاب میں تمام صوبوں سے زیادہ مریض
کنفرم ہو چکے ہیں۔ جبکہ مظفر گڑھ میں بھی صورتحال کافی تشویشناک بتائی
جارہی ہے۔ اس وائرس کیوجہ سے پوری دنیا پریشان ہے اور اس کا علاج تلاش کرنے
میں لگی ہے اور اس سے بچنے کی تدابیر اپنا رہی ہے اور اپنے شہریوں کو اس سے
بچانے کی پوری کوشش کررہی ہے۔اسی طرح حکومت پاکستان نے بھی پورے ملک میں
جزوی طور پر لاک ڈاؤن کر رکھا ہے اور بہت سارے کاروبار کو چلنے کی اجازت
دے رکھی ہے۔ تاکہ یہ وباء بھی نہ پھیلے اور لوگ بھوک سے بھی نہ مریں۔ اسی
طرح لوگوں کی سہولت کیلئے بھی مختلف پروگرامز ترتیب دئیے جا رہے ہیں۔ جن
میں جس میں احساس ایمرجنسی کیش پروگرام، احساس ایمرجنسی راشن پروگرام، اسی
طرح متاثرہ لوگوں تک یہ سہولیات پہنچانے کیلئے کرونا ریلیف ٹائیگر فورس کا
قیام بھی عمل میں لایا جا رہے تاکہ لوگوں کو گھروں میں راشن مہیا کیا جا
سکے اور لوگ گھروں سے باہر نہ نکلیں۔ اس پر بہت سارے لوگ تنقید بھی کررہے
ہیں اور تائید بھی کررہے ہیں۔ جو کہ ان کا حق ہے مثبت تنقید سے ہی بہترین
معاشرے بنتے ہیں۔یہ بات ہر شخص جانتا ہے کہ پاکستان پر جب جب کوئی مصیبت
آئی۔ کوئی بھی ناگہانی آفت آئی ہماری فورس، ہماری اپنی فوج ہمیشہ سب سے
آگے آتی ہے۔ اس خطرناک وائرس کو دیکھ کر جب کچھ ڈاکٹر گھبرا گئے اور
ڈیوٹیاں چھوڑنے لگے تو ہماری پاک فوج کے جانباز ڈاکٹرز نے ڈیوٹیاں سنبھال
لیں جس سے ڈاکٹرز کو حوصلہ اور ہمت ملی جس سے وہ ایک بار پھر جوش وجذبے سے
خدمت خلق میں لگ گئے اور اب لگ بھگ 1500مریض صحت یاب ہو کر واپس اپنے گھروں
کو جارہی ہیں اور یہ سلسلہ تیزی سے اب شروع ہو چکا ہے۔ مگر اس کے برعکس ضلع
مظفر گڑھ کی تحصیل جتوئی میں حالات کسی اور طرف اشارہ کر رہے ہیں ۔ حالات
خطرے کی گھنٹی بجا رہے ہیں۔ لوگ خوف کا شکار ہیں اس کی وجہ صرف انتظامیہ کی
نااہلی ہے ۔ کیونکہ شہری سوچنے لگے ہیں کہ جہاں ابھی تک انتظامیہ نے پورے
شہر میں کرونا سے بچاؤ کیلئے کلورین سپرے ہی نہیں کرایا۔ تو وہ دیگر
انتظامات کیسے سنبھالے گی۔ یہاں پر آئے روز لوگ آٹے کیلئے پریشان ہیں
دھکے کھا رہے ہیں۔ لائنوں میں لگے رہتے ہیں اور شام کو واپس خالی ہاتھ جاتے
ہیں۔ ایسا کیوں ہو رہا ہے۔؟؟؟کیا اس شہر کا کوئی ولی وارث ہے بھی یا نہیں۔
کیا یہاں کے آفیسران سے کوئی پوچھنے والا ہے یا نہیں۔ گزشتہ دنوں کچھ
خبریں اخبارات کی زینت بنیں کہ اسسٹنٹ کمشنر من پسند لوگوں میں آٹا تقسیم
کرارہے ہیں اگر ایسا ہے تو یہ بہت ہی خطرناک صورتحال ہوگی۔ اس سے لوگوں میں
مزید اضطراب بڑھے گا۔ لوگوں کی پریشانی میں اضافہ ہوگا۔ اسسٹنٹ کمشنر جو کہ
کسی بھی تحصیل ہیڈکوآرٹر کے سول معاملات کا انچارج ہوتا ہے اگر وہ ہی اپنے
علاقہ کے عام لوگوں سے ناانصافی کرے گا تو لوگوں کا گورنمنٹ کے اقدامات سے
اعتماد اٹھ جائے گا اور وہ باہر نکلیں گے۔ اور اگر لوگ گھروں سے باہر نکلے
تو یہ صورتحال بہت زیادہ خطرناک ہوگی۔ کیونکہ اس سے لوگوں کا میل جول پیدا
ہوگااور ایسا ہوا تو پھر اس شہر کا پھر اللہ ہی حافظ ہوگا۔ مقامی انتظامیہ
کو چاہے اب وہ سونا چھوڑیں اور اپنی ڈیوٹی کو اچھے طریقے سے نبھائیں۔کیونکہ
ا س مرض پر امریکہ جیسا طاقتور ملک رو رہا ہے تو اس کے مقابلے میں ہم کیا
ہیں ہمیں ضرور سوچنا ہوگا۔ جہاں اتنا خوف کا منظر ہے یہیں پر کچھ اچھے
مناظر بھی ہیں جیسے یہاں کے سابق ایم پی اے سردار چنوں خان لغاری، سردار
لیاقت علی خان لغاری اور معروف سیاسی و سماجی شخصیت سردار طارق خان غزلانی
نے اپنی اپنی مارکیٹس کے کرائے داروں کو کرائے تین تین ماہ کیلئے معاف کر
دئیے۔اسی طرح اسی ضلع کی سماجی تنظیمیں ایمزآرگنائزیشن، سائیکوپ وغیرہ بھی
سماجی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہی ہیں اور گھروں میں راشن، ماسک، سینی
ٹائزر وغیرہ پہنچا رہی ہیں۔ جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اس دھرتی کے لوگ تو
اس دھرتی سے پیار کرتے ہیں۔ کیا باہر سے آئے آفسیرز یہاں صرف پیسہ کمانے
کیلئے آئے ہیں کیا ان کے بھی کچھ فرائض ہیں یا پھر خود کو انگریزوں کی
اولاد ثابت کریں گے۔ جو چاپلوسی کرے اسی کو نوازتے رہیں گے۔قارئین! آپ کے
علم میں یہ بھی ہونا چاہیے کہ جتوئی میں ایسے لوگوں کی لسٹ بھی سوشل میڈیا
پر گردش کرتی رہی ہے جو باہر کے ممالک سے آئے ہیں مگر ان کا کچھ پتہ نہیں
اور نہ ہی ان کو قرنطینہ میں رکھا گیا ہے۔ جو کہ یہاں کی انتظامیہ کی نا
اہلی ہے۔ جبکہ آٹا تقسیم کرنے کے جتنے بھی پوائنٹس بنائے گئے ہیں ان پر بے
ہنگم سا رش رلگا رہتا ہے جن کی تصاویر اور ویڈیوز بھی موجود ہیں۔جبکہ کیش
پروگرام سنٹرز پر بھی صورتحال اس سے بھی بدتر ہیں۔ اسی طرح اندرونِ شہر اور
مضافات میں بھی سپرے نہ کرانا انتظامیہ کی ناہلی ہے یا پھر کچھ اور بھی ہو
سکتا ہے۔ کیونکہ بہت سارے لوگ ایسے حالات میں بھی رب سے نہیں ڈرتے جب موت
سر پر ہی کیوں نہ منڈلا رہی ہو۔ اس شہر میں ایسی لاقانونیت ہے کہ ہر کوئی
اپنی مرضی کررہا ہے۔ لوٹ مار والے 8171 کے میسجز پر بھی سادہ لوح عوام کو
لوٹ رہے ہیں۔ غریب عوام سے ان حالات میں بھی پیسے ٹھگ رہے ہیں افسوس ان سے
بھی پوچھنے والا کوئی نہیں۔ ایل پی جی گیس کی قیمتیں کم ہو گئی ہیں مگر اس
شہرتازہ اطلاع کے مطابق 140روپے فی کلو پر فروخت ہو رہی ہے اس مافیا سے بھی
پوچھنے والا کوئی نہیں۔ پٹرول پمپس پر پٹرول کے پیمانے ٹھیک نہیں پٹرول
پورا نہیں ملتا ان سے بھی کوئی نہیں پوچھتا۔ سبزی بیچنے والا دس والی چیز
ب20 روپے کی فروخت کرنے پر بضد ہے۔ اور انتظامیہ کہیں نظر نہیں آرہی کہ اس
لاقانونیت کو روکے یا کم کرے۔ اس شہر کے لوگ پوچھتے ہیں کہ وہ جائیں تو
کہاں جائیں۔ انصاف مانگیں تو کس سے مانگیں۔ شہریوں کا کہنا ہے کہ یہ تو
انصافیوں کی حکومت ہے پھر عوام کو انصاف کیوں نہیں مل رہا۔ کیا ان کے پاس
انصاف کرنے والے آفیسر نہیں ہیں۔ کیا وہ جانوروں کے ریوڑ کی طرح چپ چاپ
سہتے رہیں ،چلتے رہیں اور خاموش رہیں۔ اس شہر کے مسائل پر لکھا جائے تو اس
شہر کے باسیوں کے ہزاروں مسائل ہیں جو کہ سالوں سے حل طلب ہیں مگر ان مسائل
کے حل کیلئے نہ تو سیاستدان دلچسپی رکھتے ہیں اور نہ ہی اس شہر کی انتظامیہ۔
اس شہر کے لوگ لاوارث سے لگتے ہیںخدا را ان حالات میں کم از کم آنکھیں
کھولیں اور اس شہر کو اپنا شہر سمجھیں اللہ نہ کرے کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم
تو ڈوبیں گے صنم ساتھ میں تم کو بھی لےڈوبیں والی کہانی نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ
اس شہر کے منتخب نمائندگان کو اس شہر کی عوام کا صحیح معنوں میں خادم بنائے
جبکہ انتظامیہ کو نیند سے جگا دے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔
آمین
|