پاکستان میں سیاست کاحال سب کے سامنے ہے۔سیاستدانوں کی
صورتحال سے بھی آگاہ ہیں۔پاکستان تحریک انصاف کی شکل میں جو نئی قیادت
سامنے آنے خواب تھا وہ بھی چکنا چور ہوچکا ہے۔دوسری طرف بائیں بازو کی
سیاست کرنے والے منتشر گروپ ہیں ۔جو آج تک مذہبی لوگوں کی طرح باجماعت
نماز ادا نہیں کر سکتے ہیں۔ہر کسی نےاپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنا رکھی
ہے۔الغرض بائیں بازو کی سیاست بھی دائیں بازو کی طرح ختم ہو کر رہ گئی
ہے۔بس لکیر پیٹنے والی بات رہ گئی ہے اور لکیر پیٹی جاررہی ہے۔جس کے نتائج
سامنے ہیں۔
قیادت کا شدید بحران ہے۔محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد ملک قیادت سے
محروم ہے۔بلاول نئی قیادت کے طور سامنے نہیں آسکے ہیں ۔سیاسی ماحول جمود
کا شکار ہے اور سیاست محلاتی سازشوں میں گری ہوئی ہے۔غیرجمہوری اور غیر
سیاسی قوتوں نے آج کی سیاست کو رکھیل بنا رکھا ہےاور اشاروں پر نچا رہی
ہیں۔
ملک کی مذکورہ سیاسی صورتحال میں پارلیمانی سیاسی جماعتیں سمجھوتے کرتی ہیں
اور کھیل کا حصہ بننے کی تگ ودو میں لگی رہتی ہیں ۔جس کی بڑی وجہ سیاست
دانوں کی بدعنوانیاں اور رکرپشن ہوتی ہےجس پر وہ مقتدر قوتوں سے بلیک میل
ہوتے رہتے ہیں۔نوازشریف اور آصف علی زرداری اور ان کے سیاسی ہم راہیوں
کاحال سب کے سامنے ہے۔مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کہنے کو تو بڑی جماعتیں
ہیں مگر دونوں جماعتوں کی سیاسی قوت بکھر چکی ہے۔منظم اور اجتماعیت ٹوٹ
پھوٹ کر داخلی گروہ بندیوں کا شکار ہیں۔
دونوں جماعتوں کے پاس قیادت نہیں رہی ہے۔کارکن بدل ہیں ۔الیکشن سے پہلے
مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کے جو کارکن تحریک انصاف میں چلے گئے تھے۔انہیں
بھی شدید دھچکا لگا ہے۔نتیجہ یہ نکلا ہے کہ کارکنان کے اعتماد کو ٹھیس
پہنچی ہے اور قیادت سے متنفر ہوئے ہیں۔
ایسے لگتا کہ ہم ایک پھر سے ضیا دور میں جارہے ہیں ۔جب سیاست کو گالی
بنادیا گیا تھااور جگہ جگہ سیاسی گفتگو سے پرہیز کریں اور سیاسی گفتگو منع
ہے کہ بورڈ لگادیئے گئے تھے۔ایسی صورتحال میں عوامی حقوق مسخ ہوتے ہیں ۔عوام
کی آواز دبا دی جاتی ہے۔جہنم کا خوف اور قبر کے عذاب کا خوف مسلط کیا جاتا
ہےتاکہ عوام بولنے کی جسارت نہ کریں۔
ملغوبہ حکومت کے چال چلن بھی کچھ ایسےہی دیکھائی دے رہے ہیں۔ سیاسی قوتوں
کو کمزور کرنے اور کرپٹ ڈکلیئر کرکے آگے چل کر قومی حکومت یا صدارتی نظام
کے نام سے عوام کے حقوق پر شب خون مارے گی۔سیاسی کارکنوں پر ذمہ داری عائد
ہوتی ہے کہ خود کو منظم کریں ۔خود قیادت کریں ۔
نوجوان ،طلبہ،ڈاکٹر ز،مزدور،کلرکس،اساتذہ،ہیلتھ ورکرز ،میڈیا ورکرز اور
دوسرے گروپس اور چھوٹی سیاسی جماعتیں آپس میں رابطہ کاری کو فروغ دیں۔کم
ازکم ضلعی سطح پررابطہ کمیٹیاں بنائی جائیںاور اپنی قوتوں کومجتع کیا جائے
۔اس حوالے سے گزشتہ دنوں تحریک صوبہ پوٹھوہار کی جانب سے ورچوئل میٹنگ کا
انعقاد میں کیا گیا ۔ جس میں عوامی فرنٹ تشکیل دینے پر اتفاق ہوا۔دوسری
جانب بائیں بازو کے چند گروپ بھی ویب میٹنگز کر تے ہوئے دیکھائی دیئے ہیں
اور ورکرز یکجہتی کمیٹی تشکیل دینے میں کامیاب ہو گئے ہیں ۔
علاقائی سیاسی جماعتوں اور گروپوں کا رابطہ کاری کا رجحان اچھی پیش رفت
ہے۔عوامی حقوق اور مسائل کے حوالے سے تمام تر صورتحال پوری طرح واضع ہے۔بحث
اور طویل مشاورت کی ضرورت باقی نہیں رہی ہے۔ایک ہی نکتہ عوامی اتحاد اور
یکجہتی قابل غور اور مشاورت کا متقاضی ہےکہ تمام طبقات ،قومی و لسانی
اکائیاں ،ورکنگ فورسز اجتماعی نظم پر متفق ہوجائیں اور جدوجہد کا آغاز
کریں۔
عوامی فرنٹ کی تشکیل حالات کا تقاضا ہےاور وقت کی اشد ترین ضرورت ہے۔نئی
قیادت کی تعمیر کا بہترین ذریعہ ہے۔مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی سیاسی بانجھ
پن کا شکار ہیں۔ملک و قوم کو نئی قیادت نہیں دے سکتی ہیں ۔قیادت کا تعمیر
کا فریضہ عوام کو خود ہی ادا کرنا پڑے گا۔سیاسی کارکنان جو متفق ہوں دیئے
گئے نمبر 03455279224 پرضرور رابطہ کریں۔
|