3مئی 2011کو روزنامہ جناح میں
برادرم تنویر احمد کا کالم’ مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کرو گے ‘نظر سے گزرا
جس میں انہوں نے ضلع میانوالی میں واقع ایک خوبصورت علاقے وادی نمل کے
لوگوں کے مسائل کو اور ان کی مشکلات کو اجاگر کیا تھا جس میں انہوں نے لکھا
تھا کہ جب پورے ملک میں سیلاب نے تباہی مچا رکھی تھی تو ندی نالوں میں
طغیانی کی وجہ سے وادی نمل کی خوبصورت جھیل’ ’نمل جھیل“ کے حجم میں اضافہ
ہونے کی وجہ سے گردو نواح میں کھڑی فصلوں کو تباہ کر کے رکھ دیا باقی سیلاب
ذدہ ایریا میں تو حکومتی امداد پہنچتی رہی اور ان متا ثرین کا مداوا ہوتا
رہا لیکن وادی نمل کے رہائشی آج بھی حکومتی امداد کے منتظر ہیں کیونکہ ان
کا دارومدار کھیتی باڑی پر ہوتا ہے اور ان دنوں گندم کی کٹائی کے موقع پر
وہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے امید کے دیئے جلائے حکومتی امداد کے منتظر ہیں
جب میں یہ تحریر پڑھ رہا تھا تو سارے واقعات میرے ذہن میں کسی ڈاکو مینٹری
فلم کی طرح چلنے لگے کہ جب پاکستان میں سیلاب نے تباہی مچائی ہوئی تھی اور
عکس ویلفیئر ٹرسٹ کے پلیٹ فارم سے ہم متاثرین سیلاب کے لئے امداد اکٹھی کر
رہے تھے تو ضلع میانوالی میں وادی نمل کے رہائشیوں کا جذبہ اور خلوص دیدنی
تھا خود مسائل میں گھرے ہونے کے باوجود ہمیں متاثرین سیلاب کی بحالی کے لئے
بڑھ چڑھ کر فنڈز اور امداد مہیا کی اپنی فصلیں تباہ ہونے کے باوجود اپنے
دکھی بھائیوں کے لئے غلے اور اناج کے انبار لگا کر ایثارو قربانی کی مثالیں
رقم کیں لیکن آج تک ان کی حکومتی سطح پر شنوائی نہ ہونا باعث حیرت بھی ہے
اور افسوس بھی ہے عوامی خدمت کے دعویداروں اور عوامی خادموں کا اس ایریا
میں نہ پہنچنا کوئی تعجب کی بات نہیں کیونکہ یہاں پر فوٹو سیشن کروانے کے
لئے میڈیا جو موجود نہیں ہے اور ہمارے حکمران صرف وہاں ڈرامے رچاتے ہیں
جہاں انہیں میڈیا کی کوریج مل رہی ہو۔
مجھے یاد ہے وہ ذرا ذرا ،جب 28اپریل 2008ءمیں پہلی بار اس پسماندہ علاقے
میں وزیر اعظم پاکستان جناب یوسف رضا گیلانی صاحب نمل کالج کے افتتاح کے
لیے تشریف لائے تو وادی نمل کے رہائشیوں کی خوشی دیدنی تھی وہ خوشی سے
پھولے نہیں سما رہے تھے کیونکہ اس پسماندہ علاقے میں پہلی بار کوئی بڑی
حکومتی شخصیت تشریف لائی تھی اور اس دن یہ سادہ لوح لوگ بڑے پر امید تھے کہ
آج وزیر اعظم ہمارے علاقوں میں ترقیاتی کا موں کا اعلان کر کے ہماری قسمت
کو بد ل دیں گے اور اب اس علاقے میں ترقیاتی کاموں کا جال بچھ جانے کی وجہ
سے پسماندگی ختم ہوجائے گی اور ہمارے مسائل حل ہو جائیں گے وزیر اعظم نے
بھی پہاڑوں میں گھری ہوئی جھیل اور خوبصورت مناظر کو مدنظر رکھتے ہوئے نمل
جھیل پر نیشنل پارک بنانے کا وعدہ کیا تھا اور کہا تھا کہ میں کل ہی ایک
ٹیم کو پارک کے سروے کے لیے بھیجوں گا لیکن وہ وعدہ صرف باتوں کی حد تک تھا
جو آج تک ایفا نہ ہوسکا (ویسے بھی یہ وعدے کوئی قرآن حدیث تو ہوتے
نہیں)لیکن آج تین سال گزر جانے کے باوجود پارک بننا تو درکنار کوئی ٹیم
سروے کرنے تک نہیں آئی شاید وزیراعظم صاحب بھی مصروفیت میں گم ہو کر اپنے
اس اعلان کو بھول گئے یا پھر ان کے محکمے نے سب اچھا کی رپورٹ دے کر اس
پروجیکٹ کو فائلوں کی نذر کر دیا لیکن وادی نمل کے رہائشی امید و یاس کی
کییفیت میں آج بھی منتظر ہیں کہ اس کو جھیل پر ایک خوبصورت سا پارک بنے گا
اور اس وادی کی خوبصورتی کو چار چاند لگ جائیں گے ،وادی نمل کا ذکر ہو اور
اس کے رہائشیوں کا سب بڑا مسئلہ بیان نہ کرنا زیادتی ہوگا کیونکہ یہ وادی
حسین تو ہے لیکن کافی مسائل سے دوچار بھی ہے جن میں سب سے بڑا مسئلہ طبی
سہولیات کا فقدان ہے اس لیے جب ان کو کوئی مسئلہ درپیش ہوتا ہے تو یہ لوگ
ضلع میانوالی کی طرف رخ کرتے ہیں جو کہ40کلومیٹر کے فاصلے پر ہے اور راستے
میں پہاڑی میں روڈ جام ہونا معمول بن چکا ہے اور اکثر مریض اسی روڈ جام
ہونے کی وجہ سے زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں اس لیے حکمران طبقہ سے گزارش ہے
کہ وہ وادی نمل کے رہائشیوں کے مسائل جلد اور ہنگامی بنیادوں پر حل کرے۔ |