تحریر:میاں انعام الحق،لاہور
گھر میں قائم دفتر میں مطالعہ کرتے رات کے ایک بجے سوچا گلی ویران ھو گی
چہل قدمی کرلوں۔ باھر نکلا تودیکھا گلی کی نکر پر سٹریٹ لائٹ کے نیچے گورے
رنگ کا لگ بھگ پینتس سال کا نوجوان بیٹھا ہے بائیں ہاتھ کی انگلیوں میں
انجکشن اور دائیں ہاتھ سے دبا کر خون کی نالی ڈھونڈنے میں مصروف۔ میں چند
قدم کے فاصلہ پر رک گیا اور اسے دیکھنے لگا۔ نوجوان بغیر گھبرائے انتہائی
اعتماد سے کہنے لگا اتنی للچائی نظروں سے دیکھ رہے ہو لگتا ہے تمہیں انجکشں
کہیں سے ملانہیں ویسے تم ہو کون۔ میں نے جواب دیا میرا ایسا کوئی مسئلہ
نہیں اور میں تو ایک صحافیہوں مختلف اخبارات میں کالم لکھتا ہوں دل کرتا ہے
آپ سے بات کروں۔ موصوف فرمانے لگے او ست بسم اﷲ ہم سے بھی کوئی بات کرنا
چاھتا ہے آؤ بیٹھو۔ چارو ناچار سڑک پر ہی اس کے ساتھ بیٹھنا پڑا۔ موصوف
فرمانے لگے پا جی ایک کالم ہمارے بارے بھی لکھو میں نے پوچھا کس بارے موصوف
نے جواب دیا(لاک ڈاؤن سیہماری معیشت بھی کمزورہو گئی اس پر کالم لکھو)۔کہا
بھائی یہ کیسا موضوع ہے جواب ملا جب تم میڈیا والے سارا دن جواریوں ،
لٹیروں ، منی لانڈرنگ کرنے والوں ، لاکھوں ایکڑ سرکاری زمین ہڑپ کرنے والوں
، اور انسانیت دشمن ، ملک دشمن لوگوں پر ٹاک شوز کرتے ہو اور کالم لکھتے ہو
تو پھرہمارے ساتھ کیا دشمنی ہے ہم پاکستانی نہیں ، ہم کسی کے بیٹے،باپ نہیں
اور کیا ہم ٹیکس نہیں دیتے۔ یہ سب ایک ہی فقرے میں سننے کو ملا،کہا بھائی
تم ہو کون کہنے لگا میں نشئی یونین کا صدر ہوں۔ یہ سننا تھا کہ پاؤں کے
نیچے سے زمین نکل گئی۔لو اسی یونین کی کمی تھی۔جواب ملا چینی چور ،ْ آٹا
چور جیسے مافیا کے لوگ یونین بنا سکتے ہیں تو ہماری یونین بننے پر اعتراض
کیسا کہا بات تو آپ کی معقول ہے لیکن ہم میڈیا والوں نے کونسے جواری کا
انٹرویو کیا ہے۔جواب ملا کہ یہ جو کھلاڑی میچ فکسنگ کرتے ہیں ان پر درجنوں
چینلز گھنٹوں ٹاک شوز نہیں کرتے اور اب تم باقی اشرافیہ بارے بھی پوچھو
گے۔جانتے تو تم سب ہو لیکن مچلے بن رہے ہومیرے پاس وقت کم ہے سوال و جواب
میں پڑے بغیر باقی سب یاد کروا دیتا ہوں۔ موصوف فرمانے لگے کہ یہ چینی چور،
آٹا چور، بجلی چور ،گیس چور، ڈالر چور اور ادویات چور ،سیلاب زدگان ،زلزلہ
کی تباہی کے شکار غریبوں اور ڈیمز بنانے کے نام پر پیسہ اکٹھا کر کے کھا
جانے والے اپنے اوپر شرافت کا لبادہ اوڑھ کر سارا دن انٹرویو دیتے ہیں یہ
انسانیت اور ملک دشمننہیں اور جو انڈیا جیسے ملک کے ساتھخفیہتجارت کرتے ہیں
اور ملک کا خزانہہمارے دشمنوں کو ڈالرز کی صورت میں ادائیگیاں کر کے اڑا
رہے ہیں وہ ملک دشمن نہیں اور سب سے بڑھ کر جو نشہ تیار کرتے ہیں اور بیچتے
ہیں اور شرافت کا لبادہ او ڑھتے ہیں وہ ملک دشمن نہیں ہم ان سے بھی گئے
گزرے ہیں۔ کہا اور ٹیکس کس چیز کا دیتے ہو۔ جواب ملا صابن سے لے کر ہر روز
مرہ استعمال کی چیز ہم بھی خرید کر ملکی خزانے میں ٹیکس جمع کرواتے یہیں-
تمام دلائل سنے تو لاجواب ہو گیا۔ کہا اچھا بتاؤ تمہاری کمیونٹی کا مسئلہ
کیا ہے ٹھنڈی سانس بھر کے کہنے لگا کہ کہ ہم نشئی سب سے مظلوم طبقہ ہیں ہم
میں سیہر کوئی نشہ چھوڑنا چاھتا ہے لیکن کیا کریں۔ چھٹتی نہیں ہے ظالم منہ
سے لگی ہوئی۔ اور نشی بننے میں ہمارا کوئی قصور نہیں۔ اب ہرکسی کو لگا میں
جھوٹ کہہ رہا ہوں۔کسی بارے کیا کہوں میری داستان ہی سن لو۔ موصوف فرمانے
لگے میرا باپ پان کھاتا تھا اور پان کی دکان پر اکثر مجھے بھی ساتھ لے جاتا
پان والے سے گھنٹوں گپیں لگتیں اور پان کی افادیت بارے لیکچر سننے کو ملتے۔
کبھی کبھار تو ابا جان پان کی چٹکی میرے منہ میں بھی لگا دیتے اس طرح پان
کھانا شروع ہوا پھر بڑا ہوا تو اابا کو دیکھ کر اور دوستوں کے اسرار پر
سگریٹ نوشی شروع کی اور بات بڑھتے بڑھتے چرس کے بعد ہیروئن اور سیسہ پینے
تک پہنچ چکی ہے میں اور میرے کئی دوسٹ تو انجکشن کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتے
محلے کے کئی نوجوان تو صمد بونڈ کا بھی نشہ کرتے ہیں اور تو اور بہت سی
خواتین بھی درد کی ادویات کھاتی کھاتی اب نشی بن بیٹھی ہیں کہا بات مختصر
کرو اور یہ بتاؤ کہ لاک ڈاؤن سے تمہاری کمیونٹی کی معیشت کو کیا نقصان
پہنچا ہے۔ موصوف گانا شروع ہو گئے
کیہ حال سناواں دل دا کوئی محرم راز نہ ملدا
دکھ بھری کہانی صرف مزہ لینے کے لئے سننا چاہتے ہو۔ لو پھر سنو۔
غصیلی آواز میں موصوف کہنے لگے تم نہیں جانتے لاک ڈاؤن کے دوران تجارٹ شٹر
ڈاؤن جاری تھی اسی چکر میں دس کی چیز بیس میں فروخت ہو رہی تھی اسی طرح نشہ
کی قیمتیں بھی آسمانوں سے باتیں کر نے لگیں اور نشہ وہ بھی ملاوٹ شدہ اور
پھر ہمارے ذرائع آمدن بھی تو بندہو گئے۔حیرانی سے پوچھا تمہارے کونسے ذرائع
بند تھے جواب ملا مسجدیں بندہونے سے جوتوں اور ٹوٹیوں کی چوری رک گئی بازار
بندہونے سے دکانوں سے اشیائاور جیب کاٹنے کے کاروبار میں شدید مندا رہا۔
ورکشاپس بند ہونے سے انجنوں ، گاڑیوں کے سپئیر پارٹس کی چوری بھی بند اور
جگہ جگہ ناکوں کی وجہ سے موبائل چھینے کا بھی موقع نہیں مل رہا تھا اور
داتا صاحب کا دربار کیا بندہوا ساتھ لنگر بھی بند ہوہم بھوکوں مر تے رہے
اورہاں میری ایک درخواست وزیر اعظم عمران خاں تک ضرور پہنچاؤ۔ وہ کیا۔ جواب
ملا کرونا کی وجہ سے دنوں میں ہزاروں بیڈز پر مشتمل ہسپتال بن گئے
ویٹیلیٹرڑ جو سناہے ساٹھ لاکھ کا آتاہیسینکڑوں منگوا لئے گئے ہم بھی انسان
ہیں دو چار ہسپتال ہمارے علاج کے لیے بن جائیں تولاکھوں انسان اس لعنت سے
چھٹکارہ پا سکتے ہیں لاکھوں کا لفظ سن کر حیرانی ہوئی تو موصوف فرمانے لگے
کہ اعدادوشمار کے مطابق ہر ملک میں دس فیصد آبادی نشہ کا شکار ہے یوں آپ
اندازہ لگائیں ایک کروڑ آبادی کے شہر لاہور میں ایک لاکھ تو ہماری کلاس کے
لوگ ہیں اور یہی لوگ اپنی نشہ کی ضرورت پوری کرنے کے لئے چوری ڈکیتی کی
وارداتوں میں ملوثہیں اگر ان سب کا علاج کروایا جائے اور ان سب کے لئے نشہ
قرنطینہ سنٹرز بنا کر انہیں وہاں سے اس وقت تک نکلنے نہ دیا جائے جب تک
معاشرے کے مفید شہری نہ بن جائیں۔ اس طرح جرائم پر بھی کافی حد تک کنٹرول
ہو جائے گا۔اب تم ہی بتاؤہمیں معاشی پیکج کی ضرورت ہے کہ نہیں۔ موصوف نے تو
آخر میں اخیر ہی کر دی۔ مجھے محاطب کر کے کہنے لگے مختاریا حکومت نوں وی
ایہناں ساریاں گلاں دا پتا جے۔پر کوئی احساس کرے تو ہمارا علاج بھی احساس
پروگرام سے ہو سکتاہے،کہا کہ تم ہو نشی اور باتیں بڑی سمجھ کی کرتیہو۔جواب
ملا یہاں تو ہر بندہ نشئی ہے کہا کہ تم بہت بڑا الزام لگا رہے ہویہ کیسے
ممکن ہے۔ تو موصوف فرمانیے لگے
کسی پہ حسن کا غرور جوانی کا نشہ
کسی کے دل پہ محبت کی روانی کا نشہ
کسی کو دیکھ کر سانسوں سے ا بھرتا ہے نشہ
بناپیئے بھی کہیں حد سے گزرتا ہے نشہ
نشے میں کون نہیں ہے مجھے بتاؤ ذرا
نشہہے سب پہ مگر رنگ نشے کا ہے جدا
کہا کہ کافی پڑھے لکھے لگتے ہو جواب ملا
آپ یقین کریں میں بھی کبھی خوشحال تھا کاروبار تھا بیوی تھی گھر بار تھا سب
بربادہو گیا۔ اور اب تو نشہ اور جوئے کی وجہ سے حالات کچھ یوں ہیں۔موصوف نے
پھر یہ گانا شروع کر دیا
برا ہندا اے جواریاں دا حال دوستو
جواکر دیندا بڑے بڑے کنگال دوستو
مال سارا مکدا اے لہو سارا سکدا اے
وک جاندے کولیاں تے تھال دوستو
برا ہوندا اے جواریاں دا حال دوستو
درد بھری آواز میں موصوف کہنے لگے خدارا ہم نشئیوں کو نفرت سے تنہا مت کرو
ہمیں بھی پاکستانی اور مسلمان سمجھو ہم سے بھی پیار کروپیار سے ہی سب
برائیوں سے چھٹکارا مل سکتاہے نشہ کی برائی سے بھی۔ کہا تم ااتنی دلیری سے
سر عام بیٹھے نشے کا انجکشن لگا رہے ہو پولیس سے نہیں ڈرتے۔ موصوف نے جواب
دیا پولیس صرف انہیں پکڑتی ہے جو پولیس سے ڈرتے ہیں اور پولیس ہمیں گرفتار
کر کے اپنے خرچے بڑھانے ہیں حیرانی سے پوچھا وہ کیسے۔ جواب ملا نشئی کو
گرفتار کرنے کے بعد ہمیں زندہ بھی رکھنا ہوتا ہے اور پھر ہماری کھانے پینے
کی تمام ضروریات پولیس کو پوری کرنا پڑتی ہیں اگر نہ دیں تو ہماری موت واقع
ہو جائے اور پھر تم میڈیا والے ہی بریکنگ نیوز چلاتے ہو ایک بے گناہ شہری
پولیس تشدد سے ہلاک۔ میں نے پوچھا یہ نشہ آور انجیکشن ملتے کہاں سے ہیں۔
جواب ملا ہر بازار میں ایک نہ ایک ایسا میڈیکل سٹور دیکھنے کو ملتا ھے جہاں
ادویات بہت کم۔الماریاں ویران بس وہیں سے۔ پوچھاباقی نشہ کہاں سے۔ جواب ملا
ہر علاقے میں نیٹ ورک سے اور مستقل گاہکوں کو توہوم ڈیلیوری بھی ملتی ہے۔
موصوف کہنے لگے تم میڈیا والے ااگر منشیات فروشوں کے خلاف مہم مسلسل چلاؤتو
کافی حکومتی ایوان بالا اسے کنٹرول کرنے پر مجبور ہو جائیں۔ پھر موصوف
اچانک اٹھ کھڑے ہوئے اور کہنے لگے نشہ نہ ملنے سے ہمت جواب دے رہی ہے اپنی
ساتھی سے ہی جا کر انجیکشن لگواتا ہوں۔موصوف یہ گاتے ہوئے چل دئیے
رل کے نعرہ ماریے
چرس کوئی نہ پیوے
سیدھی راہ تے لاون والا
شالا جگ جگ جیوے
جناب وزیر اعظم پاکستان عمران خاں صاحب داتا دربار کے اطراف درجنوں نشی فٹ
پاتھوں پر پڑے ہیں اور بعض تو اتنے ننگے کہ دیکھ کر انسانیت شرماتی ہے لیکن
ہزاروں عوام بے حسی کے ساتھ گزر جاتی ہے خدا کے لئے تھوڑی سی توجہ اس جانب
بھی۔
|