حضرت حلیمہؓ کی شان

روزِ اول سے ہر گزرتے لمحے کے ساتھ کئی انسان اِس کرہ ارض پر پیدا ہو تے ہیں اور ہر گزرتے لمحے کے ساتھ پیوند خاک ہو جا تے ہیں زیادہ تر انسان تو افزائش ِ نسل کے بعد ہی مٹی کے ڈھیر میں تبدیل ہوجا تے ہیں لیکن انسانوں کی اِس آمدورفت میں کچھ خوش قسمت انسان اِیسے بھی اِس رنگ و بو کی دنیا میں سورج کی طرح طلوع ہو ئے اور ان کی زندگی میں ایک لمحہ ایسا بھی آیا کہ اس ایک لمحے نے ان کو گمنامی کے اندھیرے غاروں سے نکال کر ایسی ابدی شہرت سے ہمکنار کیا کہ قیامت تک آنے والے انسان اور بڑے بڑے اولیا کرام بھی اس کی لازوا ل شہرت پر رشک ہی کرتے رہے گے ایسا ہی ایک لازوال اور ان مٹ شہرت اور عروج کا لمحہ آج عرب میں قبیلہ بنو سعد کی حلیمہ سعدیہ پر بھی آیا ایک ایسا لمحہ جو اسے قیامت تک کے لیے لا زوال شہرت سے نواز گیا ۔ شرفائے عرب کا عرصہ دراز سے یہ دستور تھا کہ وہ اپنے نو مولود بچوں کو بھر پور نشوونما اور عربوں کی فطری خصوصیات اور فصاحت زبان کے لیے بدوی قبائل میں پر ورش کے لیے بھیج دیا کر تے تھے تاکہ فطری اور صحرائی ماحول میں بچوں کی نشوونما بہتر طریقے سے ہو سکے یہ عورتیں سال میں دو با ر شیر خوار بچوں کی تلاش میں مکہ آتیں آج بھی یہ عورتیں جن میں حلیمہ سعدیہ بھی شامل تھیں مکہ میں آئی ہو ئی تھیں ۔ اِس خدمت کے عوض بچے کا باپ اِن کے قدموں میں دولت کے انبار لگا دیتا ۔ حلیمہ سعدیہ اپنے شوہر حارث بن عبدالغری کے ساتھ آئی ہو ئی تھیں ۔ ایک روایت میں ہے حضرت حلیمہ فر ماتی ہیں، جب میں مکہ پہنچی تو حضرت عبدالمطلب مجھے ملے انہوں نے پو چھا تم کون ہو ؟ میں نے کہا میں بنی سعد کی خاتون ہوں تو انہوں نے پو چھا تو میں نے اپنا نام بتایا میرا نام سن کر حضرت عبدالمطلب مسکرائے اور فرمایا ۔ واہ واہ سعد اور حلم کیا کہنا یہ دو وہ خوبیاں ہیں جن میں زمانے بھر کی بھلائی اور ابدی عزت ہے ، پھر فرمایا میرے ہاں ایک یتیم بچہ ہے کسی نے اسے یتیم ہو نے کی وجہ سے نہیں لیا، کیا تم اس کو گود لینے کو تیارہو ؟ کیا تم میرے پو تے کو دودھ پلانے کو تیار ہو، ہو سکتا ہے کہ اس کی برکت سے تیرا دامن یمن و سعادت سے لبریز ہو جائے ۔ میں نے اپنے خاوند کی طرف مشورے کے لیے دیکھا اﷲ تعالی نے میرے خاوند کے قلب کو بچے کی محبت سے سر شار کر دیا اس نے فوری کہا حلیمہ دیر نہ کر و فورا بچہ لے لو ۔ لہذا میں نے حضرت عبدالمطلب سے درخواست کی کہ بچہ مجھے دیں میں اس کو دودھ پلانے کو تیار ہوں تو سردار قریش مجھے حضرت آمنہ کے گھر لے گئے حضرت آمنہ نے مجھے خوش آمدید کہا اور اس کمرے میں لے گئیں جہاں ملکوتی حسن اور روشن چہرے والا نو ر نظر لیٹا ہوا تھا آپ ﷺ دودھیا ریشمی کپڑے میں لپٹے ہوئے تھے آپ ﷺ سبز ریشمی چادر کے اوپر آرام فرما رہے تھے ۔ عنبر کستوری کی خوشبو سے کمرہ مہک رہا تھا آپ ﷺ کے ملکوتی مکھڑے کو دیکھتے ہی میں تو فریفتہ ہو گئی آپ ﷺ کے چہرہ انور سے رنگ و نور کے چشمے پھوٹ رہے تھے آپ ﷺ کے چہرہ اقدس پر دلنواز تبسم پھیلا ہوا تھا مجھے ہمت نہیں ہو رہی تھی کہ آپ ﷺ کو جگا دو پھر میں نے ہمت کر کے اپنا ہاتھ آپ ﷺ کے سینہ مبارک پر رکھنے کی سعادت حاصل کی تو آپ ﷺ نے سرمگیں آنکھیں کھولیں اور جانے ِ دو جہاں کے چہرہ انور پر مسکراہٹ کے پھول کھلنے لگے مجھے محسوس ہوا آپ ﷺ کی مبارک آنکھوں سے انوار کے آبشار پھوٹ رہے ہیں جو زمین و آسمان چاروں طرف پھیل رہے ہیں آپ ﷺ کے حسن لا زوال کی چکا چوند نے میری آنکھوں کو خیرہ کر دیا میرے خون کی گردش تیز ہو ئی اور میں نے بے اختیار آپ ﷺ کے روشن ملکوتی ماتھے مبارک کا بو سہ لیا اور اٹھا کر اپنے سینے کو آپ ﷺ کے انوار سے منور کیا اور سینے سے لگا لیا اور مالکِ دو جہاں ننھے سردار ﷺ کو اٹھا کر اپنے خاوند کے پاس آگئی حضرت حلیمہ مزید فرماتی ہیں کہ اِس دولتِ جہاں کو اٹھائے ہو ئے اپنے خیمے میں آگئی تو میں نے دودھ پلانے کے لیے اپنی دائیں چھاتی پیش کی ننھے سردار ﷺ نے جتنا پینا چاہا پی لیا پھر میں نے اپنی بائیں چھاتی پیش تو آپ ﷺ نے پینے سے انکار کر دیا ۔ یقینا مالک بے نیاز نے اپنے محبوب ﷺ کو الہام کیا ہو گا کہ تیرا ایک اور بھا ئی بھی ہے اِس کے لیے انصاف کر یں اور باقی دودھ اپنے بھائی کے لیے رہنے دیں بلا شبہ جس ننھے سردار ﷺ نے آگے جا کر پو ری انسانیت کو عدل و انصاف کا درس دینا ہو اس کا مالک یہ کیسے گوارہ کر ے کہ اس کے دامن پر چھوٹی سے چھوٹی بھی بے انصافی ہو ننھے سردار ﷺ کے دودھ پینے سے پہلے حضرت حلیمہ سعدیہ کی چھاتیوں میں برائے نا م ہی دودھ تھا لیکن ننھے حضور ﷺ کے مبارک لبوں کے چھونے کی دیر تھی کہ چھاتیا ں دودھ سے لبا لب بھر گئیں پھر آپ ﷺ کے رضائی بھائی نے بھی جی بھر کے دودھ پیا رات کو میرا بیٹا بھی خوب پر سکون سو یا ۔ رات کو میرا خاوند جب بوڑھی لا غر اونٹنی کے پاس گیا تو خوشگوار حیرت کا سامنا ہوا کہ اس کمزور اونٹنی کی کھیری دودھ سے بھری ہو ئی ہے اس نے خوشی خوشی اِسے دھویا خو د بھی جی بھر کر دودھ پیا اور مجھے بھی خوب پلایا ۔ ہم سب کی بھوک مٹ چکی تھی لہذا ہم خوب پر سکون ہو کر سوئے صبح جب ہم بیدار ہو ئے تو میرا خاوند خوشی سے سر شار لہجے میں بولا ۔ بخدا اے حلیمہ ہمیں سرا پا یمن و بر کت وجود نصیب ہوا تو میں نے کہا میں بھی یہی امید رکھتی ہوں ۔ واپسی پر حضرت حلیمہ فرماتی ہیں جب میں ننھے سردار ﷺ کو گود میں اٹھا کر اپنی کمزور لا غر بوڑھی سواری پر چڑھی تو وہ بہت چست ہو گئی اور اس کے انگ انگ سے توانائی چھلکنے لگی اور وہ سینہ تان کر چلنے لگی جب ہم کعبہ کے سامنے پہنچے سواری نے تین سجدے کئے اور اپنا سر آسمان کی طرف اٹھا یا اورپھر دوسرے جانوروں سے زیادہ رفتار سے بھاگنے لگی آپ فرماتی ہیں کہ میری سواری تمام قافلے والوں کی سواریوں کی نسبت کمزور اور سست تھی مگر جیسے ہی ننھے حضور ﷺ اس پر سوار ہو ئے تو وہ برق رفتاری سے دوڑنے لگی تو قافلہ کی عورتیں حیران ہو کر بولیں اے حلیمہ کیا تم اِس پر سوار ہو کر آئی تھیں اس وقت اتنی سست تھی کہ سب سے پیچھے تھی آج سب سے آگے ہے تم نے آج کو نسا عظیم کام کیا ہے یہ قافلہ ننھے سردار ﷺ کو لے کر بنی سعد کی طرف رواں دواں تھا کہ راستے میں انہوں نے کچھ بکریوں کو چرتے ہو ئے دیکھا تو ان بکریوں کو قدرت نے قوت گو یائی عطا کی اور وہ احتراما بولیں اے حلیمہ تو اِس بچے کو جانتی ہے یہ مالک دو جہاں پیغمبر ﷺ اور اولادِ آدم کا سردار اور جن و انس سے بہتر ہے اور آپ ﷺ کو سلام کیا ۔ آگے جب وادی حبشہ میں پہنچے تو وہاں پہلے سے ٹھرے ہو ئے عالموں نے ننھے حضور ﷺ کو دیکھ کر کہا بے شک یہ لڑکا خدا کا آخری نبی ﷺ ہے اور آگے بڑھے تو وادی ہوا زن میں بھی ایک بوڑھا آدمی نظر آیا اس کی نظر جب ننھے حضور ﷺ کے چہرہ اقدس پر پڑی تو وہ بولا یہ خاتم الانبیا ﷺ ہیں اِنہی کے پیدا ہو نے کی بشارت حضرت عیسی نے دی تھی ۔ دوران سفر ننھے حضور مالک دو جہاں محبوب خدا ﷺ کی نظر جہاں جہاں پڑتی، جہاں جہاں آپ ﷺ قیام فرماتے وہ جگہ سر سبر و شاداب ہو جا تی حضرت حلیمہ فرماتی ہیں جب میں حضور ﷺ کو لے کر اپنے علاقے کی طرف چلی تو جہاں جہاں سے گزرتی وہ علاقہ سر سبر و شاداب ہو جا تا راستے میں جو بھی درخت آیا اس نے جھک کر حضور ﷺ کو سلام کیا اور اس کا سایہ احتراما آپ ﷺ کی طرف جھک جا تا ہم آپ ﷺ کی برکات اور جلوں کا نظارہ کر تے کر تے جب اپنی آبادی میں پہنچے تو ہر گھر سے کستوری کی خوشبو آنے لگی اور تمام علاقہ آپ ﷺ کی آمد سے مہک اٹھا مشکبو ہوا ئیں عطر بیز فضائیں آپ ﷺ کے آنے کی خوشی میں خوشی سے جھوم رہی تھیں زمین سے آسمان تک رنگ و نور اور انوار کی برسات ہو رہی تھی ۔
 

Prof Abdullah Bhatti
About the Author: Prof Abdullah Bhatti Read More Articles by Prof Abdullah Bhatti: 801 Articles with 646582 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.