منزل پر پہنچ کر منزل نہ ملی

منزل پر پہنچ کر منزل نہ ملی
حسیب اعجازعاشرؔ
ایک عرصہ کے بعد عوام پر مسرتوں کے دروازے کھل رہے تھے،کورونا لاک ڈاؤن درجہ بہ درجہ نرمی کی طرف بڑھ رہا تھا،بگڑتے معاشی حالات کے ہاتھوں عوام کے چہروں پر کاروباری سرگرمیوں کی بحالی کے بعد خوشیاں لوٹ رہی تھیں اورکورونا کے خوف بالا طاق رکھ کر بازاروں میں عوام کا جمع غفیر عید کی خریداری میں مصروف تھاکہ اچانک ایک ضرب نے عیدالفطر کی خوشیاں کو مدھم کر دیا جب یہ خبر پاکستان کے ہی نہیں بلکہ دنیا بھر کے چینل کے لئے بریکنگ نیوز تھی کہ پاکستان کا لاہور سے کراچی جانے والا مسافر بردار طیارہ پی کے 8303 لاہور سے کراچی آ رہا تھا کہ لینڈنگ سے قبل حادثے کا شکار ہو گیاجس میں 91مسافر سمیت عملے کے 7افراد سوار تھے۔ اللہ اللہ کر کے پبلک ٹرانسپورٹ کو عوام کے لئے کھولنے کا آغازہورہا تھا اور ایئرپورٹ نے بھی اپنی سروسز کا آغاز کر دیاتھا تاکہ کل کے بچھڑے آج اپنے اپنوں کو مل سکیں کوئی ماں اپنے بیٹے کیلئے منتظر تھی تو کوئی بیوی اپنے سرتاج کیلئے، کوئی اپنے باپ کی راہیں تک رہا تھا،تو کوئی بھائی بھائی کو گلے لگانے کو بے تاب تھا۔یقینا سب کا خواب ہوگا کہ مل بیٹھ کر عید منا کر اپنی خوشیوں کو دوبالا کیا جائے مگر قدرت کو کچھ اور ہی منظورتھا اور وہ منزل جو چندسیکنڈ کے فاصلے پر تھی اچانک ہاتھ سے نکل گئی۔،سارے خواب دھرے کے دھرے رہ گئے بلکہ چکنا چور ہو گئے جن گھروں میں عید کی تیاریاں جوبن پر تھیں دیکھتے ہی دیکھتے وہاں صف ماتم بچھ گیا۔جس فلک پر سراُٹھائے عید کا چاند تلاش کرنا تھا وہ دھوئیں کے کالے بادلوں سے ڈھک گیا۔ماڈل کالونی میں بکھرے جہاز کے ٹکڑے، مہندم گھر،لاشوں کے ڈھیر،زخموں سے رستے خون،چیخوں پُکار،ایک افراتفری کا عالم قیامت کا منظر پیش کررہا تھا۔کوئی اپنی مدد آپ کے تحت ملبے سے زخمیوں کی تلاش کررہے تھے کہ کوئی تو ہو جس کی سانسوں میں زندگی کی خوشبو ابھی باقی ہو جسے بروقت ہسپتال پہنچایا جائے تو کوئی ملبے میں دبے اپنے پیاروں کے ایک دیدار کے لئے اضطرابی اور بے چینی کی سی عجب کیفیت میں تھے جن کے لئے ایک ایک لمحہ کئی صدیوں پر محیط تھا۔ یہ صدیاں بھی گزر جائیں گی یہ عیدیں بھی، وقت کا مرہم شاید دھیرے دھیرے ذہن کے دریچوں سے سب کچھ بھلا دے اور آنسوں بہانے والوں کی زندگی اپنے نئے سفر کی جانب رواں دواں بھی ہو جائے۔چلئے یہ کام بھی ہو گیا۔وزیراعظم سمیت تمام بڑی چھوٹی سیاسی مذہبی جماعتوں کی جانب سے قیمتی جانی نقصان پر گہرے رنج و افسوس کا اظہار بھی کر دیا گیا،حسب روایت فوری تحقیقات کا حکم بھی دے دیا گیا۔بارہ مئی سانحہ تحقیقات، ماڈل ٹاؤن سانحہ تحقیقات، ساہیوال سانحہ تحقیقات کے نتائج عوام دیکھ چکی ہے،سوال یہ ہے ہمارے پلے کیا رہ جاتا ہے صرف افسوس کرنا اور ہرافسوس کے بعدخدانخواستہ ایک اور حادثہ اور پھر ایک اور افسوس۔۔افسوس صد افسوس۔
اگر دیکھا جائے تو لاہور سے کراچی جانے والا مسافر بردار طیارہ پی کے 8303 طیارہ فنی خرابی کا شکار ہوا اور لینڈنگ سے کچھ دیر پہلے طیارے کے ٹائر نہیں کھل رہے تھے جب کہ طیارے کے پائلٹ نے ٹریفک کنٹرول کو ’مے ڈے‘ کال بھی دی تھی۔پائلٹ اور ٹریفک کنٹرول ٹاور کے درمیان آخری رابطے کی آڈیو ریکارڈنگ بھی سامنے آئی جس میں پائلٹ نے ایک انجن فیل ہونے کی اطلاع دی اور بعد ازاں ’مے ڈے‘ کال دی جس پر کنٹرول ٹاور سے بتایا گیا کہ طیارے کی لینڈنگ کے لیے دو رن وے دستیاب ہیں تاہم طیارے سے دوبارہ رابطہ نہ ہوسکا۔اُس وقت کسی کو احساس تک نہ ہوگا کہ رابطہ ہمیشہ ہمیشہ کیلئے منقطع ہوگیاہے۔یہاں یہ واضح ہوچکا ہے کہ حادثہ نامعقول جہاز کی مرمت کے باعث پیش کیا تو اب سوال یہ پیدا ہے کہ ذمہ دار کون ہے؟پچھلی حکومتیں یہ دوسال یہ برسراقتدار حکومت وقت؟کس سے جواب طلب کیا جائے۔ کیونکہ ایسا پہلی بار نہیں ہوا حکومتیں آتی ہیں دعوے کرتی ہیں اور چلی جاتی ہیں، مگر عملاً کچھ نہیں کیا جاتا۔ اس ضمن میں اگر پاکستان میں ہونے والے فضائی حادثات کی تاریخ پر نظر دوڑائی جائے توحال ہی میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق آج تک پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز کو طیاروں کو چھوٹے بڑے 21 حادثات پیش آئے ہیں فروری 2017 میں فیصل آباد کے مقام پر شاہین ایئر فلائنگ ٹریننگ سکول کا طیارہ حادثے کا شکار ہوا۔ جس میں دونوں پائلٹ ہلاک ہو ئے۔دسمبر 2016 میں چترال سے اسلام آباد آنے والا پی آئی اے کا ایک جہاز حویلیاں کے قریب گر کر تباہ ہوا۔حادثے کا شکار ہونے والے مسافر طیارے میں 42 مسافر اور عملے کے پانچ اراکین سوار تھے۔ اپریل 2012 کو نجی ایئر لائن بھوجا ایئر کی پرواز لوئی بھیر کے قریب گر کر تباہ ہوئی، اس میں 127 افراد سوار تھے۔ نومبر 2010 کو ایک چھوٹا طیارہ کراچی کے قریب گر کر تباہ ہوا اور اس حادثے میں 12 افراد ہلاک ہوئے۔پاکستان کی فضائی تاریخ کا سب سے جان لیوا حادثہ بھی اسلام آباد کے قریب جولائی 2010 کو پیش آیا جب ایئر بلیو کی پرواز مارگلہ کی پہاڑیوں سے جا ٹکرائی اور اِس میں 152 افراد سوار تھے۔ جولائی 2006 کوپی آئی اے کا فوکر طیارہ ملتان ایئر پورٹ سے اڑان بھرنے کے کچھ دیر بعد ہی گر کر تباہ ہواتھا۔اُس میں 45 افراد ہلاک ہوئے جن میں ہائی کورٹ کے دو جج، فوج کے دو بریگیڈیئیر اور بہاؤ الدین زکریا یونیورسٹی کے وائس چانسلر بھی شامل تھے۔اور یوں کل ایک بار پھر پی آئی اے کو تکنیکی وجوہات کے بنا پر حادثہ پیش آیا ہے۔
نجی ائیرلائنز کا بھی حادثات کا یوں شکارہوناکوئی معمولی بات نہیں اُن کے لئے بھی حکومت کی جانب سے چیک اینڈ بیلنس رکھنے کیلئے کوئی تو مربوط لائحہ عمل ہونا چاہیے دوسری جانب پی آئی اے کئی سالوں سے ایسے شدید بحرانوں کا شکار رہے جو ختم ہونے کا نام نہیں لے رہے، گزشتہ دس سال کی آڈٹ رپورٹ دیکھی جائے تو کسی ایک حکومت کو مورد الزام نہیں ٹھہرایا جاسکتا،اس ادارے کی تباہی میں سبھی شامل ہیں۔مگر یہاں سوال تحریک انصاف کی حکومت سے بنتا ہے جو گزشتہ حکومت پر پی آئی اے کے حوالے سے بنائی گئی پالیسیوں کی سب سے بڑی ناقد رہی اور دعوی دار رہی کہ اقتدارمیں آتے ہی ادارے پر خصوصی توجہ دے گی۔دوسال گزر چکے مسافر آج بھی پی آئی کی سروسز کے حوالے سے شکوہ کنا ں ہیں۔پہلے ہی بہت تاخیرہوچکی اِس سے پہلے کہ خدانخواستہ ایک اور حادثہ پر حکومت کو اپنا قیمتی وقت افسوس کرنے اور تحقیقات کا حکم دینے پر صرف کرناپڑے اپنی تمام تر توانیاں پی آئی اے کے سامنے کھڑے تمام بحرانوں سے نمٹنے،دیرپا،موثر اور کارآمد پالیسیوں پر خرچ کر دے تاکہ ادارے میں حقیقی طور پر وہ تبدیلی آئے جو عوام کو نظر بھی آئے۔




Haseeb Ejaz Aashir
About the Author: Haseeb Ejaz Aashir Read More Articles by Haseeb Ejaz Aashir: 121 Articles with 116150 views https://www.linkedin.com/in/haseebejazaashir.. View More