سیاست میں کوئی بات حرف آخر نہیں سمجھی جاتی اسی کے مصداق
سیاستدانوں کے نزدیک معاہدے حدیث کا درجہ نہیں رکھتے صرف ان کے نزدیک اپنے
اقتدار اور مفادات کا تحفظ اولین ترجیح ہوتا ہے۔اسی لئے سیاست کو
دھوکہ‘فریب‘جھوٹ‘مکر اور چالاکی سے تعبیر کیا جاتا ہے ایوب خان نے جب اپنے
اقتدار کو بچانے کے لئے سیاستدانوں کو گول میز کانفرنس میں مدعو کیا تو
مولانا سید ابو اعلیٰ مودودی سے ہاتھ ملاتے ہوئے ایوب خان نے کہا کہ مولانا
سیاست تو ایک گندہ کھیل ہے آپ کیوں اس میں چلے آئے تو مولانا سید ابو اعلیٰ
مودودی نے ایوب خان کا ہاتھ پکڑے ہوئے برجستہ جواب دیا کہ کیا سیاست کو
گندہ ہی رہنا چاہیے۔ملکی سیاست کا المیہ یہ ہے کہ قیام پاکستان کے بعد ملک
کے سیاستدانوں نے اس عوام پر دنیا کی زمینی طاقتور قوتوں کے اس نظام کو
مسلط کر دیا جسے دنیا آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک کے نام سے جانتی ہے جو دنیا
کے کمزور ممالک کے فیصلے ان عالمی مالیاتی اداروں کے توسظ سے کرتی ہے اسی
کے باعث آج ملک کی معشیت اور سیاست عدم استحکام کا شکار ہے ا نگریز کے اسیر
غلام خاندانوں نے اپنی فریبی اور مفاداتی سیاست کے ذریعے گرگٹی سیاست کے وہ
رنگ جمائے کہ ملکی سیاست کے مختار کل بن گئے قوم کے ورثہ میں صرف لہو
گرماتے نعرے ہی آئے۔چھانگا مانگا کی ابتدائی سیاست سے جب سیاست پر زر غالب
آیا تو یہ کاروبار بن گئی۔پارلیمان میں آج تک ملک و ملت کے مفادات کو مد
نظر رکھتے ہوئے ایسے فیصلے نہیں کئے جس سے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے نقشے
کی تکمیل ممکن ہو سکے بد قسمتی سے عوام ایک اچھی طرز حکمرانی کے منتظر ہی
رہے ۔ملک کی دو بڑی قومی جمہوریت کی علمبردار سیاسی جماعتوں مسلم لیگ ن اور
پیپلز پارٹی کو متعدد بار اقتدار کا موقع ملا لیکن پارلیمان میں صرف مفاد
عامہ کے بجائے صرف اقتدار کو دراز کرنے اپنے اختیارات اور مفادات کے تحفظ
کو یقینی بنانے کے لئے ہی اقدامات اٹھائے گئے۔دونوں جماعتوں نے غریب عوام
کے مسائل میں بتدریج اضافہ کرتے ہوئے صرف اپنی مفاداتی سیاست کو فروغ دیا
چند قانون شکن خاندانی طبقات نے سیاست کو اپنی میراث سمجھتے ہوئے قانون کو
طاقتور کے گھر کی لونڈی بنا کر رکھ دیا ریاست کی طاقت مٹی میں دبی ریت کی
طرح سرکتی رہی اور سیاست کے مختاروں نے قانون شکنی کی ایسی مثالیں قائم کیں
کہ یہ معاشرہ جنگل کی عملی تصویر بن گیا۔ملک کے بڑے شہروں کی حالت زار اس
بات کا بین ثبوت ہے کہ چند مخصوص حلقوں نے ملکی وسائل کو کیسے دونوں ہاتھوں
سے لوٹ کراس ملک کی درگت بنائی۔آج بھی یہ دونوں جماعتیں اپنے دور اقتدار کے
بلند و بانگ ترقی و خوشحالی کی دعویدار ہیں حالانکہ کسی بھی شعبے کی
کارکردگی کو اٹھا کر دیکھ لیں ہر جگہ نا انصافی‘اقربا پروری‘اور بد انتظامی
کا راج نظر آئے گا۔یہی وہ مفاداتی سیاست کا ماحول تھا جس سے عوام بیزار ہو
چکی تھی تین تین چار چار بار حکمرانی کرنے والے سیاستدانوں کو عوام نے اپنے
ووٹ کے دوام سے مسترد کرتے ہوئے تحریک انصاف کو حکمرانی کا موقع فراہم کیا
اور عوام نے تحریک انصاف کو اس لئے یہ موقع دیا کیونکہ تحریک انصاف کے قائد
عمران خان نے عوام اپنے ایک ایسے وژن سے متعارف کروایا جس میں ایک اچھی طرز
حکمرانی کے ذریعے عام آدمی کا معیار زندگی بلند کرنے‘بلا امتیاز
احتساب‘کرپشن و بد عنوانی اور سٹیٹس کو کا خاتمہ شامل تھا۔جولائی2018ء کے
عام انتخابات میں عمران خان اقتدار میں آئے وہ مسلسل ملکی معشیت کو مستحکم
کرنے کے لئے عملی اقدامات اٹھا رہے ہیں۔ دنیا میں جمہوریت کا کوئی نعم
البدل نہیں جب تک گروہی مفادات اور تیسری درجہ کی مصلحت اندیشی سے اس
موجودہ رائج سیاسی نظام کو پاک نہیں کیا جائیگا تب تک سیاسی عدم
استحکام‘علاقائی بے چینی کا خاتمہ ممکن نہیں اب یہ عمران خان کے لئے ایک
ایسا ٹیسٹ کیس ہے جسے اپنے اور اپنی کابینہ میں شامل وزرا کی کارکردگی کے
ذریعے عمل و کردار سے ثابت کرنا ہو گا کہ جس تبدیلی کے خواب کو شرمندہ
تعبیر کرنے کے لئے تحریک انصاف کو عوام نے اقتدار دیا اس خواب کو عملی جامہ
پہنانے کے لئے وہ کس حد تک کامیاب ہو پاتے ہیں۔عمران خان کی کابینہ میں آج
بھی ایسے جغادری سیاستدان موجود ہیں جو تقریبا پاکستان میں بننے والی تمام
حکومتوں کا حصہ رہ چکے ہیں اور یہی وہ ابن الوقت سیاسی کھلاڑی ہیں جو
حکومتیں بنانے اور گرانے میں ہمیشہ پیش پیش رہے ہیں اور عمران خان حکومت کا
یہ المیہ ہے کہ انہی سیاستدانوں کی وجہ سے وہ اپنے اہداف سے کوسوں دور ہیں۔
اپوزیشن اور اس سے متعلقہ میڈیاعوام میں تبدیلی مخالف تاثر کو ابھارنے میں
کسی حد تک کامیاب بھی ہو چکا ہے اسی وجہ سے آج تحریک انصاف کے وہ سرکردہ
نظریاتی ورکر مایوسی کے دوراہے پر کھڑے تحریک انصاف کی کامیاب طرز حکمرانی
کے لئے کسی معجزے کے منتظر ہیں ۔عمران خان شہر میانوالی سے تعلق رکھنے والی
میجر(ر)خرم حمید خان روکھڑی کو ذاتی حیثیت میں جانتے ہیں میجر(ر) خرم حمید
خان روکھڑی کی علاقائی اور پارٹی کے لئے خدمات بھی ان سے مخفی نہیں
باصلاحیت‘تعلیم یافتہ خاندان کے اس چشم و چراغ میجر(ر) خرم حمید روکھڑی میں
یہ صلاحیت اور قابلیت بدرجہ اتم موجود ہے کہ اگر انہیں وفاق میں اطلاعات کی
ذمہ داری سونپ دی جائے تو وہ بطریق احسن اس منصب کی ذمہ داریوں سے سبکدوش
ہونے کے اہل ہیں کیونکہ اس وقت اپوزیشن کی جانب سے اس غالب آتی سوچ کے تاثر
کو زائل کرنا بہت ضروری ہے جو پارٹی کے کارکنان اور اس کی ساکھ کے لئے زہر
قاتل بنتی جا رہی ہے۔خرم حمید روکھڑی جیسے نظریاتی سیاستدان عمران خان کے
وژن کے ساتھ عہد وفا نبھاتے ہوئے پارٹی اثاثہ کے طور پر موجود ہیں۔خرم حمید
خان روکھڑی جیسے با صلاحیت اور نظریاتی سیاستدان عمران خان کی حکومت اور
پارٹی کی کامیابی کے ضامن بنے اپنی توانائیوں اور وسائل کے بل بوتے پر
عمران خان کے ساتھ دامے‘درمے ‘سخنے دست و بازو ہیں ۔ عمران خان کو چاہیے کہ
ایسے پارٹی ورکرز کو اپنی کابینہ کا حصہ بنائے جو عمران خان کی بائیس سالہ
تربیت کی بھٹی میں تپ کر کندن بن چکے ہیں جو عمران خان کے وژن کے پاسدار
ہیں میرا میجر (ر) خرم حمید روکھڑی کو اس صف میں لانا ہر گز مقصود نہیں کہ
ان کے بغیر تحریک انصاف کی حکومت کامیاب طرز حکمرانی میں ناکام ہو جائیگی
لیکن یہ بات بھی تحریک انصاف کی موجودہ کارکردگی پر نوشتہ دیوار بن چکی ہے
کہ اگر ابن الوقت سیاستدان عمران خان کی وژنری سوچ پر غالب آگئے تو سابق
حکومتوں کی طرح تحریک انصاف کی تبدیلی بھی چھو منتر ہو کر ہوا میں تحلیل ہو
جائیگی۔خرم حمید روکھڑی جیسے افراد پارٹی اور کارکنان کے لئے کسی رول ماڈل
سے کم نہیں جمہوریت میرٹ کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہے اگر میرٹ کو نظر انداز کر
کے عمران خان نظریات سے زیادہ نظریہ ضرورت کی سرحد پر کھڑے نظر آئے تو بہت
سے عمران خان کے وژنری سیاسی کارکنوں کے نظریات دم توڑ جائیں گے اور اس
ممکنہ صورتحال کے پیش نظرمستقبل کے سیاسی منظر نامہ میں تحریک انصاف کو جو
نا قابل تلافی نقصان ہوگا اس سے دوچار ہونے کے لئے اسے تیار رہنا چاہیے۔ |