پارلیمنٹ کے ان کیمرہ سیشن میں
عسکری قیادت کی بریفنگ، اپوزیشن کی نوک جھونک اور گیارہ گھنٹے کے طویل ترین
اجلاس میں قومی سلامتی سے متلعق قرارداد کی منظوری کے بعد دکھائی یہی دیتا
ہے کہ پاک امریکی تعلقات آنے والے دنوں میں مزید کشید ہ ہونگے ۔ وجہ یہ
نہیں کہ پاکستانی حکومت واقعی امریکہ کو کورا سا جواب دینے کی ٹھان چکی ہے
بلکہ اصل سبب وہ دباؤ ہے جو پیپلز پارٹی اور اس کے اتحادیوں کو آنے والے
دنوں میں سیاسی لحاظ سے ہونے والے ناقابل نقصان کا عندیہ دے رہا ہے۔ بات
صرف بیانات تک محدود رہتی تو شاید حکمرانوں کے کانوں پر جوں تک نہ رینگتی
لیکن انتہائی حساس نوعیت کے معاملے کے پارلیمنٹ میں پہنچ جانے کے بعد ان کے
پاس کوئی دوسرا آپشن ہی نہیں بچا جبکہ رہی سہی کسر پاک فضائیہ کے سربراہ کے
ڈرون حملوں کے سد باب کے حوالے سے سوال کے جواب نے پوری کر دی ہے جس کے بعد
حکومت یکدم سے دو دھاری تلوار کی زد میں آگئی ہے ۔کوئی اور موقع ہوتا تو
شاید یہاں بھی حسب سابق چکر بازی ہی کی پالیسی اپنا کر”کرو کچھ اور کہو کچھ“
کے مقولے پر عمل کیا جاتا لیکن ایک ڈیڑھ سال بعد آنے والے انتخابات اسے اب
کی بار امریکی جی حضوری سے روکے کھری کھری سنانے کے متقاضی ہیں اور بلی کے
بھاگوں چھینکا ٹوٹا کے مصداق پارلیمنٹ میں تمام سیاسی جماعتوں کی ایک ہی
آواز نے اسے یاس ”نافرمانی“ کا جواز بھی فراہم کر دیا ہے جسے دیکھتے ہوئے
مبصرین کا کہنا ہے کہ پاک امریکی موجود اٹ کھڑکا آنے والے دنوں میں مزید
شدت اختیار کر لے گا۔
اس امر میں ذرا برابر بھی شک نہیں کہ خطے میں امریکی مفادات کے سب سے بڑے
محافظ ہمارے حکمران ہی ہیں۔ مشرف دور میں شروع ہونے والا یہ حفاظتی سلسلہ
موجودہ حکومت کے گزرے ساڑھے تین سالوں میں تو کچھ زیادہ ہی عروج پر رہا ہے
اورہمارے موجودہ حکمرانوں کی غیروں کو بچانے کی پالیسیوں نے اپنی سلامتی کا
کباڑا نکال دیا ہے ایبٹ آباد میں ہونے والا امریکی آپریشن بھی اسی سلسلہ ہی
کی ایک کڑی ہے۔حکومت اگرچہ دوران آپریشن افغان دارالحکومت میں موجود امریکی
جنگی طیاروں کی ممکنہ کاروائی کو جواز بنا کر دو مئی کی رات آنے والے ہیلی
کاپٹرز سے چھیڑ چھاڑ نہ کرنے کا موقف سچا ثابت کرنے کی کوششوں میں جتی ہوئی
ہے لیکن دفاعی اور ایوی ایشن ماہرین اس منطق کو ماننے کے لئے تیار نہیں
کیونکہ ان کے مطابق ایبٹ آباد میں کاروائی کے بعد پاکستانی حدود سے ری
فیولنگ کے بغیر روانگی ممکن ہی نہیں اور ماہرین کی یہی تکنیکی جواز
پاکستانی حکمرانوں کی ملی بھگت کے شکوک کو تقویت دیتا رہا ہے جبکہ جمعے کے
روز ایئرچیف راؤ قمر سلیمان کی جانب سے جب حکم ملے گا ، ڈرون حملے روک دیں
گے بیان نے بھی حزب اقتدار کو چاروں شانے چت کردیا ہے اور اب اس کے پاس نہ
چوں کر جواز ہے اور نہ ہی چراں کا، اور اسی کیفیت کو پاک امریکہ کشیدگی میں
اضافے کی دوسری بڑی وجہ قرار دیا جارہا ہے۔
پارلیمنٹ میں منظور ہونے والی قرارداد میں ڈرون حملے نہ روکنے اور مستقبل
میں ایبٹ آباد جیسی کاروائیاں ہونے کی صورت میں نہ صرف نیٹو سپلائی روک دی
جائے گی بلکہ بھر پور جواب بھی دیا جائے گا۔ گزشتہ تین سالہ صورتحال کے پیش
نظر بہت سے مبصرین کا کہنا ہے کہ یہ محض بڑھک ہے جس کا مقصد موجودہ دباؤ کے
خاتمے کے سوا کچھ نہیں لیکن صورتحال کے پیش نظر یہ موقف تھوڑا سا کمزور
دکھائی دے رہا ہے کیونکہ حکومت اب کی بار اپوزیشن جماعتوں کو ”ڈاج“ کروانے
کی پوزیشن میں نہیں کہ ایسا کرنے کے بعد اسے موجودہ دباؤ سے بھی کئی گنا
زیادہ سخت رد عمل کا مظاہرہ کرنا پڑے گا بلکہ حکومتی روش برقرار رہنے کی
صورت میں عوام کے سڑکوں پر آنے کا خدشہ بھی موجود ہے جو اقتدار کے اختتام
کی جانب بڑھتی پیپلز پارٹی کے لئے کسی بھی صورت سود مند نہیں ہوگا لہٰذا
اگر امریکی جارحیت جاری رہی تو زرداری کیمپ کے لئے نظریہ ضرورت کے تحت ہی
سہی عوام کی آواز بننا ناگزیر ہوگا، اگر ایسا ہوا تو پھر حکومت کو امداد کا
ایندھن فراہم کرنے والی امریکی حکومت یقینی طور پر ہاتھ اٹھا لے گی جس کا
سیدھا اور صاف مطلب یہی ہے کہ اسلام آباد اور واشنگٹن کے راستے اب جدا
ہوجائیں گے۔
بی بی سی کے مطابق پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کو اکثر اوقات ’مصحلت کی
شادی‘ قرار دیا جاتا ہے تاہم اسامہ بن لادن کی پاکستان فوج کی ناک کے نیچے
سے برآمدگی کے بعد اس شادی کو خطرات لاحق ہو چکے ہیں اور اب جہاں بعض
امریکی قانون ساز پاکستان کو مالی امداد کی فوری بندش کا مطالبہ کر رہے ہیں
وہیں کچھ ایسے بھی ہیں جو پاکستان کو ایک ’بدمعاش ریاست‘ قرار دلوانا چاہتے
ہیں۔پاکستان ان خراب تعلقات کو بہتر کرنے کے لیے کوئی خاص کوشش کرتا نظر
نہیں آتا بلکہ چیف آف آرمی سٹاف جنرل اشفاق پرویز کیانی تو امریکہ پر کم سے
کم انحصار کی پالیسی اپنانے کے خواہاں ہیں اور یقینی طور پر حکومت کو بھی
اس طرز عمل کا مشورہ دیں گے یا دوسرے الفاظ میں اس مقصد کے حصول کے لئے
باضابطہ دباؤ بھی ڈالیں گے جس کا سامنا حکومت کے لیے خاصا دشوار ہوگا جبکہ
آرمی چیف کی جانب سے طالبان کی حمایت ختم نہ کرنے کے فیصلے نے تو امریکی
امیدوں پر بالکل ہی پانی پھیر دیا ہے،مبصرین کے خیال میں پاکستان طالبان کی
اس وقت تک حمایت ختم نہیں کرے گا جب تک اس کے علاقائی سکیورٹی خدشات کو کم
کرنے کی کوشش نہیں کی جاتی کیونکہ پاکستان افغانی طالبان کو افغانستان میں
انڈین اثر و رسوخ کے خلاف ایک موثر ہتھیار سمجھتا ہے اور وہ اس کو آسانی سے
نہیں چھوڑے گا اور نتیجہ امریکہ سے ”یاری“ ٹوٹنے ہی کی صورت میں نکلے گا۔
اطلاعات کے مطابق امریکہ نے پاکستان سے کئی مطالبے کیے ہیں جن میں ایک
القاعدہ اور طالبان کی بقیہ قیادت کی تلاش سرفہرست ہے۔پاکستان کی تردید کے
باوجود بعض مبصرین کا خیال ہے کہ طالبان رہنماء ملا عمر پاکستانی شہر کوئٹہ
کے قریب ہی کہیں چھپے ہوئے ہیں اور انہی اطلاعات کو بنیاد بنا کر امریکی
پاکستان میں ایبٹ آباد جیسی مزید کاروائیوں کا خواہاں ہے اگر واقعی ایسا
ہوا تو بھی حکومت پاکستان موجودہ سے بھی زیادہ شدید صورتحال سے دوچار ہوگی
اور اس کے لئے رہی سہی ساکھ بچانے کے لئے امریکی سے کٹی ہی واحد آپشن ہوگی۔ |