آنکھ حیران ہے کیا شخص زمانے سے اٹھا!
حضرت الاستاذ مفتی سعید احمد صاحبؒ پالن پوری (1940 - 2020)
ماہ رمضان کی مبارک ساعت میں حضرت الاستاذ مفتی سعید احمد صاحب پالن پوری
(رحمہ اللہ) اس دار فانی سے کوچ کرگئے۔ حضرت الاستاذؒ کی قدر وقیمت ہمارے
اور ہم جیسے حضرت کے ہزاروں شاگردوں کے دلوں کے میں اسی وقت سے تھی، جب ہم
نے ان کے سامنے زانوے تلمذ طے کیا۔ اب ان کی وفات کے بعد، عالم عرب وعجم سے
جس طرح اہل علم حضرات نے آپ کی وفات پر رنج وغم کا اظہار کیا اور اپنے
تعزیتی مکتوبات وبیانات میں، آپ کی علمی خدمات کوسراہا کہ آپ کی قدر وقیمت
ہمارے دلوں میں مزید بیٹھ گئی۔ آپ نے اپنی زندگی کا ایک بڑا حصہ کتب بینی
ومطالعہ ، درس وتدریس ، تصنیف وتالیف، وعظ ونصیحت اور ردّ بدعات میں صرف
میں کیا۔ آپ نے ایشیائی ممالک سے لے کر یورپی وافریقی ممالک تک بغیر لومۃ
لائم کی پروا کیے ہوئے، قرآن و سنت کی تشریح وتوضیح، نشر واشاعت اور بدعات
وخرافات کے رد کے حوالے وہ خدمات انجام دی کہ بلا شبہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ
آپ جیسی شخصیت برسوں میں پیدا ہوتی ہے۔
مت سہل ہمیں جانو پھرتا ہے فلک برسوں ٭ تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں
حضرت الاستاذؒ کی تدریسی خدمات کا سلسلہ:
حضرت الاستاذؒ کی خدمات کےمتعدد نمایاں پہلو ہیں۔ آپ مدرس ومعلم، مصنف
ومولف، خطیب وواعظ، داعی ومبلغ اور تاجر وبزنس مین سب کچھ تھے۔ آپ ہمارے
لیے ایک قابل تقلید،محترم ومعظم اور شفیق وکریم استاذ تھے۔ اس راقم کو اللہ
تعالی نے حضرت سے سنن ترمذی (جلد اول) اور شرح معانی الآثار پڑھنے کا موقع
عطا فرمایا۔ ہم اس تحریر میں، آپ کی تدریسی خدمات اور درسی خصوصیات کو
مختصرا پیش کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ تعلیم وتدریس کے میدان میں آپؒ اپنے
منفرد اسلوب اور نادر انداز کی بناپر اپنی مثال آپ تھے۔ آپ اس حوالے سے کسی
کے مقلد نہیں؛ بلکہ مجتہد تھے۔ آپ کی اس خوبی کا اعتراف ہر کسی کو تھا۔ آپ
کے جن تلامذہ کو بھی تدریسی خدمات کا موقع میسر ہوتا، ان کی یہ پہلی خواہش
ہوتی تھی کہ دوران تدریس، آپ کے طرز اور اسلوب کو اپنا کر، تدریسی خدمات
انجام دیں؛ تاکہ طلبہ ان کے درس سے مطمئن ہوسکیں۔
حضرت الاستاذؒ نے اپنی تدریسی زندگی کا آغاز، طالب علمی کے دور سے ہی کردیا
تھا۔ آپ جب دار العلوم دیوبند سے سن 1382 ہجری میں فراغت کے بعد، افتا کی
تعلیم کے غرض سے دار العلوم میں داخلہ لیا، اسی سال سے آپ نے اپنی تدریس کا
آغاز کردیا تھا۔ آپ نے اپنے چھوٹے بھائی، حضرت الاستاذ مفتی امین صاحب پالن
پوری -حفظہ اللہ- (استاذ حدیث: دار العلوم دیوبند) کو دار العلوم میں رکھ
کر حفظ شروع کرایا۔ حضرت مفتی امین صاحب حفظہ اللہ رقم طراز ہیں: "راقم
الحروف کو 1382 ہجری میں اپنے ہمراہ دیوبند لائے اور حضرت قاری کامل صاحب
دیوبندی کی درس گاہ میں احقر کو حفظ قرآن کریم کے لیے بٹھایا، مگر میں اپنی
نااہلیت کی وجہ سے قاری صاحب مرحوم سے ٹھیک سے استفادہ نہ کرسکا؛ تو میرے
حفظ قرآن کریم کی پوری ذمہ داری آپ نے سنبھالی اور ڈیڑھ سال میں مجھے حافظ
بنایا۔ " (الخیر الکثیر، ص: 48)
دار العلوم اشرفیہ، راندیر میں تدریسی خدمات:
تکمیل افتا کے بعد، آپؒ آئندہ سال، دار العلوم، دیوبند میں کچھ مہینے معین
المفتی رہے۔ اس کے بعد حضرت علامہ محمد ابراہیم بلیاویؒ کے توسط سے، سن
1384ھ میں، آپ کی تقرری دار العلوم اشرفیہ، راندیر، سورت، گجرات میں ہوئی۔
ذو القعدہ 1384 ھ سے شعبان 1393 ھ تک ، یعنی مستقل نو سال حضرتؒ نے اشرفیہ،
میں تدریسی خدمات انجام دی۔ اس تدریسی دوراینہ میں، بہت سی اہم کتابیں آپ
سے متعلق رہیں، مثلا: سنن ابوداؤد ، سنن ترمذی، طحاوی، موطین، نسائی، ابن
ماجہ، مشکاۃ، جلالین، الفوز الکبیر، ترجمہ قرآن کریم، ہدایہ آخرین، شرح
عقائد، حسامی وغیرہ۔ (الخیر الکثیر، ص: 50)
دار العلوم، دیوبند میں تقرری:
اللہ تعالی نے حضرت مفتی صاحبؒ کے دل ودماغ میں تفہیم وتدریس کا وہ ملکہ
ودیعت کر رکھا تھا، جو بہت سے کم لوگوں کے حصے میں آیا ہوگا۔ آپ کی اس
صلاحیت سے آپ کے اساتذہ وطلبہ سب بخوبی واقف تھے۔ چناں چہ جب 1393 ھ میں
دار العلوم، دیوبند میں، عربی درجات کے لیے ایک مدرس کی ضرورت محسوس کی
گئی؛ تو آپ کےاستاذ، حضرت مولانا ہاشم صاحب بخاریؒ نے، جو اس وقت دار
العلوم، دیوبند میں تدریسی خدمات انجام دے رہےتھے ، آپ کو اطلاع دی کہ دار
العلوم میں، ایک مدرس کی ضرورت ہے۔ آپ اپنی درخواست برائے تدریس ارسال
کریں۔ آپؒ نے درخواست بھیج دی۔ اسی سال شعبان میں مجلس شوری کا اجلاس منعقد
ہوا؛ تو اسی مجلس میں، آپ کی تقرری ہوگئی اور آپ کو اس کی اطلاع دی گئی۔
پھر آپ نے شوال 1393 ھ سے دار العلوم دیوبند میں تدریسی خدمات شروع کی اور
یہ سلسہ تا دم واپسیں (سن 1441ھ تک) جاری رہا۔ (ملخصا از: الخیر الکثیر، ص:
50-51)
دار العلوم، دیوبند میں آپ کی تدریسی خدمات کا دورانیہ تقریبا 48/ سالوں پر
محیط ہے۔ اس دوران جن کتابوں کی تدریسی ذمہ داری آپ نے انجام دیں، وہ خود
اس بات کی شہادت ہے کہ آپ ایک باصلاحیت اور قابل مدرس ومعلم تھے۔ادارہ کی
انتظامیہ نے بھی آپ کی صلاحیت کو قدر کی نگاہ سے دیکھا اور اہم کتابوں کی
تدریس کی ذمے داری آپ کو سپرد کرتی رہی۔ دار العلوم میں جو کتب آپ کے زیر
تدریس رہیں وہ یہ ہیں: سلم العلوم، ملا حسن، ہدیہ سعیدیہ، میبزی، ہدایہ
اول،ثالث، رابع، حسامی، مسلم الثبوت، الفوز الکبیر، تلخیص الاتقان، شرح
عقائد جلالی، سراجی، رشیدیہ ، مسامرہ، حجۃ اللہ البالغۃ، دیوان متنبی،
دیوان حماسہ، سبعہ معلقہ، جلالین، تفسیر بیضاوی، تفسیر مظہری، تفسیر مدارک،
نخبۃ الفکر، مقدمہ ابن صلاح، مشکاۃ، طحاوی شریف، موطا امام مالک، موطا امام
محمد، سنن ابن ماجہ، سنن نسائی، سنن ترمذی، سنن ابي داؤد، مسلم، جلد اول،
بخاری ۔ ابھی تقریبا بارہ سالوں سے آپ دار العلوم، دیوبند میں شیخ الحدیث
اور صدر المدرسین کے اہم عہدے پر فائز تھے۔
حضرت مفتی صاحب کی درسی خصوصیات:
حضرت مفتی صاحبؒ اپنے نادر اسلوب، اچھوتے طرز اور مجتہدانہ تدریسی انداز کے
لیے جانے جاتے تھے۔ آپ کے درس میں بہت سی ایسی خصوصیات تھیں، جو عام طور پر
یکجا کسی ایک مدرس میں نہیں پائی جاتی ہیں۔ آپ کی چند خصوصیات درج ذیل ہیں:
آپؒ سبق کے بڑے پابندتھے۔ آپ وقت پر درس گاہ میں تشریف لاتے اور اس طرح سبق
کی پلاننگ کرتے تھے کہ جو مقدار آپ کو پڑھانا ہوتا، آپ گھنٹہ کے دوران
پڑھالیتے اور گھنٹہ بجتے ہی درس گاہ سے نکل جاتے۔
سال کے درمیان میں، جب سبق جاری رہتا، ان دنوں آپ بہت حد تک کسی لمبے سفر
سے گریز کرتے؛ تاکہ سبق کا ناغہ نہ ہو اور طلبہ کو نقصان نہ اٹھانا پرے۔
آپ کی یہ بھی خصوصیت تھی کہ دوران درس آپ جس انداز سے سال کے شروع میں کلام
فرماتے تھے، اسی رفتار اور انداز سے سال کے اخیر تک کلام کرتے، تا آں کہ
کتاب مکمل کرادیتے۔
آپؒ سال کے شروع میں ہی طلبہ کو کچھ رہنما ہدایات دے دیتے۔ پھر طلبہ پورے
سال آپ کے بتائے ہوئے ہدایات پر پابندی سے عمل کرتے۔ آپ کے دار الحدیث میں
قدم رکھنے سے پہلے ہی، طلبہ حاضر ہوجاتے اور وہ خوب صورت سی وسیع وعریض دار
الحدیث بھرجاتی۔
آپ کا یہ معمول تھا کہ سال کے شروع میں طلبہ کو اسمائے حسنی اور کچھ احادیث
شریفہ یاد کراتے۔مزید طلبہ سے یہ بھی نصیحت کرتے کہ تم بھی اپنے شاگردوں کو
یاد کرانا؛ تاکہ یہ صدقہ جاریہ رہے۔
آپ کا یہ بھی معمول تھا کہ سال کے شروع میں مبادیات حدیث بیان کرتے تھے ۔
اس ضمن میں آپ بہت سی علمی بحثیں، مثلا: حدیث، تدوین حدیث، وحی اور وحی کی
قسمیں، حجیت حدیث، اجماع، قیاس،تقلید وعدم تقلید،اہل سنت والجماعت وغیرہ
وغیرہ کو بخوبی بیان کرتے۔ الحمد للہ، آپ کی یہ قیمتی باتیں "تحفۃ
الالمعی"، جلد اول کے شروع میں محفوظ ہوگئیں ہیں۔
آپ نے اپنے قیمتی اوقات کی قدر کی اور ایک ایک منٹ کتب بینی ومطالعہ، تصنیف
وتالیف وغیرہ میں صرف کیا۔ آپ ایک کہنہ مشق ، منفرد لب ولہجہ اور اسلوب کے
ایک کامل ومکمل معلم ومدرس تھے۔ آپ طلبہ کی نفسیات کو بخوبی سمجھتے تھے ؛
لہذا آپ اس طرح کلام کرتے کہ طلبہ آسانی سے آپ کی بات سمجھ جاتے۔
اللہ پاک نے آپ کو تفہیم کا وہ ملکہ عطا فرمایا تھا کہ کسی بھی بات کو
سمجھانے کے لیے آپ ایک دو مثالیں پیش کرتے اور آسانی سے بڑے سے بڑے پیچیدہ
مسائل کو اس طرح پیش کرتے کہ ایک غبی اور کند ذہن طالب علم بھی بسہولت سمجھ
لیتا اور مطمئن ہوجاتا۔
آپؒ اپنے آسان، مرتب اور قابل فہم اسلوب تدریس کی وجہ سے طلبہ کے درمیان
مقبول ترین اساتذہ میں تھے۔ ہر طالب علم آپ سے دل وجان سے محبت کرتا ۔ ہر
طالب علم آپ کے گھنٹے میں پابندی سے حاضر ہوتا۔
دوران تدریس آپ اس طرح ٹھہر ٹھہر کر کلام کرتے تھے کہ جو طالب علم آپ کی
درسی تقریر نوٹ کرنا چاہتا، وہ آسانی سے نوٹ کرلیتا۔ یہی وجہ ہے کہ ترمذی
شریف کی تدریس کے دوران، آپ کے ہزاروں شاگردوں نے آپ کی تقریریں قلم بند
کی۔
جب کسی مختلف فیہ فقہی مسئلہ پر کلام کرتے، تو آپ تقابل اور ترجیح سے
اجتناب کرتے؛ بل کہ آپ کی یہ کوشش ہوتی کہ طلبہ کے سامنے اختلاف کی بنیادیں
بیان کی جائیں؛ تاکہ طلبہ سمجھ سکیں کہ ایک امام نے فلاں موقف اور دوسرے
امام نے فلاں موقف کیوں اختیار کیا۔
ترمذی شریف کے سبق میں ہر کسی کو عبارت پڑھنے کی اجازت نہیں ہوتی تھی؛ بلکہ
جو طلبہ عبارت پڑھنا چاہتے تھے، آپ ان کا امتحان لیتے ۔ امتحان میں جو طلبہ
ٹھہر ٹھہر کر، صاف ستھری ، سریلی متوسط آواز میں، بغیر صرفی ونحوی غلطی کے
عبارت پڑھنے میں کامیاب ہوجاتا، آپ ان طلبہ کو منتخب کرتے، پھر وہی طلبہ
سال کے اخیر تک عبارت پڑھتے۔
سال کے اخیر میں جب آپ کتاب کی تکمیل کراتے، اس موقع سے آپ طلبہ کو چند
دنوں تک جو نصیحتیں کرتے وہ بھی بہت اہم ہوتی تھیں۔ آپ اپنی نصیحت میں فارغ
ہونے والے طلبہ کو مختلف کٹیگریوں میں تقسیم کرتے۔ پھر وہ طلبہ جن کو مزید
تعلیم حاصل کرنے کا ارادہ ہوتا، ان سے کچھ اور باتیں کہتے، جن طلبہ کو
تدریس سے منسلک ہونے کا ارادہ ہوتا، ان کو کچھ اور نصیحتیں کرتے، جن طلبہ
کو تجارت کرنے کا ارادہ ہوتا، ان کو اس حساب سے مخاطب کرتے، جن طلبہ کا
تبلیغی جماعت میں جانے کا ارادہ ہوتا،ان کو اس کے اعتبار سے ایڈریس کرتے۔
حضرت الاستاذؒ مختلف علوم وفنون میں ید طولی رکھتے تھے۔ آپ ایک کہنہ مشق
مدرس ہونے کے ساتھ ساتھ، آپ ایک مایہ ناز فقیہ اور مفتی بھی تھے۔ آپ نے
سیکڑوں فتاوے کے جوابات اپنے قلم سے تحریر کیے جو رجسٹر میں محفوظ ہیں۔ آپ
ایک بہترین منتظم بھی تھے؛ چناں چہ آپ دار العلوم کی "مجلس تحفظ ختم نبوت"
کے ناظم اعلی بھی رہے۔ الحمد للہ، اس ادارہ نے رد قادیانیت کے حوالے حیرت
انگیز کارنامہ انجام دیا۔ آپ ایک بہترین داعی وخطیب بھی تھے؛ چناں چہ آپ نے
ملک وبیرون ممالک کے بہت سے اسفار کیے۔ خاص طور آپ رمضان کی طویل تعطیل میں
کبھی برطانیہ، کبھی امریکہ، کبھی کنیڈا اور کبھی افریقی ممالک کا دورہ کرتے
اور اپنے وعظ ونصیحت سے ہزاروں لوگوں کو سیراب کرتے۔ اللہ پاک آپ کی ان
خدمات کو قبول فرمائے!
حضرت مفتی صاحب (رحمہ اللہ) کی عمر تقریبا اسی سال تھی۔ آپ کئی سالوں سے
ایک نہ ایک بیماری سے دوچار رہتے تھے۔ مگر اللہ تعالی نے ہر بار آپ کو شفا
عطا فرمایا۔ عام طور پر آپ علاج کے لیے اپنے محبین ومخلصین کے مشورے سے
ممبئی کو ترجیح دیتے تھے۔ اس بار بھی آپ کی طبیعت رجب کے مہینے میں خراب
ہوئی۔ صحیح بخاری کے آخری سبق کے وقت طبیعت کچھ زیادہ ہی ناساز ہوگئی تھی۔
آپ ممبئی پہنچے اور علاج شروع ہوا۔ آپ رمضان المبارک کے پہلے دو عشرے میں،
اس پوزیشن میں تھے کہ تراویح کے بعد بیان بھی کرتے تھے۔ مگرپھر طبیعت ناساز
ہوئی اور وہی ہوا جو اللہ پاک کو منظور تھا اور یہ علوم وفنون کا انسائیکلو
پیڈیا ہمیشہ ہمیش کے لیےبہ روز: پیر، 25/رمضان المبارک 1441ھ = 19/مئی
2020ء کو، صبح کے وقت، عروس البلاد ممبئی کے سنجیونی ہوسپیٹل، ملاڈ (ایسٹ)
میں، ہم سب سے جدا ہوگیا۔ آپ کی وفات کی خبر سنتے ہی آپ کے محبین ومتعلقین
اور تلامذہ میں مایوسی چھا گئی، سوشل میڈیا پر دعا وایصال ثواب کی خبریں
اور تعزیتی مکاتیب کا تانتا بندھ گیا۔ گویا سب یہی کہہ رہے تھے کہ ع
آنکھ حیران ہے کیا شخص زمانے سے اٹھا!
وفات ہی کے دن، وطن سے سیکڑوں میل دور، اوشیوارہ مسلم قبرستان، جوکیشوری
(ویسٹ)،ممبئی میں، آپ سپرد خاک کردیے گئے۔ آپ کی نماز جنازہ، آپ صاحب زادے
مولانا احمد سعیدصاحب (حفظہ اللہ) نے پڑھائی۔ اللہ تعالی حضرت الاستاذ کی
خدمات کو قبول فرمائے! رب ذو الجلال آپ کو جنت الفردوس میں جگہ عنایت
فرمائے! آمین!
|