بھولی چیز کو یاد کرو

بھولی چیز کو یاد کرو!
موت! جی ہاں ،موت ایک ایسی حقیقت ہے جسے ہر مذہب کا ماننے والا بلکہ لا مذہب بھی مانتا ہے ،لیکن آج ہر ایک اپنی موت کو فراموش کیے ہوئے ہے بہرکیف جو اللہ پاک و رسول ﷺ کے وجود ہی سے غافل و منکر ہیں ، ان سے اس بات کا کیا شکوہ ، افسوس تو ہم مسلمانوں پر ہے کہ دنیا کو آخرت کی کھیتی ماننے کے باوجود موت سے ، اس کی تیاری سے غافل ہیں ،نبی کریم ﷺ نے اپنی امت کو موت کو پیشِ نظر رکھنے کی تعلیم دی ہے اس حوالہ سے ہم چند احادیث ذِکر کرتے ہیں :
(۱)رسول اکرم ﷺ نے فرمایا :لذّتوں کو توڑنے والی چیز کو بکثرت یاد کرو ،یعنی موت کو۔
(۲)ایک اَنصاری مردنے رسول اکرمﷺ کو سلام کرنے کے بعد آپ سے پوچھا کہ سب سے افضل مومن کون ہے؟آپ نے فرمایا :جس کے اخلاق سب سے اچھے ہو ں۔پھر اس نے سوال کیا کہ سب سے عقل مند مومن کون ہے؟آپ نے فرمایا :جو موت کو سب سے زیادہ یاد رکھے، اور موت کے بعد کے لیے سب سے اچھی تیاری کرے ۔یہ ہیں عقل مند۔
(۳)رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:موت کو بکثرت یاد کر و،وہ گناہوں کو زائل کرتی اور دنیا میں زہد پیدا کرتی ہے۔
(۴)حضرت عمر نے فرمایا کہ نصیحت کرنے ، اور ڈرانے کو موت کافی ہے۔

موت کی تمنّا کرنا کیسا ؟
یاد رہے کہ دنیا دارُ العمل ہے ، اسی دارِ فناء میں رہ کر دارُ البقاء کی تیاری کرنا ہمارا مشن ہے ۔ دُنیاوی مصائب وتکالیف ہمارے امتحان کا حصّہ ہے، ان پریشانیوں اور مشکلات کے آگے ہتھیار ڈال کر ، موت کی تمنّا کرنا ہمّت اور جوانمردی کے خلاف ہے ۔شریعتِ مطھّرہ نے بھی اسے ممنوع قرار دیا ہے۔اس حوالے سے چند احادیث ِ طیّبہ ملاحظہ فرمائیں : حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا : تم میں سے کوئی شخص مصیبت آنے کی وجہ سے موت کی تمنّا نہ کرے ،اور اگر تمنّا ہی کرنی ہے، تو یوں عرض کرے:اے اللہ!جب تک میرے لیے زندگی بہتر ہے،تو زندہ رکھ!اور جب میرے لیے موت میں بہتری ہو،تو موت دے۔

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:تم میں سے کوئی موت کی تمنّانہ کرے ، اور اس کو آنے سے پہلے نہ بلائے ، کیونکہ جب کوئی مر جاتا ہے ، تو اس کے اعمال کا سلسلہ بھی ختم ہوجاتا ہے ۔ اور مومن کے لیے زیادتیٔ عمر میں بہتری ہے۔

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ تم میں کوئی موت کی تمنّا نہ کرے ،کیونکہ اگر نیک ہے ، تو امید ہے کہ اس کی نیکیوں میں اضافہ ہوگا۔ اور اگر بدکار ہے، توشاید نیکی کی طرف لوٹ آئے۔

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :تم موت کی تمنّا مت کرو ،کیونکہ نزع کی ہولناکی سخت ہے ،انسان کی عمر دراز ہونا سعادت ہے ،ممکن ہے کہ اللہ بندے کو توبہ کرنے کی توفیق عطا فرمادے۔

علامہ نقی علی خان بریلوی رحمہ اللہ تعالیٰ نے ’’أحسنُ الوعَاء لآدابِ الدُّعاء‘‘ میں فرمایا :رنج ومصیبت سے گھبرا کر اپنے مرنے کی دعا نہ کرے ، کہ مسلمان کی زندگی اس کے حق میں غنیمت ہے۔

ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں: ایک شخص شہید ہوا، برس دن بعد (ایک سال بعد)اس کا بھائی بھی مر گیا۔ طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے خواب میں اس کو دیکھا کہ شہید سے بہشت میں آگے جاتا ہے، خواب حضور اقدسﷺ سے بیان کیا اور اس کی پیش قدمی (شہید سے آگے جانے)پر تعجب کیا فرمایا:جو پیچھے مرا، کیا اس نے ایک رمضان کا روزہ نہ رکھا۔اور ایک سال کی نماز ادا نہ کی۔ یعنی مقامِ تعجّب نہیں کہ اس کی عبادت اس کی عبادت سے زیادہ ہے۔

اے عزیز!وہاں(آخرت) کے لیے کیا جمع کیا ،کہ یہاں (دنیا)سے بھاگتا ہے؟ اگر موت کی شدّت وسختی سے واقف ہو ، توآرزو کرے، کاش !تمام دنیا کی تکلیف مجھ پر ہو، اور چند روز موت سے مہلت ملے۔

سیّدِ عالَمﷺ فرماتے ہیں: رنج کے سبب سے موت کی آروز نہ کرو، اگر ناچار ہو جاؤ، کہو:اَللّٰھُمَّ أَحْیِنِیْ مَا کَانَتِ الْحَیَاۃُ خَیْرًا لِّیْ وَتَوَفَّنِیْ إِذَا کَانَتِ الْوَفَاۃُ خَیْرًا لِّیْ .یعنی:خدا یا ! مجھے زندہ رکھ جب تک زندگی میرے حقّ میں بہتر ہے ۔اور مجھے وفات دے، جس وقت موت میرے حق میں بہتر ہو۔

ایک شخص نے پوچھا:بہتر لوگوں کا کون ہے؟(یعنی لوگوں میں سے بہترین شخص کون ہے؟)فرمایا:’’جس کی عمر دراز ہو،اور کام اچھے۔‘‘عرض کی :بدتر لوگوں کا کون ہے ؟ فرمایا‘‘:جس کی عمر بڑی ہو اور کام بُرے۔
پس نیکو کار کے واسطے زندگی نعمت ہے اور بدکار کے لیے زندگی نقِمت (سزا) ہے، مگر تمنا موت کی اس خیال سے کہ جس قدر جیوں گا (زندہ رہونگا)زیادہ گناہ کرونگا، نادانی ہے، اگر گناہوں کو بُرا جانتا ہے تو ان کے تَرْک پر مُسْتَعِد(تیار)ہو،اور عمرِ دراز طلب کرے ، تاکہ عبادت وریاضت سے ان کا تدارُک (تلافی)کرے: {اِنَّ الْحَسَنٰتِ یُذْہِبْنَ السَّیِّاٰتِ} ترجمہ: بے شک نیکیاں برائیوں کو مٹا دیتی ہیں۔

اسی طرح جب دین میں فتنہ دیکھے تو اپنے مرنے کی دعا جائز ہے۔ حضور اقدس ﷺ سے منقول ہے: إِذَا أَرَدْتَّ بِقَوْمٍ فِتْنَۃً فَاقْبِضْنِیْ إِلَیْکَ غَیْرَ مَفْتُوْنٍ .یعنی :اے اللہ !جب تو کسی قوم کے ساتھ عذاب وگمراہی کا ارادہ فرمائے (ان کے اعمالِ بد کے سبب)تو مجھے بغیر فتنے کے اپنی طرف اٹھا۔

حدیث میں ہے:فرماتے ہیں:کوئی تم میں سے موت کی آرزو نہ کرے مگر جب کہ اعتماد نیکی کرنے پر نہ رکھتا ہو۔

خلاصہ یہ کہ دنیاوی پریشانیوں اور مصیبتوں سے بچنے کے لیے موت کی تمنّا کرنا جائز نہیں ہے ۔ اور دینی نقصان کے خوف سے جائز ہے ۔

اللہ تعالی ہمیں موت کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے سنجیدگی کی ساتھ اس کی تیاری کی توفیق دے ۔آمین ۔خیر

 

Mufti Imran Madani
About the Author: Mufti Imran Madani Read More Articles by Mufti Imran Madani: 51 Articles with 60583 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.