ان کیمرہ بریفنگ نیو یو ٹرن

سانحہ ایبٹ اباد کی کوکھ سے پھیلنے والی غیر یقینی مایوسی اور نراسیت کے باوجود پوری قوم سرکاری سیاسی پارلیمانی اداروں اور دفاعی فورسز نے ایک فورم پر جس یکجہتی اخلاص اور محب وطنی کا اعلیٰ و ارفع اظہار کیا ہے وہ ہماری تاریخ کا تابناک پہلو ہے۔ اسی پہلو نے پوری قوم کو نیا یو ٹرن دکھایا ہے جس پر کندھے سے کندھا ملا کر ہم نہ صرف منظم قوم کا درجہ حاصل کرسکتے ہیں بلکہ ہمارا ایمان ایقان اتفاق و اتحاد روئے ارض کی ہر استعماری طاقت و دشمنان پاکستان کے دانت کھٹے کرنے کی صلاحیت سے مالا مال ہے۔13 مئی جمعہ کا دن اہل قوم کے لئے خوش بختی کا دن ہے کیونکہ ریاستی زندگی کے 64 سالوں میں پہلی مرتبہ عسکری اداروں اور ISIنے ایک طرف پارلیمنٹ کی بالادستی کو قبول کیا تو دوسری جانب بے لگام اور ریاست میں ریاست کا درجہ رکھنے والی ISIنے اپنی غلطیوں کا اعتراف کر کے حق سچ کو دوبالا کر دیا۔۔ اراکین پارلیمنٹ کے سامنے سرنڈر کرنے اور ملک و قوم سے اسامہ اپریشن میں کوتاہیوں کے عوض اپنے احتساب کا اعلان کرنے اور ممبران پارلیمان کے چھبتے کسیلے اور زہریلے سوالات کا برد باری سے دلائل دینے پر جنرل پاشا اور انکی ٹیم مبارک داد کی مستحق ہے۔ ٹیگور نے کہا تھا غلطیوں پر سر خم تسلیم کرلینے اور مستقبل میں انہی لغزشوں سے درس حاصل کرنے والی قومیں دوبارہ اپنے پیروں پر کھڑا ہونے میں دیر نہیں کرتیں۔ امریکہ آئی ایس آئی کو کمزور کرنے کے لئے اسامہ آپریشن کو نت نئی کذب بیانی سے ہمکنار کرتا آرہا ہے۔ اسامہ کی ہلاکت کو امریکہ نے ہی تضادات کا مجموعہ بنادیا۔ جنگ میں سب سے پہلی ہلاکت سچ کی ہوتی ہے۔ امریکی جریدےpatient count کے ایڈیٹر پال جوزف واٹسن نے اپنے مضمون4 مئی2011 میں رقمطراز ہیں کہ امریکہ کی ڈیفنس منسٹری میں مشیر کے عہدے پر فائز ڈاکٹر اسٹیوس نے3 مئی2011 کو ریلیکس جونز شو میں اسامہ اپریشن کے متعلق امریکی شعبدوں کی ہنڈیا کو بیچ چوراہے میں پھوڑ کر مطالبہ کیا کہ امریکہ کی دو حکومتوں کے خلاف انسانیت سوز جرائم کے مقدمات چلائے جائیں۔ امریکہ نے اسامہ آپریشن میں اپنے فرنٹ لائنر حلیف کو مکمل دھوکہ دیا۔ امریکی جہازوں نے پاکستان کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کی۔ پارلیمنٹ کے ان بریفنگ اجلاس میں وزیراعظم نے آئی ایس آئی اور سی آئی اے کے مابین اشتراک کو ختم کرنے کا اعلان کر کے خود مختیار ریاست کے باحمیت سربراہ کا کردار انجام دیا۔پاکستان کو بھی امریکہ کے خلاف جنگی جرائم کے حق میں ہاہاکار مچانی چاہیے۔ آئی ایس آئی کے چیف جنرل پاشا نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ عسکری قیادت پارلیمان کو جواب دہ ہے۔ جنرل پاشا نے وسیع القلبی کا روز روشن ثبوت دیکر آفر کی کہ وہ نہ صرف احتساب کے لئے تیار ہیں بلکہ پارلیمان چاہیے تو وہ ابھی مستعفی ہونے کو تیار ہیں بی بی سی کے مطابق ن لیگ نے بریفنگ کے دوران نے ڈی جی آئی ایس آئی کو نوک زد تنقید رکھا کہ ساری پالیسیاں آپ بناتے ہیں سارے فیصلے خود آپ کرتے ہیں تو پھر بھلا اسکی زمہ داری کسی اور پر کیوں عائد کی جاتی ہے؟ قوم ن لیگ کے خدشات اور تحفظات پر کف افسوس ملتے ہوئے عرض کرتی ہے کہ جب ریاست کے طاقتور ترین ادارے نے اپنی کوتاہی اور قوم سے معافی مانگنے کا اعلان کردیا ہے تو تب ایسی گل فشانیوں کی ضرورت فورسز کو کمزور کرنے کا پیش خیمہ بن سکتے ہیں۔bbc کے مطابق ڈی جیisi نے شکوہ کیا کہ کچھ سیاست دان جرنیلوں پر تنقید کے تازیانے برساتے وقت یہ بھول جاتے ہیں کہ وہ دشمن پر تنقید کا کلہاڑا چلا رہے ہیں یا اپنوں پر۔ ڈی جی نے بریفنگ کے دوران بتایا کہ دشمن isi کو ختم کرنے کے درپے ہے اور اسی نقطہ نظر کے تحت وہ قوم کو تقسیم کرنے کی پالیسی پر گامزن ہے۔ بریفنگ میں آرمی چیف چیرمین جوائنٹ چیفس سٹاف کمیٹی تینوں فورسز کے سربراہوں اور سندھ سرحد اور بلوچستان کے وزرائے اعلیٰ نے بہ نفس نفیس شرکت کی مگر پنجاب کے کوتوال شہباز شریف نے اجلاس کا بائیکاٹ کیا۔ شہباز شریف کا بائیکاٹ سمجھ سے بالاتر ہے۔ ایک ایسے موقع پر جب ملک و قوم سنگین بحرانی کیفیت سے دوچار ہیں۔ یہود و ہنود پاکستان کو کھا جانیوالی نظروں سے دیکھ رہے ہیں۔ایک ایسے موقع پر جب عسکری قیادت پارلیمان کے سامنے جوابدہ تھی ایسے اہم موقع پر سیاست گردی کی کسی صورت میں حمایت نہیں کی جاسکتی۔ جنرل شجاع پاشا کی مستعفی ہونے کی پیشکش کو قبول نہیں کیا گیا جو احسن قدم ہے۔ مشترکہ بریفنگ سے پہلے ہر گزرتے لمحوں کے ساتھ منفی اثرات کا دائرہ کار بڑھ رہا تھا۔ قوم غیر یقینی کیفیت سے دوچار تھی۔ امید کی جانی چاہیے کہ بریفنگ کے بعد منفی اثرات زائل ہونگے۔ دکھ تو یہ ہے کہ اپوزیشن سیاسی جماعتیں بریفنگ کے عمل سے کیڑے نکالنے میں ہلکان ہیں۔ سانحے کے بعد حکومت قوم اور افواج نے دس روز سکتے میں گزارے اسکی سو فیصد تلافی تو ناممکن ہے مگر سیاسی اور مذہبی قائدین یہ تو کرسکتے ہیں کہ وہ اپنے گروہی سیاسی اور دینی مفادات کو پس پشت ڈال دیں۔ ملکی بقا اور سلامتی کے لئے باہمی رابطوں کو مربوط بنائیں۔ نواز شریف نے جوڈیشل کمیئشن قائم کرنے کے لئے تین دن کی ڈیڈ لائن دی ہے اگر وہ یہی مطالبہ تحریری طور پر ایوان صدر اور وزیراعظم سیکریٹریٹ بجھواتے تو بہتر نتائج کی توقع نوشتہ دیوار تھی۔ پاکستان بحرانوں کی دلدل میں دھنسا ہوا ہے۔ جس سے باہر نکلنے کا یہی ایک آزمودہ نسخہ ہے کہ ریاست کے تمام ادارے دینی اور سیاسی جماعتیں شکایات کے دفتر کھولنے سے گریز کریں کیونکہ یہ وقت ایک دوسرے کو زک پہنچانے یا طعن و تشنع کا نہیں۔پاکستانی قوم جس ملک کے دامن کو دوستی کے لہو میں داغدار تصور کررہی ہے اسکے متعلق الفاظ کے چناؤ میں احتیاط لازمی ہوسکتی ہے مگر الفاظ کے استعمال میں احتیاط کا تقاضا ہمارے معدودے چند دفاعی اداروں کے لئے بھی ناگزیر ہے۔ آئی ایس آئی اور پاک فوج کو آڑے ہاتھوں لینا دشمنوں کے موقف کو جلا بخشنے کا نسخہ کیمیا ہے۔ملکوں کی تاریخ میں نشیب و فراز آتے رہتے ہیں۔ جب کسی قوم پر بیرونی بحران حملہ آور ہوتا ہے تو تب داخلی اختلافات پس منظر میں چلے جاتے ہیں۔ اس وقت قوم سے لیکر افواج پاکستان پارلیمان سے لیکر سیاسی مکتب کے پروفیسروں تک ساروں کو اتحاد و اتفاق کی ضرورت ہے جو ہماری بقا اور سلامتی کے لئے لازم و ملزوم ہے۔ عسکری اداروں کی پارلیمان میں بریفنگ سے جمہوریت مستحکم ہوگی۔ مارشل لا کے چانس ختم اور ایک نئے سفر کا آغاز جو قومی یکجہتی کو فروغ دیگا۔
Rauf Amir Papa Beryar
About the Author: Rauf Amir Papa Beryar Read More Articles by Rauf Amir Papa Beryar: 204 Articles with 140734 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.