یہ پچھلی عید کا سچا واقعہ ہے- میں نوٹوں کی نئی گڈی لینے
کے لیے بولٹن مارکیٹ کراچی گیا تھا - تا کہ عید کے موقع پر بچوں میں عیدی
بانٹ سکوں - بولٹن مارکیٹ کراچی کا ایک ایسا علاقہ ہے کہ جہاں فٹ پاتھ پر
جگہ جگہ لوگ انعامی بانڈ اور نوٹوں کی نئی گڈیاں بیچ رہے ہوتے ہیں - اور
بہت سے لوگ جو بنکوں میں لائن نہیں لگانا چاہتے زیادہ رقم دے کر فٹ پاتھ سے
ہی گڈیاں خرید لیتے ہیں. ایک جگہ لوگوں کا رش دیکھ کر میں وہاں گیا- تو پتا
چلا کہ نوٹوں کی گڈی والے دوکاندار میں اور ایک گرھاک میں اس بات پر جھگڑا
ہو رہا تھا- کہ دوکاندار کہ رہا تھا کہ اس آدمی نے گڈی کے پیسے نہیں دئیے
ہیں اور گڈی مانگ رہا ہے - جب کہ وہ آدمی کہ رہا تھا کہ اس نے گڈی کے لیے
پیسے دے دئیے ہیں - میں نے دونوں کا جائزہ لیا تو معلوم ہوا کہ وہ گرھاک
آدمی دفتری بابو لگ رہا تھا اور پینٹ شرٹ میں ملبوس تھا جب کہ دوکاندار
حلیہ سے غریب آدمی دکھائی دے رہا تھا مگر وہ حد سے زیادہ واویلا مچا رہا
تھا اور نوٹوں کے ایک گڈی کے لیے ایسا غیر فطری رویہ اپنا رہا تھا- جیسے کہ
اس کی ساری دنیا ہی لٹ چکی ہو - یعنی بڑا ہی شور مچا رہا تھا اور آنسووں سے
رو رہا تھا - یہ دیکھ کر مجھے ایسا لگا جیسے کہ وہ کچھ زیادہ ہے اداکاری کر
رہا ہے اور مثل مشہور ہے کہ حد سے زیادہ صفائی پیش کرنا آدمی کو مجرم ثابت
کر دیتی ہے - اچانک اس دفتری بابو نے اس دوکاندار سے کہا کہ وہ قرآن کی قسم
کھا لے کے اس نے گڈی کے پیسے نہیں لیے ہیں تو اس دوکاندار نے فوری طور پر
قرآن کی قسم کھا لی اس پر دفتری بابو نے نوٹوں کی گڈی کا مطالبہ ترک کر دیا
اور وہاں سے چلا گیا اور اس طرح معاملہ رفع دفع ہو گیا اور اس کے بعد اس
دوکاندار کا رونا دھونا بھی بند ہو گیا - یہ سارا واقعہ دیکھنے کے بعد مجھے
ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ جیسے دوکاندار جھوٹا ہے کیونکہ ایک گڈی کے لیے
ایسا واویلا کوئی ٹھگ قسم کا آدمی ہی مچا سکتا ہے کوئی شریف آدمی نہیں مچا
سکتا - اس واقعہ کی اصل حقیقت تو الله تعالیٰ کو ہی پتا ہے مگر اگر میرا
اندازہ صحیح ہوا تو دوکاندار جھوٹی قسم کھا کر سخت نقصان میں رہا اور بقول
شاعر داغ دہلوی کہ
خاطر سے یا لحاظ سے میں مان تو گیا
جھوٹی قسم سے آپ کا ایمان تو گیا
ہمارے پیارے نبی حضرت محمّد صلی الله علیہ و آ له وسلم کا ارشاد گرامی ہے
جس کا مقہوم کچھ یوں ہے کہ "
جو شخص جھوٹی قسم کھا کر کسی کا مال لے لے گا وہ آللہ کے سامنے کوڑھی ہو کر
پیش ہو گا
|