ؒؒاکتیس مئی کی صبح سات بجے اسلام آباد ائیر پورٹ کے رن
وے پر جہاز کے رکتے ہی ایک عجیب سے خوف نے آ گھیراذہن میں کئی سوالات نے
جنم لیامگرہم تمام سوالات کوجھٹکتے ہوئے جہازسے باہرنکلے توباہر نکلتے ہی
دھکم پیل شروع ہوگئی، بندے پر بندہ ،کوئی سوشل ڈسٹنس نہ حفاظتی
انتظامات۔انتظامیہ کاتوسرے سے وجود ہی نہ تھا ۔خیر اپنا سامان اٹھانے کے
بعد تین سو مسافروں کی آڑھی ترچھی بے ہنگم بنی ہوئی تین چار لائنز میں سے
ایک لائن میں کروناٹیسٹ کے لیے کھڑا ہو گیا ، اﷲ اﷲ کر کے دو گھنٹے کھڑے
رہنے کے بعد نمبر آیا ،ٹیسٹ کروانے کے بعد ائیرپورٹ سے باہر نکلے تو ایک
صاحب نہایت ہی میٹھے لہجے میں اپنے خرچے پر ہوٹل جانے کا درس دے رہے تھے ،
پانچ ہزار پر ڈے کرایا اور کھانے پینے کاخرچہ الگ ۔
خیر ہم نے سرکاری قرنطینہ سنٹر کا رخ کرنے کا فیصلہ کیا کیونکہ یوتھیے
عمران خان کی حکومت کے بہترین انتظامات کے ڈھول پیٹ رہے تھے ،باہر کھڑی
بسوں میں ایک بار پھر ہمیں جانوروں کی طرح ٹھونسا گیا ، ایس اوپیزکاذرابھی
خیال نہیں رکھاگیاجبکہ بس کا کرایہ پانچ سو روپے ہر بندے کو اپنی جیب سے
ادا کیے ۔ ان بسوں میں ہمیں چیک شہزاد کے قریب چٹھہ بختاورمیں ہاسٹل سٹی کے
نام سے ایک جگہ پر لے جایا گیا جہاں موجودافرادنے کہاکہ اتنے لوگوں کی جگہ
ہے ہی نہیں،ہمیں بتایاہی نہیں گیا کہ کوئی فلائٹ آ رہی ہے، خیر سے ایک
ہاسٹل کا گیٹ کھولا گیا اور مسافر دھڑا دھڑ گیٹ سے اندر داخل ہونے لگے۔
جب ہم نے گیٹ کی طرف قدم بڑھائے تو پتہ چلا ہوسٹل کے کمرے فل ہو چکے ہیں
انتظامیہ کے لڑکوں نے کہا کہ تھوڑا آگے چلنا پڑے گا سامان اٹھایا اوردوسری
بلڈنگ کی طرف چل پڑے دوسری بلڈنگ میں ہم داخل ہونے میں کامیاب ہو گئے لیکن
کمرے میں ماسوائے ایک گندی قالین کے کچھ نہیں تھا جس پرہم انکار ہو گئے کہ
ہم یہاں نہیں رہ سکتے۔ اب انتظامیہ نے ہمارے سامنے آخری آپشن رکھا کے ایک
ہاسٹل اور بھی ہے وہاں چلیں صاف ستھرا توہے لیکن وہاں پہلے سے کرونا پازیٹو
لوگ موجود ہیں۔
اس دوران تقریبا دن کے دو بج چکے تھے اور صبح سات سے اب تک پانی کا ایک
گھونٹ پینا بھی حرام تھا، سامان اٹھائے ادھر ادھر کی بھاگ دوڑ میں بعض شوگر
کے مریض اور عمر رسیدہ افراد تو گرنے والے ہو چکے تھے،مرتے کیانہ کرتے کے
مصداق مجبورا خود کو اﷲ کے سپرد کر کے اس بلڈنگ کی طرف چل پڑے بلڈنگ کے
دوسرے فلور پر ہمارے اورکرونا پازیٹو دونوں کے کمرے آمنے سامنے تھے ۔کمرے
کیا تھے ہمارے لیے زندہ قبریں تھے جن میں ہمیں مجبور کر کے ڈالا گیا تھا ۔بیڈ
پر بیٹھنے کو دل کرتا نہ کسی چیز کو چھونے کو۔ کوئی چار پانچ بجے ہمیں پانی
دیا گیا ،پانی پینے کے بعد کچھ آنکھوں میں روشنی آئی،
شام کے چھ بج چکے تھے ہم کھانے کے بغیر تھے کیونکہ پی آئی اے نے بھی دوران
سفر کھانا نہیں دیا تھا رات آٹھ بجے کے قریب ایک شاپر میں سالن اور دو نان
دے کر سخاوت کا اعلی ترین مظاہرہ کیا گیا تقریبا تین راتیں اور دو دن اس
جیل میں اﷲ تعالی سے دعائیں مانگ کرگزاریں، التجائیں کرتے رہے کہ یا رب
وہاں سے اگر وائرس زدہ نہیں آئے ہم تو ہمیں اس وائرس زدہ ماحول میں بھی
محفوظ رکھ لے بالآخراﷲ نے ہماری سن لی رات ایک بجے ہماری رپورٹس آئیں جو
الحمدﷲ نیگٹیوتھیں ۔
انتظامیہ نے حکم جاری کر دیا کہ ابھی اسی وقت یہاں سے نکلو ، باقی لوگ تو
نکل گئے ہم نے منت سماجت کی کہ صبح کی روشنی ہو جانے دو ہم نکل جائیں گے جس
پر انتظامیہ نے صبح تک رہنے کی اجازت دے دی صبح جوں ہی ہم گیٹ سے نکلے تو
ہماری فلائٹ جس میں پچیس کیس پازیٹو آئے تھے انھیں بھی اسی بلڈنگ میں شفٹ
کر دیا گیا بنا کسی اسپرے اورکمروں کی صفائی کے..
ہم نے ایک ٹیکسی پکڑی اور کھنہ پل پہنچے جہاں ہماری قسمت کہ فوری طورپر
ڈوگی ناڑا سے تعلق رکھنے والے نثار عباسی صاحب مل گئے ان کی گاڑی میں کشمیر
کی طرف سفر شروع کیا جب ٹائیں انٹری پوائنٹ پر پہنچے تو پولیس نے ہمیں
کشمیر میں داخل ہونے سے روک دیا اعتراضات کی ایک لمبی فہرست ان کے پاس تھی
آپ کے پاس فلاں فلاں پیپر نہیں ہے ۔میں نے کہاکہ ہمیں تو کسی نے نہیں
بتایاکہ فلاں پیپر کی ضرورت ہو گی ویسے بھی ان حالات میں ہم کہاں اور کس سے
پیپر بنواتے؟؟
ہم تین لوگ تھے تینوں کی رپورٹس پاس تھیں جنہیں کشمیر پولیس ماننے پر تیار
نہیں تھی خیر ایک جاننے والے کو فون کیا بھائی یہ مشکل ہے کوئی مدد کرواس
نے کہا پانچ منٹ انتظار کرو اس بھائی نے کسی بڑے افسرسے فون کروایاتب پولیس
کا رویہ بدلا اور بولے ظاہر ہے آپ کشمیری ہو آپ کو یہ زمین ہی قبول کرے گی
جا ؤلیکن یہ گاڑی کشمیر میں داخل نہیں ہو سکتی ہے کیونکہ پبلک ٹرانسپورٹ
بند ہے ہم نے پھر منت سماجت کی لیکن پولیس کا کہنا تھا جو کہہ دیا بس کہہ
دیا اب مزید بحث نہیں کرنا ورنہ..؟
مجبورا پھر سے اسی بھائی کا نمبر گھمایااوربتایاکہ اب ہماری گاڑی داخل نہیں
ہونے دی جارہی ،بھائی نے پھرفون کیاتو پولیس کا رویہ پھر بدلا اور گاڑی کو
بھی داخل ہونے کی اجازت مل گئی.. آگے گھر تک کا سفر مزید کسی مشکل کے کٹ
گیا..لیکن اﷲ کی قسم میری زندگی کی اذیت ناک یہ تین راتیں اور دو دن تھے
،بیرون ملک سے آنے والوں کو اس قدرذہنی اذیتیں اورتکالیف دی جاتی ہیں سمجھ
سے بالاتر ہے اور آخران مسافروں کوکیوں مجبور کیا جاتا ہے وائرس زدہ ہونے
پر؟ پاکستان واپسی کا سفر کرنے والوں کے لیے دعا گو ہوں انہیں میرامشورہ ہے
کہ اگر زیادہ مجبوری نہ ہو تو ان حالات میں پاکستان کا سفر ہرگز ہرگز نہ
کریں۔
یہ ایک مسافرکی کہانی ہے جومیں نے اسی کے الفاظ میں نقل کی ہے یہ وہ
اورسیزہیں کہ جوتبدیلی کے سب سے زیادہ حامی تھے جوبیرون ملک بیٹھ کرخان
صاحب کوپیسے بھیج رہے تھے جنھوں نے پی ٹی آئی کولاکھوں کرڑوں روپے چندہ
دیاان کے ذہنوں میں بھی تبدیلی کاخمارسوارتھا یہ صرف ان اوورسیزکی کہانی
نہیں ہے بلکہ ہرپاکستانی کی یہی کہانی ہے کیوں کہ وزیراعظم اوران کی حکومت
پہلے دن سے کنفیوزہے،کوروناکوملک میں داخل ہونے سے روکنے کے لیے بروقت
اقدامات نہیں کیے گئے ،بلکہ کچھ وزاراء کے دباؤ پرتفتان سے ذبردستی
کوروناکے مریضوں کوملک میں پھیلایاگیااور جب سخت لاک ڈاؤن کی ضرورت تھی
تووزیراعظم قوم کویہ فلسفہ بتاتے رہے کہ سخت لاک ڈاؤن سے دیہاڑی
دارماراجائے گااس وقت سارازورمساجداورمدارس بندکرنے پرلگایاگیاصدرمملکت
مساجدکی مانیٹرنگ کرتے نظرآئے ۔
رمضان کے آخری دنوں میں مارکیٹیں کھول کرعوامی حمایت توحاصل کی مگراس فیصلے
کے نتائج اب نکلناشروع ہوگئے ہیں اب کروناوائرس سے کوئی بھی محفوظ نہیں
ہرطرف وائرس زدہ مریض ہی مریض ہیں توحکومت پھرکنفیوزہے کہ کیاکرے؟ ،نااہل
قیادت نے ملک کے باسیوں کومشکل میں ڈال دیاہے سنجیدہ اقدامات اوربروقت
فیصلے نہ ہونے کی وجہ سے کروناوائرس ہرگلی محلے میں پھیل چکاہے ۔عوام نے
اگرذمے داری کامظاہرہ نہ کیاتوحکومت کے اقدامات لاشوں کے انبارلگادیں گے
اورحکومت صرف لاشیں اورکیسزکی تعدادبتاکراپنی ذمے داریاں پوری کرتے رہے گی۔
|