1962کی غلطی کا ازالہ کیا جائے

چین اور بھارت کے درمیان لداخ میں سرحدی جھڑپوں کے بعد سفارتی اور عسکری مذاکرات جاری ہیں۔مگر شاید بھارت ابھی تک چین پاک اقتصادی راہداری(سی پیک) کی مخالفت چھوڑنے کے موڈ میں نہیں ہے۔یہی وجہ ہے کہ وہ دہلی میں پاکستانی سفارتکاروں کا تعاقب کر رہا ہے۔ انہیں ہراساں کیا جا رہا ہے۔ ان کے اہل خانہ کو خوفزدہ کیا گیا ہے۔ جب کہ اسلام آباد میں بھارتی سفارتکار تیز رفتار ڈرائیونگ سے شہریوں کو کچل رہے ہیں۔ شہریوں کو کچل کرفرار ہونے والے دو بھارتی اہلکاروں کے قبضے سے دس ہزار روپے جعلی پاکستانی کرنسی برآمد ہونا اس سے بھی زیادہ تشویشناک ہے۔ اگر چہ سفارتی استثنیٰ کی وجہ سے بھارتی اہلکار رہا ہو گئے ہیں مگر ان کی یہاں سرگرمیاں مشکوک بن رہی ہیں۔ بھارت نے پاکستان میں دہشتگردی کے لئے افغانستان کی سرزمین استعمال کی ہے۔ کشمیریوں کی تحریک مزاحمت نے بھارت کو نفسیاتی طور پر بدحال کر دیا ۔ وہ اپنی تمام تر فوجی قوت اور اسلحہ کے استعمال سے کشمیریوں کی جدوجہد کو کچلنے میں ناکام ہو چکا ہے۔ کشمیریوں کی مسلسل جدوجہد نے بھارت کو پاکستان کے خلاف صف آراء ہونے سے روک رکھا ہے۔ اگر یہ تحریک کامیاب ہو جاتی ہے ، جو ہو گی، تو بھارت کے تمام منصوبے ناکام ہو جائیں گے۔ ایسے میں لداخ میں محاز آرائی کا نیا باب بھارت کو تباہ ہونے میں معاون بن سکتا ہے۔بھارت لداخ میں چین کی کامیابیوں پر اس لئے خاموش ہے کہیہاں چھتیس انچ کی چھاتی،سرجیکل اسٹرائیکس،گھر میں گھس کر مارنے اور یہ دیش نہیں جھکنے دونگا جیسے بلند بانگ نعروں کی گنجائش نہیں ہے۔ لداخ ،مقبوضہ کشمیر کا اٹوٹ انگ ہے۔تا ہم چین ارونا چل پردیش میں بھارتی قبضے کو ختم کرنے کے لئے پیش رفت کرے تو مقبوضہ کشمیر کو بھارتی قبضے سے آزاد کرانے کے لئے اقوام متحدہ سے کارروائی کا مطالبہ کرنے میں گریز نہیں کیا جا نا چاہیئے۔ گو کہ چین مستقبل قریب میں یہ علاقہ چھوڑ دینے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا۔ چونکہبھارت خود ساری دنیا کو بتاچکا ہے کہ اترکھنڈ سے لے کر سکّم تک ہند چین کی ہزاروں کلو میٹر لمبی سرحد دونوں ملکوں کے مابین متنازع علاقہ ہے، اس لئے اب یہ نہیں کہہسکتا کہ چین حملہآورہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہ دنیا نے اس معاملہ پر خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔یہ بھی درست ہے کہ چین کو مودی سرکار کا امریکہ کی طرف جھکاؤ بالکل پسند نہیں۔مودی نے شی جن پنگ کو جھولا ضرور جھلایا تھا، لیکن انہیں مودی کا نعرہ ’’اب کی بار ٹرمپ سرکار‘‘اور’’نمستے ٹرمپ‘‘ ذرا بھی اچھا نہیں لگا۔

اس وقت چین اور امریکہ میں سرد جنگ چل رہی ہے۔چین سمجھتاہے کہ ٹرمپ ہندوستان کو چین کو گھیرنے کیلئے مہرے کے طور پر استعمال کر ر ہے ہیں۔ ہندوستان کو جی7میں شرکت کی دعوت بھی اسے چین کے خلاف ورغلانے کی ایک کوشش کے سوا کچھ نہیں۔چین سے شائع ہونے والے انگریزی روزنامہ‘گلوبل ٹائمز‘کو حکومت چین اور کمیونسٹ پارٹی کا ترجمان سمجھا جاتاہے۔ اس میں چھپنے والے مضامین سرکاری پالیسیوں کے عکاس ہوتے ہیں۔چند دن قبل اس میں چھپنے والے ایک مضمون کے عنوان کا ترجمہ یہ ہے کہ جی7میں شرکت کی دعوت قبول کر کے ہندوستان آگ سے نہ کھیلے۔اسی اخبار میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ چین اور ہندوستان میں جو تنازعات ہیں، وہ اعلیٰ ترین سطح کی میٹنگ میں سمجھے اور سلجھائے جا سکتے ہیں۔یہ بہت گہرا اور بڑا اشارہ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ تنازعات لداخ کی کارروائی تک محدود نہیں ہیں۔اس لئے یہ جو طرفین کے چھوٹے بڑے فوجی افسروں کی ملاقاتیں محض وقت گزاریاں ہیں۔ یہ لوگ پالیسی کی سطح پر فیصلے لینے کے مجاز نہیں ہیں۔ تنازعات ایسے ہیں، جن کی بابت فیصلے صرف دونوں ممالک کے سربراہ ہی کر سکتے ہیں۔ چین کن تنازعات کی طرف اشارہ کر رہا ہے؟۔
 
اگر ہندوستان، چین پاک اقتصادی راہداری(سی پیک) کی مخالفت چھوڑ دے اور ون بیلٹ ون روڈ کے پروجیکٹ(اوبور) میں شامل ہو جائے تو حالات کیا ہوں گے۔چین کا استدلال یہ ہے کہ اوبور میں ہندوستان کے سوا ایشیا کے تقریباََ سبھی ملک شامل ہو چکے ہیں۔اوبور میں اب ویت نام اور فلپائن جیسے ممالک بھی شامل ہو چکے ہیں، جو شروع میں کنّی کتر رہے تھے۔ چین کے حالیہ قدم کی اصل وجہ جو بھی ہو مگر بھارت نے چین کی جانب سے گلگت بلتستان کو سی پیک میں شامل کرنے پر تنقید کی ہے۔ جب کہ بھارت کی مخالفت کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے آزاد کشمیر کو بھی سی پیک میں معقول شمولیت دینی چاہیئے۔بھارت نے مقبوضہ کشمیر کو جغرافیائی طور پر ٹکڑوں میں تقسیم کیا ہے جو کہ چین کو قبول نہیں ہو سکتا۔ بھارتی حکومتوں نے بڑی کامیابی سے مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کے سرد خانہ میں ڈالے رکھا ۔ آج مسئلہ کشمیر ساری دنیا میں موضوع بحث بنا ہواہے۔ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کا مطلب یہ تھا کہ لداخ کی موجوہ حیثیت بھی ختم کر دی جائے۔ اسے نئی دہلی کا مرکزی علاقہ قرار دینے کا مطلب یہ تھا کہ اقصائے چن جیسے ان علاقوں کو بھی ہندوستان میں شامل کر لیا جائے، جن کو چین ایک عرصہ سے اپنا سمجھتا رہاہے اور جو چین کے زیر انتظام ہیں۔بھارتی و زیر داخلہ امیت شاہ کو بھی علم نہیں تھا کہ جب وہ پارلیمنٹ کی لوک سبھا میں چھاتی ٹھونک کر اقصائے چن کو چھین سے لینے کی بات کر رہے تھے، تو وہ ہندوستان کیلئے کتنی بڑی آفت کو دعوت دے رہے تھے۔ بہر حال اب چین بضد ہے کہ کشمیر کی سابقہ حیثیت بحال کی جائے۔ ہو سکتا ہے کہ جب شی جن پنگ چند ماہ قبل چنئی آئے تھے تو انہوں نے نریندر مودی سے یہی کہا تھا۔ انہوں نے یہ اشارہ بھی دیا تھا کہ حکومت سپریم کورٹ کی مددسے اس مسئلہ کو حل کرنے کی کوئی راہ نکال لے۔ یہ سچ ہے کہ سپریم کورٹ میں اس ضمن میں جو نالشیں پڑی ہیں، ان پر قرار واقعی سماعت ہو تو کوئی راہ ضرور نکل سکتی ہے۔ورنہ تو یہ ناممکن ہے۔مودی سرکار کیلئے ازخود کچھ کرنا تو خود کشی کے مترادف ہوگا۔ لیکن یہ بھی طے ہے کہ بصورت دیگر چین لداخ سے ہر گز نہیں نکلے گا۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ مودی سرکار پر چین کو ہٹانے کیلئے عوامی دباؤ میں اضافہ ہی ہوگا۔چین کا نظام یک جماعتی ہے۔ چینی کمیونسٹ پارٹی کو الیکشن جیتنے کیلئے وہ شعبدہ بازیاں نہیں کرنی پڑتیں تو جمہوری ممالک کا خاصہ ہیں۔ اس کے بر عکس ہندوستان کی تمام سیاسی جماعتیں اور خاص طور پر انتہا پسند بی جے پی کو الیکشن جیتنے کے لئے دلفریب وعدے اور نعرے درکار ہوتے ہیں۔بی جے پی نے اپنی بنیاد ایک جارح راشٹر واد کے فلسفوں پر رکھی ہے۔لداخ میں چین کی پیش قدمی اس کے فلسفوں اور اصولوں کی کڑی آزمائش ہیں۔ اس معاملہ پر مودی کی خاموشی غماز ہے کہ ان کی بھی سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ اس آزمائش سے بچنے کی راہ کیا ہے۔ موہن بھاگوت بھی بالکل خاموش ہیں۔ان کا وہ جملہ لوگوں کو آج بھی یاد ہو گا کہ ہندوستانی فوجوں کو تو دشمن سے مقابلہ کرنے کی تیار ی کیلئے کئی ہفتے درکار ہوتے ہیں۔ آر ایس ایس کو دشمن سے ٹکرانے کیلئے چند گھنٹے کافی ہیں۔آج آر ایس ایس کے لاٹھی بردار سوئم سیوک کہیں دور دور تک نظر نہیں آتے۔ چین اپنی شرطیں منوائے بغیر پیچھے نہیں ہٹے گا۔مگر پاکستان کو 1962جیسی غلطی دہرانے کی طرف مائل نہیں ہونا چاہیئے۔ بلکہ اس کے ازالے پر سوچ و بچار کیا جائے۔
 

Ghulamullah Kyani
About the Author: Ghulamullah Kyani Read More Articles by Ghulamullah Kyani: 710 Articles with 487295 views Simple and Clear, Friendly, Love humanity....Helpful...Trying to become a responsible citizen..... View More