ماہرین کا کہنا ہے کہ دُنیا میں کورونا وائرس کی دوسری
اور تیسری لہر کا اس وقت تک خطرہ موجود رہے گا جب تک دُنیا کی آبادی اس کے
خلاف قوت مدافعت پیدا نہیں کر لیتی۔عالمی ادارہ نے کورونا کے حوالہ سے یہ
بھی بتا دیا کہ شاہد یہ کبھی ختم ہی نہ ہو،ہمیں اس کے ساتھ جینا ہوگا۔لیکن
اگر سماجی دوری کا خیال رکھا جائے، احتیاطی تدابیر اپنائی جائے تو یہ
کورونا کی یہ دوسری لہر زیادہ خطرناک نہیں ہوگی۔
اب کورونا وائرس کی دوسری لہر کے خدشے کے باوجود دُنیابھر کے مختلف ممالک
میں عالمی وبا کرونا وائرس کی وجہ سے لگائی گئیں پابندیاں آہستہ آہستہ ختم
ہورہی ہیں۔
انسانی زندگی آزمائشوں مصائب، وبائی امراض سے جنگوں سے بھری پڑی ہے۔قدرت کے
نظام سے بغاوت، انسانی غفلت، بے احتیاطی، عدم توجہی، بروقت انتظامات نہ
ہونے، اتحاد و یگانگت کے فقدان نے انسانوں کو تباہی کے دہانے لا کھڑا کیا،
وبائی امراض، قدرتی آفات، حادثات کا اگرچہ کوئی وقت مقرر نہیں ہوتا، یہ
بظاہرتو اچانک ہی ہوتے ہیں‘ لیکن پس پردہ کئی عوامل اپنا کام دکھا رہے ہوتے
ہیں۔ ہر حادثہ اپنے پہلو میں عبرت اور سبق کے کئی ابواب رکھتا ہے۔
ایک ایسے وقت میں جب لاک ڈاؤن ختم کیا جارہا ہے، ڈبلیو ایچ او نے خبردار
کیا ہے کہ کورونا وائرس شاید ”کبھی ختم نہیں ہوگا“۔ انفیکشن کی دوسری
اورتیسری لہر کے خدشات بڑھ رہے ہیں۔
دُنیا کو آفات ارضی وسماوی، زلزلوں، ماحولیاتی تبدیلیوں، سمندری طوفانوں،
جنگلات کے کٹاؤ سے زمینی، بحری اور فضائی آلودگی، عالمی وباؤں، ٹڈی دل،
سیلابوں کے ہولناک چیلنجوں کا سامنا ہے۔
دُنیا بھر کے سائنس دان ٗطبقات الارض کے ماہرین زلزلوں، سیلابی ریلوں،
سمندری طغیانی، طوفانی بارشوں، وبائی امراض اور دیگر موسمیاتی تبدیلیوں کے
حوالہ سے ہولناک پیشگوئیاں کرتے آرہے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ کرہ ِارض قدرتی
آفات کے ایک ہولناک دورانئے میں داخل ہوگیا ہے، اسے فطرت کی ستم رانی اور
زمینی ماحول کو لاحق غیر معمولی خطرات اور بربادیوں کے ناقابل یقین مراحل
سے گزرنا ہوگا۔
ماہرین کی تحقیقاتی رپورٹیں انتباہات سے بھری ہوئی ہیں، بار ہا مرتبہ کہا
جا چکا کہ ہم زمین و آسمان کے درمیان توازن حیات و کائنات کے نئے رشتے تلاش
کریں، زمینی ماحول کی بربادیوں کو روکیں تاکہ نوع انسانی کا مستقبل سفاک
موسمی تبدیلیوں کی نذر نہ ہو۔
برس ہا برس سے زلزلوں، ہولناک بارشوں، سیلابوں اور سمندری طغیانی، امراض سے
ہونے والے نقصانات کا حجم کم ہونے کی بجائے تباہ کاریوں کا دائرہ وسیع ہوتا
جارہا ہے۔کورونا کی عالمی وباء نے تو دنیا کو منجمند کر کہ رکھ دیا۔
کورونا کے پھیلاو کو روکنے کے لیے لاک ڈاون سے لگ رہا تھا جیسے کہ زندگی
بہت طویل عرصے سے بند دروازوں کے پیچھے گزر رہی ہے اور ہوسکتا ہے کہ ان
حالات کا تا دیر سامنا کرنا ہے۔ اچانک موسم بدل گیا۔ جرمنی، اسپین، یونان
اور دوسری جگہوں پر پابندیاں رفتہ رفتہ نرم کر دی گئیں۔معاشی بحران، غربت
کی وجہ سے پاکستان کو بھی لاک ڈاون میں نرمی کرنا پڑی۔
دوسری طرف یہ تشویش پائی جارہی ہے کہ اگر ممالک لاک ڈاؤن بہت جلد ختم کردیں
تو عالمی سطح پر انفیکشن کی دوسری لہر اس سیارے پر پھیل سکتی ہے۔یہاں تک کہ
برطانیہ، جو یورپ میں COVID-19دوسری لہر ناگزیر ہے۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن
(ڈبلیو ایچ او) کے ہیلتھ ایمرجنسی پروگرام کے ڈائریکٹر مائیک ریان نے ایک
پریس کانفرنس میں کہا، ''یہ وائرس ہمارے معاشروں میں ایک اور مقامی وائرس
کی شکل میں پھیل سکتا ہے۔ یہ جاتا دکھائی نہیں دیتا۔“
ریان کے مطابق دوسرے وائرس، جیسے ایچ آئی وائرس، آیا مگر پھر غائب نہیں
ہوا۔ اس کے خلاف محققین نے ایسی دوائیں تیار کی جا چکی ہیں جو وائرس میں
مبتلا ہونے کے باوجود زندگی جاری رکھنے میں مددگار ہیں۔ تاہم چیچک جیسے بہت
ہی مہلک وائرس کا خاتمہ ہوچکا ہے۔ باقی کئی وائرس اب بھی ہمارے ساتھ ہیں۔
کچھ وائرس رہ رہ کر واپس آتے ہیں - جیسے تپ دق، ٹائیفائیڈ وغیرہ۔
کووڈ 19انسانی تاریخ میں انہونی بات نہیں، ماضی کے جھرکوں میں نظر ڈالیں تو
ہمیں پتہ چلتا ہے کہ وبائی امراض کی دوسری لہر پہلے سے کہیں زیادہ خطرناک
ہوسکتی ہے۔ یہی معاملہ 1918 ء میں ہسپانوی فلو کا تھا۔ اس کی لہریں گردش
کرتی رہیں یہاں تک کہ 1920ء میں یہ فلو پھر جیسے دم توڑ گیا۔
1918ء کا ہسپانوی فلو تین بڑی لہروں میں آیا۔ اس وبائی مرض کے پھیلاؤ کا
آغاز مارچ 1918ء میں ہوا اور اسی سال کے آخر میں دوسری لہر کے دوران اس کی
انتہا ہوگئی۔ اس دوران، وائرس اتنا بدل گیا تھا کہ دوسری لہر کے دوران
انفیکشن کے نتائج اور بھی تباہ کن تھے۔امریکا میں بیماریوں کے کنٹرول اور
روک تھام کے مرکز (سی ڈی سی) کا خیال ہے کہ امریکا میں فلو کی وبائی بیماری
کی دوسری لہر زیادہ تر اموات کی ذمہ دار تھی۔
1919ء کے اوائل میں ایک تیسری لہر آئی۔ سی ڈی سی کے مطابق، یہ سال کے وسط
تک جاری رہی پھر ہسپانوی فلو میں کمی واقع ہوئی۔ ایک اندازے کے مطابق
مجموعی طور پر قریب پچاس ملین افراد اس بیماری کا شکار ہوئے۔ تاہم یہ وائرس
شاید کبھی بھی مکمل طور پر ختم نہیں ہوا۔
انفلوئنزا، ٹی بی، چیچک، طاعون، کوڑھ، ہیضہ، ملیریا، خسرہ، پیلا بخار،
یرقان، ڈینگی، زیکا، سارس، ایبولا اور ایچ آئی وی یا ایڈز جیسی وبائی
بیماریاں کروڑوں افراد کی ہلاکت کا سبب بن چکی ہیں،بیماریوں کو پھیلانے کا
سبب پیتھوجینک بیکٹیریا ہوتے ہیں جو انسانوں کے علاوہ جانوروں اور پودوں تک
میں بیماریاں پھیلانے کی صلاحیت رکھتے ہیں،ہم انسانوں کی اس ان دیکھے دشمن
سے لڑائی بہت پرانی، گو کہ اب ویکسین کی ایجاد اور اینٹی بائیوٹک ادویات کے
استعمال کی بدولت بہت سی وبائی بیماریوں پر قابو پالیا گیا ہے مگر انہیں جڑ
سے ختم نہیں کیا جاسکا ہے۔
ملیریا ہی کی مثال لیجیے جو ہزاروں سالوں سے انسانی جانوں کا دشمن ہے۔اگرچہ
اب اس بیماری کی شرح اموات میں کمی آگئی ہے مگر اس کے باوجود ہر سال بڑی
تعداد میں لوگ اس بیماری میں جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے تھے۔ عالمی ادارہ صحت
کے مطابق 2018 میں چار لاکھ تین ہزار لوگ اس بیماری سے موت کا شکار
ہوئے۔دور حاضر میں ایک بار پھر بنی نوع انسانوں کو ایک ایسی ہی ہلاکت انگیز
وبا کا سامنا ہے جو کورونا وائرس یا کووڈ 19 کے نام سے جانی جاتی ہے۔
اگرچہ کورونا کی تباہی کچھ زیادہ ہی ہونے لگی ہے۔ جس نے پوری دنیامیں خوف
کی لہر بھی پیدا کر دی ہے۔ابھی پاکستان سمیت دُنیا کے بیشتر ممالک کی پہلی
لہر نے تباہی مچادی ہے،مریضوں، اموات کی تشویشناک صورتحال کا سامنا ہے، تو
دوسری طرف عالمی ادارہ نے خبردار کرتے ہوئے بتایا دیا کہ کورونا کی دوسری
اور تیسری لہر کا بھی خطرہ موجود ہے، چین اور کچھ ممالک میں خاتمہ کے بعد
کورونا وباء نے پھر سر اٹھا لیا۔ پیرس،لندن، واشنگٹن کورونا وائرس کی دوسری
لہر کا خطرہ، یورپ سمیت کئی ممالک میں پابندیاں نرم، اسکولز کھولے جانے
لگے، بھارت کورونا وائرس سے7واں متاثر ترین ملک بن گیا۔
کورونا کی وبا ء سے اب تک متاثریں کی تعداد 7,102,957،فعال کیسز
3,230,082،صحت یاب ہونے والے 3,466,532ٗ جب کہ کل اموات 406,343 ہو چکی
ہیں۔ ٍٍعالمی دنیا کی طرح وطن عزیز پاکستان میں بھی جہاں پہلے ہی غربت، بے
روزگاری کے ڈھیرے ہیں، کورونا کے باعث مزید ابتری کا شکار ہو چکے ہیں۔
معاشی مسائل، کورونا،دو مشکلات منہ کھولے کھڑی ہیں۔کورونا اور بھوک سے بچنے
کے لیے ایس او پیز کے تحت کاروبار، ٹرانسپورٹ بحال کی گئی ہے۔ لیکن ہم نے
کورونا وباء کو ابھی تک سریس ہی نہیں لیا، مارکیٹ، بنک، خریداری، اڈے،
گاڑیاں بہت ہی کم لوگ احتیاطی تدابیر کو اختیار کر رہے ہیں، اکثریت احتیاطی
تدابیر کو نظر انداز کر رہی ہے، ہم حکومت، اداروں اور خصوصاً کورونا کو
کتنا سریس لے رہے، ایک ہی دن میں 7853ایس او پیز کی خلاف ورزیاں کی گی، جو
ہماری بے احتیاطی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔جس کے باعث پاکستا ن میں تعداد ایک
لاکھ تین ہزار، چھ سو سترہ تک جا پہنچی، ایک دن میں 65اموات ہو چکی۔
پاکستان میں چین سے بھی مریض بڑھ چکے، اگر ہماری بے احتیاطی یوں ہی جاری
رہی تو یقیناًناقابل تلافی نقصان اٹھانا پڑ سکتا ہے۔ احتیاط کیجیے، کورونا
کے ساتھ زندگی گزارنے کی عادت اپنائیں۔حکومتی ایس او پیز پر عمل کیجیے، ذمہ
دار شہری ہونے کے ساتھ ہی اپنی دوسروں کی زندگی بچائیں۔کیونکہ لاک ڈاون ختم
ہوا ہے، کورونا نہیں۔ ابھی تو اس کے دوسری، تیسری لہر کے سایے ہمارے سروں
پر منڈلا رہے ہیں۔ کورونا سے ڈرنا نہیں، بچنا ہے۔ بہترین علاج احتیاط ہے۔
|