کورونا وائرس کے دنیا بھر میں پھیلاو اور اس سے پیدا ہونے
والی سنگین صورت حال نے انسانی نفسیات پر گہرے اثرات مرتب کئے ہیں۔ اس
عالمگیر وبا سے نبٹنے کے حوالے وقت گزرنے کے ساتھ انسانی روئیے اور طرز عمل
میں بہت فرق سامنے آرہا ہے۔اس وائرس سے جب ہلاک ہونے والوں کی تعداد بہت کم
تھی تو اس وقت لوگوں میں شدید خوف کا عالم تھا لیکن اب اموات میں بہت زیادہ
اضافہ ہوتا جارہا ہے لیکن لوگوں میں خوف کم ہوتا جارہا ہے حالانکہ اس خوف
میں مزید اضافہ ہونا چاہیے۔ انسانی نفسیات اور رویہ میں یہ تبدیلی کیوں ہے؟
جب یہی سوال دماغی اور نفسیاتی امراض کے عالمی شہرت یافتہ معالج اور محقق
پروفیسر ڈاکٹر محمد افضل جاوید جو ورلڈ سائیکائیٹرسٹ ایسوسی ایشن کے صدر
بھی ہیں، ان سے کیا تو انہوں نے ہماری توجہ کوبلر راس کی انسانی نفسیات کے
حوالے سے تحقیق اور نظریہ کی طرف دلائی، جو ایک فلسفہ ہے اور جسے "کوبلر
راس ماڈل" کہا جاتا ہے۔
ڈاکٹر محمد افضل جاوید برطانیہ کے ہسپتال سے وابستہ ہیں۔ وہ اخوت فاونڈیشن
پاکستان کے چئیرمین ڈاکٹر امجد ثاقب کے بڑے بھائی ہیں۔ سوئٹزرلینڈ کی ماہر
نفسیات ، کوبلر راس نے اپنی کتاب On Death and Dying میں غم اور دکھ سے
پیدا ہونے والی صورت حال کو پانچ مراحل کی صورت میں پیش کیا ہے جسے ہم
زندگی کے دیگر معاملات حتی کہ کورونا وائرس سے پیدا ہونے والی عالمی صورت
حال میں لاگو کرسکتے ہیں۔ کیبلر راس کے مطابق ضروری نہیں کہ سبھی ان مراحل
سے گزرتے ہوں لیکن عمومی طور پر جب انسان کسی بڑے دکھ، سانحے ، قدرتی آفات
یا حادثہ پیش آتا ہے تو وہ ان پانچ مراحل سے گزر تے ہیں۔
1انکاریت Denial
2 غصہ Anger
3 سودے بازی Bargain
4 ذہنی دباؤ Depression
5 قبولیت Acceptance
کسی بھی سانحہ میں پہلا رد عمل انکار کی صورت میں ہوتا ہے۔ اس مرحلے میں
لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ سب جھوٹ یا غلط تشخیص کی وجہ سے ہے اور حقیقت میں
ایساکچھ بھی نہیں۔ مثال کے طور پر کورونا وائرس محض ایک سازش ہے اور اگر یہ
کچھ ہے بھی تو پھر بھی ہم اس سے متاثر نہیں ہوں گے۔ دوسرا مرحلہ غصہ کی
صورت میں تب سامنے آتا ہے جب کسی کے ساتھ کوئی واقعہ ہوجاتا سے تو نفسیاتی
ردعمل کچھ ہوں گے: "مجھے کیوں؟ یہ مناسب نہیں ہے!" "یہ میرے ساتھ کیسے
ہوسکتا ہے؟"؛ "ذمہ دار کون ہے؟"؛ "ایسا کیوں ہوتا؟" وغیرہ ۔ کورونا وائرس
کے حوالے سے جانی اور مالی نقصان اس کی مثالیں ہیں۔ تیسرے مرحلے میں یہ
امید شامل ہے کہ فرد غم کی ایک وجہ سے بچ سکتا ہے۔ کم سنجیدہ صدمے کا سامنا
کرنے والے لوگ سودے بازی کرسکتے ہیں یا سمجھوتہ کرسکتے ہیں۔ مثالوں میں ایک
ایسا بیمار فرد جو بیٹی کی شادی میں شریک ہونے کے لئے خدا کے حضور دعا اور
التجائیں کرتا ہے۔ کورونا کے حوالے سے یہ کہنا کہ شاید کورونا نہیں آیا تھا
اور لاک ڈاؤن بالکل نہیں ہونا چاہئے تھا۔ یہ افسردگی اور مزید پریشان میں
اضافے کا موجب ہوتا ہے۔چوتھا مرحلہ ذہنی دباؤ کا ہوتا ہے جس کے دوران ، فرد
مایوسی کی حالت میں ہوتا ہے اور اکثر خاموشی اختیار کرلیتا ہے۔ وہ دوسروں
سے ملاقات اور گفتگو کرنے سے انکار کرسکتا ہے۔ زیادہ تر وقت سوگوار
اورغمزدہ گزارتا ہے اور ذہنی دباؤ کی طرف چلا جاتا ہے۔
آخری مرحلہ قبولیت کا ہوتا ہے۔ وہ حالات سے سمجھوتا کرلیتا ہے اور توقع
رکھتا ہے کہ یہ ٹھیک ہوجائے گا۔ وہ یہ حقیقت جان لیتا ہے کہ میں اس سے لڑ
نہیں سکتا۔ اس آخری مرحلے میں، فرد ناگزیر حالات، موت، کسی عزیزکے ساتھ
کوئی سنگین واقعہ یا کوئی اور المناک صورت حال ہو، آخرکار وہ اسے قبول
کرلیتا ہے۔ آخری مرحلہ دراصل متبادل راستہ ہے اور اسے قبول کرنا ہی عقل
مندی ہے۔ مثال کے طور پر کورونا کی وجہ سے پیدا ہونے والی صورت حال کے ساتھ
رہنے کی عادت ڈالنا ہوگی۔ جن پانچ مراحل کا تذکرہ کیا گیا ہے یہ صرف کورونا
تک ہی محدود نہیں ہیں بلکہ انسانی زندگی کے تمام مسائل پر لاگو ہوتے
ہیں۔زندگی میں پیش آنے وانے مشکل صورت حال سے اچھی طرح سے نبٹنے کے لئے
قبولیت کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔ کورونا کے حوالے سے دنیا اس وقت قبولیت کی
حالت میں ہے۔ اب آپ بھی اس بارے سوچیں، یہ آپ کی زندگی ہے اور آپ کو اس کا
خیال رکھنا ہوگا۔ |