ماہِ صیام کے دوران حرمین شریفین کی حاضری سے لاکھوں
عازمینِ عمرہ محروم رہے اور نہیں معلوم یہ سلسلہ کب تک جاری رہے گا۔ کورونا
وائرس کی وبا نے حرمین شریفین میں نماز پڑھنے سے لے کر ہر قسم کی عبادات
خصوصاً عمرہ کی سعادت سے دنیا بھر کے لاکھوں عازمین کو محروم کردیا ہے۔
سعودی فرمانروا شاہ سلمان بن عبدالعزیز کی شاہی حکومت میں اس سال عام
مسلمانوں کیلئے حج بیت اﷲ ہوگا یا نہیں اس پر ابھی فیصلہ ہونا باقی ہے۔
ذرائع ابلاغ کے مطابق مسلم ممالک کی جانب سے سعودی عرب پر مسلسل دباؤ بڑھتا
جارہا ہے کہ وہ فوری فیصلہ کرے کہ رواں برس حج ہوگا یا نہیں ؟ اس سلسلہ میں
سعودی حکام کا کہنا ہیکہ اس بارے میں جلد اعلان کردیا جائے گا۔ اس سال
جولائی کے آخرسے شروع ہونے والے حج کے انعقاد سے متعلق اب تک سعودی عرب کی
جانب سے کوئی واضح فیصلہ سامنے نہ آنے کی وجہ سے کئی ملکوں میں تشویش پائی
جارہی ہے۔ ترکی، مصر، لبنان سمیت کئی مسلم اور بڑی مسلم آبادیوں والے غیر
مسلم ممالک نے سعودی عرب کے فیصلہ کے منتظر ہیں ، اگر سعودی عرب حج کے ایام
کے قریب یہ اعلان کرتا ہے کہ وہ مکمل حج کے لئے تیار ہے تو کئی ممالک اس
پوزیشن میں نہیں ہونگے کہ وہ اپنے عازمین حج کو سعودی عرب روانہ کریں۔
ذرائع کے مطابق بعض مسلم ممالک کے حکام کا کہنا ہیکہ انٹرنیشنل فلائٹس بند
ہونے کی وجہ سے سعودی حکومت حج کے اجتماع کو محدود کرسکتی ہے یا یہ بھی
ممکن ہے کہ موجودہ حالات میں صرف مقامی افراد کو ہی حج کی اجازت دے دی جائے
۔ اگر سعودی عرب نے رواں برس حج کی منسوخی کا اعلان کیا تو 1932ء میں مملکت
کے قیام کے بعد یہ پہلا موقع ہوگا ۔ لیکن امکان غالب ہیکہ عام مسلمانوں کے
بجائے سعودی حکومت احتیاطی تدابیر کے نام پر کم سے کم عازمین کو حج کی
سعادت سے استفادہ کا موقع فراہم کرے۔ماہ صیام کے دوران لاکھوں عازمین عمرہ
سے محروم ہونے کے باوجود سعودی عرب کے خلاف کسی قسم کا احتجاج درج نہیں
کرائے اب حج کی منسوخی یا صرف مقامی افراد کو ہی حج کی اجازت دیے جانے پر
بھی ایسا کوئی خاص احتجاج دکھائی نہ دے گا کیونکہ کورونا وائرس کا ڈروخوف
اتنا شدید بٹھادیا گیا ہے کہ مسلمان شرعی اصولوں اور احادیث نبوی ﷺ سے
زیادہ موجودہ سائندانوں اور ڈاکٹرس کی جانب سے بتائے گئے رہنمایانہ اصولوں
کو ترجیح دے رہے ہیں ۔ ہوسکتا ہیکہ حج کے موقع پر کورونا وائرس کی وبا میں
اضافہ کے امکان کو بتاکر حج کی منسوخی یا انتہائی کم عازمین کو حج کا موقع
فراہم کیا جاسکتا ہے۔یہاں یہ بات واضح ہیکہ دنیا کے سب سے زیادہ مسلم آبادی
والے ملک انڈونیشیا نے 2؍ جون کو یہ کہہ کر حج اجتماع سے سبکدوشی کا اعلان
کیا کہ سعودی عرب حج کے انعقاد سے متعلق واضح طور پر آگاہ کرنے میں ناکام
رہا ہے۔ انڈونیشین وزیر بائے مذہبی امور فخر الرازی نے کہا کہ رواں برس حج
کی منسوخی کا فیصلہ مشکل تھا اور انہوں نے یہ فیصلہ مجبوری میں کیا ہے، اسی
طر ح ملیشیا ، سینیگال اور سنگاپور نے بھی کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے باعث
رواں برس عازمین کو سعودی عرب نہ بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے ۔اب دیکھنا ہے کہ
میزبان ملک سعودی عرب حج کے انتظامات کے سلسلہ میں کس قسم کا اعلان کرتا ہے
اور دنیا بھر کے عازمین کو حج کی اجازت دیتا ہے یا نہیں ۔ کورونا وائرس کی
وجہ سے سعودی عرب میں اب تک ایک ہزار سے زائد افراد ہلاک بتائے جارہے ہیں
جبکہ ایک لاکھ تیس ہزار سے زائد افراد متاثر بتائے جارہے ہیں ۔ سعودی حکام
نے مارچ میں تمام ممالک کو مشورہ دیا تھا کہ کورونا وائرس کے پھیلاؤ کی وجہ
سے حج کے انتظامات نہ کریں اور اس سلسلہ میں ہوٹلوں کی بکنگ کرانے سے بھی
گریز کرنے کا مشورہ دیا تھا۔ اب جبکہ ایام حج قریب آتے جارہے ہیں لہذا حج
کے انتظامات اور پھر کئی ممالک کو عازمین کے رہنے کیلئے ہوٹلوں کی بکنگ
کرنا ہے اس لحاظ سے یہ سمجھاجارہا ہے سعودی عرب عام مسلمانوں کو حج کی
اجازت دینے سے گریز کرے گا۰۰۰
کورونا وائرس نے افغانستان میں پولیو وائرس میں اضافہ کردیا۰۰۰
دنیا بھر میں پولیو پر قابو پالیا گیا ہے لیکن آج بھی دنیا کے دو ممالک
پاکستان اور افغانستان میں پولیو کے کیسز بڑھ رہے ہیں۔ افغانستان میں پولیو
کے خاتمے کے لئے بچوں کو گھرو ں پر پولیو کے قطرے پلانا ایک مؤثر طریقہ ہے
لیکن بتایا جاتا ہیکہ طالبان نے اس طریقے پر پابندی عائد کررکھی ہے۔ بتایا
جاتا ہے کہ طالبان اور مذہبی رہنما ؤں کا کہنا ہیکہ ویکسین مغربی سازش ہے
جو مسلمانوں کے بچوں کو بانجھ بنادیتی ہے ، یہ لوگ اس بات پر بھی یقین
رکھتے ہیں کہ پولیو کے پروگرام شدت پسندوں کی سرگرمیوں کی جاسوسی کے لئے
چلائے جاتے ہیں۔ اس طرح افغانستان میں حکومتی پالیسی کے تحت پولیو کے
حفاظتی ٹیکے لگانا لازمی ہونے کے باوجود ویکسین پر عدم اعتماد میں اضافہ
ہورہا ہے اور جو منفی سوچ طالبان یا مذہبی رہنماؤں کی ہے اس سے پولیو کیسز
بڑھ رہے ہیں ۔ پاکستان اور افغانستان میں کئی مرتبہ ایسا ہوا ہیکہ پولیو
ڈراپس یا ٹیکہ لگانے والے عملے کو یا انکی حفاظت کرنے والے سیکیوریٹی
عہدیداروں کو نشانہ بناکر ہلاک یا زخمی کردیاگیا۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق
پولیو عملے کو اکثر مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ افغانستان میں ہر سال کم
از کم دس پولیو کے خاتمے کے پروگرام مکمل کئے جاتے ہیں لیکن اس سال کورونا
وائرس کے منظرعام پر آنے سے قبل دو پروگرام ہی ممکن ہوسکے ہیں۔ویسے اقوام
متحدہ کے ادارے یونیسف کے مطابق پولیو وائرس کے خاتمے کے پروگراموں کو درجن
سے زیادہ ملکوں میں معطل کیا گیا جبکہ 27ملکوں میں خسرے سے بچاؤ کی مہم بھی
روک دی گئی تھی۔یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہیکہ افغان حکام کے مطابق ملک میں
کورونا وائرس کے باعث حفاظتی ٹیکوں کے پروگراموں کو روکنے کی وجہ سے پولیو
وائرس کے کیسز ان علاقوں میں سامنے آئے ہیں جن کو پہلے اس موذی مرض سے پاک
قرار دیا گیا تھا۔ ان دنوں افغانستان کے تین صوبوں میں پولیو وائرس پھیل
چکا ہے جہاں پر تقریباً پانچ برسوں میں کوئی کیس سامنے نہیں آیا تھا۔ کابل
میں پولیو خاتمے کے پروگرام کے ترجمان سید جان راسخ کا کہنا ہیکہ ’’ہم نے
پولیو کے خاتمے کے لئے کئی برسوں تک محنت کی‘‘۔ ان دنوں کورونا وائرس کی
وجہ سے پولیو وائرس کو اپنے مخصوص جنوب اور جنوب مشرقی علاقے سے باہر
پھیلنے میں مدد ملی ہے اوراب یہ پورے ملک کیلئے خطرہ ہے۔ اس طرح افغانستان
میں کورونا وائرس کی وجہ سے دوسری طرف پولیو کیسز میں اضافہ تشویشناک بتایا
جارہا ہے ۔ حکومت کی جانب سے پولیو کے خاتمہ کے لئے کئے جانے والے اقدامات
کا ہر فرد ساتھ دیں اور ملک کے ہر شہری کو تندرست رکھنے کے لئے ہونہار بچوں
کو پولیو ڈراپس یا ٹیکے لگانے میں حصہ لینے والے عملے کی حفاظت بھی خیال
رکھیں اور طالبان و مذہبی رہنماؤں کے ان منفی خیالات کو کسی نہ کسی طرح ختم
کرنے کی کوشش بھی ضروری ہے ورنہ ماضی میں جس طرح پولیو عملے پر حملے کرکے
انہیں ہلاک یا زخمی کیا جاتا رہا ہے اس سے اپنے ملک کے بچے ہی معذور ہوسکتے
ہیں ۔
سعودی لیبر مارکیٹ سے 12لاکھ غیرملکیوں کے اخراج کا اندیشہ
کورونا وائرس کی وبا نے عالمی سطح پر لاکھوں افراد کو بیروزگار کردیا ہے
اور دنیا بھر میں روزگار کے سلسلہ میں دوسرے ممالک میں خدمات انجام دینے
والے کارکن ان دنوں دشوار گزار صورتحال سے دوچار ہیں۔ سعودی عرب میں بھی
مقیم لاکھوں غیر ملکیوں کو روزگار سے محروم ہونا پڑے گا ، 17؍ مارچ کو جاری
ایک رپورٹ کے مطابق بتایا جاتا ہیکہ عالمی معیشت کو نقصانات اور سعودی عرب
پر اس کے اثرات کا جائزہ لینے والے سعودی ادارے نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ
رواں سال کے آخر تک 12لاکھ غیر ملکی کارکن سعودی لیبر مارکیٹ سے نکل جائیں
گے جبکہ سعودی شہریوں میں بے روزگاری کی شرح 12فیصد برقرار رہے گی۔ مالیاتی
تجزیوں کے اسپیشلسٹ ادارے جدوی انویسٹمنٹ کے ماہرین نے اس امکان کا اظہار
کیا ہے کہ سب سے زیادہ متاثرہ ہونیو الے اداروں میں کام کرنے والے غیر ملکی
سعودی لیبر مارکیٹ کو سب سے پہلے خیر باد کہہ دیں گے۔ ماہرین کے مطابق
سیاحت، ریستوان، غذائی خدمات فراہم کرنے والے ادارے، ادارتی نگرانی،
تعمیرات ، سفر اور ٹکٹنگ ، کرائے پر آلات فراہم کرنے والے ادارے اور
سیکیوریٹی فراہم کرنے والے اداروں کے ملازمین سب سے زیادہ متاثر
ہونگے۔البتہ کمپنی کے ماہرین نے توقع ظاہر کی کہ آئندہ سال کی دوسری ششماہی
میں لیبر مارکیٹ میں تیزی آنا شروع ہوگی اور خاص طو رپر آخری تین ماہ
بہترین ثابت ہونگے۔ بتایا جاتا ہیکہ 2021کی آخری سہماہی میں معیشت بہتر
ہوگی جس میں سعودی شہریوں کے لئے روزگار کے نئے مواقع پیدا ہونگے۔کئی اشیاء
کی طلب میں اضافہ ہوگا اور ملک کی مجموعی معیشت میں واضح فرق محسوس کیا
جائے گا۔ کورونا وائرس کی وباء سے قبل بھی سعودی عرب سے غیر ملکیوں کو کسی
نہ کسی طرح روزگار سے محروم کیا جارہا تھا تاکہ سعودی شہریوں کو روزگار کے
زیادہ سے زیادہ مواقع میسر آئیں۔ پہلے ہی ہزاروں غیر ملکی پریشان کن
صورتحال سے دوچار ہوکر اپنے اپنے ملکوں کو آچکے ہیں اب جبکہ کورونا وائرس
کی مہلک وبا ساری دنیا میں پھیل چکی ہے جس سے سعودی عرب بھی متاثر ہوچکا ہے
ان حالات میں سعودی عرب کے مختلف نجی و سرکاری اداروں میں کام کرنے والے
لاکھوں افراد بھی روزگار سے محروم ہوچکے ہیں اور آئندہ بھی ہوسکتے ہیں۔ خیر
روزگار کا دینا اور اسکے چھینے جانے کا مسئلہ خالقِ کائنات کے اختیار میں
ہے، وہ جسے چاہتا ہے روزگار سے نوازتا ہے اور جسے چاہتا ہے روزگار سے محروم
کرکے آزمائش میں مبتلا کردیتا ہے اب دیکھنا ہیکہ سعودی عرب اور دیگر خلیجی
ممالک کے حکمراں بیروزگار تارکین وطنوں کیلئے کس طرح کے انتظامات کرتی ہے ۔
کورونا وائرس نے دنیا بھر کے انسانوں کو متاثر کیا
کورونا وائرس سے اب تک 188سے زائد ممالک میں 86,66,697سے زائد لوگ متاثر
ہوچکے ہیں جن میں سے 4,60,066سے زائد افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ پاکستان میں
کورونا وائرس کے متاثرین کی تعداد ایک لاکھ 54ہزار 760سے تجاوز کرگئی ہے جن
میں مرنے والوں کی تعداد دو ہزار 975ہوگئی ہے ۔ مصر میں ایک 96سالہ معمر
فتحیہ نامی خاتون کو قرنطینہ مرکز میں داخل کیا گیا تھا کچھ عرصہ زیر علاج
رہنے کے بعد وہ مکمل شفایاب ہوگئیں اور انہیں ہاسپتل سے ڈسچارج کرکے گھر
بھیج دیا گیا ہے ۔ مشرقِ وسطیٰ میں بھی کورونا وائرس میں اضافہ ہوتا جارہا
ہے ۔ غرض کہ کورونا وائرس نے دنیا بھر کے لاکھوں انسانوں کو متاثر کیا ہے
اور یہ سلسلہ ابھی جاری ہے اور نہیں معلوم کب تک جاری رہے گا۔ اقوام متحدہ
کے ادارہ برائے مہاجرین (یو این ایچ سی آر) کا کہنا ہیکہ دنیا میں کورونا
وائرس کی وجہ سے انسانی ضروریات بحران کی شکل اختیار کرگئی ہیں ،جنہیں پورا
کرنے کے لئے ہنگامی طور پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ یو این اچ سی آر کا کہنا
ہیکہ دنیا بھر میں لڑائی، کشیدگی، اور تنازعات کی وجہ سے سات کروڑ سے زیادہ
لوگوں کو اپنا گھر بار چھوڑنا پرا ، اور پھر عالمگیر وبائی مرض کورونا
وائرس کی وجہ سے یہ لوگ مزید مشکلات کا شکا رہوگئے ہیں۔ گذشتہ ماہ کی ایک
رپورٹ میں ادارے نے مشرقِ وسطیٰ میں پناہ لینے والے لاکھوں مہاجرین کی مالی
اپیل کی ہے ۔ یو این ایچ سی آر کا کہنا ہے کہ 56لاکھ شامی باشندوں نے پڑوسی
ممالک میں پناہ لے رکھی ہے جبکہ شام کے اندر ساٹھ لاکھ سے زائد لوگ بے گھر
ہیں انہیں اپنی ضروریات اور ہیلتھ کیئر کے لئے شدید مالی مشکلات درپیش
ہیں۔ادارے کے ترجمان اندریج ماہے سیس کا کہنا ہے کہ لبنان ، مصر ، عراق اور
اردن میں آبادلاکھوں مہاجرین کا روزگار ختم ہوگیا ہے ، وبائی مرض کی وجہ سے
وہ اپنی روزی نہیں کماسکتے اور فاقہ کشی کا شکار ہیں۔ مہاجرین کو پناہ دینے
والے ملکوں میں ایران اور پاکستان بھی شامل ہیں جنہوں نے افغانستان سے آنے
والے مہاجرین کو پناہ دے رکھی ہے ان کے علاوہ وینزویلا جیسے ملکوں میں بے
روزگار محتاج افراد کی کمی نہیں۔
ٌٌٌ***
|