کورونا کے قہر سے اپنے آپ کو محفوظ رکھنے کے لیے منہ پر
ماسک لگانا پڑتا ہے۔ اسی طرح تنقید سےخود کو بچانے کے لیےاپنے بھکتوں کے
آنکھ پر پٹی باندھنے کی ضرورت پڑتی ہے ۔ وزیر اعظم مودی جی نے یہی کیا ۔
وہ اپنے بھکتوں کے ساتھ ساتھ ہر ہرمودی گھر گھرمودی کا جاپ کرتے ہوئے چلے
جارہے تھے کہ اچانک لال لال آنکھ کرکے چین لداخ میں آگیا۔ یہ بھیانک منظر
دیکھ کر مودی جی آنکھیں چندھیا گئیں ۔ انہوں نے شتر مرغ کی مانند اپنا سر
ریت میں دبا دیا اور ۳۶ گھنٹوں تک سانس روکے رہے لیکن جب دم گھٹنے لگا تو
دیش کی خاطر جان کا بلیدان پیش کرنے والے جوانوں کو خراج عقیدت پیش کرکے
اعلان کردیا ان کی قربانی بیکار نہیں جائے گی۔ اس سے بات نہیں بنی تو ۳۰
گھنٹے بعد کل جماعتی نشست میں ایک ایسی بات کہہ دی کہ جس کی توقع کسی اور
کو تو دور چین کو بھی نہیں تھی ۔ چین کے رہنما بھیفی الحال یہ جاننے کے لیے
پریشان ہوں گے کہ آخر مودی جی نے ان کے اوپر ایسا احسانِ عظیم کیوں کر دیا
؟ اس سوال کا جواب ۱۹۷۰ میں بنی فلم سفر کے ایک گانے میں ہے ۔معروف نغمہ
نویس اندیور نے لکھا تھا :
جو تم کو ہے پسند وہی بات کہیں گے
تم دن کو اگر رات کہو ، رات کہیں گے
مودی جی کے بھکت کبھی سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ ان کے ہوتے چین ہماری
سرحدوں میں فوج روانہ کرنے کی جرأت کرے گا لیکن وزیر دفاع راجناتھ سنگھ نے
یہ بات تسلیم کرلی کہ بڑی تعداد میں چینی فوجی ہماری سرحد میں گھس آئے ہیں
۔ بھکتوں کے لیے یہ بات ماننا ناممکن تھا کہ ہمارے ملک کے تقریباً ۶۰
کلومیٹر کے علاقہ پر وہ قبضہ کرلیں گے لیکن وزیرخارجہ ایس جئے شنکر نے اپنی
پریس ریلیز میں چینی نائب وزیر خارجہ سے یہ کہا کہ وہ اپنی فوجوں کو قابو
میں رکھے ۔ اس کے علاوہ ساری دنیا بھرکے ماہرین اور سابق فوجی افسر چینی در
اندازی کی تائیدکر رہے تھے ۔ ہماری فوج کے مارے جانے والے فوجیوں لاشیں اس
حقیقت کی شہادت دے رہی تھیں ۔ چینیوں کی حراست سے آزاد ہونے والے فوجی اس
کے گواہی دے رہے تھے مگر مودی جی خاموش تھے اور بھکت بے چین تھے ۔
آل پارٹی میٹنگ میں بالآخر مودی جی نےوہ خوش کن اعلان کر ہی دیا کہ جس کا
بے چینی کے ساتھ انتظار کیا جارہا تھا ۔ انہوں نے کہا ’نہ وہاں کوئی ہماری
سرحد میں داخل ہوا ہے اور نہ ہی ہماریکوئی چوکی کسی کے قبضے میں ہے‘‘۔ سارے
بھکت یہی سننا چاہتے تھے اس لیے مودی جی نے اس بار اپنے بھکتوں کے من کی
بات کہہ کر ان کا دل خوش کردیا ۔اب چونکہ کوئی داخل ہی نہیں ہوا تو کسی کو
نکالنے کی بھی ضرورت نہیں رہی۔ اس لیے بھکتوں سے زیادہ خوشی چین کو ہوئی ۔
وہ بھی یہی کہہ رہا ہے کہ اس کے فوجی ہندوستان کی سرحد میں داخل ہی نہیں
ہوئے۔ اس طرح3 جون کو کیا جانے والا وزیر دفاع راجناتھ سنگھ کا یہ اعتراف
غلط ہوگیا کہ چینی فوج کی ایک بڑی تعداد مشرقی لداخ میں داخل ہوگئی ہےاور
ہندوستان صورت حال سے نمٹنے کے لیے تمام ضروری اقدامات کررہا ہے۔انہوں نے
بتایاہندی چینی فوجی رہنماؤں کے درمیان 6 جون کو ایک اجلاس طے کیا گیا ہےتا
کہ لداخ میں اس خطے کے بارے میں گفتگو ہوسکے جس پر چینیوں نے اپنا قبضہ کر
لیا ہے اور وہ اسے اپنا سمجھتے ہیں۔ اب چونکہ قبضہ ہی نہیں تو نکالنے کی
ضرورت بھی نہیں رہی۔
وزیر اعظم کے بیان سے وزیر خارجہ کا چینی نائب وزیر خارجہ سے بات چیت
کرکےوہ پریس ریلیز جاری کرنا بھی بے سود ہوگیا جس میں ایس جے شنکر نے چینی
فوج کی کارروائی پر سخت احتجاج درج کراتے ہوئے کہا تھا کہ اس نے رضامندی کو
نظر انداز کرکے ہندوستانی سرحد میں گلوان وادی میں خیمے لگانے کی کوشش کی
جس سے تنازعہ پیدا ہوا۔ ان غیر معمولی واقعات کا دو طرفہ تعلقات پر سنگین
اثرات پڑے گا۔ وزیر اعظم کے مطابق اگر چینی ہمارے علاقہ میں داخل ہی نہیں
ہوئے تو انہوں خیمہ لگانے کی کوشش کیسے کی؟ اس سوال کا جواب جئے شنکر کو
دینا ہوگا۔ مودی جی ایک بے بنیاد دعویٰ کرکے اپنے اور چین کے سارے مسائل حل
کردیئے۔ وزیراعظم اگر تسلیم کرلیتے کہ چینیوں نے ہماری زمین پر قبضہ جمالیا
ہے تو اسے خالی کرانے کا سوال پیدا ہوجاتا۔ مودی جی جانتے ہیں کہ اس علاقہ
کو نہ تو لڑ کر دوبارہ حاصل کیا جاسکتا اور نہ بات چیت کے ذریعہ اس مسئلہ
کو سلجھایا جاسکتا ہے اس لیےانہوں نے وہی کیا جو گمراہ فلم مے نغمہ میں
ساحر لدھیانوی نے لکھا تھا ؎
وہ افسانہ جسے انجام تک لانا نہ ہو ممکن
اسے اک خوبصورت موڑ دے کر چھوڑ دینا اچھا
آل پارٹی میٹنگ کے اندر ایک خوبصورت دعویٰ کرکے وزیر اعظم گلوان کی وادی
پرہندوستانی دعویٰ سے دستبردار ہوگئے لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہہ دیا کہ
،”ہمارے 20 بہادر جوان ء لداخ میں شہید ہوئے لیکن جنہوں نے مادر ہند کی طرف
نگاہ اٹھائی تھی وہ انہیں سبق سکھا کر گئے ہیں“۔مودی جی کے مطابق چینی
ہماری سرحد میں داخل نہیں ہوئے تو وہ اپنی سرحد میں تھے۔ ایسے میں یہ سوال
پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہمارے بہادر جوانوں ان کومادرِ ہندکی جانب نگاہ اٹھا
کر دیکھنے کی سزا دے دی اور جوش میں آکر سبق سکھاتے ہوئے اپنی جان قربان
کردی ؟ اس سے بھی اہم سوال یہ ہے کہ ہندوستان اور چینی فوج کے درمیان تصادم
کہاں ہوا؟ اگر وہ نہیں آئے تو کیا ہمارے فوجی مڈبھیڑ کرنے کے لیے ان کے
علاقہ میں گھس گئے ؟ چین کا موقف یہی ہے کہ پوری گلوان کی وادی پر اس کی
ہےاور ہندوستان کی فوج اس میں داخل ہوگئی ہے۔
چین اپنی جارحیت کو حق بجانب ٹھہرانے کی خاطر یہی کہتا ہے کہ اس اپنے علاقے
ہندوستانیوں فوجیوں پیچھے کھدیڑنے کی خاطر یہ مذموم حرکت کی جس میں تین
فوجیوں کی لاشیں پیچھے چھوڑ گئے ۔سرحد سے ملنے والے اب تک کے اعدادو شمار
کے مطابق ۵۳ فوجیوں کو وہ یرغمال بناکر اپنے ساتھ لے گئے۔ ان میں سے ۱۷ کی
لاشیں پہلے مرحلے میں روانہ کیں اس طرح مرنے والوں کی تعداد ۲۰ ہوگئی اور
۲۵ کو رہا کیا۔ سب لوگ یہ سمجھ رہے تھے ساری ہندوستانی فوجی لوٹ آئے لیکن
دودن بعد مزید ۱۰ فوجیوں کو چھوڑاگیا جس میں کئی فوجی افسران بھی شامل تھے
۔ ایسے میں اگر وزیر اعظم کی بات درست مان لی جائے کہ وہ آئے نہیں تھے
ازکود ان کا اقدام درست ثابت ہوجاتا ہے، لیکن پھر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ
آخر وہ ہمارے فوجیوں کو حراست میں کہاں لے کر گئے تھے؟تصادم والا علاقہ
اگر ان کا اپنا تھا تو انہیں فوجیوں کے ساتھ کہیں جانے کی ضرورت کیوں پیش
آئی؟
وزیر اعظم نے اپنا ایک مسئلہ حل کرنے کی خاطر ملک کے نہ جانے کتنے لوگوں کو
کئی مسائل میں مبتلا کردیا ہے۔ ویسے یہ ان کے لیے کوئی نئی بات نہیں ہے۔
این آر سی کے خلاف تحریک جب بامِ عروج پر تھی تو انہوں نے رام لیلا میدان
میں اعلان کردیا تھا کہ نئے قانون کے تعلق سے اپوزیشن اور اربن نکسل
افواہیں پھیلارہے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے ملک بھر میں ڈٹینشن سینٹروں
کے قیام کو بھی جھوٹ بتاتے ہوئے دعویٰ کردیا تھا کہ ۲۰۱۴ء میں ان کی حکومت
بننے کے بعد سے این آر سی پر کوئی بات چیت ہی نہیں ہوئی۔ مودی نے کہا
تھاکہ ڈٹیشن سینٹر میں بھیجنے کی بات تو دور، ملک میں ڈٹیشن سینٹر ہیں ہی
نہیں۔ کانگریس نے اقتدار سے محرومی کے سببووٹ بینک کے لئے عوام کو بانٹنے
کا پرانا ہتھیار نکال لیا ہے۔ یہ اعلان اس وقت کیا گیا جبکہ آسام کے
ڈٹینشن سینٹر سے لوگوں کے موت کی خبر آرہی تھی اور ساری دنیا میں اس کی
تصاویر شائع ہوئی تھیں ۔ وزیر داخلہایوان پارلیمان کے اندر اور باہر اس کی
کرونولوجی کئی بار سمجھا چکے تھے لیکن مودی جی نے کہہ دیا تو کہہ دیا۔
اس بیان کے بعد جو حالت امیت شاہ کی ہوئی تھی اس سے بھی برا حال فی الحال
راجناتھ سنگھ اور ایس جئے شنکر کا ہوا ہے۔ امیت شاہ سے جب صحافیوں نے اس
بابت استفسار کیا تو ان کا جواب تھا ’جو وزیر اعظم نے کہا وہی درست بات
درست ہے یعنی جوبات وہ خود کہہ رہے تھے وہ سب جھوٹ تھا۔ اب راجناتھ سنگھ
اور جئے شنکر کو بھی یہی کہنا پڑے گا ۔ تارکین وطن مزدوروں کے تعلق سے بھی
سولیسیٹر جنرل تشار مہتا نے عدالت عظمیٰ میں دعویٰ کردیا تھا کہ ایک بھی
مزدور سڑک پر نہیں ہے اور چیف جسٹس نے ذرائع ابلاغ میں چھپنے والی ہزاروں
تصاویر اور ویڈیوز کو مسترد کرکے ان کی بات کو مان لیا ۔ یہ سب اس لیے
ہورہا ہے کہ ’تم دن کو اگر رات کہو رات کہیں گے ، جو تم کو ہے پسند وہی بات
کہیں گے ‘۔ ایک طرف بھکت مودی جی کے پسند کی بات کررہے ہیں اور دوسری جانب
وزیر اعظم نے اپنے دوست جن شی پنگ کی من پسند بات کرکے ان کا دل جیت لیا
ہے۔گلوان وادی تنازع کووہ ایک خوبصورت موڑ دے بھول گئے ہیں ۔ اختر انصاری
نے ماضی کےمتعلق اپنے مشہور شعر میں جو کچھ کہا تھا اب اسے وادی یعنی وادیٔ
گلوان سے بدل کر اس طرح کردیا جانا چاہیے کہ ؎
یادِ وادی عذاب ہے یارب
چھین لے مجھ سے حافظہ میرا
|