ڈاکٹر بشیر سیفی - خاکہ

آلام روزگار کے مہیب بگولوں میں گھرا اپنی تسبیح روز و شب کا دانہ دانہ شمار کر کے یاد ایام کا حساب کر رہا تھا کہ ڈاکٹر بشیر سیفی کی دلکش اور حسین یادوں نے بے حساب آزردہ کر دیا۔آج سے دس برس قبل وہ عد م کے لیے کوچ کر گئے ۔اس عرصے میں وہ ایک لمحے کے لیے بھی یادوں سے محو نہ ہو سکے ۔ایسا محسوس ہوتا ہے فضاﺅ ں میں ہر سمت ان کی عطر بیز یادیں بکھری ہوئی ہیں ،جس سمت بھی نظر اٹھتی ہے ان کے حسن اخلاق کا جادو مسحور کردیتا ہے اور ان کی معجز نما شخصیت کا کرشمہ دامن دل کھینچتا ہے ۔ان کے جانے سے خانہءدل میں ویرانی اور اداسی نے مستقل طور پر ڈیرے ڈال رکھے ہیں ۔کئی بار دل میں یہ خیال آیا کہ ان کے بارے میں کچھ لکھوںلیکن ان کے اچانک بچھڑ جانے کی یادوں کے زخم اس قدر گہرے ہیں کہ ان سے روح زخم زخم اور دل کرچی کرچی ہو گیا ۔اپنی فگار انگلیوں سے جب بھی کچھ لکھنے کی سعی کی دیدہءگریاں سے آنسوﺅں کی جھڑی لگ گئی اور تما م الفاظ صفحہ ءقرطاس سے آنسوﺅں میں بہہ گئے۔وہ اس قدر محبت کرنے والے،ہمدرد اور انسانیت نواز تھے کہ ان کی موجودگی ایک نعمت خداوندی کے برابر تھی ۔ان کی رحلت نے احباب کو بے بسی ،بے چارگی اور بے سروسامانی کی بھینٹ چڑھا دیا۔ان کی اچانک وفات اتنی بڑی محرومی ہے جس کی تلافی کبھی نہیں ہو سکتی ۔یہ اتنا بڑا نقصان ہے جس کے مسموم اثرات سے گلشن ادب پر خزاں کے آثار نمایاں ہیں۔دنیا بلاشبہ دائم آباد رہے گی مگر ایسا عظیم شخص کہاں سے لائیں جسے ڈاکٹر بشیر سیفی جیسا کہا جا سکے ۔

علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی،اسلام آباد میں اب تک جتنے نابغہ ءروزگار ادیب اور یگانہءروزگار فاضل تدریسی خدمات پر مامور رہے ہیں ،وہ اس عظیم جامعہ کا بہت بڑا اعزاز و امتیاز ہے ۔دنیا کی کوئی اور یونیورسٹی اس اعزاز و افتخار میں اس کی شریک و سہیم نہیں ۔ایک زمانہ تھا جب اس تاریخی مادر علمی میں پاکستان کے چوٹی کے ماہرین تعلیم ،دانش ور ،مورخ اور ادیب تدریسی کام میں منہمک تھے ۔ان میں ڈاکٹر محمد ریاض،ڈاکٹر رحیم بخش شاہین،ڈاکٹر اعجاز راہی ،ڈاکٹر محمود الرحمن،پروفیسر نظیر صدیقی،ڈاکٹر نثار احمد قریشی اور ڈاکٹر بشیر سیفی کے نام کسی تعارف کے محتاج نہیں۔یہ سب کے سب پارس تھے جو مس خام کو کندن بنانے کی صلاحیت سے متمتع تھے ۔یہ سب اس طرح ید بیضا کا معجزہ دکھاتے کہ ذرے کو آفتاب بننے کے فراواں مواقع میسر آجاتے ۔حیف صد حیف علم و ادب کے یہ سب آفتاب اب عدم کی بے کراں وادیوں میں غروب ہو چکے ہیں یہ باغ خدا جانے کس کی نظر کھا گئی ۔اب دل کی ویرانی کا کیا مذکور ہے ۔ڈاکٹر بشیر سیفی کا تعلق شعبہ اردو سے تھا ۔تخلیق ادب اور تدریس ادب ان کے عشق تھے ۔وہ جب بولتے تو ان کی باتوں سے پھول جھڑتے ،پڑھاتے تو دلوں کو ایک ولولہ ءتازہ نصیب ہوتا اور سامعین ہمہ تن گوش ہو کر ان کی بصیرت افروز باتیں سنتے ۔وہ اپنی موءثر تدریس سے اذہان کی تطہیر و تنویر کا اس طرح اہتمام کرتے کہ ان کے شاگرد ان کے شیدائی ہو جاتے ،شاگردوں کو شبانی سے کلیمی دو قدم محسوس ہوتی ۔

ادبی نشستوں کا انعقاد ڈاکٹر بشیر سیفی کا ایسا ذوق تھا جس کی خاطر وہ سب کچھ قربان کرنے پر ہمہ وقت آمادہ رہتے تھے ۔ادبی نشست کہیںبھی ہو وہ ہر حال میں وہاں پہنچتے اور اپنی تخلیقات سے محفل کو کشت زعفران بنا دیتے ۔ان کی شگفتہ مزاجی ،تخلیقی بصیرت،عصری آگہی،تنقیدی شعور،تحقیقی سلیقہ اور ذوق سلیم ان کے وہ اوصاف ہیں جو ان کی عظیم شخصیت کے استحکام کی دلیل ہیں ۔راول پنڈی ،اسلام آباد میں وہ ادبی تقریبات کی روح رواں ہوتے ۔انھوں نے بہر ملاقات ادبی نشستوں کے انعقادکا ایک سلسلہ شروع کیا جو ان کی وفات تک جاری رہا۔ڈاکٹر بشیر سیفی کو اللہ تعالیٰ نے صبر و استغنا اور تحمل و بردباری کی فراواں دولت عطا کی تھی ۔وہ مشاعروں میں متشاعروں کا کلام بھی نہایت تحمل سے سنتے مگر حرف شکایت لب پر نہ لاتے ۔کئی چربہ ساز،سارق ،کفن دزد،جعل ساز اور خفاش منش سفہا جو گلشن ادب میںطفیلی اور لفاظ حشرات سخن کے مانند گھس آئے ہیںوہ ان کی لاف زنی سن کر بھی چپ سادھ لیتے اور کسی کی دل شکنی کبھی نہ کرتے ۔وہ اکثر کہا کرتے کہ اجالے کی اہمیت سمجھنے کے لیے تاریکی کا ادراک ضروری ہے ۔اگر کانٹے نہ ہوں تو پھولوں کی نفاست ،نزاکت،رنگ،خوشبو اور حسن و خوبی کے استعاروںکی تفہیم کیسے ممکن ہے؟ان کی زندگی ایک شمع فروزاں کے مانند تھی ۔وہ تما م عمر روشنی کے سفر کو جاری رکھنے پر اصرار کرتے رہے انھیں یقین تھا کہ نظام کہنہ ایک گرتی ہوئی عمارت ہے اس کے سائے میں عافیت سے بیٹھنے کا خواب دیکھنے والے احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں ۔روشنیوں کی راہ میں خواہ سد سکندری بھی حائل ہو سیل زماں کے تھپیڑے اسے خس و خاشاک کی طرح بہا لے جاتے ہیں۔وہ اپنی دلکش باتوں سے دلوں کو مرکز مہر و وفا کرنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے ۔ان سے مل کر نہ صرف زندگی سے محبت ہو جاتی بلکہ زندگی کی حقیقی معنویت کا احساس فزوں تر ہو جاتا ۔

ڈاکٹر بشیر سیفی نے کچھ عرصہ ایک ادبی جریدے کی مجلس ادارت کے رکن کی حیثیت سے خدمات انجام دیں ۔نو آموز تخلیق کاروں کا ایک المیہ یہ ہے کہ وہ کاتا اور لے دوڑا کی روش کو اپنا وتیرہ بنا لیتے ہیں۔متشاعر اپنی خام تحریروں کی فوری اشاعت پر اصرار کرتے ہیں اور چربہ ساز رواقیت کے داعی بن بیٹھتے ہیں۔ان حالات میں جاہل بھی اپنی جہالت کا انعام حاصل کرنے کی خاطر ہر حربہ استعمال کرتا ہے اور وقت ایسے حادثات سامنے لاتا ہے کہ شیخ چلی منش جہلا اپنے منہ میاں مٹھو بن کر کفن پھاڑ پھاڑ کر اپنی جعل سازی کی تحسین پر مصر رہتے ہیں ۔اسی قسم کا ایک واقعہ ڈاکٹر بشیر سیفی کے ساتھ بھی پیش آیا۔ایک متشاعر نے جو اکثر اپنی فرسودہ تحریریں انھیں ارسال کیا کرتا تھا اپنے ایک مکتوب میں انھیں لکھاکہ اس کا والد اسے تخلیق فن سے روکنے کے لیے جسمانی تشد د کرتا ہے اور اس کا یہ تادیبی رویہ اس کے تخلیقی عمل کی راہ میں دشواریاں پیدا کر رہا ہے ۔اس نے یہ بھی لکھا کہ وہ اس ظالمانہ اقدام کے خلاف آواز اٹھائیں اور اس کی مدد کریں ۔اس کے جواب میں ڈاکٹر بشیر سیفی نے اس چربہ ساز متشاعر کو لکھا کہ جس قسم کی تحریریں وہ انھیں روانہ کرتا ہے انھیں پڑھ کر ان کا بھی یہی جی چاہتا ہے کہ تمھارے والد سے مل کر تمھاری خوب دھنائی کی جائے ۔ تمھاری اصلاح کے لیے جو بھی اقدام کیے جارہے ان میں تمھارے والد قطعی حق بہ جانب ہیں اور میں ان سے متفق ہوں ۔اصل مسئلہ یہ ہے کہ عقل مند کے لیے تو اشارہ ہی کافی ہوتا ہے جب کہ سارق،خبطی ،چربہ ساز اور کفن دزد ننگ انسانیت پر تو خدا کی مار بھی پڑنی چاہیے،محض انسانوں کی زجرو تو بیخ کافی نہیں ۔اس کے بعد وہ نام نہاد متشاعر ایسے غائب ہو اجیسے گدھے کے سر سے سینگ۔اس قسم کے بصیرت افروز،فکر پرور اور خیال انگیز واقعات سے ان کی ادبی زندگی لبریز ہے ۔

ادبی تحقیق ،تنقید اور تخلیق میں ڈاکٹر بشیر سیفی جس جگر کاوی کا مظاہرہ کرتے وہ اپنی مثال آپ ہے ۔بنیادی مآخذ تک رسائی کی خاطر وہ تمام وسائل بروئے کار لاتے ۔ایک سہل پسند محقق نے ان سے یہ تقاضا کیا کہ وہ موضوع تحقیق کی بر وقت تکمیل میں ان کی مدد کریں بلکہ ہو سکے تو کچھ صفحات خود لکھ کر دے دیں ۔ڈاکٹر بشیر سیفی نے اس محقق کی بے بصری ،کور مغزی اور ذہنی افلاس کو محسوس کرتے ہوئے اس سے چند سوالات دریافت کیے ان کی تفصیل حسب ذیل ہے :
ڈاکٹر بشیر سیفی : شہید کسے کہتے ہیں ؟
طالب علم : وہ جو راہ حق میں جان قربان کردے ۔
ڈاکٹر بشیر سیفی :کس کی جان ؟
طالب علم :(ہنستے ہوئے ) ظاہر ہے وہ اپنی جان راہ حق میں قربان کرے گا تب ہی وہ شہید کہلائے گا،لیکن اس سوال کا میرے مسئلے سے کیا تعلق ہے ؟مجھے تحقیق کا فن نہیں آتا آپ میری جگہ میرے تحقیقی مقالے کی تکمیل کر دیں میں آپ کا ممنوں بھی ہوں گا اور۔۔۔۔۔
ڈاکٹر بشیر سیفی:تو پھر کان کھو ل کر سن لیجیے جس طرح کوئی شخص اپنی جان راہ حق میں قربان کیے بغیر شہید نہیں کہلا سکتا اسی طرح کوئی شخص جب تک خود تحقیق نہ کرے کبھی محقق نہیں کہلا سکتا۔

یہ سن کر وہ سہل طلب طالب علم اپنی حسرتوں پر آنسو بہاتا ہو ا وہاں سے رفو چکر ہو گیا ۔سنا ہے بعد میں اس نے اپنا کام کسی قلم فروش سے کروا ہی لیا اور اس طرح چور دروازے سے داخل ہو کر میرٹ کا بھی کام تمام کر دیا ۔اس بے حس معاشرے میں ہر انہونی ممکن ہے۔ڈاکٹر بشیر سیفی نے اپنے قلم کو اپنے ضمیر کی امانت خیال کیا ۔قلم اور لفظ کی حرمت کی خاطر انھوںنے مقدور بھر جدوجہد کی ۔اپنے شاگردوں کو وہ ہمیشہ محنت ،لگن اور فرض شناسی کا بلند ترین معیار قائم کرنے کی تلقین کرتے تھے ۔وہ اپنی جان جوکھوں میں ڈال کر تدریس کو مقاصد کی رفعت میں ہمدوش ثریا کرنے کی مساعی میں منہمک رہے ۔

وطن اہل وطن اور بنی نوع انساں کے ساتھ والہانہ محبت اور قلبی وابستگی ہمیشہ ان کا نصب العین رہا ۔ ان کی بارہ کے قریب وقیع تصانیف شائع ہو چکی ہیں ۔انھوںنے کبھی ستائش اور صلے کی تمنا نہ کی ۔جو کچھ ان کے دل پہ گزرتی وہ اسے الفاظ کے قالب میں ڈھال دیتے ۔وہ تمام عمر پرورش لوح و قلم میں مصروف رہے ۔ان کی تحریریں حریت فکر کا بلند ترین معیار پیش کرتی ہیں۔تحقیق ،تجزیہ اور تنقید پر مبنی ان کی تحریریں ان کی دیانت داری ،صداقت،بے باکی اور ذہانت کی دلیل ہیں ۔ان کی شاعری میںمثبت شعور و آگہی پروان چڑھانے کی کوشش صاف دکھائی دیتی ہے ۔ان کا شعری مجموعہ ”موجود،، شائع ہوا تو ان کی شہرت میں بہت اضافہ ہوا۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ اپنی شاعری میں اپنی شخصیت کو ہمیشہ پس منظر میں رکھتے ہیں اور زمانے بھر کے غم ان کی شاعری میں سمٹ آئے ہیں ۔اپنی شاعری میں انھوںنے دکھی انسانیت کے مسائل کو نہایت خلوص اور دردمندی کے ساتھ اشعار کے قالب میں ڈھالا ہے ۔عملی زندگی میں بھی وہ غریب اور پس ماندہ طبقے کے ساتھ بہت پیار کرتے تھے ۔ہر سال عید اور قربانی کے موقع پر وہ جامعہ علامہ اقبال کے درجہ چہارم کے تمام ملازمین کو عیدی دیتے اور انھیںمٹھائی پیش کرتے ۔ان کے دفتر کے دروازے ہر ملنے والے کے لیے ہمہ وقت کھلے رہتے تھے ۔اگرچہ وہ محکمہ تعلیم میں اعلیٰ منصب پر فائز تھے مگر ان کے مزاج میں مصنوعی رعب و دبدبہ اور جاہ و جلال بالکل موجود نہ تھا۔عجز و انکسار اور فقر و استغنا ان کے مزاج کا اہم ترین حصہ رہا۔دفتر کے کلرک بھی ان سے بے تکلفانہ لہجے میں بات کرتے تھے۔شعبہ پاکستانی زبانیں کے ایک ملازم نے انھیں پشتو شاعری کے تراجم کی طرف راغب کیا۔ان کا خیال تھا کی علاقائی زبانوں کے ادب میں جو فکری سرمایہ موجود ہے اس سے استفادہ کرنا بہت ضروری ہے۔

ادبی اقدار و روایات کو ڈاکٹر بشیر سیفی بہت اہم خیال کرتے تھے وہ قدر کو ایک ایسے مقیاس سے تعبیر کرتے تھے جس کی بدولت تخلیق فن اور تخلیق کار کے افعال کی رفعت کو جانچا اور پرکھا جا سکتا ہے ۔ان کے نزدیک قدر کو ایک کسوٹی سمجھناچاہیے جو معاشرتی زندگی میں افراد کے تمام اعمال اور افعال کے زیروبم کو حقیقی صورت میں سامنے لانے پر قادر ہے ۔وہ حیات آفریں اقدار کو ادب کے لیے ناگزیر سمجھتے تھے ۔انہی کی بدولت ایک ادیب تخلیق فن کے لمحوں میں خون بن کر رگ سنگ میں اتر سکتا ہے ۔ان کی گفتگو،رویے،اسلوب اور زیست کے اطوار سے یہ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ان کا ظاہر اور باطن یکساں تھا۔وہ منافقت اور ریاکاری سے شدید نفرت کرتے تھے۔وہ نمود ونمائش کے بہت خلاف تھے ۔دنیا بھر میں ان کے لاکھوںشاگردعملی زندگی میں فعال کردار ادا کر رہے ہیں۔ان میں سے کئی تو بلند ترین اور کلیدی عہدوں پر بھی فائز ہیں مگر انھو ں نے کبھی ان کا حوالہ دے کر کسی کو مرعوب کرنے کی کوشش نہ کی ۔جب کوئی شاگرد ان سے ملنے کے لیے آتا تو اس کی خاطر تواضع میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھتے ۔ان کے آرام اور آسائش کے لیے مقدور بھر کوشش کرتے ۔شبیر احمد اختر ان کے ایک شا گرد تھے انھیں بلند فشار خون کا عارضہ لاحق تھا۔اسلام آباد میں پرہیزی غذا کا حصول اور وہ بھی ہوسٹل یا ریسٹورنٹ میں جوئے شیر لانے کے مترادف ہے ۔ایک تعلیمی ورکشاپ کے سلسلے میں ہم منسٹری آف ایجوکیشن کے ہوسٹل میں ٹھہرے ہوئے تھے ۔پشاور موڑ کے ہوٹل کے کھانے کھا کر شبیر احمد اختر کی طبیعت بگڑ گئی ۔ڈاکٹر بشیر سیفی کو معلوم ہوا تو فوری طور پر اس طالب علم کو ہمرا لے کر اپنے گھر پہنچے اور اس کی مطلوبہ غذا جن میں ابلی ہوئی سبزیاں ،نمک کے بغیر کھانا،اور کولیسٹرول سے پاک تیل میں پکی ہوئی اشیا شامل تھیں ان کی فراہمی کو یقینی بنایا۔صرف اسی پر اکتفا نہ کیا بلکہ غلہ منڈی سے کینولا خرید کر اسے گھر میں صاف کرایا اور کوہاٹی بازار راول پنڈی کے ایک تیلی سے مل کر کولھو سے خالص کینولا کا تیل نکلوا لائے ۔اس طرح ایک دن کے بعد ہی اس طالب علم کی طبیعت ہشاش بشاش ہو گئی۔وہ اپنے استاد کے اس حسن سلوک سے اس قدر متاثر ہو کہ ان کی آمد پر دیدہ و دل فرش راہ کرتا۔ڈاکٹر بشیر سیفی کو بجا طور پر فاتح زمانہ کہا جاتا تھا ،وہ دلو ںکو مسخر کرنے کا ہنر جانتے تھے۔

درجہ چہارم کا ایک ملازم جو کہ یونیورسٹی کے کباڑ خانے کا چوکیدار تھا پر محکمانہ افتاد پڑی اس کا تبادلہ رات کی شفٹ میں کر دیا گیا ۔اس نے رو رو کر ڈاکٹر بشیر سیفی کو بتایا کہ اس کی اہلیہ کا انتقال ہو چکا ہے ۔کم سن بچے ہیں جو رات کی تنہائی کی اذیت کی تاب نہیں لا سکتے ۔وہ درخواست لے کر مارا مارا پھر رہا ہے مگر کوئی اس کا پرسان حال نہیں۔یہ کہہ کر وہ زار و قطار رونے لگا اور نوکری کو خیرباد کہنے کے عزم کا اظہار کیا۔ڈاکٹر بشیر سیفی نے اسی وقت درخواست اس ملازم سے لے لی اور اس پر اپنے نوٹ میں لکھا:
”اگر یہ ملازم رات کو یونیورسٹی کے کباڑ خانے کی حفاظت پر مامور ہو گا تو اس کے چھ کم سن بچوں کی حفاظت کون کرے گا ؟ان حالات میں اگر اس کے بچوں کو کوئی نقصان پہنچتا ہے تو اس کی تمام ذمہ داری متعلقہ تحقیقاتی ادارے یونیورسٹی پر ڈالیں گے اس لیے یونیورسٹی کے مفاد کی خاطر یہ تبادلہ فوری طور پر منسوخ کرنے کی استدعا کی جاتی ہے ،،

رجسٹرار آفس میں یہ درخواست جوں ہی پہنچی اسی وقت تبادلہ منسوخ کر دیا گیا ۔وہ ملازم دعائیں دیتا ہو چلا گیا ۔ِمجبور ،بے بس اور مظلوم انسانیت کے ساتھ انھوں نے جو عہد وفا استوار کیا اسے زندگی بھر نبھایا۔ دکھی اور سسکتی انسانیت کی خدمت کے کاموں میں وہ بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے اور ہر حال میں راضی بہ رضا رہنا ان کا شیوہ تھا ۔ان کی زندگی کا ایک ہی مقصد تھا کہ کسی طور آلام روزگار کے مہیب بگولوں کی زد میں آنے والے مجبور انسانوں کی زندگی میں حوصلے اور امید کی شمع فرزاں کی جائے ۔

قحط الرجال کے موجودہ زمانے میں زندگی کی اقدار عالیہ کو شدید خطرات کا سامنا ہے۔نا اہل اور غبی عناصر چور دروازے سے گھس کر رشوت اور سفاش کے بل پرجاہ و منصب پر غاصبانہ قبضہ کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں ۔ڈاکٹر بشیر سیفی نے ہمیشہ میرٹ اور استحقاق کی بالا دستی کو یقینی بنانے پر زور دیا۔1995کا واقعہ ہے ایک بیوروکریٹ کی بیٹی نے ایم ۔فل اردومیں داخلہ لیا وہ مشقی کام نہ کر سکی اور خالی پرتوں پر نمبر لگانے کے لیے ڈاکٹر بشیر سیفی پر دباﺅ ڈالا گیا ۔انھوں نے ببانگ دہل کہا” میں ایسے کام نہیں کیا کرتا۔میں اپنے ضمیر کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے ہر کام کرتا ہوں ۔میں کسی دھونس ،دھمکی یا بلیک میل سے کبھی ہراساں نہیں ہوا۔اس طالبہ کو ہر حال میں مشقی کام کرنا پڑ ے گا ورنہ اس کو مشقی کام میں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑے گا“ان لوگوں نے اسے اپنی انا کا مسئلہ بنا لیامگر ڈاکٹر بشیر سیفی اپنے اصولوں کے پکے تھے۔ہر قسم کے دباﺅ اور فسطائی جبر کو پائے استقامت سے ٹھوکر مارناان کا شیوہ تھا ۔اس بار بھی انھوں نے فراعنہ کو ان کی اوقات یاد دلا دی ۔کردار اور شخصیت کے وقار کا اس قدر بلند معیار ان کو منفرد اور ممتاز مقام عطا کرتا ہے ۔آخر کار اس طالبہ کو مشقی کام کرنا پڑا تب کہیں جا کر اس کا سمیسٹر تکمیل کو پہنچا۔وہ طالب علموں کی بھلائی کو ہمیشہ ملحوظ رکھتے تھے ۔ان کے لاکھوں شاگرد اس بات کے شاہد ہیں کہ انھو ں نے ذہین اور با صلاحیت طلبا اور طالبات کی مقدور بھر اعانت کی اور انھیں حوصلے اور اعتماد کے ساتھ اپنا تعلیم سفر جاری رکھنے پر آمادہ کیا ۔غریب اور مستحق طلبا و طالبات کے تعلیم اخراجات پورا کرنے کے سلسلے میں انھوں نے ہر سطح پر جدوجہد کی ۔متعدد طلبا اور طالبات نے اس سرچشمہءفیض سے اکتساب کیا اور آج اپنے روشن مستقبل کے سفر پر کامیابی سے گامزن ہیں۔

میرا یہ اعزاز و افتخار ہے کہ مجھے اس عظیم ماہر تعلیم کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کرنے کا موقع ملاہے ۔ان کا شاگرد ہونا ایک بہت بڑی سعادت اور خوش قسمتی ہے ۔انھو ں نے میری اتنی پذیرائی کی کہ میرے لیے تحقیق اور تنقید کے مراحل آسان ہوتے چلے گئے ۔میر ی ایم ۔فل اور پی ایچ۔ڈی تک کے تمام اہم مراحل میں ان کی مشاورت میرے لیے خضر راہ ثابت ہوئی۔یہ ان کا اتنا بڑا احسان ہے جسے میری عقیدت سے لبریز آنکھیں ممنونیت کے جذبات سے پرنم ہو کر دیکھتی ہیںاور میرا عقیدت بھرادل ان کے قدموں میں نچھاور ہونے کے لیے بے تاب ہو کر محسوس کرتا ہے الفاظ ان کے حقیقی مقام و منصب اور عنایات پر اظہار تشکر کرنے سے قطعی طور پر قاصر ہیں ۔

2002کے اواخر میں مجھے معلوم ہوا کہ ڈاکٹر بشیر سیفی کی طبیعت ناساز رہنے لگی ہے ۔میں فی الفور طویل سفر کر کے ان کے گھر راول پنڈی پہنچا ۔میں نے دیکھا کہ ان کا پھول جیسا چہرہ آلام روزگار کی تمازت سہتے سہتے قدر ے کملا گیا تھا۔نہ تو ان کے الفاظ میں ترنگ تھی اور نہ ہی لہجہ دبنگ تھا۔میں نے خیریت دریافت کی تو کہنے لگے ایک گردے نے کام کرنا چھوڑ دیا ہے تاہم دوسرا گردہ بدستو رٹھیک کام کر رہا ہے ۔انھوں نے مجھے حوصلہ دلاتے ہوئے کہاکہ فکر اور اندیشے کی کوئی ضرورت نہیں ۔میں نے دل تھام لیا اور بوجھل قدموں کے ساتھ جھنگ آگیا۔میں نے تمام متعلقہ اداروںسے ایک مکتوب کے ذریعے اس عظیم دانشور کے علاج کی التجا کی ۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہم ایک جنگل میں گھر گئے ہیں جس میں جنگل کا قانون نافذ ہے ۔یہاں بے بس و لاچار انسانیت کی فغاں سننے والا کوئی نہیں ۔میری ساری آہ و فغاں صدا بہ صحرا ثابت ہوئی ۔چند ما ہ بعد مجھے معلوم ہوا کہ ڈاکٹر بشیر سیفی کی حالت سنبھل نہیں رہی ۔اس بار میں نے دیکھا کہ وہ ہڈیوں کا ڈھانچہ بن گئے تھے ا ن کے دونوں گردے کام کرنا چھوڑ چکے تھے ۔ان کو علاج کے لیے بیرون ملک نہ بھجوایا جا سکا اور یوں ایک عظیم انسان زینہ زینہ وقت کی تہہ میں اتر کر قلزم خوں پار کر گیا۔ان کی وفات سے یہ ثابت ہو گیا کہ اس بے حس معاشرے میں استاد کا کوئی پرسان حال نہیں ۔

ڈاکٹر بشیر سیفی کی پوری زندگی فروغ علم و ادب میں گزری ۔وہ پرورش لوح و قلم کے ذریعے نئے حقائق اور نئی بصیرتوں کی جستجو کاجو نادر انداز انھوں نے اپنایاوہ ان کی ذات کے درخشاں پہلو سامنے لاتا ہے ۔وہ زندگی کے فیوض و برکات کے معترف تھے ۔ان کا کہنا تھا کہ زندگی تو حرکت و حرارت سے عبارت ہے جب کہ جمود کو وہ موت سے تعبیر کیا کرتے تھے ۔ان کا خیال تھا کہ موت ایک جان لیوا صدمے کا نام ہے ۔جیسے ہی اس کا خیال آتا ہے دلوں کے زخم تازہ ہو جاتے ہیں ۔اپنی تحریروں، تدریس،تنقید اور تحقیق کے ذریعے انھوں نے تاریخ کے مسلسل عمل کے بارے میں مثبت شعور و آگہی بیدار کرنے کی جو کو ششیں کیں ان کے ہمارے ادب پر دور رس اثرات مرتب ہو ں گے ۔ان کا خیال تھا کہ تہذیبی ارتقا دراصل تاریخی شعور کا مرہون منت ہے ۔ان کی شخصیت میں شگفتگی ،خلوص ،دردمندی ،بے ساختگی اور جولانی کے عناصر ان کی افتاد طبع کے مظہر تھے ۔جب وہ علمی و ادبی نشستوں کا اہتمام کرتے توان کی قوت مشاہدہ انھیںجہان تازہ کی نوید سناتی ۔وہ راست گوئی کے دلدادہ تھے ۔وہ کبھی مصلحت پسندی کا شکار نہیں ہوئے ۔وہ مقام شبیری کو حقیقت ابدی کا نام دیتے تھے۔جب کہ انداز کوفی و شامی پیہم بدلتے رہتے ہیں ۔ان کی زندگی حریت ضمیر سے جینے کا شاندار نمونہ قرار دی جا سکتی ہے ۔اس کے لیے انھوں نے اسوہءشبیر کو ہمیشہ پیش نظر رکھا۔وہ ایک مستقل مزاج اور اولوالعزم انسان تھے ۔ان کا بلند کردار ان کی عظیم الشان شخصیت کی اساس تھا۔ان کے مزاج میں تذبذب اور گو مگو کی کیفیت کبھی نہیں دیکھی گئی ۔ان کی زبان ہمیشہ ان کے دل کی رفیق رہی ۔یہ ان کا شعار صادق تھا کہ جو وہ کہہ دیتے اس پر قائم ہو جاتے ۔نتائج سے بے پروا وہ اپنے حقیقت پسندانہ موقف پر ڈٹ جاتے ۔ان کی حق گوئی اور بے باکی کو ان کے دوست ان کا دستور العمل قرار دیتے تھے ۔ان کی مضبوط شخصیت میں جو والہانہ پن پایا جاتا تھا وہ اپنے اندر ایک شان دل ربائی لیے ہوتا تھا،جو ہر ملنے والے کو ان کا گرویدہ بنالیتا تھا ۔

زندگی کا ساز بھی کیا عجب ساز ہے جب تک بجتا رہتا ہے اپنی دلکش دھن سے ایک عالم کو مسحور کر دیتا ہے ۔ڈاکٹر بشیر سیفی کی زندگی کے رباب کے تار فرشتہءاجل نے اس طرح توڑے کہ ان کا اب کسی صورت میں بحال ہونا ممکن نہیں ۔اس کے باوجود یہ بات بلا خوف تردید کہی جا سکتی ہے کہ ڈاکٹر بشیر سیفی کی زندگی کے ساز سے جو حسین اور دلکش دھنیں نکلیں پوری دنیا ان پر گوش بر آواز ہے ۔انھوں نے جمود کا خاتمہ کیا اور بے حسی کو بیخ و بن سے اکھاڑنے میں اپنی تمام صلاحیتیں بروئے کار لاتے رہے۔اس مسحور کن رباب سے جو پر کیف نغمے پھوٹے وہ تا ابددلوں کو ایک ولولہ ءتازہ عطا کرتے رہیں گے اور ان کی پیروی کرنے والے ان کے چھیڑے جانے والے نغموں کی دھن سے ہر دور میں ایسے مسحور کن نغمے تخلیق کرتے رہیں گے جن میں اسی دھن کی باز گشت سنائی دے گی ۔زمانہ لاکھ ترقی کرے ایسے سریلے بول پھر کبھی کانوں میں رس نہیں گھول سکتے ۔ان کی شاعری ،افسانہ نگاری ،انشائیہ نگاری ،تحقیق ،تنقید اور موثر تدریس نے پوری دنیا میں اپنی اہمیت و افادیت کو تسلیم کرایا۔

ڈاکٹر بشیر سیفی آج ہمارے درمیان موجود نہیں ۔علم و ادب کا یہ آفتاب جہاں تاب پوری دنیا کو اپنی ضیا پاشیوں سے منور کرنے کے بعد موت کے بھیانک تاریک بادلوں میں چھپ چکا ہے ۔لیکن یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ اس علم و ادب کے خورشید کی تابانیاں نگاہوں کو خیرہ کر دیتی ہیں ۔فاصلاتی تعلیم کے ذریعے پوری دنیا میں ان کے دس لاکھ کے قریب شاگرد موجود ہیں۔میٹرک ،ایف ۔اے،بی ۔اے،ایم فل اور پی ایچ۔ڈی سطح کے کورسز کے لیے ان کے لکھے گئے نصابی یونٹ ان کو شہرت عام اور بقائے دوام کے منصب پر فائز کر تے ہیں ۔اس دنیا میں اساتذہ کی کوئی کمی نہیں ۔ہر بوالہوس نے اس کوچہ کو یر غمال بنا نے کی کوشش کی ہے ۔اساتذہ کی اس فوج ظفر موج میں ڈاکٹر بشیر سیفی جیسا استاد کہیں دکھائی نہیں دیتا ۔تدریس کو پیشہءپیغمبری قرار دینے والے اس عظیم استاد کے با ر احسان سے ادب کے طلبا کی گردن ہمیشہ خم رہے گی ۔وہ جو کچھ تھے اپنے ذاتی اوصاف کی وجہ سے تھے ۔وہ تعلقات عامہ کی بیساکھیوں سے بے نیاز تھے ۔وہ ایک ایسے کھلے ہوئے امکان کے مانند تھے جو ہر لحظہ نیا طور نئی برق تجلی کی کیفیت سامنے لانے پر قادر تھے ۔اور ان کا اسلوب ید بیضا کا معجزہ دکھانے پر قادر تھا ۔وہ دل کی گہرائیوں سے بات کرتے تھے اور ان کی قلبی واردات کا ابلاغ بھی اسی سرعت سے ہوتا تھا ۔ان کی بات کی قوت پرواز لا محدود تھی ۔

ڈاکٹر بشیر سیفی معاشرتی زندگی میں سب کے لیے فیض رساں تھے ۔وہ انسانی ہمدردی،بے لوث محبت اور صبر و رضاکا پیکر تھے۔کسی بھی مجبور انسان کو پریشان حالی اور درماندگی کے عالم میں دیکھتے تو تڑپ اٹھتے اور اس کی ہر ممکن امداد کرتے ۔انھوں نے بیسیوں ضرورت مندوں کی مالی امداد کی اور کسی کو کانوں کان خبر نہ ہونے دی ۔نیکی کر اور دریا میں ڈال کی وہ عملی مثالیں پیش کرتے او ران کو فراموش کر کے اطمینان سے سرشار ہوتے۔ان کی نئی احساساتی کیفیت اور زندگی کے بارے میں ہمدردانہ طرز عمل ایک ایسی شائستگی اور دل آویزی کا مظہر تھا کہ سماجی نصب العینیت کے متعلق ان کے تصورات سے کامل آگہی نصیب ہوتی اور زندگی کی حقیقی معنویت کے در وا ہوتے چلے جاتے ۔اوجڑی کیمپ میں دھماکہ ہوا تو ان کی ایک معمر پڑوسن جو گھروں میں محنت مزدوری کرتی تھی اس طرف سے گزر رہی تھی ،زہریلی گیس سے اس قدر متاثر ہوئی کہ بینائی سے محروم ہوگئی۔اس کی تو دنیا ہی بے چراغ ہو گئی ۔گھر کا چولھا ٹھنڈا ہو گیا ان کے ہاں فاقہ کشی کی نوبت آگئی۔ڈاکٹر بشیر سیفی نے اپنے ذاتی وسائل سے اس کا علاج کرایا اور گنگا رام ہسپتال لاہور سے اس کی نئی آنکھیں لگ گئیں۔یہ واقعہ بھی میرے سامنے ہوا کہ انھوں نے ایک ضعیف خاکروب کی بیٹی کی شادی کے موقع پر اس بچی کو جہیز کا سارا سامان عطیہ دیا اور دعاؤں کے ساتھ اسے زندگی کا نیا سفرشروع کرنے پر دلی مبارک باد دی ۔ڈاکٹر بشیر سیفی اپنی زندگی سے وابستہ یادوں کو ایک شجر سایہ دار قرار دیتے تھے جو انھیں آلام روزگار کی تمازت اور مسائل زیست کی مسموم فضا سے محفوظ رکھنے کا وسیلہ ہیں۔وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ یادوں کا سر سبز و شاداب گلشن خزاں کی دستبرد سے محفوظ رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ دل میں آس اور امید کے پھول سدا مہکتے رہیں۔

آج جب ایام گزشتہ کی کتاب کے اوراق پلٹ کر دیکھتا ہوں تو ڈاکٹر بشیر سیفی سے وابستہ یادوں کا ایک ایسا مخزن سامنے آتا ہے جس کی رعنائیاں قلب و نظر کو مسحور کر دیتی ہیں ۔سیل زماں کی تیز و تند موجیں متعد اثمار و اشجار ،سبزہءنورستہ او رگل ہائے رنگ رنگ کو بہا لے گئیںمگر اس عظیم استاد سے وابستہ یادیں سدا بہار ہیں ۔ان کی رعنائی اور عطر بیزی میں کبھی کمی نہیں آسکتی ۔یہ حسین یادیں ان کے شاگردوں کے ریشے ریشے میںسما گئی ہیں ۔ان یادوں سے محبت اور وفا کے سوتے پھوٹتے ہیں ۔ہمارے پورے وجود میں اپنے استاد کے احسانات کی مہک رچ بس گئی ہے ۔بے لوث محبت کی آنچ سے قلب اور روح کو گرما دینے والے واقعات جو کہ ڈاکٹر بشیر سیفی کی زندگی کو لائق تقلید بناتے ہیں ہر عہد میں ان کی مثال دی جائے گی۔ان کے خیال سے تنہائی میں بھی ان کے ساتھ گزرنے والے دنوں کی روداد لو دینے لگتی ہے اور یہی تو ہمارا زاد راہ اب بچا ہے ۔ڈاکٹر بشیر سیفی اپنے احباب کا ذکر جس عزت و احترام سے کرتے تھے وہ ان کی شائستگی کا ثبوت ہے ۔وہ یہ بات بر ملا کہا کرتے تھے کہ اپنے عزیزوں اور احباب کی زندگی کی یادیں ان کے لیے ایک گنج گراں مایہ کے مانند ہیں۔وہ اپنے سینے میں اس بیش بہا امانت کو سنبھالے ہوئے بڑے حوصلے اور اعتماد کے ساتھ زندگی بسر کرتے رہے ۔اپنے بزرگوں اور محسنوں کے بارے میں ان کے خیالات عقیدت کے جذبات سے مزین ہوتے تھے ۔انھیں اپنے اسلاف کی درخشاں روایات بہت عزیز تھیں ،وہ انھیں تہذیبی ارتقا اور ذہنی بالیدگی کے لیے ناگزیر خیال کرتے تھے ۔ان کے بعد وفا کے تمام ہنگامے دم توڑ گئے ،فروغ علم وادب کی تحریک کو شدید ضعف پہنچا۔انسانیت نوازی کے جذبے کو عملی شکل دینے والا انسان عازم اقلیم عدم ہو گیا ۔جن اوصاف کو ہم ایثار،انکسار،خلوص،دردمندی ،بے لوث محبت ،حریت فکر ،انتھک محنت ،اور اپنی دنیا آپ پیدا کرنے کی لگن کا نام دیتے ہیں ،وہ ڈاکٹر بشیر سیفی کی ذات میں فراواں تھی ۔ان کے انہی اوصاف نے انھیںسب کا محبوب بنا دیا تھا ۔وہ دبستان راول پنڈی اور اسلام آباد کے بنیاد گزاروں میں شامل تھے ۔تاریخ ادب اردو میں ان کا نام اور ادبی خدمات نمایاں انداز میں لکھی جائیں گی ۔ان کی ذات اور تخلیقات کے ساتھ شائستگی ،دردمندی اور شادمانی کا ایک پر کیف احساس منسلک ہے ۔ایسا محسوس ہوتا ہے معاشرتی زندگی کے حالات نے جہاں ان کو اپنا کردار مستحکم کرنے کی راہ دکھائی وہاں انھوں نے ذاتی محنت ،عمیق مطالعہ اور گہرے غور و خوض سے اپنی شخصیت کو ہم دوش ثریا کر دیا ۔یہ بات واضح ہے کہ جہد و عمل کو ان کے کردار میں کلیدی مقام حاصل ہے جب کہ تجزیہ،تفکر اور تدبر کو ان کی شخصیت میں محوری مقام حاصل ہے ۔ان کے کردار اور شخصیت کے اسرار و رموز سے آگاہی کے بعد ان پر کسی ولی کا گمان ہوتا ہے جس کی نگاہ سے تقدیر بدل جاتی ہے ۔

ایک عظیم استاد کی رحلت ہر حال میںایک جان لیوا صدمہ اور ماتم طلب کیفیت پر منتج ہوتی ہے ۔ڈاکٹر بشیر سیفی جیسا محبوب استاد،عدیم النظیر مفکر،بے مثال تخلیق کار اور محب وطن پاکستانی جن کی فقید المثال کامرانیوں کو پوری دنیا میں قدر کی نگاہ سے دیکھا گیا ہو جب اچانک ہمارے درمیان سے اٹھ جاتے ہیں تو محرومی کا ایک ایسا ہولناک لمحہ آتا ہے جہاں ہجوم یاس سے دل گھبر ا جاتا ہے ۔ہم بے بس انسانوں کے نصیب میں یہ جان لیوا المیہ لکھ دیا گیا ہے کہ موت کے درد لا دوا کو اپنے دل پہ سہتے ہیں ۔ہماری زندگی بچھڑنے والوں کی یاد میں مر مر کے جیے جانے کی ایک صورت ہی تو ہے ۔ہم سب کمر باندھے ہوئے چلنے کو تیار بیٹھے ہیں ۔استاد محترم ڈاکٹر بشیر سیفی کی وفات کے بعد زندگی کا تما م منظر نامہ ہی گہنا گیا ہے ۔زندگی اور موت کے راز ہائے سر بستہ کی گرہ کشائی کی تاب کس میں ہے ۔
تمھارے بعد کہاں وہ وفا کے ہنگامے
کوئی کہاں سے تمھار جواب لائے گا
Dr. Ghulam Shabbir Rana
About the Author: Dr. Ghulam Shabbir Rana Read More Articles by Dr. Ghulam Shabbir Rana: 80 Articles with 236795 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.