خلیفہ اول ،امیر المومنین حضرت
سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اسلام کا سرمایہ افتخار
ایک باکمال استاد کہ جو بہت سی خوبیوں کا جامع ہوتا ہے ۔اپنے جس شاگرد میں
جس خوبی کی ممتاز صلاحیت پاتا ہے اسی خوبی میں اس کو باکمال بناتا ہے ۔جس
میں فقیہ بننے کی زیادہ صلاحیت پاتا ہے اسے فقیہ بناتا ہے ،جس میں مقرر
بننے کی صلاحیت واضح ہوتی ہے اسے کامیاب مقرر بناتا ہے اور جس میں مصنف
بننے کی صلاحیت واضح ہوتی ہے اسے باکمال مصنف ہی بناتا ہے ۔
تو معلم کائنات آقا و مولیٰ جناب احمد مجتبیٰ محمد مصطفےٰﷺ نے اپنے جس
صحابی میں جس خوبی کی ممتاز صلاحیت پائی اسی وصف خاص میں اسے کامل بنایا
۔لہٰذا اپنے پیارے صحابی حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ میں صدیق بننے کی
صلاحیت کو واضح طور پر محسوس فرمایا تو اسی وصف میں ان کو ممتاز و کامل
بنایا اور صدیق ہونا ایسا وصف ہے جو بہت سی خوبیوں کا جامع ہے اور اس وصف
خاص کے سب سے زیادہ مستحق صرف حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی ذات گرامی
تھی اسی لئے وہ اس سے سرفراز فرمائے گئے ۔
اصدق الصادقین سید المتقین
چشم و گوشِ وزارت پہ لاکھوں سلام
آپ کا نام و نسب :آپ کا نام عبد اللہ ہے ، ابو بکر کنیت اور صدیق و عتیق آپ
کا لقب ہے ۔آپ کے والد کا نام عثمان اور کنیت ابو قحافہ ہے اور آپ کی والدہ
محترمہ کا نام سلمیٰ ہے جن کی کنیت ابو الخیر ہے ۔آپ کا سلسلہ نسب ساتویں
پشت میں مرہ بن کعب پر حضور ﷺ کے شجرہ نسب سے مل جاتا ہے ۔آپ واقعہ فیل کے
تقریباً ڈھائی برس بعد مکہ شریف میں پیدا ہوئے ۔
حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کا حلیہ:ایک شخص نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ
عنہا سے عرض کیا کہ آپ ہم سے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کا سراپا اور
حلیہ بیان فرمائیں ۔تو حضرت صدیقہ نے فرمایا کہ آپ کا رنگ سفید تھا ،بدن
کمزور تھا ، دونوں رخسار اندر کو دبے ہوئے تھے ۔پیشانی پر ہمیشہ پسینہ رہتا
تھا ،چہرے پر زیادہ گوشت نہیں تھا ،ہمیشہ نظریں نیچی رکھتے تھے ۔پیشانی
بلند تھی ،انگلیوں کی جڑیں گوشت سے خالی تھیں ،یعنی گھائیاں کھلی رہتی تھیں
،حنا اور کَتَم کا خضاب لگاتے تھے ۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب رسول خدا ﷺمدینہ طیبہ تشریف لائے
تو حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے علاوہ کسی کے بال سیاہ و سفید ملے
ہوئے نہیں تھے ۔آپ ان بالوں پر حنا یعنی مہندی اور کَتَم کا خضاب لگایا
کرتے تھے ۔(تاریخ الخلفاءصفحہ22)
عَہد طفلی میں بت شکنی:زمانہ جاہلیت میں بھی آپ نے کبھی بت پرستی نہیں کی
بلکہ آپ ہمیشہ اس کے خلاف رہے ۔یہانتک کہ آپ کی عمر شریف جب چند برس کی
ہوئی تو اسی زمانہ میں آپ نے بت شکنی فرمائی ۔جیسا کہ اعلیٰ حضرت امام
اہلسنت حضرت مولانا شاہ احمد رضا خاں قادری حنفی فاضل بریلوی رحمة اللہ
علیہ اپنے رسال تنزیہ المکانة الحیدریہ صفحہ13پر تحریر فرماتے ہیں کہ حضرت
ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے والد ماجد حضرت ابو قحافہ رضی اللہ عنہ (کہ
وہ بھی بعد میں صحابی ہوئے ) زمانہ جاہلیت میں انہیں بت خانہ لے گئے اور
بتوں کو دکھا کر ان سے کہا ۔ھٰذہ الھتک فاسجد لھا۔یعنی یہ تمہارے بلند و
بالا خدا ہیں انہیں سجدہ کرو۔ وہ تو یہ کہہ کر باہر چلے گئے ۔سیدنا صدیق
اکبر رضی اللہ عنہ قضائے مبرم کی طرح بت کے سامنے تشریف لائے اور برائے
اظہار عجز صنم و جہل صنم پرست ارشاد فرمایا انی جائع فاطعمنی ۔میں بھوکا
ہوں مجھے کھانا دے ۔وہ کچھ نہ بولا ۔فرمایا :میں ننگ اہوں مجھے کپڑا پہنا
۔وہ کچھ نہ بولا ۔صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے پتھر ہاتھ میں لیکر فرمایا میں
تجھ پر پتھر مارتا ہوں فان کنت الٰھا فامنع نفسک ۔ اگر تو خدا ہے تو اپنے
آپ کو بچا ۔وہ اب بھی نرا بت بنا رہا آخر آپ نے بقوت صدیقی اس کو پتھر مارا
تو وہ خدائے گمراہاں منہ کے بل گر پڑا ۔اسی وقت آپ کے والد ماجد واپس آ رہے
تھے ۔یہ ماجرا دیکھ کر فرما یا کہ اے میرے بچے تم نے یہ کیا کیا؟ فرمایا کہ
وہی کیا جو آپ دیکھ رہے ہیں ۔آپ کے والد انہیں ان کی والدہ ماجدہ حضرت ام
الخیر رضی اللہ عنہا کے پاس (کہ وہ بھی صحابیہ ہوئیں) لیکر آئے اور سارا
واقعہ ان سے بیان کیا ۔انہوں نے فرمایا اس بچے سے کچھ نہ کہو کہ جس رات یہ
پیدا ہوئے میرے پاس کوئی نہ تھا میں نے سنا کہ ہاتف کہہ رہا ہے یا امة
اللّٰہ علی التحقیق ابشری بالولد العتیق اسمہ فی السماءالصدیق لمحمد صاحب
ورفیق۔یعنی اے اللہ کی سچی بندی ! تجھے خوش خبری ہو اس آزاد بچے کی جس کا
نام آسمانوں میں صدیق ہے اور جو محمد ﷺ کا یارو رفیق ہے ۔
حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ بے شمار خوبیوں کے حامل :زمانہ جاہلیت میں
حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اپنی برادری میں سب سے زیادہ مالدار تھے
مروت و احسان کا مجسمہ تھے ،قوم میں بہت معزز سمجھے جاتے تھے ،گم شدہ کی
تلاش آپ کا شیوہ رہا اور مہمانوں کی آپ خوب میزبانی فرماتے تھے ۔ آپ کا
شمار رؤسائے قریش میں ہوتا تھا ۔وہ لوگ آپ سے مشورہ لیا کرتے تھے اور آپ سے
بے انتہا محبت کرتے تھے ۔آپ قریش کے ان گیارہ لوگوں میں سے ہیں جن کو ایام
جاہلیت اور زمانہ اسلام دونوں میں عزت و بزرگی حاصل رہی کہ آپ عہد جاہلیت
میں ”خوں بہا“ اور جرمانے کے مقدمات کا فیصلہ کیا کرتے تھے جو اس زمانہ کا
بہت بڑا اعزاز سمجھا جاتا تھا۔
حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے عہد جاہلیت میں بھی کبھی شراب نہیں
پی۔ایک بار صحابہ کرام کے مجمع میں حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے
دریافت کیا گیا کہ آپ نے جاہلیت میں شراب پی ہے ۔آپ نے فرمایا خدا کی پناہ
میں نے کبھی شراب نہیں پی ۔لوگوں نے کہا کیوں؟فرمایا کنت اصون عرضی واحفظ
مروتی۔یعنی میں اپنی عزت و آبرو کو بچاتا تھا اور مروت کی حفاظت کرتا تھا
۔اس لئے کہ جو شخص شراب پیتا ہے اس کی عزت و ناموس اور مروت جاتی رہتی ہے
۔جب اس بات کی خبر حضور رحمت عالم ﷺ کو پہنچی تو آپ نے دو بار فرمایا سچ
کہا ابو بکر نے سچ کہا ۔( تاریخ الخلفائ)
آپ کا قبول اسلام:معزز قارئین٬ بہت سے صحابہ کرام و تابعین عظام رضی اللہ
عنہم فرماتے ہیں کہ سب سے پہلے اسلام قبول کرنے والے حضرت ابو بکر صدیق رضی
اللہ عنہ ہیں ۔امام شعبی فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ
سے پوچھا کہ سب سے پہلے اسلام لانے والا کون ہے ؟ تو انہوں نے فرمایا حضرت
ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اور ثبوت میں حضرت حسان رضی اللہ عنہ کے وہ
اشعار پڑھے جو حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی تعریف و توصیف میں ہیں
اور ان میں سب سے پہلے آپ کے اسلام لانے کا ذکر ہے اور ابن عساکر نے حضرت
علی رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ انہوں نے فرمایا: اول من اسلم من
الرجال ابو بکر ۔یعنی سب سے پہلے مردوں میں حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ
اسلام لائے۔
محمد بن اسحاق فرماتے ہیں کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے سابق
الاسلام ہونے کا سبب یہ ہے کہ نبوت و رسالت کی نشانیاں قبل از اسلام ہی
معلوم کر چکے تھے اس لئے جب ان کو اسلام کی دعوت دی گئی تو انہوں نے فوراً
اسلام کو قبول کر لیا ۔اور بعض محدثین یوں فرماتے ہیں کہ اعلان نبوت کے قبل
ہی سے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ حضور ﷺ کے دوست تھے اور آپ کے اخلاق
کی عمدگی ،عادات کی پاکیزگی اور آپ کی سچائی و دیانت داری پر یقین کامل
رکھتے تھے ۔تو جب سرکار اقدس ﷺ نے ان پر اسلام پیش کیا تو انہوں نے فوراً
قبول کر لیا ۔اس لئے کہ جو شخص زندگی کے عام حالات میں جھوٹ نہیں بولتا اور
نہ غلط بات کہتا ہے تو بھلا وہ خدائے ذوالجلال کے بارے میں کیسے جھوٹ بول
سکتا ہے کہ اس نے مجھے رسول بنا کر مبعوث فرمایا ہے ۔اسی بنیاد پر حضرت ابو
بکر صدیق رضی اللہ عنہ بلاتا مل مسلمان ہو گئے ۔
ان تمام شواہد سے معلوم ہوا کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ تمام صحابہ
کرام میں سب سے پہلے اسلام قبول کئے ہیں ۔اسی لئے بعض نے یہاں تک دعویٰ کیا
ہے کہ آپ کے سب سے پہلے مسلمان ہونے پر اجماع ہے ۔لیکن بعض لوگ کہتے ہیں کہ
سب سے پہلے حضرت علی رضی اللہ عنہ ایمان لائے اور بعض کا خیال ہے کہ ام
المومنین حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے سب سے پہلے اسلام قبول کیا ۔تو ان
تمام اقوال میں ہمارے امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ نے اس طرح تطبیق
فرمائی ہے کہ مردوں میں سب سے پہلے حضرت ابو بکر صدیق ،عورتوں میں سب سے
پہلے حضرت خدیجہ اور لڑکوں میں سب سے پہلے حضرت علی رضی اللہ عنہم ایمان
لائے ہیں ۔
حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کا باکمال ایمان:حضرت ابو بکر صدیق رضی
اللہ عنہ کا ایمان سارے صحابہ میں سب سے زیادہ کامل تھا۔ جس کا ثبوت واقعات
سے ملتا ہے ۔
(۱)حدیبیہ میں جن شرطوں پر صلح ہوئی ان میں ایک شرط یہ بھی تھی کہ مکہ کے
مسلمانوں یا کافروں میں سے اگر کوئی شخص مدینہ چلا جائے تو وہ واپس کر دیا
جائے گا لیکن اگر کوئی مسلمان مدینہ سے مکہ چلا تو اسے واپس نہیں کیا جائے
گا۔ابھی صلح نامہ پر طرفین کے دستخط نہیں ہوئے تھے کہ ابو جندل رضی اللہ
عنہ جو مسلمان ہو چکے تھے مکہ معظمہ سے گرتے پڑتے اور اپنی بیڑیاں گھسیٹتے
ہوئے مقام حدیبیہ پر مسلمانوں کے درمیان آگئے ۔سہیل بن عمرو جو ابو جندل
رضی اللہ عنہ کا باپ تھا کفار مکہ کی طرف سے صلح کی گفتگو کرنے کے لئے
حدیبیہ آیا ہوا تھا ۔جب اس نے اپنے بیٹے کو دیکھا تو کہا کہ ابو جندل کو آپ
میری طرف واپس کر دیں ۔ حضور ﷺ نے فرمایا کہ ابھی تو صلح نامہ پر فریقین کے
دستخط ہی نہیں ہوئے ۔لہٰذا یہ معاہدہ تمہارے اور ہمارے دستخط ہو جانے کے
بعد ہی نافذ ہو گا ۔اس نے کہا تو جائیے ہم آپ سے صلح نہیں کریں گے ۔
حضور ﷺ نے فرمایا اے سہیل! ابو جندل کو میرے پاس رہنے کی تم اپنی طرف سے
اجازت دیدو اس نے کہا میں اس بات کی ہر گز اجازت نہیں دے سکتا ۔
جب حضرت ابو جندل رضی اللہ عنہ نے دیکھا کہ اب میں پھر مکہ لوٹا دیا جاﺅں
گا ۔تو انہوں نے صحابہ کرام سے فریاد کی اور کہا اے مسلمانوں! دیکھو میں
کافروں کی طرف لوٹا یا جا رہا ہوں۔حالانکہ میں مسلمان ہو چکا ہوں اور آپ
لوگوں کے پاس آگیا ہوں اور حضرت ابو جندل کے بدن پر کافروں کی مار کے جو
نشانات تھے آپ مسلمانوں کو وہ نشانات دکھا دکھا کر رونے لگے ۔تو مسلمانوں
کو بڑا جوش پیدا ہوا یہانتک کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اللہ کے محبوب دانائے
خفایا و غیوب جناب احمد مجتبیٰ محمد مصطفےٰﷺ کی بارگاہ میں پہنچ گئے اور
عرض کیا ۔کیا آپ اللہ کے سچے رسول نہیں ہیں ؟ ارشاد فرمایا کیوں نہیں ؟
یعنی ہاں میں اللہ کا سچا رسول ہوں ۔پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا
۔ کیا ہم حق پر ہیں اور کفار باطل پر ہیں ۔ اس جواب پر حضرت عمر رضی اللہ
عنہ نے کہا تو پھر ہم دین کے معاملہ میں دب کر کیوں صلح کریں؟ حضور ﷺ نے
فرمایا اے عمر! بیشک میں اللہ کا رسول ہوں ،میں اس کی نافرمانی کبھی نہیں
کر سکتا اور میرا مددگار وہی ہے ۔پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کیا آپ
یہ نہیں فرمایا کرتے تھے کہ ہم بیت اللہ شریف کا طواف کریں گے ؟ حضور ﷺ نے
فرمایا ٹھیک ہے مگر ہم نے یہ کب کہا تھا کہ اسی سال طواف کریں گے ۔حضرت عمر
رضی اللہ عنہ کہا کہ ہاں یہ صحیح ہے کہ آپ نے اسی سال کے لئے نہیں فرمایا
تھا ۔پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس گئے
اور ان سے بھی اسی قسم کی گفتگو کی ۔تو حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے
فرمایا:ان کی رکاب تھا مے رہو اور ان کے دامن سے لگے رہو بیشک وہ اللہ کے
رسول ہیں اور ان کا اللہ معاون اور مددگار ہے ۔حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ
عنہ کے اس جواب سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا جوش ٹھنڈا ہو گیا ۔
حدیبیہ میں حضور ﷺ نے جس طرح صلح فرمائی اس سے مسلمانوں کی ناگواری اور رنج
کا یہ عالم رہا کہ تکمیل معاہد ہ کے بعد تین بار حضور ﷺ نے فرمایا کہ اٹھو
قربانی کرو اور سر منڈا کر احرام کھول دو مگر کوئی اٹھنے کو تیار نہ ہوتا
تھا ۔یہانتک کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جوش میں آکر سرکار اقدس ﷺ کی
بارگاہ میں ایسی گفتگو کی کہ جس پر وہ زندگی بھر افسوس کرتے رہے اور معافی
کے لئے بہت سی نیکیاں کرتے رہے ۔مگر حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو جو جواب دیا وہ ایمان افروز جواب بتارہا ہے کہ
حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اپنی جگہ پر بالکل مطمئن تھے کہ حضور ﷺ
اللہ کے رسول ہیں وہ جو کچھ کر رہے ہیں سب حق ہے ۔ہر حال میں اللہ ان کی
مدد فرمائے گا۔اس واقعہ سے صاف ظاہر ہے کہ حضور ﷺ کی رسالت و نبوت پر حضرت
ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کا ایمان سارے صحابہ میں سب سے زیادہ کامل و
اکمل تھا جس نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے جوش کو بھی ٹھنڈا کر دیا۔
(۲) شب معراج کی صبح بہت سے مشرکین حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس
آئے اور کہا کہ آپ کو کچھ خبر ہے ؟آپ کے دوست محمد (ﷺ) کیا کہہ رہے ہیں کہ
انہیں رات کو بیت المقدس اور آسمان وغیرہ کی سیر کرائی گئی ہے ۔آپ نے کہا
کیا واقعی وہ ایسا فرما رہے ہیں ؟ ان لوگوں نے کہا ہاں وہ ایسا ہی کہہ رہے
ہیں تو آپ نے فرمایا۔ اگر وہ اس سے بھی زیادہ بعید از قیاس اور حیرت انگیز
خبر دیں گے تو بیشک میں اس کی بھی تصدیق کر وں گا۔
غزوہ بدر میں آپ کے صاحبزا دے حضرت عبد الرحمن کفار مکہ کے ساتھ تھے ۔اسلام
قبول کرنے کے بعد انہوں نے اپنے والد حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے
کہا کہ آپ جنگ بدر میں کئی بار میری زد میں آئے لیکن میں آپ سے صر ف نظر کی
اور آپ کو قتل نہیں کیا ۔اس کے جواب میں صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے فرمایا
: اے عبد الرحمن !کان کھول کر سن لو کہ اگر تم میری زد میں آجاتے تو میں
صرف نظر نہ کرتا بلکہ تم کو قتل کر کے موت کے گھاٹ اتار دیتا ۔
ان واقعات سے بھی واضح طور پر معلوم ہوا کہ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کا
ایمان سارے صحابہ میں سب سے زیادہ کامل تھا بلکہ درجہ کمال کی انتہا کو
پہنچا ہوا تھا۔ یہانتک کہ امام بیہقی نے شعب الایمان میں حضرت عمر فاروق
اعظم رضی اللہ عنہ کا یہ قول نقل کیا ہے کہ پوری زمین کے مسلمانوں کا ایمان
اور حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کا ایمان اگر وزن کیا جائے تو حضرت
صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے ایمان کا پلہ بھاری ہو گا۔ (تاریخ
الخلفاءصفحہ40)
حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ اور آیات قرآن:حضرت ابو بکر صدیق رضی
اللہ عنہ کی تعریف و توصیف میں قرآن حکیم کی بہت سی آیات کریمہ نازل ہوئی
ہیں ۔یہانتک کہ بہت سے بزرگو ں نے اس موضوع پر مستقل کتابیں لکھی ہیں ۔ہم
ان میں سے چند آیات کریمہ آپ کے سامنے پیش کرتے ہیں ۔
اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے ۔والذی جآءبالصدق و صدق بہ اُولٰئک ھم
المتقون۔ترجمہ:” سرکار اقدس ﷺ اور جنہوں نے ان کی تصدیق کی یعنی حضرت ابو
بکر صدیق رضی اللہ عنہ یہی لوگ متقی ہیں ۔“(پارہ نمبر24رکوع نمبر1)
اس آیت کریمہ کی تفسیر میں حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ایسے ہی مروی ہے یعنی
الذی جآءبالصدق۔سے مراد رسول خدا ﷺ ہیں اور صدق سے مراد حضرت ابو بکر صدیق
رضی اللہ عنہ ہیں جنہوں نے سب سے پہلے حضور ﷺ کی تصدیق کی ۔ایسا ہی تفسیر
مدارک میں بھی ہے اور اسی کو حضرت امام رازی رحمة اللہ علیہ نے ترجیح دی ہے
اور تفسیر روح البیان نے بھی ۔لہٰذا ان مفسرین کرام کے بیان سے ثابت ہوا کہ
اللہ تعالیٰ نے اس آیت مبارکہ میں رحمت عالم ﷺ کے ساتھ حضرت ابو بکر صدیق
رضی اللہ عنہ کو بھی متقی فرمایا ہے ۔معلوم ہوا کہ وہ اس امت کے سب سے پہلے
متقی ہیں اور قیامت تک پیدا ہونے والے سارے متقیوں کے سردار اور سید
المتقین ہیں ۔اسی لئے اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں ۔
اصدق الصادقین سید المتقین
چشم و گوش و زارت پہ لاکھوں سلام
اور پارہ 10رکوع 11میں الا تنصروہ فقدنصرہ اللّٰہ اذاخرجہ الذین کفرو ا
ثانی اثنین اذھما فی الغار اذ یقول لصاحبہ لا تحزن ان اللّٰہ معنا ۔فانزل
اللّٰہ سکینتہ علیہ وایدہ بجنود لم تروھا وجعل کلمة الذین کفرو السفلیٰ
۔وکلمة اللّٰہ ھی العلیا واللّٰہ عزیز حکیم۔
معزز قارئین! تمام مفسرین کرام کا اس بات پر اتفاق ہے کہ یہ آیت کریمہ حضرت
ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی شان میں نازل ہوئی ۔ اب اس آیت کریمہ کا
ترجمہ ملاحظہ فرمائیں۔
0”اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے ۔الا تنصروہ فقد نصرہ اللّٰہ اذ اخرجہ الذین
کفروا ثانی اثنین اذھما فی الغار۔یعنی اے مسلمانوں! اگر تم لوگ میرے رسول
کی مدد نہ کرو تو بیشک اللہ نے ان کی مدد فرمائی ۔جب کافروں کی شرارت سے
انہیں باہر تشریف لے جانا ہوا صرف دو جان سے جب وہ دونوں یعنی حضور سید
عالم ﷺ اور حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ غار میں تھے ۔
اذ یقول لصاحبہ لا تحزن ان اللّٰہ معنا ۔جب رسول اپنے یار غار حضرت ابو بکر
صدیق رضی اللہ عنہ سے فرماتے کہ غم نہ کر بیشک اللہ ہمارے ساتھ ہے ۔
فانزل اللّٰہ سکینتہ علیہ وایدہ بجنود لم تروھا۔تو اللہ نے حضرت ابو بکر
صدیق رضی اللہ عنہ پر اپنا سکینہ اتارا ۔یعنی ان کے دل کو اطمینان عطا
فرمایا : اور ایسی فوجوں سے اس کی مدد فرمائی جن کو تم لوگوں نے نہیں دیکھا
اور وہ ملائکہ تھے جنہوں نے کفار کے رخ پھیر دئے یہانتک کہ وہ لوگ آپ کو
دیکھ ہی نہ سکے ۔
وجعل کلمة الذین کفرو السفلی۔اور کافروں کی بات نیچے کر دی ۔یعنی دعوت کفرو
شرک کو پست کر دیا ۔
وکلمة اللّٰہ ھی العلیا واللّٰہ عزیز حکیم۔اور اللہ ہی کا بول بالا ہے اور
اللہ غالب حکمت والا ہے ۔
معزز قارئین !اس آیت کریمہ میں جو آقائے دو عالم ﷺ کا یہ قول نقل کیا گیا
ہے کہ آپ نے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے فرمایا لا تحزن ان اللّٰہ
معنا۔یعنی غم مت کرو کہ اللہ ہمارے ساتھ ہے ۔تو اس موقع پر حضرت صدیق اکبر
رضی اللہ عنہ کو اپنا غم نہیں تھا بلکہ رسول اللہ ﷺ کا غم تھا ۔آپ فرماتے
تھے ۔ان اُقتل فانا رجل واحد وان قتلت ھلکت الامة۔یعنی اگر میں قتل کر دیا
گیا تو صرف ایک فرد ہو گا اور اے اللہ کے رسول (ﷺ)!اگر آپ قتل کر دئےے گئے
تو پوری امت ہلاک ہو جائے گی ۔
بہر حال یہ آیت کریمہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی تعریف و توصیف میں
بالکل واضح ہے اور آپ کے صحابی ہونے پر نص قطعی ہے کہ اللہ عزوجل نے اذ
یقول لصاحبہ فرمایا۔اسی لئے حضرت حسین بن فضل رحمة اللہ علیہ نے فرمایا کہ
من قال ان ابا بکر لم یکن صاحب رسول اللہ ﷺ فھو کافر لا انکارہ نص
القرآن۔یعنی جو شخص کہے کہ حضرت ابو بکر رسو ل اللہ ﷺ کے صحابی نہیں تھے تو
وہ نص قرآن کا انکار کرنے کے سبب کافر ہے ۔
حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ اور احادیث کریمہ:حضرت ابو بکر صدیق رضی
اللہ عنہ کی فضیلت اور ان کی عظمت کے اظہار میں بہت سی حدیثیں وارد ہیں
۔ترمذی شریف کی حدیث ہے کہ سرکار مدینہ ﷺ نے فرمایا۔ما نفعنی مال احد قط ما
نفعنی مال ابی بکر۔”کسی شخص کے مال نے مجھ کو اتنا فائدہ نہیں پہنچایا ہے
جتنا فائدہ ابو بکر کے مال نے پہنچایا ہے ۔“(مشکوٰة شریف صفحہ555)
یہ حدیث شریف بھی ترمذی میں ہے کہ آقائے دو عالم ﷺ نے حضرت ابو بکر صدیق
رضی اللہ عنہ سے فرمایا انت صاحبی فی الغار و صاحبی علی الحوض۔یعنی ”غار
ثور میں تم میرے ساتھ رہے اور حوض کوثر پر بھی تم میرے ساتھ ہو گے ۔“
ترمذی شریف میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ میرے والد
گرامی حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے
تو حضور نے فرمایا انت عتیق اللّٰہ من النار۔یعنی” تجھے اللہ نے جہنم کی آگ
سے آزاد کر دیا ۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ اسی روز سے میرے
والدِ محترم کا نام عتیق پڑگیا ۔(مشکوٰة شریف صفحہ556)
ابو داﺅد شریف کی حدیث ہے کہ رسول کریم ﷺ نے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ
عنہ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا ۔اما انک یا ابا بکر اول من یدخل الجنة من
اُمتی۔یعنی ”اے ابو بکر سن لو کہ میری امت میں سب سے پہلے تم جنت میں داخل
ہو گے ۔(مشکوٰة شریف 556)
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک چاندنی رات میں جب کہ
رسول اللہ ﷺ کا سر مبارک میری گود میں تھا میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ !
کیا کسی شخص کی نیکیاں اتنی بھی ہیں جتنی کہ آسمان پر ستار ے ہیں؟آپ ﷺ نے
فرمایا ہاں ۔عمر کی نیکیاں اتنی ہی ہیں ۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی
ہیں کہ پھر میں نے پوچھا اور ابو بکر کی نیکیوں کا کیا حال ہے ؟ حضور ﷺ نے
فرمایا عمر کی ساری عمر کی نیکیاں ابو بکر کی ایک نیکی کے برابر ہیں
۔(مشکوٰة شریف صفحہ560)
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :حب ابی بکر و
شکرہ واجب علی کل امتی ۔یعنی ” ابو بکر سے محبت کرنا اور ان کا شکر ادا
کرنا میری پوری امت پر واجب ہے ۔“(تاریخ الخلفاءصفحہ40)
حضرت ابو دردا رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں حضور ﷺ کی بارگاہ اقدس میں
حاضر تھا کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ آئے اور سلام کے بعد انہوں نے
عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ! میرے اور عمر بن خطاب کے درمیان کچھ باتیں ہو
گئیں پھر میں نے نادم ہو کر ان سے معذرت طلب کی لیکن انہوں نے معذرت قبول
کرنے سے انکار کر دیا ۔یہ سن کر حضور ﷺ نے تین بار ارشاد فرمایا کہ اے ابو
بکر اللہ تعالیٰ تم کو معاف فرمائے ۔تھوڑی دیر کے بعد حضرت عمر رضی اللہ
عنہ بھی حضور ﷺ کی بارگاہ میں آگئے ۔ان کو دیکھتے ہی حضور ﷺ کے چہرہ اقدس
کا رنگ بدل گیا ۔حضور ﷺ کو رنجیدہ دیکھ کر حضرت عمر دوزانو بیٹھے اور عرض
کیا کہ اے اللہ کے رسول میں ان سے زیادہ قصور وار ہوں تو حضور ﷺ نے فرمایا
۔ان اللّٰہ بعثنی الیکم فقلتم کذبت و قال ابو بکر صدقت وواسانی بنفسہ ومالہ
فھل انتم تارکولی صاحبی۔”جب اللہ نے مجھے تمہاری جانب مبعوث فرمایا تو تم
لوگوں نے مجھے جھٹلایا مگر ابو بکر نے میری تصدیق کی اور اپنی جان و مال سے
میری غمخواری و مدد کی ۔تو کیا آج تم لوگ میرے ایسے دوست کوچھوڑ دو گے ؟
اور اس جملہ کو حضورﷺ نے دو بار فرمایا ۔(تاریخ الخلفاءصفحہ37)
افضل البشر بعد الانبیاء:علماءاہلسنت وجماعت کا اس بات پر اجماع و اتفاق ہے
کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ انبیائے کرام علیہم السلام کے بعد تمام
لوگوں میں افضل ہیں ۔حدیث شریف میں ہے کہ سرکار اقدس ﷺ نے فرمایا :”سوائے
نبی کے اور کوئی شخص ایسا نہیں کہ جس پر آفتاب طلوع اور غروب ہوا ہو اور وہ
حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے افضل ہو ۔“مطلب یہ ہے کہ دنیا میں نبی
کے بعد ان سے افضل کوئی پیدا نہیں ہوا اور دوسری حدیث میں آقائے دو عالم ﷺ
نے یوں فرمایا:”حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ لوگوں میں سب سے بہتر ہیں
علاوہ اس کے کہ وہ نبی نہیں ہیں ۔“
ایک بار حضرت عمر رضی اللہ عنہ منبر پر رونق افروز ہوئے اور فرمایا کہ رسول
اللہ ﷺ کے بعد حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ افضل الناس یعنی لوگوں میں
سب سے افضل ہیں ۔اگر کسی شخص نے اس کے خلا ف کہا تو وہ مفتری اور کذاب ہے
۔اس کو وہ سزادی جائے گی جو افترا پردازوں کے لئے شریعت نے مقرر کی ہے ۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ :”اس امت میں رسول اللہ ﷺ کے بعد سب
سے بہتر حضرت ابو بکر صدیق ،حضرت عمر رضی اللہ عنہما ہیں ۔علامہ ذہبی رحمة
اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا یہ قول ان سے تواتر کے
ساتھ مروی ہے ۔(تاریخ الخلفاء31)
بخاری شریف میں ہے کہ حضرت محمد بن حنفیہ رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ میں
نے اپنے والد گرامی حضرت علی رضی اللہ عنہ سے پوچھا رسول اللہ ﷺ کے بعد
لوگوں میں کون سب سے افضل ہے قال ابو بکر،فرمایا کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی
اللہ عنہ سب سے افضل ہیں ۔میں نے عرض کیا پھر ان کے بعد؟قال عمر۔فرمایا کہ
ان کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ سب سے افضل ہیں ۔حضرت محمد بن حنفیہ
فرماتے ہیں: خشیت ان یقول عثمان۔یعنی میں ڈرا کہ اب اس کے بعد آپ حضرت
عثمان رضی اللہ عنہ کا نام لیں گے تو میں نے کہا کہ اس کے بعد آپ سب سے
افضل ہیں قال ما انا الا رجل من المسلمین۔حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا
کہ میں تو مسلمانوں میں سے ایک آدمی ہوں ۔یعنی ازراہ انکساری فرمایا کہ میں
ایک معمولی مسلمان ہوں ۔(مشکوٰة شریف555)
بخاری شریف میں ہے کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول اللہ
ﷺ کی ظاہری حیات میں ہم لوگ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے برابر کسی
کو نہیں سمجھتے تھے ۔یعنی وہی سب سے افضل و بہتر قرار دئے جاتے تھے ۔پھر
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو اور ان کے بعد حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو پھر
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے بعد ہم صحابہ کرام کو ان کے حال پر چھوڑ دیتے
تھے اور ان کے درمیان کسی کو فضیلت نہیں دیتے تھے ۔(مشکوٰة شریف صفحہ555)
حضرت ابو منصور بغدادی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اس بات پر امت مسلمہ
کا اجماع اور اتفاق ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے بعد ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ ان
کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ پھر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اور ان کے بعد
علی اور پھر عشرہ مبشرہ کے باقی حضرات سب سے افضل ہیں ۔ان کے بعد باقی
اصحاب بدر پھر باقی اصحاب احدان کے بعد بیعت الرضوان کے صحابہ پھر دیگر
اصحاب رسول اللہ ﷺ تمام لوگوں سے افضل ہیں ۔(تاریخ الخلفاءصفحہ30)
مانعین زکوٰةاور حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ:رحمت عالم ﷺ کے وصال
فرمانے پر بعض لوگ تو اسلام کے سارے احکام کے منکر ہو کر مرتد ہو گئے تھے
اور کچھ لوگوں نے کہا کہ ہم زکوٰة نہیں دیں گے ۔یعنی اس کی فرضیت کے منکر
ہو گئے اور زکوٰة کی فرضیت چونکہ نص قطعی سے ثابت ہے تو اس کے منکر ہو کر
وہ بھی مرتد ہو گئے ۔اسی لئے شارحین حدیث و فقہائے کرام مانعین زکوٰة کو
بھی مرتدین میں شمار کرتے ہیں ۔
حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ان سے جہاد کا ارادہ فرمایا توحضرت عمر
رضی اللہ عنہ اور بعض دوسرے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین نے ان سے کہا
کہ اس وقت منکرین زکوٰة سے جنگ کرنا مناسب نہیں ۔آپ نے فرمایا خدائے
ذوالجلال کی قسم ۔اگر وہ لوگ ایک رسی یا بکری کا ایک بچہ بھی حضور ﷺ کے
زمانے میں زکوٰة دیا کرتے تھے اور اب اس کے دینے سے انکار کریں گے تو میں
ان سے جنگ کروں گا۔(تاریخ الخلفاءصفحہ51)
پھر مہاجرین و انصار کو ساتھ لیکر اعراب کیطرف نکل پڑے اور جب وہ بھاگ کھڑے
ہوئے تو حضرت خالد رضی اللہ عنہ کو آپ امیر لشکر بنا کر واپس آگئے ۔انہوں
نے اعراب کو جگہ جگہ گھیرا تو اللہ تعالیٰ نے انہیں ہر جگہ فتح عطا فرمائی
۔
اگر اس وقت مانعین زکوٰة کی سرکوبی نہ کی جاتی اور انہیں چھوٹ دیدی جاتی تو
پھر کچھ لوگ نماز کے بھی منکر ہو جاتے اور بعض لوگ روزہ سے بھی انکار کر
دیتے اور کچھ لوگ بعض دوسری ضروری چیزوں کا انکار کر دیتے تو اسلام اپنی
شان و شوکت کے ساتھ باقی نہ رہتا بلکہ کھیل بن جاتا اور اس کا نظام درہم
برہم ہو جاتا ۔
مانعین زکوٰة اور اس سے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے جہاد کے نتیجہ
میں حضرت صدر الافاضل رحمة اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں ۔”یہاں سے مسلمانوں
کو سبق لینا چاہئے کہ ہر حالت میں حق کی حمایت اور ناحق کی مخالفت ضروری ہے
اور جو قوم نا حق کی مخالفت میں سستی کرے گی وہ جلد تباہ ہو جائے گی ۔آج کل
بعض سادہ لوح باطل فرقوں کے رد کرنے کو بھی منع کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ
اس وقت آپس کی جنگ موقوف کرو۔انہیں حضرت صدیق رضی اللہ عنہ کے طریق عمل سے
سبق لینا چاہئے کہ آپ نے ایسے نازک وقت میں بھی باطل کی سرشکنی میں توقف نہ
فرمایا ۔جو فرقے اسلام کو نقصان پہنچا نے کے لئے پیدا ہوئے ہیں ان سے غفلت
پرتنا یقینا اسلام کی نقصان رسانی ہے ۔
حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی خصوصیات:حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی
اللہ عنہ میں بہت سے خصوصیات پائی جاتی ہیں جن میں سے چند خصوصیات کو ہم آپ
کے سامنے پیش کرتے ہیں ۔ابن عساکر حضرت امام شعبی سے روایت کرتے ہیں ،انہوں
نے فرمایا کہ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کو اللہ عزوجل نے ایسی چار
خصلتوں سے مختص فرمایا جن سے کسی کو سرفراز نہیں فرمایا۔ (1)آپ کا نام صدیق
رکھا اور کسی دوسرے کا نام صدیق نہیں ۔(2) آپ رسول خدا ﷺ کے ساتھ غار ثور
میں رہے ۔(3)آپ حضور ﷺ کی ہجرت میں ہم سفر رہے ۔(4)سرکار اقدس ﷺ نے آپ کو
حکم فرمایا کہ صحابہ کرام کو نماز پڑھائیں اور دوسرے لوگ آپ کے مقتدی بنیں
۔ایک بہت بڑی خصوصیت آپ کی یہ بھی ہے کہ آپ صحابی ،آپ کے والد ابو قحافہ
صحابی، آپ کے صاحبزادے عبد الرحمن صحابی اور ان کے صاحبزادے ابو عتیق محمد
صحابی ۔یعنی آپ کی چار نسل صحابی ہیں ۔رضی اللہ عنہم
علالت اور وفات:واقدی اور حاکم میں ہے ۔حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے
بیان فرمایا ہے کہ والدِ گرامی حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی علالت کی
ابتدا یوں ہوئی کہ آپ نے 7جمادی الاخریٰ پیر کے روز غسل فرمایا۔اس روز سردی
بہت زیادہ تھی جو اثر کر گئی ۔آپ کو بخار آگیا اور پندرہ دن تک آپ علیل رہے
۔اس درمیان میں آپ نماز کے لئے بھی گھر سے باہر تشریف نہیں لا سکے ۔آخر کار
بظاہر اس بخار کے سبب 63سال کی عمر میں 2سال2ماہ سے کچھ دن زائد امور خلافت
انجام دینے کے بعد22جمادی الاخریٰ 13ھ کو آپ کی وفات ہوئی اور آقائے دو
عالم ﷺ کے مبارک پہلو میں مدفون ہوئے ۔
خلیفہ اول سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی پاک سیرت اور کردار آج بھی مسلم
حکمرانوں کے لئے مشعلِ راہ ہے ۔حکومت کو چاہیے کہ وہ خلفائے راشدین کے
کردار کو ہر سطح کے نصاب میں شامل کر ے تاکہ نسلِ نو اُن کی روشن سیرت سے
راہنمائی حاصل کریں۔
دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو حضور ﷺ کی سچی غلامی عطا فرمائے اور حضرت
ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق رفیق بخشے ۔آمین |