تحریک پاکستان میں مادر ملت فاطمہ جناح کی خدمات
ناقابل فراموش ہیں،آپ نے جدوجہد آزادی میں حصہ لینے کے لئے برصغیر کی مسلم
خواتین کو بیدار کیا اور انہیں منظم کرکے ان سے ہراول دستے کاکام لیا۔ آپ
ہی کی بدولت برصغیر کے گلی کوچوں میں مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین بھی تحریک
قیام پاکستان میں سرگرم ہوئیں۔ اسی پر اکتفاء نہیں بلکہ آپ نے بانی پاکستان
قائد اعظم محمد علی جناح کی خدمت کی صورت میں اور تحریک پاکستان میں عملی
طور پر حصہ لے کر عظیم خدمات سر انجام دیں۔جوں جوں قیام پاکستان کی منزل
قریب آرہی تھی قائداعظم پورے ملک کے دورے کررہے تھے، اس موقع پر آپ ان کے
ساتھ ہوتیں، بھائی کو اگر امت مسلمہ کی محرومی و غلامی بے چین کئے رکھتی
تھی تو بہن اس عظیم بھائی کے بے چین دل کو سکون و راحت پہنچانے میں کوئی
دقیقہ فرو گذاشت نہیں کرتی تھی۔آپ نے دن رات قائداعظم کے آرام و سکون کا
خیال رکھا،قائد اعظم جدوجہد آزادی میں اس قدر مصروف تھے کہ انہوں نے اپنی
گرتی ہوئی صحت کی بھی پروانہ کی ،اس وقت محترمہ فاطمہ جناح ان کی گرتی ہوئی
صحت کیلئے بے حد فکر مندرہتیں اور خیال رکھتیں،اور محمد علی جناح اپنے کام
میں محنت و لگن سے مصروف عمل رہتے۔
وہ سیاسی بصیرت میں اپنے بھائی قائداعظم کی حقیقی جانشین تھیں ایک ایسی بہن
جس نے اپنی زندگی کو بھائی کی خدمت اور تحریک آزادی کے لیے وقف کر دیا تھا
جو قوم کی ماں کا لقب ’’مادر ملت‘‘ حاصل کر کے سرخرو ہوئیں۔امام صحافت جناب
مجید نظامی نے ایک محفل میں فرمایا تھا کہ ’’مادرملت کا شمار پاکستان بنانے
والوں میں ہوتا ہے۔ آپ نے پیرانہ سالی کے باوجود قائداعظم کا بھرپور ساتھ
دیا اور ان کی دیکھ بھال کی، اگر آپ یہ خدمات انجام نہ دیتیں تو شاید
پاکستان معرض وجود میں نہ آتا‘‘۔ ایک موقع پر خود قائداعظم نے اپنے سیکرٹری
کرنل برنی سے اپنی عظیم بہن محترمہ فاطمہ جناح کی خدمات کا ذکر کرتے ہوئے
فرمایا تھا کہ ’’وہ اپنی بہن کی سالہا سال کی پرخلوص خدمات اور مسلمان
خواتین کی آزادی کیلئے انتھک جدوجہد کی وجہ سے ان کے انتہائی مقروض
ہیں۔‘‘ایک اور موقع پر قائداعظم نے اپنی بہن محترمہ فاطمہ جناح کی خدمات کا
ذکر کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ ’’جن دنوں مجھے برطانوی حکومت کے ہاتھوں کسی
بھی وقت گرفتاری کی توقع تھی تو ان دنوں میری بہن ہی تھی جو میری ہمت
بندھاتی تھی۔ جب حالات کے طوفان مجھے گھیر لیتے تھے تو میری بہن میری حوصلہ
افرائی کرتی۔‘‘محترمہ فاطمہ جناح کی سیاسی خدمات کا اعتراف ان کے بھائی
قائداعظم محمد علی جناح کی زبان سے ہونے کے بعدمذید کسی وضاحت کی ضرورت
باقی نہیں رہتی ۔
محترمہ فاطمہ جناح نے مسلم لیگ کی مالی اعانت کے لئے خواتین سے کہا کہ وہ
مینا بازاروں کا انعقاد کریں، اس طرح آپ کی تحریک پر مسلم خواتین نے مینا
بازار لگانے شروع کردیئے۔ ان مینا بازاروں سے جو آمدن ہوتی تھی وہ مسلم لیگ
کے فنڈ میں جمع کروادی جاتی تھی ۔ اپریل 1944ء میں محترمہ فاطمہ جناح نے
لاہور میں ایک مینا بازار کا افتتاح کرتے ہوئے فرمایا کہ ’’مجھے یہ دیکھ کر
بہت خوشی ہوئی ہے کہ آپ لوگوں نے ایک مینا بازارقائم کیا ہے، اس طرح عورتیں
بھی اپنے مسلمان بھائیوں کا ہاتھ بٹاسکتی ہیں۔ اور ہمارا یہ فرض ہے کہ قوم
کی اقتصادی حالت بہتر بنانے کیلئے ہم ان کی مدد کریں، ہاتھ بٹائیں اور
حوصلہ افزائی کریں۔ مجھے پختہ یقین ہے کہ ہماری بہنیں قوم کی اقتصادی حالت
سدرھانے کیلئے ان کی مدد کریں گی ‘‘۔ قائد اعظم کی زندگی میں مادر ملت ان
کے ہمر اہ موثر طور پر 19سال رہیں یعنی 1929ء سے 1948ء تک اور وفات قائد کے
بعد بھی وہ اتنا ہی عرصہ بقید حیات رہیں یعنی 1946ء سے 1967ء تک لیکن اس
دوسرے دور میں ان کی اپنی شخصیت کچھ اس طرح ابھری اور ان کے افکارو کردار
کچھ اس طرح نکھر کر سامنے آئے کہ اس سے عصری سیاست و معاملات پر ان کی ذہنی
گرفت نا قابل یقین حد تک مکمل اور مضبوط تھی۔ 1965ء کے صدارتی انتخاب کے
موقع پر ایوب خاں کی نکتہ چینی کے جواب میں مادر ملت نے کہا تھا کہ’’ ایوب
فوجی معاملات کا ماہر تو ہو سکتا ہے لیکن سیاسی فہم و فراست میں نے قائد
اعظم سے براہ راست حاصل کی ہے اور یہ ایسا شعبہ ہے جس میں آمر مطلق نا بلد
ہے‘‘۔
اور پھر وقت اجل آپہنچا، وہ 8اور 9جولائی 1967ء کی درمیانی شب تھی جب
محترمہ فاطمہ جناح سابق وزیر اعلیٰ حیدرآباد دکن لائق علی کی بیٹی کی شادی
میں شرکت کے بعد گھر واپس لوٹیں تو گھریلو ملازم سلیم کے بیان کے مطابق
محترمہ اس روز بھی حسب معمول بہت خوش تھیں انہوں نے کہا کہ وہ کھانا نہیں
کھائیں گی لیکن کچھ پھل کھائے اور پھر قصر فاطمہ کی بالائی منزل پر سونے
چلی گئیں ، محترمہ کا اصول تھا کہ وہ روز صبح اٹھ کر چابیاں نیچے برآمدے
میں پھینکا کرتیں تھیں جس سے ملازم کمروں کے تالے کھولتے ۔ 9 جولائی کے روز
مقررہ وقت تک چابیاں نہ آئیں تو گھر کا ملازم پریشان ہو ا، اس کو تشویش
لاحق ہوئی اسی اثنا میں ان کی دھوبی بھی پہنچ گئی جس نے کہا کہ خدا نخواستہ
محترمہ کی طبیعت خراب نہ ہو، وہ فوری بھاگتی ہوئی قصر فاطمہ کے نیچے والے
کمرے میں گئیں جہاں چابیوں کا گچھا تھااتفاقاً ان میں سے ایک چابی محترمہ
کے کمرے کو لگ گئی دیکھا تو محترمہ اس دنیا دار فانی سے رخصت ہو چکی
تھیں۔اس طرح 9جولائی1967ء کو محترمہ فاطمہ جناح مختصر علالت کے بعد73 برس
کی عمر میں انتقال کر گئیں۔ سبز ہلالی پرچم میں جب ان کا جسد خاکی قصر
فاطمہ سے پولو گراؤنڈ پہنچا تو وہاں پہلے سے ہی لاکھوں افراد کا مجمع موجود
تھا ، جبکہ مذیدلوگوں کی آمد کا سلسلہ جاری تھا، جوان بوڑھے بچے خواتین زار
و قطار اپنے ملک کی ماں کا آخرے دیدار کرنے کو ترس رہے تھے ۔ تقریباً 12بج
کر 35منٹ پر ایچ خورشید اور ایم اے ایچ اصفہانی نے اپنے لرزتے ہاتھوں سے
محترمہ کی میت کو قبر میں اتارا تو اس وقت لوگوں کی تعداد تقریباً 6لاکھ سے
تجاوز کر چکی تھی اور ہر آنکھ اشکبار تھی۔ یوں محترمہ فاطمہ جناح لاکھوں
سوگواروں اور قوم کو یتیم کر کے منوں مٹی تلے سوگئیں۔محترمہ فاطمہ جناح کو
ان کی وصیت کے مطابق مزار قائد میں ہی دفن کیا گیا ان کی قبر سردار عبدالرب
نشتر اور لیاقت علی خان کی قبروں کے درمیان، قائد اعظم محمد علی جناح سے
تقریباً 120فٹ کے فاصلے پر ہے ۔ محترمہ فاطمہ جناح کی موت آج تک ایک معمہ
بنی ہوئی ہے کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ محترمہ کی موت طبعی نہیں تھی بلکہ
انہیں قتل کیا گیاتھا۔ مادر ملت کی قومی خدمات کے صلے میں پاکستانی عوام
اپنی اس ماں کو بطورمحسن ملت ہمیشہ یاد رکھے گی۔
|