اللہ تبارک و تعالیٰ کے اُمت مسلمہ پرجو عظیم الشان
اِحسانات ہیں اُن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ہر دور میں اہل ایمان اور
انسانیت کی راہنمائی کے لیے ایسے علماء و اولیاء کو پیدا فرماتے ہیں جو
اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ اور نبی کریمﷺ کے لائے ہوئے آخری دین اسلام کی
تعلیمات کی تعلیم و ترویج میں اپنی پوری عمر خرچ کردیتے ہیں اور ان کے
ذریعے سے دین اسلام کے شعائر کو غلبہ، دینی تعلیمات کو قبولیت عامہ اور
دینی تعلیمات پر عمل کا جذبہ بیدار ہوتا ہے۔
انہی مقبول علماء اور اولیاء میں سے ایک سلسلہ مبارکہ رفاعیہ کے جلیل القدر
بزرگ، خاندانِ اہل بیت کے گل سرسبد ، مجدد ملت سیدی محمدمہدی قدس اللہ سرہ
بھی ہیں جنہیں راہ ہدایت پر گامزن ہونے کی وجہ سے ”مہدی“ اور بکثرت سفر
کرنے اور عموماً گمنام رہنے کی وجہ سے ”غریب الغرباء“ اور بوقتِ ضرورت
بکریوں وغیرہ کے سری پائے فروخت کرنے کی وجہ سے ”الرواس“ کہاجاتا ہے۔
آپ کی ولادت 1220ہجری مطابق 1805ء عراق میں ہوئی ۔ آپ اہلِ بیت کے حسینی
اور رفاعی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ کم سنی میں مدینہ منورہ آ گئے تھے
کچھ عرصہ وہاں حصول علم میں مشغول رہنے کے بعد جامعۃ الازہر مصر کا رُخ کیا
اور وہاں تقریباً تیرہ سال تک مقیم رہ کر حصول علم میں مشغول رہے اوربتمام
و کمال محنت اور توجہ سے مختلف علوم و فنون میں کمال اور مہارت حاصل کی۔
بعد ازاں سیاحت کرتے ہوئے شام، عراق، ہند، سندھ، ایران، چین،کردستان، اور
ترکی وغیرہ کے اسفار کیے اور اپنے ان اسفار کی ایک جامع روداد ”بوارق
الحقائق“ نامی کتب اور ”الروضۃ الوردیۃ فی الفیوضات الہندیۃ“ میں درج کی
ہیں۔
آپ ایک جلیل القدر مفسر، محدث، فقیہ، متکلم، شاعر، اور باکمال مربی طریقت
اور پابندشریعت صوفی تھے۔ اسی لیے آپ کو مجدد ملت اور مجدد طریقہ رفاعیہ
بھی کہا جاتا ہے۔
آپ کی چند اہم ترین تالیفات و تصنیفات کے نام یہ ہیں: بوارق الحقائق۔ طی
السجل۔ فصل الخطاب۔ برقمۃ البلبل۔ الدرۃ البیضاء۔ الحکم المہدویۃ۔ مشکاۃ
الیقین (شعری مجموعہ)۔ معراج القلوب(شعری مجموعہ)
آپ کی وفات سنہ1287ہجری عراق کے مشہور شہربغداد میں ہوئی اس شہر کی مشرقی
جانب ”مسجد دکاکین حبوب“ کے پاس آپ کی تدفین ہوئی۔
آپ کے جلیل القدر خلفاء میں امام محمد ابوالہدی الصیادی الرفاعی قدس اللہ
سرہ ہیں جو خلافت عثمانیہ کے آخری سلطان عبدالحمید خان عثمانی رحمۃ اللہ
علیہ کے مربی و مرشد اور شیخ و معتمد تھے۔ انہوںنے آپ کے افادات پر مشتمل
ایک کتاب النصیحۃ القدوسیۃ سپرد قلم کی ہے جس سے ان کے فکر ونظر کے زاویے
سمجھنے میں بڑی آسانی ہوتی ہے۔ ذیل میں اسی کتاب سے چند ملفوظات ذکر کیے
جارہے ہیں جس سے ان کی تعلیمات اور فکر و نظر کے رُخ کو سمجھنا بھی آسان
ہوجائے گا اور پڑھنے والوں کو بھی بہت سی مفید باتیں ہاتھ آجائیں گی۔ ان
شاء اللہ
(1) شریعت اقوال کا نام، طریقت اعمال کا نام ، حقیقت احوال کانام ہے اور
معرفت کمال ہے۔ اقوال میں سے اہل چیز راستہ دِکھانا ہے۔ اعمال میں سے اہم
چیز خالص حق کے ساتھ جڑ جانا ہے، احوال میں سے اہم ترین چیز اللہ تعالیٰ کی
طرف صحیح طور پر متوجہ ہوجانا ہے۔ معرفت کا اہم ترین حصہ یہ ہے کہ اللہ
تعالیٰ کی طرف سے کامل اَمن (کی امید) کے ساتھ اُس کا خوف بھی موجود ہو۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے؛
لا تقنطوا من رحمۃ اللہ ان اللہ یغفر الذنوب جمیعا
تم اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس مت بنو، بے شک اللہ تعالیٰ تمام گناہوں کو
معاف فرمانے والے ہیں۔
یہ آیت کریمہ اللہ تعالیٰ کے خوف کوباقی رکھتے ہوئے مومن بندے کے دل میں
امن وامان کی جگہ بنارہی ہے۔
نیز اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
واما من خاف مقام ربہ و نھی النفس عن الہوی فان الجنۃ ھی الماوی
پس جو شخص اپنے رب کے سامنے کھڑا ہونے سے ڈرا اور اپنے نفس کو خواہشات سے
روکا توجنت ہی اُس کا ٹھکانہ ہے
انسان کا دل اللہ تعالی کی نظر کا محل ہے۔ چنانچہ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے:
ان اللہ لاینظر الی اجسامکم و لا الی صورکم و لکن ینظر الی قلوبکم
اللہ تعالی تمہارے جسموں اور تمہاری شکلوں کو نہیںدیکھتے بلکہ تمہارے دلوں
کو دیکھتے ہیں
اسی عظیم راز کی وجہ سے سمجھد ار آدمی پر لازم ہوجاتا ہے کہ وہ اپنے دل کو
باطنی ناپاکیوں سے پاک کرے اور اچھی نیتوں کے ذریعے اپنے دل میں (اللہ
تعالی کے ذکر سے)اطمینان کو نور بھردے۔
(النصیحۃ القدسیۃ)
یہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ کی طرف سالک کا پہلا قدم ہوتا ہے۔ اور ہمارے لیے
اللہ ہی کافی ہے۔
(2)طریقت و سلوک جس کے متعلق بہت سی باتیں کہی گئی ہیں اور اکثر لوگ جس طرح
گمان کرتے ہوئے موتیوں کو مٹی کے ساتھ اور سونے کو پتھر کے ساتھ ملا دیتے
ہیں ایسا نہیں ہے بلکہ طریقت تو اس بات کا نام ہے کہ انسان اپنی ذات، اپنے
اہل و عیال ، اپنے پڑوسی، اپنے دوست، اور دور و نزدیک سب میں محض اللہ
تعالیٰ کی رضا کے لیےاور اللہ تعالیٰ کی سرزمین میں اللہ تعالیٰ کے کلمے کو
بلند کرنے کے لیے رسول اللہﷺ والے اخلاق پیدا کرنے کا بھرپور اہتمام کرے،
اس سب سے اُس کا مقصد نہ تو شہرت اور غلبہ ہو، اور نہ ہی کسی سے کوئی بدلہ
پانا اور شکرگزاری مطلوب ہو۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
و ما امروا الا لیعبدو اللہ مخلصین لہ الدین حنفاء و یقیموا الصلاۃ و
یؤتوا الزکوۃ و ذلک دین القیمۃ
انہیں اسی بات کا حکم دیا گیا کہ وہ یکسو ہو کر اللہ تعالیٰ کے لیے دین کو
خالص کرتے ہوئے اُسی کی عبادت کریں، اور نماز قائم کریں، اور زکوۃ اداء
کریں، اور یہی سیدھا دین ہے۔
اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں جس بات کا حکم دیا ہے وہ ہمیں اچھی
طرح سکھادیا ہے کہ ہم اخلاص کے ساتھ اسی کی عبادت کریں، کیوں کہ دین اسی کا
ہے اور ہم نماز قائم کریں، اور ہم زکوۃ اداء کریں، اور یہی وہ دین ہے جس
میں کوئی کجی نہیں۔ اب چونکہ دین اسی اللہ کا ہے تو اس کے دین کی سربلندی،
اور اس کے احکامات اور حکمتوں کو لوگوں کے دلوں تک پہنچانا یہ نبی کریمﷺ کی
سیرت طیبہ کو اپنانے کے مانند ہےاور اس کی بنیادی شرط اخلاص ہے اور اس دین
کو پہنچانے والے رسول اللہ (ان پر کامل رحمتوں نازل ہوں) ہیں اور ہم ان کے
عزت والے احکامات کو ماننے اور ان کی پیروی کرنے کے پابند ہیں اور ان کے
بعد اقوال، افعال اور احوال کسی چیز میں اضافہ کی گنجائش نہیں، کیوں کہ
اقوال بھی انہی کے معتبر ہیں، افعال بھی اور احوال بھی سب انہی کے معتبر
ہیں اور جو قول یا فعل یا حال نفس پر طاری ہو لیکن وہ نبی کریمﷺ سے ماخوذ
نہ ہو تو وہ باطل ہے اور اس کی حقیقت ظلمت ہے جو نفس کی لذت کی وجہ سے دل
پر چھا جاتی ہےاور اس سے دل کو پاک کرنا اور اسے دل سے دور کرنا ضروری
ہوجاتا ہے، اگرچہ انسان اپنی رائے کی روشنی میں اسے نیکیوں میں سے سمجھ رہا
ہومگر بہر حال وہ شک والا اور راستے سے روکنے والی دینداری ہوگی۔
عارف کے لیے مناسب نہیں ہے کہ دین کے معاملے میں دین پر غالب آنے کی کوشش
کرے کیوں کہ جو بھی دین پر غالب آنے کی کوشش کرتا ہے تو دین اسے مغلوب
بنادیتا ہے۔
اسلام میں رہبانیت نہیں ہے، اور عبادت کے لیے اہل و عیال اور دوستوں سے
بالکلیہ منقطع ہو کر پہاڑوں میں چلے جانا یہ محمدی راستہ نہیں ہے، بلکہ
محمدی راستہ تو یہ ہے کہ صاحبِ رُشد و ہدایت عالم مسلمانوں کے بیچ رہ کر
انہیں نبی امین(ان پر رب العالمین کی رحمتیں ہوں) کے اخلاق کی تعلیم دے۔
چنانچہ سنن ابن ماجہ وغیرہ میں حضرت عبد اللہ بن عمروبن العاص رضی اللہ عنہ
سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ ایک دن اپنے ایک حجرے سے باہر مسجد میں تشریف
لائے، تو مسجد میں دو حلقے موجود تھے ان میں سے ایک حلقہ والے قرآن پڑھ
رہے تھےاور اللہ تعالیٰ سے دعاء مانگ رہے تھے جب کہ دوسرے حلقے والے علم
سیکھ اور سکھا رہے تھے۔ نبی کریمﷺ نے فرمایا:تم سب بھلائی پر ہوکہ اس حلقے
والے قرآن پڑھ رہے ہیں اور دعاء مانگ رہے ہیں پھر اللہ تعالی نے چاہاتو
انہیں عطاء فرمادیں گے اور چاہیں گے تو منع کردیں گے اور یہ دوسرے حلقے
والے علم سیکھ اور سکھا رہے ہیں اور میں بھی معلم بنا کر بھیجا گیا ہوں پھر
آپﷺ انہی کے ساتھ بیٹھ گئے۔
اس لیے طالبِ حق کو چاہئے کہ وہ دین سیکھنے والا ہو، یا سکھانے والا ہو، یا
سننے والا ہو، اور یہی رسول اللہﷺ کے اصحاب کا طریقہ ہے اور مبارک راستہ
یہی ہے کہ انسان سلف صالحین کے راستے پر چلے۔
(النصیحۃ القدسیۃ)
|