منافقت کے نصاب

پچھلی سات دہائیوں سے زائدکشمیری عالمی ضمیرکوجگانے کی کوشش کررہے ہیں بالخصوص پچھلے دوعشروں سے آزادی کی تحریک میں ایک لاکھ سے زائد کشمیریوں نے اپنی جان کی قربانی دیکر آزادی حاصل کرنے کاعزم پوری آب وتاب سے جاری وساری رکھاہواہے۔بھارتی ظلم وستم اورجبری تسلط کے خلاف کچھ دیرکیلئے یہ تحریک مسلح جدوجہد کی صورت میں بھی جاری رہی لیکن گزشتہ برس 5/اگست کومودی کی یکطرفہ تمام عالمی اوربھارتی قانون کی دھجیاں اڑاتے ہوئے آرٹیکل 370 کے خاتمے کے بعد اب تک بھارت نے کرفیواورلاک ڈائون کے دوران کشمیرمیں جو ظلم وستم کاوہ بازارگرم کر رکھا ہے جس سے پوری مہذب دنیابھی آگاہ ہے لیکن اب تک کسی بھی عالمی ادارے کو بھارت کواس بہیمانہ ظلم وستم روکنے کیلئے کوئی خاطر خواہ اقدامات اٹھانے کی توفیق نہیں ہوئی۔اگر کسی انسانی ہمدردی کے ادارے نے کشمیرکے معاملے میں کسی دلچسپی کااظہاربھی کیا تودنیاکی سب سے بڑی جمہوریت کانعرہ لگانے والی بھارتی سرکارنے کشمیرتک رسائی دینے سے صاف انکارکردیالیکن اس کے باوجودکشمیرمیں ہونے والے ظلم وستم کی داستانیں اکثرعالمی ضمیرکو جھنجھوڑتی رہتی ہیں۔

10برس قبل بعض مشروط پابندیوں کے ساتھ بھارت نے یورپی یونین کے ایک وفدکوبھولے سے کشمیرجانے کی اجازت دیدی تواس وفدنے محدود وقت اوربے شمار پابندیوں کے باوجود جو70صفحات پرمشتمل ایک چشم کشارپورٹ مرتب کی اس کا حاصل اک جملہ یہ بھی تھاکہ،،کشمیردنیاکی خوبصورت ترین جیل ہے،،۔18سے 24مئی2010ء تک ایمنسٹی انٹرنیشنل کے چاررکنی وفدنے بکرم جیت باتراکی سربراہی میں وادی کے سیاسی ،غیرسیاسی اورسول سوسائٹی کے کئی افراد سے ملاقاتیں کرنے کے علاوہ کئی دوسرے آزادذرائع سے معلومات حاصل کرکے اس رپورٹ کے باضابطۂ اجراء کیلئے دوبارسرینگرکادورہ کیااور اپنی پریس کانفرنس میں اس رپورٹ کوایک کتابی شکل میں کشمیری عوام اورذرائع ابلاغ کے نمائندوں کے سامنے پیش کردیا

حریت کانفرنس کے دونوں دھڑوں کے لیڈروں جناب سیدعلی گیلانی،میرواعظ عمرفاروق کے علاوہ دیگر کشمیری لیڈروں شبیر احمد شاہ،لبریشن فرنٹ کے ملک یاسین اورنعیم خان نے بھی اس رپورٹ کازبردست خیرمقدم کرتے ہوئے عالمی برادری کواس کانوٹس لینے کی اپیل کی تھی۔اس رپورٹ کے حقائق کواس وقت کے کشمیرکے وزیراعلیٰ عمرعبداللہ بھی جھٹلا نے کی ہمت نہ کر سکے اورکچھ تحفظات کے ساتھ اس رپورٹ کی روشنی میں کچھ اصلاحی اقدامات اٹھانے اوراس کوردی کی ٹوکری میں نہ پھینکنے کاسیاسی وعدہ کئے بغیرنہ رہ سکے لیکن”وہ وعدہ ہی کیاجووفاہو گیا” کے مصداق آج تک ان کے دورِ حکومت میں کوئی پیش رفت نہ ہوسکی اور5/اگست کے عمل کے بعدخانوادہ عبداللہ کوبھارتی سفاک چہرہ سے شکائت کیسی؟

اس 70صفحات کی رپورٹ میں کشمیریوں کی حالِ زارکاجونوحہ بیان کیاگیااس میں سرِ فہرست”پبلک سیفٹی ایکٹ”جیسے ظالمانہ قانون کوہدفِ تنقید بنایاگیاتھاجس کوخود بھارتی سپریم کورٹ کالا قانون قراردے چکی ہے۔اس رپورٹ میں بھارتی حکومت کے ساتھ عدلیہ کوبھی برابرکاقصورواراور شریک مجرم قراردیاگیا۔انہی ظالمانہ قوانین کی بناء پرآج تک مودی سرکار عدلیہ کے کسی بھی فیصلے اور کسی بھی حکم کونہ صرف نظراندازکردیتی ہے بلکہ بعض معاملات میں عدلیہ کے فیصلوں کی کھلم کھلا دھجیاں اڑائی جاتی ہیں اورکئی مقدمات میں عدلیہ کو ناکامی کاسامناکرناپڑتاہے۔زمینی حقائق تویہ ہیں کہ آج بھی سیکورٹی و انٹیلی جنس ادارے اورپولیس خودکوقانون سے بالاترسمجھتے ہوئے عدلیہ کے فیصلوں کی کوئی پرواہ نہیں کرتے اوران کے جاری مظالم کوروکنے والا کوئی ایسا آہنی ہاتھ سرے سےموجودہی نہیں جوان کوکشمیری عوام پرغیرقانونی ظلم وستم روارکھنے سے روک سکے۔

پبلک سیفٹی ایکٹ جوکہ بین الاقوامی قانون کی صریحاًخلاف ورزی ہے اورخودبھارت کی اعلیٰ عدالتیں بھی اس کوکالا قانون قراردے چکی ہیں لیکن اس کے باوجود اس قانون کابے ہنگم استعمال ہورہا ہے ۔دنیاکاکوئی قانون معصوم بچوں پرظلم وستم روارکھنے کی اجازت نہیں دیتالیکن کشمیرمیں ہزاروں نابالغ بچے اس کالے قانون کے تحت نظربندہیں۔ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اپنی اس رپورٹ میں بڑی وضاحت کے ساتھ اس کی تصدیق کی ہے کہ اس کالے قانون کے نام پرلاقانونیت کابازارگرم ہے۔اس رپورٹ میں2003ء سے لیکر 2010ء تک کے ان مقدمات کا جائزہ لیاگیاتھاجواس کالے قانون کے تحت درج کئے گئے۔اس تحقیق سے پتہ چلا کہ پبلک سیفٹی ایکٹ کے ظالمانہ قانون کے تحت انسانی حقوق کی زبردست پامالی کی گئی اوراس عرصے میں اس وحشیانہ قانون کے تحت آٹھ ہزار سے زائد لوگوں کوقیدکیاگیاجبکہ صرف جنوری 2010ء سے لیکر31دسمبر2010ء کے آخرتک322 افراد کوگرفتارکرکے بے پناہ اذیتوں سے دوچار کیا گیا۔اس رپورٹ میں مزیدیہ انکشاف بھی کیاگیاکہ اس انسانیت سوز قانون کے تحت جن افرادکو گرفتار کیاگیا،انہیں نہ تو فوری طورپرگرفتاری کی وجوہات سے آگاہ کیاگیااورنہ ہی ان کواپنی صفائی کیلئے کسی قانونی امدادکی سہولت فراہم کی گئی۔

ایک طرف تو ریاست کے عسکری ادارے اس بات کااعتراف کرتے ہیں کہ اب وادی میں اب کوئی جنگجو سرگرم نہیں اور دوسری طرف 5/اگست کے جابرانہ عمل کے بعدپہلے سے موجود دس لاکھ فوج کے علاوہ مزیدسیکورٹی اورانٹیلی ایجنسیوں اداروں کی بھرمارنے کرفیواورلاک ڈا ؤن کی آڑمیں ہر کشمیری مردوزن اوربچوں کودنیاکی اس خوبصورت جیل میں ہراساں کرنے کاکام جاری رکھاہوا ہے۔اس قانون کے تحت جہاں آزادی پسندقیادت کی پہلی اوردوسری صف کے رہنماؤں کوجیل میں رکھ کران کی آوازکودبانے کیلئے استعمال کیا جا رہاہے وہاں مجبورومقہوربوڑھے مردوزن اوربچے بھی اس قانون کی دسترس سے محفوظ نہیں۔اپنے بنیادی انسانی حقوق کا مطالبہ کرنے والے کشمیریوں کوان کے گھروں سے اغوا کرکے اسی غیرقانونی قانون کے تحت انتقام کانشانہ بنایاجارہا ہے ۔

اس رپورٹ میں دنیاکی سب سے بڑی جمہوریت کادم بھرنے والی بھارتی سرکارکے چہرے سے یہ نقاب بھی اٹھایاگیاکہ کشمیر میں حکومتی ادارے پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت گرفتارافرادکوعدالت میں مجرم ثابت کرنے اورانہیں سزادلوانے کی بجائے ان بے گناہ افرادکوجیلوں میں بندرکھنے میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں اور ان مبینہ قوانین کے تحت متوازی ظالمانہ فوجداری نظام چلایاجارہاہے۔رپورٹ میں اس ظالمانہ قانون، انتظامی حراست کوفوری منسوخ کرنے،نظربندوں پرفوری باقاعدہ فردِ جرم عائدکرنے،مجسٹریٹ کے سامنے فوری پیشی کویقینی بنانے،اسیروں کیلئے قانونی مشورے،طبی معائنے کی سہولت اورعزیزو اقارب کے ساتھ رابطے میں سہولت کی فراہمی کویقینی بنانے کامطالبہ کیاگیاتھا۔

رپورٹ میں کئی اور سفارشات کوبھی شامل کیاگیاتھاجس میں بھارتی حکومت سے مطالبہ کیاگیاکہ بین الاقوامی قانون کے تحت اقوام متحدہ کے خصوصی اداروں کی رسائی کویقینی بنایاجائے اورانسانی حقوق کے بین الاقوامی اداروں کی رپورٹس برائے ایذارسانی اورورکنگ گروپ برائے غیرقانونی گرفتاری کی سفارشات کابھی فوری جائزہ لیاجائے لیکن وائے افسوس آج حالات پہلے سے بھی زیادہ بدترہوگئے ہیں اوراقوام عالم کے حقوق انسانی کے دعوے بھی دھرے کے دھرے رہ گئے اور اب کرونا کی آڑمیں تومودی سرکارنے جہاں ظلم وستم کابازراگرم کررکھاہے وہاں مودی چین کے ہاتھوں لداخ میں شرمناک ہزیمت کے بعد بے گناہ کشمیریوں پراپنی گھنا ؤنی سازشوں کے تحت کشمیریوں کی آبادی کے تناسب کوتبدیل کرنے کیلئے غیر کشمیریوں کو کشمیر میں آبادکرنے کاعمل شروع کرچکے ہیں جوکہ اس خطے میں عالمی امن کیلئے کبھی بھی ایک دہماکہ کی صورت میں تبدیل ہوسکتے ہیں۔

5/اگست کوجموں وکشمیرکی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے بعدآرٹیکل370کے نفاذکیلئےبھارت نے38ہزارمزیدبھارتی فوجی کشمیرمیں بھیج دیے ، اس دوران ہرقسم کے ذرائع ابلاغ پر پابندی لگادی گئی جوہنوزجاری ہے۔کشمیرکی سیاسی قیادت کو گرفتار کرکے جیلوں میں ڈال دیاگیا،طویل ہوتے کریک ڈاؤن کی وجہ سے پاکستانی پالیسی سازوں نے کشمیرکے سلگتےموضوع کو امریکاافغان امن مذاکرات سے نہ جوڑکرنہ صرف کئی افواہوں کوجنم دیاہے بلکہ جرم عظیم کاارتکاب کیاہے۔امریکاافغان معاہدے کے وقت کشمیرکارڈکھیلنے کابہترین موقع تھا تاکہ امریکااورمغربی پالیسی سازبھارت پردباؤڈال کرمسئلہ کشمیرکو اقوام متحدہ کی قراردادون کے مطابق حل کروایاجاسکتاتھا۔

دوسری طرف بھارت نے 2010ءمیں کشمیرمیں جہاں مزیددولاکھ فوج کا اور5/اگست کومزیداضافہ کردیاتھاوہاں بھارتی فوجیوں کوکشمیری زبان سکھانے کاعمل محض اس لئے شروع کردیاگیاکہ ڈوگرہ سرٹیفکیٹ کے تحت ان کوکشمیری شہریت دیکروادی میں آبادی کاتوازن تبدیل کرکے مسلمانوں کواقلیت میں تبدیل کردیاجائے تاکہ وادی کومستقل طورپرمذہبی بنیاد پرتقسیم کردیاجائے اور مستقبل میں اس تقسیم سے فائدہ اٹھاکر کشمیر کو قانونی طورپربھارت کاحصہ قرارد ینے میں کوئی مشکل باقی نہ رہےلیکن سازشی عناصرکبھی بھی اپنے اس پروگرام میں کامیاب نہ ہوسکیں گے۔ کیاوہ اس بات کوبھول گئے ہیں کہ یک لاکھ جانوں کی قربانی کے بعدبھی کشمیریوں کے عزم میں ذرہ بھرکمی نہیں آئی وہ بھلااس سازش کوکیسے کامیاب ہونے دیں گے۔اب ضرورت اس امر کی ہے کہ دنیابھرکی انسانی حقوق کی تنظیمیں کشمیریوں سے اظہارِیکجہتی کیلئے اس غیرقانونی سازش کے خلاف سخت ردّ ِعمل کااعلان کرکے بھارت کوایک واضح پیغام دیں۔

ادھرکشمیر اپنی مخصوص جغرافیائی وسیاسی صورتحال کی وجہ سے افغان مہاجرین کی نظرمیں اہمیت رکھتاہےلیکن وہ اسے اپنے ماضی کے سالہاسال کے جنگی تجربے کی وجہ سے زیادہ باریک بینی سے دیکھتے ہیں یعنی کشمیر کے حال میں وہ اپنا ماضی دیکھ رہے ہیں۔افغان کینیڈین کارکن سوریاسحرافغان مہاجرین اورپناہ گزینوں کیلئےکام کرتی ہیں،ان کے مطابق افغان کشمیریوں کی جدوجہدکے حامی ہیں، لیکن وہ یہ بات بھی سمجھتے ہیں کہ بھارت میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی عروج پرہے دوسری طرف بھارت کی دہری پالیسی کی وجہ سے مسلمانوں پرنہ صرف اندرون ملک یعنی بھارت میں زندگی مشکل کردی گئی ہے بلکہ کشمیر میں بھی مسلمانوں کاقتل عام جاری ہے۔خانہ جنگی کی صورتحال میں کشمیر کامستقبل اندھیرے میں ہے۔افغان باریک بینی سے مودی کی کشمیرپالیسی کاجائزہ لے رہے ہیں،نئی دہلی کویہ حقیقت یادرکھنی چاہیے کہ افغان اس وقت مودی کی کشمیر پالیسی کو دیکھتے ہوئے اپنی رائے بنارہے ہیں،ہو سکتا ہے کہ بھارت اپنے گماشتوں کے ذریعے افغان رائے عامہ بنانے کیلئےدولت اورطاقت کااستعمال بڑھادےلیکن کشمیر مخالف پالیسی سے بننے والے عدم اعتمادپرقابو پانے کیلئے بھارت کوبالآخربری طرح شکست وہزیمت اٹھانی پڑے گی لیکن یہاں یہ سوال بہت اہم ہے کہ اچانک کشمیرکے بارے میں ہماری خارجہ پالیسی کیوں تبدیل ہوئی اورقوم سے اس کے بارے میں مسلسل جھوٹ سے کیوں کام لیاجارہاہے؟بھارت کا سلامتی کونسل کابلامقابلہ ممبر بن جاناکس بات کی چغلی کھاتاہے اورہمارے وزیرخارجہ شاہ محمودقریشی اپنی مریدنیوں کے سرکے بال کاٹ کران کوکروناسے صحت یابی عطافرماتے رہے اوربعدازاں خودکروناکاشکارہوکرگھرمیں بیٹھ گئے ہیں۔ وزیر اعظم نے خودکوکشمیرکاوکیل قراردیکرکشمیرمیں جہادکی تحریک کوکشمیرسے دشمنی قرار دیکرکس کوکیاپیغام دیاہے،اس کی بھی توتحقیق ہونی چاہئے۔ ان حالات میں جدجہدآزادی کادرخشندہ ستارہ “سیدعلی گیلانی ” کاحریت کانفرنس سے علیحدگی کااعلان بھی کشمیرکے مقدمہ کےوکیل پرعدم اعتمادکاکھلاپیغام ہے۔
منافقت کے نصاب پڑھ کرمحبتوں کی کتاب لکھنا
بہت کٹھن ہے خزاں کے ماتھے پہ داستانِ گلاب لکھنا

 

Sami Ullah Malik
About the Author: Sami Ullah Malik Read More Articles by Sami Ullah Malik: 491 Articles with 356276 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.