وکاس بے موت مارا گیا اور وناش زندہ ہوگیا

بالآخر وکاس مارا گیا ۔ وکاس دوبے کے ساتھ وہی ہوا کو وکاس مودی کے ساتھ ہوا ۔ وکاس مودی جس کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر مودی جی پہلی بار اقتدار میں آئے تھے ۔ ان کا نعرہ’سب کا ساتھ سب کا وکاس‘تھا ۔ مودی جی کو امید تھی کہ یہ سن کر سب لوگ ان کے ساتھ آجائیں گے لیکن ایسا نہیں ہوا۔ الٹا چونکہ وکاس ہوا نہیں اس لیے لوگ ساتھ چھوڑنے لگے۔ مودی جی نے چار سالوں تک حکومت کرنے کے بعد جب یہ محسوس کیا وکاس باولہ ہوگیا ہے تو اس کو پاگل کتے کی سزا یعنی گولی سے بھون دیا ۔ وکاس کے بغیر اقتدار میں آنے کے لیے انہوں نے ائیر اسٹرائیک کرکے وکاس کا گویا انتم سنسکار (آخری رسومات ) کردیا ۔ مودی جی کا بالاکوٹ حملہ سیاسی معنیٰ میں وکاس کا انکاونٹر ہی تھا ۔ مودی جی کے وکاس کی طرح ایک زمانے تک وکاس دوبے کے ساتھ بھی سارے سیاستداں تھے ۔ کوئی اس کو بچا رہا تھا اور کوئی چھپا رہا تھالیکن سب لوگ اس سے فائدہ اٹھارہے تھے ۔ پھر یہ ساتھ بھی چھوٹ گیا اور وہ اکیلا پڑگیا ۔ سیاسی رہنماوں کوجب محسوس ہوا کہ اب وہ کسی کام نہیں ہے ۔ اس سے فائدے کے بجائے نقصان ہوگا ۔ وہ اثاثہ کے بجائے بوجھ بن چکا ہے تو اس کا کانٹا نکال دیا گیا۔ کل تک جو لوگ وکاس کی زندگی سے سیاسی فائدہ اٹھا رہے تھے اب اس کی موت سے استفادہ کریں گے ۔
دیس میں اب وکاس نہیں ہوگا مگر اس پر سیاست ہوگی اور اس سے فائدہ اٹھا نے کا گھناوناکھیل کھیلا جائے گا۔ وکاس دوبے اپنے قول و عمل سے سیاستدانوں اور پولس والوں کی کی قلعی کھولتا رہا ۔2017 کے اندر ایک انٹرویو میں تو اس نے صاف الفاظ میں کہہ دیا تھا کہ ا ٓج کل سیاستدانوں پر کوئی اعتبار نہیں کرتا ۔ وہ دن دور نہیں جب اترپردیش اور بہار کےعوام اپنے رہنماوں کو دوڑا دوڑا کر ماریں گے ۔ وکاس دوبے نے جو پیشنگوئی کی تھی جلد یا بہ دیر ضرور پوری ہوگی لیکن اس کا مشاہدہ وہ نہیں کرسکے گا اس لیے کہ اس کو انہیں لوگوں نے موت کی نیند سلا دیا ہے۔ وکاس اس دنیا سے جاتے جاتے اس حقیقت کو کھول کر چلا گیا ملک کے سیاسی آقا کس قدر ناقابلِ اعتماد ہیں ۔ ان لوگوں نے پولس کے محکمہ کو کس قدر کمزور کردیا ہے۔ وہ کس طرح اس کا استعمال کررہے ہیں ۔ ذرائع ابلاغ کے اندر وکاس کے بارے میں طرح طرح کی کہانیوں کی آڑ میں سیاسی آقاوں کی پردہ پوشی، خوشامد اور تعریف و توصیف بتا رہی ہے کہ جمہوریت کا یہ چوتھا ستون ایچ ایم وی کے اس کتے کی مانند ہے جو میگافون یعنی آقا کے سامنے سرجھکائے بیٹھا رہتا تھا ۔

وکاس کے گرفتاری سے سوالات کا جو سلسلہ شروع ہوا تھا وہ موت کے بعد بھی جاری ہے۔ یہ سوالات ایک تو ہلاک شدہ پولس والوں کے اعزہ و اقرباء کی جانب سے سامنے آئے کہ جن کو وکاس دوبے نے بے دردی سے مارڈالا تھا اور دوسرے سابق پولس افسران نے کیے نیز سیاست دانوں کے ذریعہ پوچھے گئے سوالات بھی ہیں ۔ ان کا جائزہ دلچسپی سے خالی نہیں ہے۔آنجہانی ڈی ایس پی دیویندر مشرا کے رشتے دار کملا کانت نے گرفتاری کے بعد الزام لگایا تھا کہ وکاس کو بچایا گیا ہے اور اس گرفتاری میں اونچی سطح پر ملی بھگت ہوئی ہے۔ وکاس نے منصوبہ بند طریقہ پر خود سپردگی کی ہے۔ انہوں وکاس دوبے کے ۱۲ گھنٹوں کے اندر فریدآباد سے اجین پہنچ جانے اور پولس کے میڈیا کے ساتھ گرفتار کرنے پر سوال کھڑے کیے تھے ۔ کملا کانت کی کی ساری باتیں درست تھیں لیکن شاید درمیان میں حکومت کی نیت بدل گئی اوربازی الٹ گئی ۔ اس کے باوجود ان کا آخری سوال اب بھی اہم ہے کہ ۸ پولس والوں کے قتل میں وکاس کے علاوہ اور لوگ بھی شامل تھے جو اسے اب تک بچا تے رہے ہیں۔ دوبے نے انہیں کے مشورے پر خود کو حوالے کیا ہے۔ وکاس کو یقین تھا کہ اسے بچا لیا جائے گا ۔ وکاس کے رابطے سرگرم ہیں ۔ اس میں شامل لوگوں کی پہچان ہونی چاہیے ۔ دراصل ہوا یہ کہ وکاس کو بچانے والوں نے ہی آخر اسے مروا دیا تاکہ ان کی شناخت نہ ہوسکے۔ پولس کا دعویٰ ہے، وہ بھاگ رہا تھا لیکن پیٹھ کے بجائے سینے میں لگی گولی اسکو جھٹلا رہی ہے ۔

وکاس کے ذریعہ موت کے گھاٹ اتارے جانے والے پولس حولدار راہل کے والد اور سبکدوش پولیس سب انسپکٹر اوم کمار نےگرفتاری کے بعد کہا تھا میں مطمئن نہیں ہوں مجھے تسکین تبھی ملے گی کہ جس نے جو کیا ہے اسے وہی سزا دی جائے۔ممکن ہے اس انکاونٹر کے بعد اوم کمار کو اطمینان ہوا ہو مگر پھر بھی ان کےاعتراضات قابل توجہ ہیں مثلاً وکاس کی گرفتار ی میں 100 ٹیمیں اور 10 ہزار جوان لگائے گئے ، سبھی سرحدیں سیل کردی گئیں ، پھر وہ پہلے فریدآباد اس کے بعد اجین کیسےپہنچ گیا، اس کی جانچ ہونی چاہیے۔ اس کا مندر میں اپنے نام سے پرچی بنوانا اور خود کو گرفتاری کے لیے پیش کرنا بھی شکوک پیدا کرتا ہے۔ اوم کمار نے سابق تھانہ انچارج ونئے تیواری سمیت سارے دھوکے بازوں پر کارروائی کا مطالبہ کیا تھا لیکن ایسا لگتا ہے اب نہ کوئی جانچ ہوگی اور نہ کارروائی سارا معاملہ لپیٹ کر ٹھنڈے بستے کی نذر کردیا جائے گا۔

پرتاپ گڑھ کے آنجہانی پولس افسر انوپ سنگھ کے والد رمیش سنگھ نے گرفتاری کے بعد سیاستدانوں کے کردار پر سوال اٹھائے تھے ۔ انہوں نے کہا تھا وکاس کی گرفتاری میں پولس اور سیاستدانوں کی ملی بھگت ہے اسی لیے وہ سرحد بند ہونے ے باوجود مدھیہ پردیش چلا گیا ۔ وکاس کا انکاونٹر ہونا چاہیے ۔ اس انکاونٹر کے بعد رمیش سنگھ کا من شانت ہوا ہوگا ۔اور سچ تو یہ ہے انہیں جیسے لوگوں کو مطمئن کرنے کے لیے یہ ماورائے دستورقتل کیا گیا۔ متھرا کے آنجہانی سپاہی جتندر پال کے والد نے کہا تھا وکاس سے پہلے ان غداروں کو سزا ملے جنہوں نے پیٹھ میں چھرا گھونپا ہے ، لیکن چونکہ انہیں بچانے کے لیے وکاس کا بلیدان دے دیا گیا اس لیے اب چھرا گھونپنے والوں کی پیٹھ سہلائی جائے گی۔ جیتندر پال کے اہل خانہ تو اسے چوراہے پر پھانسی دینے کا مطالبہ کررہے تھے ۔ بلند شہر کے رہنے والےزخمی سپاہی اجئے کشیپ نے بھی پھانسی کا مطالبہ کیا تھا کیونکہ مرنے والوں کو سچا خراج عقیدت یہی ہے۔ پھانسی تو عدالت کے فیصلے کے بعد ہوتی لیکن یوگی سرکار کو عدلیہ میں یقین نہیں ہے ۔ اس کو یہ خوف بھی رہا ہوگا کہ سماعت کے دوران وکاس کے ساتھ پوشیدہ تعلقات باہر آجائیں گے اس لیے عدالت کے باہر ہی اسے نمٹا دیا گیا ۔

سینیر پولس افسر اور آئی جی سیول ڈیفنس امیتابھ ٹھاکر نے وکاس کی گرفتاری کے بعد ایک ٹویٹ کرکے سب کو چونکا دیا تھا ۔ انہوں نے لکھاتھا کہ ’ہم وکاس دوبے کو گرفتار نہیں کرپائے اور اس نے اجین میں خود سپردگی کی ۔ اتنے بڑے واقعہ کے بعد بھی ہم اسے گرفتار نہیں کرسکے اور وہ کئی مقامات پر گھومتا رہا اس لیے مجھے لگتا ہے کہ اس نکتے کی گہرائی سے تفتیش ہونی چاہیے۔ ایک اور ٹویٹ کرکے انہوں نے لکھا ہوسکتا ہے کل وہ یوپی پولس کی حراست سے بھاگنے کی کوشش کرے ، مارا جائے ۔ اس طرح یہ باب بند ہوجائے گا لیکن میری نگاہ میں اصل ضرورت اس سانحہ سے پولس کے اندر سامنے آنے والی گندگی کو ایمانداری سے دیکھتے ہوئے اس پر غیر جانبدارانہ اور سخت کا رروائی کرنے کی ہے۔ امیتابھ ٹھاکر نے جس اندیشے کا اظہار کیا تھا وہ صد فیصد درست نکلا مگر اسی کے ساتھ اب غیر جانبدارانہ تفتیش اور سخت کارروائی کا دروازہ بھی بند ہوگیا ۔آنجہانی دیویندر مشرا نے کانپور کے ایس ایس پی اننت دوے کو ایک خط میں ۳ ماہ قبل یہی سب لکھا تھا ۔ انہوں نے ایک سنگین واقعہ کا امکان ظاہر کیا تھا اور وہ ہوگیا جس میں ان کو اپنی جان گنوانی پڑی ۔ اس وقت اگر سرکار اس پر توجہ دیتی تو ان کی اور دیگر ساتھیوں کی جان نہیں جاتی ۔

اس بابت یوپی کے سابق ڈی جی پی وکرم سنگھ نے گرفتاری کے بعد کہا تھا کہ وکاس سے پوچھ تاچھ کی جائے تو بڑے بڑے لوگوں کے نام سامنے آئیں گے۔ اس میں آئی اے ایس ، آئی پی ایس اور سیاسی رہنماوں کے نام ہوسکتے ہیں ۔ وکاس کا اجین میں پکڑا جانا سمجھ سے باہر ہے۔ وکاس کا کانپور سے قریب انکاونٹر وکرم سنگھ کے بیان کو سچ ثابت کرتا ہے ۔ جنبڑے بڑے لوگوں کا وکرم سنگھ نےذکر کیا تھا انہیں لوگوں نے اپنی جان بچانے کی خاطر ایک سازش کے تحت وکاس کو وناش میں بدل دیا۔ سچ تو یہ ہے وکاس دوبے نے اپنی زندگی میں اور موت کے بعد یوگی راج کو پوری طرح بے نقاب کر دیا ہے۔ اتنی بڑی خبر بنے اور ہمارے سیاستداں اس کا فائدہ اٹھانے سے چوک جائیں یہ کیسے ہوسکتا ہے۔ مدھیہ پردیش میں چونکہ اس ڈارمہ کا کلائمکس ہوا اس لیے وہیں کے رہنما وں نے شروعات کی ۔ رسہ کشی کی ابتدا بی جے پی والوں کی خود ستائی سے ہوئی اور پھر کانگریس نے طعن و تشنیع کا دہانہ کھول دیا ۔

کانگریس کے سابق وزیر جیتو پٹواری نے سب سے پہلے لکھا کہ ۶ سالوں سے بی جے پی جس وکاس (ترقی) کی تلاش کررہی تھی وہ یوگی کے یوپی میں برآمد ہوا ۔اس کے برعکس وزیر اعلیٰ شیوراج چوہان نےگرفتاری کے بعد ٹویٹ میں لکھا تھا کہ جن کو لگتا ہے کہ کہ مہاکال کی پناہ میں آنے سے ان کے سارے پاپ دھل جائیں گے انہوں نے مہا کال کو جانا ہی نہیں ہے۔ ہماری سرکار کسی بھی مجرم کو بخشنے والی نہیں ہے ۔ نہیں بخشنے کا مطلب انکاونٹر ہوتا ہے یہ اب معلوم ہوا۔ مدھیہ پردیش کے وزیر داخلہ نروتم مشرا نے یہ لطیفہ سنایا کہ یہ گرفتاری ہے یا خودسپردگی یہ بات کچھ دیر بعد واضح ہوگی۔ کیا اس سے بڑا کوئی مذاق ہوسکتا ہے کہ وزیر داخلہ کو اتنے بڑے مجرم کے بارے میں یہ بنیادی معلومات بھی نہ ہو۔ دراصل وہ جو بھی تھا بالآخر ایک انکاونٹر کا پیش خیمہ ثابت ہوا۔ نروتم مشرا نے غالباً سابق وزیر اعلیٰ اکھلیش یادو کے سوال کے جواب میں یہ لکھا تھا ، جس میں پوچھا گیا تھا کہ حکومت یہ واضح کرے کہ وہ گرفتار ہوا ہے یا اس نے خود پولس کے حوالے کیا ہے ؟ اس کے بعد اس کے فون کی تفصیل کو عام کرے تاکہ وکاس کے سیاسی آقاوں کا پتہ چل سکے لیکن اس طرح اپنے پیر پر کلہاڑی چلانے کی غلطی بھلا کون کرسکتا ہے ؟

انکاونٹر کے بعد اکھلیش نے اپنے دلچسپ ٹویٹ میں لکھا ’’ در اصل کار نہیں پلٹی ہے ، راز کھلنے سے سرکار پلٹنے سے بچائی گئی ہے۔ دگوجئےے سنگھ کو ایم کے وزیر پر خودسپردگی کروانے کا الزام لگاچکے تھے اور انہوں نے تفتیش کی خاطر وکاس دوبے کی کڑی حفاظت کا مطالبہ کیا تھا مگر ایسا نہیں ہوا ۔ انکاونٹر کے بعد وہ بولے ’’ جس کا شک تھا وہی ہوگیا۔ وکاس دوبے کے کن کن سیاسی رہنماوں اور پولس افسران سے رابطہ تھا یہ اجاگر نہیں ہوپائے گا ۔ سبھی انکاونٹر کا پیٹرن (طریقۂ کار) ایک جیسا ہے۔ بنی نوعِ انسان کو غوروفکر کی دعوت دینے والی آفاق و انفس کے اندرپھیلی ہوئی نشانیوں میں آئے دن رونما ہونے والے واقعات بھی شامل ہیں۔ وہ ہمیں آئینہ دکھا کر کہتے ہیں اس شعبۂ حیات میں کون سی کمزوری اور کوتاہی اصلاح طلب ہے ۔مثلاً کورونا نے احساس دلایا کہ انفرادی سطح پر ہمارے معاشرے میں سنگدلی کا دور دورہ ہے ہم اپنے ہی معاشرے کےلوگوں کا دکھ درد کو محسوس نہیں کرتے ۔ اسی طرح یہ بھی پتہ چلا کہ ہمارا صحت عامہ کا شعبہ اپنے اندر کسی ناگہانی صورتحال کا مقابلہ کرنے کی سکت نہیں رکھتا ۔ چین کے حملے نے ایک طرف تو یہ واضح کیا کہ اپنے ہم سایہ ملک کا مقابلہ کرنے کے لیے ہماری تیاری خاطر خواہ نہیں ہے۔ اسی کے ساتھ خارجہ پالیسی کی ناکامی اور اس پر نظر ثانی کی ضرورت کا احساس بھی دلایا۔ اسی طرح وکاس دوبے کے سانحہ نے ہمیں بتایا کہ ملک میں پولس کا نظام بے حد کھوکھلا ہوچکا ہے۔ عدلیہ کو بے اثر کردیا گیا کہ اس کی مرضی کے بغیر موت کے فیصلے بھی ہونے لگے ہیں ۔ آج مجرموں کے ساتھ بغیر فیصلے کے جو ہورہا ہے کل وہ ہر مخالف کے ساتھ ہوسکتا ہے ۔ ہندوستان کے اندر یہ جنگل راج کی ابتدا ہے۔ ایسے وکاس اپنی موت سے پوری قوم کو یہ پیغام دے گیا ہے کہ ؎
ابتدائے قتل ہے ہنستا ہے کیا
آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1449435 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.