اسلام آبادمیں مندرکی تعمیرکامعاملہ اسلامی نظریاتی کونسل
میں پہنچ چکاہے کونسل کے ریسرچ ونگ نے اس پرتحقیق شروع کردی ہے اورستمبرکے
اوائل میں اس حوالے سے کونسل کی رائے منظرعام پرآنے کاامکان ہے
مگرمندرمعاملے پرچندسیاسی جماعتوں ،دیسی لبرلزاوراین جی اومافیانے سیاست
شروع کررکھی ہے ساون کے مہینے میں جس طرح مینڈکیں بلوں سے نکل کرٹرٹر کرتی
ہیں اسی طرح نام نہادسول سوسائٹی بھی خاص موقع پرباہرنکلتی ہے یہ سول
سوسائٹی کے نمائندے اس وقت ٹرٹرکرتے ہیں جب کسی معاملے میں مغرب یابین
الاقوامی طاقتوں کی خوشنودی مقصود ہوتی ہے ۔
مندرکے معاملے کومذہبی رنگ دینے کی کوشش کی گئی حالانکہ مذہبی جماعتوں نے
اس معاملے پر صدیوں سے فقہاء کی آراء پرتوجہ دلائی اورسوالات اٹھائے ،مذہبی
جماعتوں نے ا س حوالے سے کوئی جلوس نہیں نکالاالبتہ بیانات کے ذریعے اعلی
حکام تک یہ بات پہنچائی کہ آیااسلامی مملکت میں سرکاری خرچ سے
نیامندرتعمیرکیاجاسکتاہے ؟جبکہ اس کے مقابلے میں نام نہادسول سوسائٹی
اورمادرپدرآزادنوجوانوں نے مندرکی تعمیرکے حق میں اسلام آبادمیں احتجاج
کیاا ین جی اوز کی بھاگ دوڑشروع ہوگئی حتی کہ ایمنسٹی انٹرنیشنل بھی اس
میدان میں کود پڑاایک مرتبہ پھراقلیتوں کے حقوق کاڈھنڈورہ پیٹاجانے
لگاحالانکہ ملک پاکستان میں اقلیتوں کوکوئی مسئلہ نہیں ۔جہاں تک اقلیتوں کے
حقوق کی بات ہے تواس واویلے کامقصدیہ ہے کہ ہم اپنی اسلامی تعلیمات ،اپنے
آئین ،تہذیب ،ثقافت اورقانون کوملیامیٹ کردیں ؟
مندرکے معاملے پربین المذاہب ہم آہنگی کاچورن بیچنے والے سخت مشکل میں
نظرآئے کیوں کہ اگروہ مندرکی مخالفت کرتے ہیں تومغربی طاقتیں ناراض ہوجائیں
گی اوران کے فنڈزبندہوجائیں گے یامستقبل میں پروجیکٹ کے حصول کاامکان معدوم
ہوجائے گا اوراگرمندرکی حمایت کرتے ہیں تومسلمانان پاکستان کی طرف سے انہیں
طعن وتشنیع کانشانہ بنایاجائے گا اس لیے ان کی حالت یہ ہے کہ
آدھاتیتراورآدھابٹیروالے بیانات دے رہے ہیں ،تاکہ راضی رہے رحمن بھی خوش
رہے شیطان بھی ۔
جنرل (ر)پرویزمشرف کی روشن خیالی اوراین جی اوزملک میں دخل اندازی کے
بعدپاکستان کے سماج میں ایک ایساگروہ بھی پیداہوگیاہے جواپنے آپ کومذہبی
طبقے سے گردانتاہے اس کی وضع قطع علماء جیسی ہے وہ کسی مدرسے میں مدرس کسی
مسجدمیں امام ہیں یاکسی عالم کے بیٹے ہیں مگرحقیقت میں یہ ان این جی اوزکے
ایجنٹ ہیں ان کے خیالات ان لبرل سے بھی زیادہ خطرناک ہیں اوریہ وہ گروہ ہے
کہ جوان این جی اوز،سول سوسائٹی اورلبرلزکاسہولت کارہے یہ ہرمذہبی معاملے
کو مغرب کی آنکھ سے دیکھتاہے مندرکے معاملے پران کی بے چینی اورپھرتیاں
دیکھنے کے لائق ہیں ۔ان کابس نہیں چل رہاورنہ یہ سب مندرکی دیوارمیں اپنے
اپنے نام کی اینٹ لگانے کوتیارہیں ۔
مندرکے معاملے پرلبرل مافیاکی بدحواسیاں اپنی جگہ ۔ مگرسیاسی جماعتیں بھی
بہتی گنگامیں ہاتھ دھونے کے لیے سامنے آگئیں کہنہ مشق سیاست دان بھی عالمی
طاقتوں کوخوش اوراپنے آپ کولبرل ثابت کرنے کے لیے تمام حدود پھلانگ گئے
،مسلم لیگ ن کے خواجہ آصف ہوں ،یاپیپلزپارٹی کے نویدقمر،پی ٹی آئی کے
فوادچوہدری ہوں یااے این پی کے ایمل ولی خان سب نے ایڑیوں کے بل کھڑے
ہوکراپنے نمبربنانے کی کوشش کی ،ان کے بیانات د یکھ کرعام مسلمان یہ سوال
کرنے میں حق بجانب ہے کہ انہیں مندرسے اتنی ہی محبت ہے توان سب کے پاس کئی
سوایکڑزمینیں موجودہیں یہ ان میں مندرکے لیے دوچارکنال زمین کی فراہمی
اعلان کیوں نہیں کرتے ؟ان میں سے ہرایک کروڑوں کامالک ہے یہ اگراتنے ہی
لبرل ہیں تواس میں سے چندکروڑروپے مندرکی تعمیرکے لیے دینے کی جرات کیوں
نہیں کرتے ۔؟
ان حالات میں وزارت مذہبی امورکیسے پیچھے رہے سکتی ہے اگرچہ وفاقی
وزیرمذہبی امورپیرنورالحق قادری اپنے قائدعمران خان کی طرح کریس سے باہرنکل
کرچھکامارنے کی کوشش کرتے ہیں مگراکثرلڑکھڑاجاتے ہیں اسلام آبادمیں جب
مندرکی بنیادرکھی گئی تووزارت مذہبی امورکے ذرائع سے خبرمنظرعام پرآئی کہ
پاکستان میں بسنے والے مذاہب اسلام، ہندو، عیسائی، سکھ اور پارسی مذاہب کی
عبادت گاہیں (انٹرفیتھ انکلیو) بنایاجائے گا۔وزیراعظم نے وزیر مذہبی امور
کو منصوبہ کو عملی جامہ پہنانے کیلئے گرین سگنل دیدیا۔وفاقی وزیر مذہبی
امور پیر نورالحق قادری نے وزیراعظم عمران خان کو تجویز دی کہ اسلام آباد
کے سیکٹر ایچ نائن تھری میں جہاں ہندوں کے لیے مندر بنایا جانا ہے وہیں پر
سکھ برادری کے لیے گردوارہ مسلمانوں کے لیے مسجد ،عیسائیوں کے لیے چرچ اور
پارسیوں کے لئے بھی عبادت گاہ بنائی جائے۔وزیراعظم عمران خان نے تجویز کو
خوش آئند قرار دیتے ہوئے ہدایت کی کہ متعلقہ اداروں سے رابطہ کرکے حتمی
پرپوزل منظوری کے لئے بھجوایا جائے۔ وزارت مذہبی امور آئندہ چند روز میں
سمری وزیراعظم کو ارسال کر دیں گے۔
یہ انٹرفیتھ انکلیوبھی اسی بین الاقوامی مہم کاحصہ ہے اس حوالے سے دوبئی
میں اس طرح کاانکلیوبنایاجارہاہے وزیرمذہبی امورکے مطابق اس کامقصدیہ ہے کہ
اس اقدام سے پاکستان کا عالمی سطح پر امیج بھی بہتر ہوگا اور دنیا میں بین
المذاہب ہم آہنگی کا زبردست نمونہ بھی سامنے آئے گا۔وزیرمذہبی اموراورمغربی
طاقتوں کے ہم نوااقلیتوں کے نام پرہی پاکستان کاامیج بہتربنانے کی کوشش
کیوں کرتے ہیں ؟وہ طیب اردوان کی طرح ملک کاامیج بہتربنانے کی کوشش کیوں
نہیں کرتے ؟جوعجائب خانے کومسجدمیں بدلتاہے ،اسلام آبادمیں آئے
روزمساجدکوشہیدکیاجارہاہے مگروزیرمذہبی اموراوران کے ہم نواؤں نے کبھی
مساجدکی تعمیرکااعلان کرکے پاکستان کا امیج بہتربنانے کی بات نہیں کی ۔کیوں
؟
اسلام آبادمیں مندرکی تعمیرشروع ہوئی تووزیرمذہبی امورنے وزیراعظم
کوتجویزدی کہ اس کی تعمیرکے لیے دس کروڑروپے سرکاری خزانے سے دیے
جائیں،ہمارے ملک کی واحدوزارت مذہبی امورہے جواپنے ترقیاتی بجٹ میں
مساجد،مدارس کے لیے رقم مختص نہیں کرتی ،2019/20کے بجٹ میں وزارت مذہبی
امورکے لیے ایک ارب روپے کی رقم مختص کی گئی تھی جوکرتارپورہ میں زمین کی
خریداری اورعمارت کی تعمیرکے لیے خرچ کیے گئے ،وزارت مذہبی امورعازمین حج
کی رقم سے آنے والی سود کے پیسے بھی ہضم کرجاتی ہے مگرکسی کوکانوں کان
خبرنہیں ہوتی ۔سوال یہ ہے کہ موجودہ حکومت کرتارپورہ سے اسلام آبادمیں
مندرکی تعمیرتک کون سی ریاست مدینہ بنارہی ہے ؟موجودہ حکومت نے اقلیتوں کے
علاوہ مسلمانوں کے لیے کیاکارہائے سرانجام دیے ہیں ؟ایک حج تھا وہ بھی کئی
سوگنامہنگاکرکے عام مسلمان کے لیے مشکل تربنادیاہے ۔
مندرکامعاملہ اب اسلامی نظریاتی کونسل کے پاس ہے،کونسل کی رائے اپنی جگہ
مقدم ہے مگرسوال یہ ہے کہ تمام مسالک کے مفتیان کرام اسلامی نظریاتی کونسل
کی رائے کوحتمی سمجھتے ہیں ؟جبکہ لبرل توشروع سے یہ پروپیگنڈہ کررہے ہیں کہ
اسلامی نظریاتی کونسل کی ممبرشپ سیاسی رشوت کے طورپردی جاتی ہے ایسے میں
کونسل کی رائے لبرل اوراین جی اومافیاکوبھی قبول ہوگی ؟اگرچہ موجود ہ
چیئرمین نے کونسل میں این جی اوزکاعمل دخل بہت زیادہ بڑھادیاہے( اس کی
تفصیل کاکالم متحمل نہیں )سوال یہ بھی ہے کہ کونسل کی سینکڑوں سفارشات
حکومت کے پاس ہیں مگرکیاحکومت نے ان پرعمل درآمدکیاہے ؟اوراب مندرکامعاملہ
حکومت اسلامی نظریاتی کونسل کے سرتھونپ کرکیامقاصدحاصل کرناچاہتی ہے ؟
مندرکے معاملے پرکونسل کودیکھناہوگا کہ اسلام آبادمیں زیادہ ترہندوآبادی
کچی آبادیوں میں ہے جوکہ غیرقانونی ہیں کل اگران کچی آبادیوں کوشہرسے
باہرمنتقل کردیاجاتاہے تواسلام آبادکے وسط میں بننے والے مندرکاکیاجوازرہے
جائے گا ؟اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی دیکھناہوگا کہ سی ڈی اے کے ماسٹرپلان میں
مندرکی تعمیرہے کہ نہیں ؟ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں اقلیتوں کو اسلام اور
آئین کے تحت جملہ شہری حقوق حاصل ہیں اپنی عبادت گاہوں میں مذہبی رسوم ادا
کرنے کی مکمل آزادی ہے مختلف اقلیتوں کو اپنی عبادت گاہیں گرجا گھر مندر
اور گوردوارے تعمیر کرنے کا حق ہے اور کوئی شخص رکاوٹ ڈالنے کا مجاز نہیں
حکمران نہ مذہبی پیشوا۔البتہ چندلوگوں کی دوکانداری کامسئلہ ہے کہ جواقلیتو
ں کے حقوق کے نام پردین فروشی ،غیرت فروشی میں مصروف ہیں ۔
بت شکن اٹھ گئے، باقی جو رہے بت گر ہیں
تھا براہیم پدر اور پِسر آزر ہیں
بادہ آشام نئے، بادہ نیا، خم بھی نئے
حرمِ کعبہ نیا، بت بھی نئے، تم بھی نئے
|