پاکسان تحریک انصاف جو کہ انصاف کا نعرہ لے کر آئی اور
کرپشن کے خاتمے کی بات کی اور تعلیم ، صحت اور صوبہ سرائیکستان کی بات کی
اور اپنا ایک بہترین منشور پیش کیا۔ عمران خان الیکشن سے قبل اپنی دھواں
دھار تقاریر میں باہر کے ممالک کے لوگوں کو نوکریاں دینے کی بات بھی کرتے
تھے ، عمران خان نے اپنی الیکشن مہم کے دوران ایک دس نکاتی ایجنڈہ بھی پیش
کیا تھا ۔ عمران خان نے کہا تھا کہ کسانوں کو ریلیف دینگے زراعت کو ترقی کی
جانب لے کر جائیں گے۔ نوجوانوں پر خصوصی توجہ دینگے انڈسٹری کو پھر سے کھڑا
کرینگے۔ پی آئی اے، ریلوے کو نقصان سے نکالیں گے ان وعدوں کے علاوہ اور بھی
بہت سارے وعدے اس قوم سے کیے مگر رزلٹ سب اس کے برعکس ہے۔
یہاں پر ایک بات سب سے زیادہ قابل ذکر ہے کہ پی ٹی آئی نے سرائیکی قوم سے
صوبے کا وعدہ کیا تھا کہ 100دنوں میں صوبہ دینگے۔ اس سازش میں خسرو بختیار
سب سے آگے تھے جنہیں سرائیکی قوم غدار تصور کرتی ہے اور انہی غداروں کی وجہ
سے حکومتیں اس قوم سے ہر بار دھوکہ کرتی ہیں ۔ پی ٹی آئی نے بھی باقی
جماعتوں کی طرح روایت کو برقرار رکھا اور اس قوم کو دھوکہ دیا اب یہ حکومت
اس قوم کو سیکریٹریٹ کے نام پر لولی پاپ دے رہی ہے جسے سرائیکی تحریک کے
رہنماؤں نے واضح طور پر مسترد کر دیا ۔پی ٹی آئی اپنی اس غلیظ حرکت سے اس
قوم کو تقسیم کرنے کی سازش کررہی ہے جس طرح سابقہ حکومتوں نے کیا خاص طور
پر ن لیگ نے سرائیکی قوم کو تقسیم کرنے کیلئے مختلف سازشیں کیں۔ کبھی محمد
علی درانی، کبھی بشیر چیمہ کبھی کوئی اوراسی طرح مسلم لیگ ق بھی ان کی
حمایتی رہی اور سرائیکی قوم کو تقسیم بلکہ ان کی شناخت کو مٹانے کی کوششیں
کی جاتی رہیں۔ اپنے ان اعمال سے انہوں نے ثابت کیا کہ یہ کبھی اس قوم کی
خیرخواہ جماعتیں نہیں ہیں۔ اب پاکستان تحریک انصاف بھی ان کے نقش قدم پر چل
رہی ہے جس کے نتائج کا ابھی انہیں کچھ بھی اندازہ نہیں ہے کہ آمدہ الیکشن
میں ان کا کیا حشر ہوگا۔
بجٹ اور سیکریٹریٹ کے معاملہ پر سرائیکی تحریک کے رہنماؤں کا موقف بالکل
واضح ہے انہوں نے بجٹ اور سیکریٹریٹ کو یکسر مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے
کبھی بھی سیکریٹریٹ کا مطالبہ نہیں کیا ہمارا مطالبہ ہے کہ ہمیں ہماری
شناخت کے مطابق اور مکمل جغرافیے کے اعتباز سے ایک مکمل صوبہ چاہیے کیونکہ
ہمارے زخموں کا واحد مرہم صرف صوبہ سرائیکستان ہے نہ کہ جنوبی پنجاب
سیکریٹریٹ انہوں نے کہا کہ ہر بجٹ میں سرائیکی قوم کے ساتھ نا انصافی، بد
عہدی، بے ایمانی کی جاتی ہے اور اس قوم کے حق پر ڈاکہ مارا جاتا ہے انہوں
نے کہا کہ جتنا بجٹ صرف ضلع لاہور کو دیا جاتا ہے اتنا ہی پورے خطہ
سرائیکستان کے حصہ میں آتا ہے جو کہ سراسر زیادتی اور ظلم ہے ۔
غاصب و استحصالی طبقہ شاید یہ بات بھول چکا ہے کہ وہ اس قوم کو بطور محکوم،
محروم و تیسرے درجے کا شہری سمجھتے ہیں مگر جب ایسی قوم کے ساتھ حد سے
زیادہ ظلم، جبر و زیادتی کی جاتی ہے تو پھر انقلاب جنم لیتا ہے اس قوم کے
ساتھ ایک تو اپنے غدار غداری کے مرتکب ہو رہے ہیں جبکہ دوسری جانب حکمران
اس قوم کو پیسے کے چکر میں ہیں ۔ حکمرانوں کی اسی مجرمانہ غفلت کی وجہ سے
یہ قوم آہستہ آہستہ سرخ نشان کی جانب بڑھ رہی ہے ۔ تخت لہور کے غلاموں اور
سازشیوں نے ہمیشہ اس قوم کو بے وقوف بنانے کی گھیٹیا سوچ کو اپنایا اور
ہمیشہ یہی نعرہ لگا کہ ترقی کا رخ جنوبی پنجاب کی طرف موڑ دیا گیا ہے ان
الفاظ کی بھی اب اہمیت ختم ہورہی ہے کیونکہ یہ قوم گزشتہ چند دہائیوں سے
دیکھ رہی ہے کہ ترقی کا رخ کس جانب ہے
ایک خبر رساں ادارے کی ایک تصدیق شدہ خبر کے مطابق 2012میں پنجاب کے780
بلین کے بجٹ میں سرائیکی قوم کے اعلان کردہ صرف 60ارب میں سے 23ارب خرچ
ہوئے جبکہ این ایف سی ایوارڈ کے سالانہ 800ارب روپے کا حصہ الگ بنتا ہے ۔
جبکہ 2013میں 871بلین کے بجٹ 62بلین میں سے 18بلین خرچ ہوئے، 2014میں
1447بلین کے بجٹ میں 70بلین میں سے 23بلین خرچ ہوئے، 2015میں 1500کے بجٹ
میں سے 97بلین کے بجٹ میں سے 44بلین خرچ ہوئے ، 2016کے بجٹ میں 1680بلین کے
بجٹ میں وسیب کے حصہ میں 100بلین آیا اور خرچ 57بلین ہوئے ، 2017کے بجٹ میں
1970بلین کے بجٹ میں خطہ سرائیکستان کے حصہ میں 120بلین حصہ آیا جس میں سے
62بلین خرچ ہوئے، 2018میں 2026بلین کا بجٹ بنا اور وسیب کے لیے 170بلین کا
حصہ آیا اور خرچ 90بلین ہوئے جبکہ 2019-20کا بجٹ 2150بلین کا رہا اور خطہ
سرائیکستان کے حصہ میں 350بلین آئے اور خرچ 159بلین ہوئے جبکہ باقی رقم
واپس جاتی رہی یاد رہے این ایف سی ایوارڈ کی رقم علاوہ ہوتی ہے جو کہ وسیب
کو کبھی نہیں مل سکی ۔ اسی طرح اس سال 2020-21کا بجٹ 2240بلین کا رہا جس
میں سے 649بلین وسیب کے حصہ میں تو آیا مگر لگتا یہی ہے کہ ہمیشہ کی طرح
امسال بھی وسیب کے ساتھ ہاتھ ہوگا اور وسیب کا حصہ تخت لہور کے درباری اور
تخت لہور پر قابض ڈکار جائیں گے اور خطہ سرائیکستان کے حصہ میں 649بلین کے
آدھا بھی خرچ نہ ہو اور باقی واپس چلا جائے اور اپر پنجاب یعنی لاہور پر ہی
ہو۔
اس بار گورنمنٹ کے پاس بہانہ بھی ہے کہ کورونا کیوجہ سے کام نہیں کر سکے تو
کیا یہ حکومت سابقہ ادوار کا بھی کوئی جواز رکھتی ہے ۔ کہاں ہی وہ ترقی کے
رخ جو اس خطہ کی جانب موڑ دئیے ہیں اگر ترقی کا رخ اس خطہ کی جانب موڑ دیا
ہوتا تو ماہ رمضان جیسے مقدس مہینے میں کوٹ ادو کا ایک غریب خود کشی نہ
کرتا یہ تو وہ کنبہ تھا جو خبروں کی زینت بن کر اس حکومت کے سامنے آیا مگر
ایسے کئی خاندان اب بھی موجود ہیں جن کا سوائے اﷲ کے کوئی آسرا نہیں اور ان
کا کوئی یارومدد گار نہیں ۔
اس وسیب کی صورتحال پر بہت سارے اداروں نے ، کالم نگاروں نے، ادیبوں نے،
شعراء کرام نے ،ریسرچر نے اپنے اپنے خیالات لکھے، اس علاقے کی محرومی، دکھ
درد، تکالیف، پریشانیاں، حالات، اندھیروں سے متعلق لکھا ۔ کئی لکھاریوں نے
لکھا کہ یہاں انسان غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارتے ہیں۔ کئی ریسرچر نے
لکھا کہ یہاں آج بھی انسان اور جانور ایک ہی جگہ سے پانی پیتے ہیں۔ یہاں کے
لوگوں کو صاف پانی تک میسر نہیں۔ رب کرے کہ ہمارے ان اندھے، بہرے اور بیمار
ذہن حکمرانوں کو اس وسیب کی تکالیف نظر آ جائیں ۔ تاکہ یہاں کے انسان بھی
کم از کم انسانوں والی زندگی بسر کر سکیں۔ اﷲ تعالیٰ ہم سب کا حامی و ناصر
ہو ۔آمین
|