ہندوستان کی قومی علامت اشوک کی لاٹ میں بیک وقت تین
شیرتو نظر آتے ہیں مگر ایک پیچھے ہونے کے سبب سامنے سے دکھائی نہیں دیتا ۔
یہ تین شیر مقننہ ، عدلیہ اور انتظامیہ کی علامت تھے ۔پیچھے والا چھپا ہوا
شیر ذرائع ابلاغ تھا۔ اس کو سیاسی نظام کا چوتھا ستون بھی کہا جاتا ہے ۔
وکاس دوبے کے انکاونٹر اور اس پر عوامی ردعمل نے یہ ثابت کردیا کہ اب تیسرے
شیر کی جگہ عدلیہ کے بجائے میڈیا نے لے لی ہے ۔ غیر اعلانیہ طور پر مقننہ
کی سرپرستی میں یہ عمل بہت پہلے شروع ہوگیا تھا ۔ عدالت میں مقدمہ درج ہونے
سے قبل میڈیا ٹرائل کاشروع ہوجانا بلکہ فیصلہ سنا دیا جانا پرانی بات ہے۔
فی الحال ملک میں دیش بھکت کا سرٹیفکیٹ بانٹنے اور ملک کا دشمن قرار دینے
کا ٹھیکہ میڈیا کے پاس ہے ۔ رائے عامہ کو ہموار یا گمراہ کرکے ایسا دباو
بنایا جاتا ہے کہ عدلیہ کا انصاف پر قائم رہنا مشکل ہوجائے ۔ افضل گرو کے
معاملے میں فیصلہ سناتے ہوئے عدالت ِ عظمیٰ کو تسلیم کرنا پڑا کہ قومی
جذبات کو مطمئن کرنے کے لیے اسے موت کی سزا دی جارہی ہے ورنہ ایوانِ
پارلیمان پر حملے میں اس کے براہِ راست ملوث ہونے کا ثبوت نہیں ملا۔ وہ
قومی جذبات میڈیا کی دین تھے۔ مقننہ نے عدلیہ کے ساتھ وہی کیاجوبڑی مچھلی
چھوٹی مچھلی کے ساتھ یا بڑے ادارے چھوٹے سے اداروں کے ساتھ کرتے ہیں ، یعنی
نگل جانا۔
حکومت کے لیے سب سے بڑا چیلنج عدالت ہے ۔ اس کو نگلنے سے قبل منصوبہ بند
طریقہ پر کمزور کیا گیا۔مقدمات کے لحاظ سے ججوں کی تعداد میں خاطر خواہ
اضافہ نہیں ہوا ۔ خالی اسامیوں کو پرُ کرنے میں مجرمانہ غفلت برتی گئی۔ اس
سے فیصلوںمیں تاخیر اور عوام کے اندر عدالتی نظام کے تئیں بیزاری پیدا ہونے
لگی۔ انصاف پسند اور جری ججوں کا تبادلہ کرکے حوصلہ شکنی کی گئی۔ بے ضمیر
وں ججوں سے غیر منصفانہ فیصلے کرائے گئے مثلاًسہراب الدین اور پرجاپتی
انکاونٹر معاملے کے سارے ملزمین کا بری ہوجانا۔ بابری مسجد کے معاملے میں
فیصلے کے اندرموجود شواہد کے خلاف فیصلہ کروا کر عدلیہ کی خود مختاری پر
سوالیہ نشان کھڑا کردیا گیا اور رنجن گوگوئی کو علی الاعلان نواز کر مٹی
پلید مکمل کردی گئی۔ اس طرح تیسرے شیر کے دانت نکال کر پہلے تو پنجرے میں
بند کیا گیا اورپھر وکاس دوبے کو عدالت سے پھانسی دلوانے کے بجائے ماورائے
دستور قتل کرکےعدلیہ کا انکاونٹرکردیاگیا ۔ عوام کا اس پر افسوس کرنے کے
بجائے خوشیاں منانا اس امر کا ثبوت ہے کہ اب سماج کواس کی ضرورت نہیں ہے۔
حکومتاب اپنے ہر مخالف کو میڈیا کے ذریعہ بدنام کر کے پولس کے ہاتھوں ہلاک
کروانے کے لیے آزاد ہے ۔ حکومت ہی کیوں ، ہر بارسوخ فرد میڈیا اور پولس کو
سپاری دے کر اپنے حریف کا کانٹا نکالنے کی کوشش کرسکتا ہے۔ عدالت اس کا کچھ
بھی نہیں بگاڑسکے گی ۔ میڈیا ننگارہ بجائے گا اور عوام اس کی تھاپ پر رقص
کریں گے۔
میڈیا کی جانبداری کا یہ عالم ہے کہ تبلیغی جماعت کا مرکز اس کو کورونا
جہاد کا اڈہ نظر آتا تھا اور مولانا سعد ماسٹر مائنڈ دکھائی دیتے ہیں ۔ اس
کے برعکس مہاکال مندر میں ولاس دوبے کی گرفتاری پرقابلِ اعتراض نہیں ہوتی۔
وکاس کی پوجا کے مناظر بڑی عقیدت کے ساتھ نشر کیے جاتے ہیں کسی پجاری کو
موردِ الزام نہیں ٹھہرایا جاتا۔ میڈیا سے قطع نظر وکاس کی ماں سرلا دیوی
بھی بیٹے کی پرامن گرفتاری سے خوش ہوکر اپنا سرُ بدل دیتی ہے ۔ عالم ِ
مایوسی میں خود سپردگی پر بھی گولی مارنے کی صلاح دینے والی ماں پر امید
ہوکر کہہ دیتی ہیں کہ وہ ہر سال مہاکال مندر میں جاتا تھا۔ بھولے بابا نے
میرے بیٹے کی جان بچائی ہے ، اب سرکار کو بھی اس کی جان بخشی کردینی چاہیے۔
یہی الفاظ اگر کسی مسلم مجرم کی ماں کی زبان سے ادا ہوتے تو ٹیلی ویژن کے
پردے پرقیامت برپا ہوجاتی ۔ سوال کیا جاتا کہ مسلم قوم کے لوگ ایسا مطالبہ
کیوں کرتے ہیں؟ یہ کیسا مذہب ہے جو انہیں ایسی تعلیم دیتا ہے کہ پولس پر
گھات لگا کر حملہ کرنےو الا عبادتگاہ میں چلا جائے تو اس کے سارے گناہ معاف
ہو جاتے ہیں ۔ مسلمان اپنا موقف ظاہر کریں اور معافی مانگیں وغیرہ وغیرہ ۔
وکاس دوبے کی فلمی گرفتاری کا منظرنامہ اس طرح لکھا گیا کہ صبح چار بجے وہ
بس اسٹینڈ سے رکشا لے کر نکلا اور تین گھنٹہ اِدھر اُدھر گھومتا رہا ۔اس
دوران ایک لال گاڑی اس کا پیچھا کرتی رہی ۔ تڑکے ۷ بجے وکاس مندر کے احاطے
میں داخل ہواتو لال گاڑی ایسےغائب ہوئی کہ پھر اس کا سراغ نہیں ملا ۔ وکاس
نے وہاں موجود لوگوں سے وی آئی پی گیٹ کے بارے میں دریافت کیا؟ اس کے بعد
ایک چشم دید گواہ گوپال سنگھ سے اجازت طلب کی کہ ’کیا وہ اپنا بیگ جوتوں کے
اسٹینڈ پر رکھ سکتا ہے ؟ یہ سوالات اس دعویٰ کی تردیدکرتے ہیں کہ وہ ہر سال
مہاکال جاتا تھا۔ اگر ایسا ہوتا یہ سب کیوں پوچھتا؟ یہ بھی دلچسپ انکشاف ہے
کہ مندر کے باہر دوکاندار نے اسے پہچان لیا اور حفاظتی دستوں کو اس کی
اطلاع دے دی ۔ کیا یہ عجیب بات نہیں ہے کہ ۶ دنوں تک ۱۲۷۵ کلومیٹر کا فاصلہ
طے کرنےوالے وکاس کو کوئی نہیں پہچان پاتا لیکن گرفتاری والے دن ہر ایرا
غیرا نتھو خیراس کو پہچاننے لگتا ہے ۔
وکاس بالی ووڈ کے ہیرو کی مانند اپنے نام سے پرچی کٹوا کر درشن کےلیے اندر
داخل ہوتا ہے۔ وہ خطرناک مجرم دو گھنٹے تک مندر کے اندر بڑے آرام سے
گھومتا پھرتا ہے لیکن اس پر صرف نظر رکھی جاتی ہے کیونکہ پتہ ہے یہ بھاگنے
کے لیے آیا ہی نہیں ہے۔اس پر وزیر اعلیٰ شیوراج چوہان اپنی پولس کی پیٹھ
بھی تھپتھپاتے ہیں ۔ اس کے بعد سنی دیول کی طرح چیخ کرکہتاہے ’میں وکاس
دوبے ہوں کانپور والا مجھے گرفتار کرلو‘، ایسی حرکت تو وہی کرسکتا ہے جسے
اپنے پھر سے بری ہوجانے کا پختہ یقین ہو۔ کذب گوئی کی اہم ترین صفت اس کا
تضاد ہوتا ہے۔ اجین کے کلکٹر انٹر نیٹ پر وکاس دوبے سے متعلق شائع ہونے
والی خبریں دیکھے بغیر اس کو پکڑنے کا سہرا چوکیداروں کے سرباندھتے ہوئے
کہتے ہیں اسے اندر آنے سے پہلے حراست میں لے لیاگیا اور وہ درشن نہیں
کرپایا حالانکہ وہی چوکیدار خبر رساں اداروں کے سامنے اس کے داخل ہونے کے
بعد کی طول طویل کہانی سنا چکا ہوتا ہے۔
وکاس کی گرفتاری کو لے کر ایسی بھونڈی کہانی بنائی گئی کہ جو سی گریڈ
بھوجپوری فلموں میں بھی نہیں چل سکتی ۔ کہا گیا کہ اس کو پکڑ پوچھ تاچھ کی
گئی تو وہ ہاتھا پائی پر اتر آیا ۔ اس نے بھاگنے کی کوشش کی ۔ اس کو پھر
سے پکڑ کر بیٹھا لیا گیا اس دوران اس کا انگوچھا گر گیا ۔ اسکی تصویر بھی
شائع ہوگئی۔ اس کو گرفتار کرنے والی مقامی پولس کے پاس ڈنڈا تو نہیںہوتا
مگرساتھ میں میڈیا والے ضرور ہوتے ہیں۔ ایسے میں اگر اس کو نورا گرفتاری نہ
کہا جائے تو کیا نام دیا جائے؟ یہ سب دیکھ کر ایسا لگتا ہی تھا کہ پولس پر
گولی چلاکر کلہاڑی سے تھانہ انچارچ کا سر کٹوانے والا وکاس دوبےیہی ہے یا
کوئی اور ہے۔ فلموں کے اندر اس طرح کا ایکش شاٹ ہم شکل جونیر آرٹسٹ(کلون )
کرتا ہے ورنہ وکاس کے قریب جانے کی جرأت تو اترپردیش کے بڑے افسر افسر
نہیں کرتے تھے۔ سب سے چونکانے والاپہلو یہ ہے کہ اگر یہ گرفتاری اتفاقی تھی
تووکاس کے ساتھ لکھنو سے آنے والے دو وکیل کیوں تھے ؟ ایک فراری مجرم مندر
درشن میں اپنے ساتھ وکیلوں کوتولے کر نہیں جاتا ۔ وہ وکیل بھی خود سپردگی
کو آسان بنانے کے لیے بلا ئے جانے والے مہرے تھے ۔
وکاس کے اس قدر آسانی سے گرفتار ہوجانے سے شکوک و شبہات کا جنم لینا فطری
بات ہے۔ ایسے میں سب سے اہم سوال یہ ہے کہ لال گاڑی سے لے کر پولس تھانے تک
یہ آسانیاں کون فراہم کررہا تھا؟وکاس دوبے کی گرفتاری کو سہل بنانے کی
خاطر پہلے والی رات اجین کے ضلع مجسٹریٹ آشیش سنگھ اور پولس سپرنٹنڈٹ منوج
کمار مہاکال مندر کے ایک کمرے میں میٹنگکرنے کے لیے کس نے بھیجا تھا جبکہ
وہ درشن کیے بغیرہی لوٹ گئے تھے؟ ایک دن قبل مقامی تھانے کے انچارج اور ایک
افسر کا تبادلہ کس نے کروایا تھا ؟ ان سوالات کے جواب میں شک کی سوئی صرف
اور صرف مدھیہ پردیش کے وزیر داخلہ نروتم مشرا کی جانب گھوم جاتی ہے ۔ وکاس
دوبے کی طرح نروتم مشرا کا تعلق بھی براہمن سماج سے ہے۔ وہ اتر پردیش
انتخاب کے وقت کانپور ضلع کے نگراں تھے اس لیے ان کا وکاس دوبے سے لازماً
رابطہ ہوا ہوگا ۔ وہی فی الحال اجین ضلع کے نگرانِ کار ہیں ۔ اس لیے وزیر
داخلہ اور اس ذمہ داری کے سبب انتظامیہ پر ان کی پکڑ مکمل ہے ۔ اس طرح وہ
گتھی بھی سلجھ جاتی ہے کہ وکاس دوبے نے دہلی یا کسی اور شہر میں میں خود
سپردگی کے بجائے اجین کا انتخاب کیوں کیا؟ ضابطے کے مطابق اگر کوئی مجرم
دوسرے صوبے میں گرفتار ہوجائے تو اس کو مجسٹریٹ کے سامنے حاضر کرکے عارضی
حراست میں لیا جانا چاہیے لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔ سی ایم سے لے کر ڈی ایم
تک سبھی وکاس کی گرفتاری کی بات کررہے تھے لیکن مشرا جی کو پتہ نہیں تھا کہ
اصل صورتحال کیا ہے؟ ان کا پہلا بیان یہ آیا ، کچھ دیر میں مطلع صاف ہوگا
کہ یہ گرفتاری ہے یا خود سپردگی ۔
اس وقت ہر جگہ مدھیہ پردیش پولس کی تعریف وتوصیف اور اترپردیش پولس پر
تنقید ہورہی تھی ۔ بعید نہیں کہ اسی موڑ پر اسکرپٹ کو بدلا گیا ہو۔ فلموں
میںناظرین کا خیال کرکے منظر نامہ کا کلائمکس بدل دیا جاتا ہے۔ اس کی سب سے
بڑی مثال مغل اعظم ہے۔ امتیاز علی تاج کی انارکلی کوفلم کے آخر میں دیوار
سے چن دیا جانا تھا لیکن اس سے اکبر کی شبیہ خراب ہوتی تھی اور ناظرین کی
ناراضی کا خطرہ تھا ۔ عوام کوخوش کرنے کے لیے انارکلی کو بچا لیا گیا۔ فلم
سپر ہٹ ہوگئی۔ گلشن نندہ کےناول اجنبی میں ہیرو بالآخر مرجاتا ہے لیکن
شکتی سامنت نے فلم کو چلانے کے لیے مقدمہ چلا کر راجیش کھنہ کو بچالیا فلم
چل گئی۔ اردھ ستیہ میں وجئے تنڈولکر جیسے مصنف کو مصالحت کرنی پڑی اور
انہوں نے فلم کا نام پورا سچ کے بجائے آدھا سچ کردیا ۔ سیاست کی دنیا میں
یعقوب میمن کا معاملہ کون بھول سکتا ہے۔ سرکاری وکیل شیام کیسوانی کے مطابق
ضمانت کی تیاری ہوچکی تھی ۔ عدالت میں اس کی مخالفت نہیں کرنے کی ہدایت دی
جاچکی تھی لیکن راتوں رات سب کچھ بدل گیااور پھر واقعات کا دھارا ایسے بدلا
کہ پھانسی پر منتج ہوا۔ وکاس دوبے کے معاملہ بھی غالباً ایسا ہی کچھ ہوا۔
اس کو ۶ دنوں تک نظر انداز کرکے بچانے کی خاطر گرفتار کرنے کے بعدشاید نیت
بدل گئی اور موت کے گھاٹ اتار نے کا فیصلہ ہو گیا۔ سیاست میں رائے دہندگان
کی خوشنودی کے لیے حسبِ ضرورت اسکرپٹ بدلی جاتی ہے ۔ وکاس کی موت نے یوگی
کی سیاست میں جان ڈال دی ۔
وکاس کو مدھیہ پردیش میں گرفتار نہیں کرنے کی یہ وجہ بتائی گئی کہ اس کی
شناخت کے لیے کانپور سے آنے والی پولس کا انتظار کیا گیا۔ انٹر نیٹ کے اس
دور میں یہ مضحکہ خیز شرط تھی یعنی کوئی امریکی مجرم ہندوستان میں پکڑا
جائے تو باوجود اعتراف کے امریکی پولس کے آنے تک اس کی حراست کو مؤخر
رکھا جائے گا۔ قیاس کیا جارہا تھا کہ اترپردیش کی ایس ٹی ایف کی ٹیم چارٹرڈ
ہوائی جہاز سے اس کو اپنے ساتھ لے کر جائے گی لیکن راتوں رات سڑک کے ذریعہ
سفر کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ یہ منصوبے میں تبدیلی کی علامت تھا ْ۔ اجین سے۵
گاڑیوں کا قافلہ نکلا تو اس میں سے۲ ایم پی پولس اور تین یوپی ایس ٹی ایف
کی تھیں۔ وکاس دوبے ایم پی کی ٹویوٹا انووا میں سوا رتھا۔ یہ لوگ جھانسی
پہنچے تو وکاس کو ایس ٹی ایف کی ٹاٹا سفاری میں منتقل کردیا گیا۔ ایم پی کی
دونوں گاڑیاں لوٹ گئیں اور یوپی کی دو گاڑیوں کا اضافہ ہوگیا ۔ اس طرح مشرا
جی نے وکاس دوبے کو بحفاظت اپنی سرحد پار کرادی ۔
اس پورے سفر میں آج تک چینل کی گاڑی بھی ان کے پیچھے چل رہی تھی اور اس کے
حوالے سے خبریں مل رہی تھیں۔ یہ قافلہ آگے ایک پٹرول پمپ پر رکا تو آج تک
والوں سےپولس گاڑی کی چابی لے گئی۔ ساٹھ کلومیٹر ا کے بعد وہ چابی لوٹائی
گئی مگر وہاں سے آج تک کی دوسری ٹیم ساتھ ہوگئی۔ کانپور کے قریب کورونا کی
تفتیش کے بہانے میڈیا والوں کو پولس نے روک کر پندرہ منٹ بعد چھوڑ دیا۔ دس
کلومیٹر کےآگے نامہ نگاروں نے سڑک کے کنارے ایک گاڑی کو پلٹے دیکھا ۔ وہاں
موجود پولس نے بتا یا گائے بھینس کے اچانک راستے میں آجانے سے گاڑی الٹ
گئی اور دور تک پھسلتی چلی گئی۔ وکاس دوبےنے اس میں سے نکل کر فرار ہونے کی
کوشش کی مگر پولس کی گولیوں سے زخمی ہوگیا ۔ اس کو اسپتال لے جایا گیا ۔
نامہ نگار حیران تھے کہ یہ کیسا حادثہ جس میں گاڑی پلٹ کر گھسٹتے ہوئے دور
تک تو گئی لیکن اس کے شیشے صحیح سلامت ہیں؟ زمین پر گیلی مٹی میں گاڑی کے
گھسٹنے کا نشان نہیں پایا جاتا ؟ ان کو اس پر بھی حیرانی ہوتی ہے کہ وکاس
ٹاٹا سفاری سے مہندرا کی اس گاڑی میں کب اور کیسے آگیا؟ اپنے پیروں میں
لگی راڈ کے سبب لنگڑا کر چلنے والا وکاس پولس سے پہلے اس گاڑی سے کیسے نکل
بھاگا؟ اتنے خطرناک مجرم کے ہاتھوں میں ہتھکڑی کیوں نہیں تھی؟ پولس کاپستول
کھلا کیوں تھا؟ ان سوالات کے ساتھ نامہ نگار اسپتال پہنچے تو پتہ چلا کہ
وکاس اسی ٹاٹا سفاری میں لایا گیا جس پر وہ جھانسی سے چلا تھا۔ اس کے چہرے
پر ماسک ہنوز چڑھا ہوا تھا اور بھاگتے وکاس کے پیٹھ پر نہیں سینے پر گولی
لگی تھی۔ وکاس مارا جاچکا ۔ اب اس کے خون سے کمل کے پودوں کو سینچا جانے کی
نئی ذمہ داری ان نامہ نگاروں کے سر آگئی تھی ۔ اس بات کا امکان ہے کہ ایسا
کرنے سے بہت سارے نئے کمل کھل جائیں گے لیکن یہ طے ہے کہ اب ملک میں ویناش
کے کانٹے تو لگیں گے مگر وکاس کا پھول نہیں کھلے گا ۔
وکاس ایک سفاک مجرم تھا ۔ اس کی ہلاکت کے نتیجے میں معاشرے کا جرائم پیشہ
افراد سے پاک ہوجانا اچھی بات ہے۔ اس لیے وکاس کے مارے جانے سے تو ملک میں
ترقی ہونی چاہیے۔ یہاں پردو سوالات اہمیت کے حامل ہیں۔ اول تو یہ کہ کیا
ہوا؟ اسی کے ساتھ کیسے ہوا یہ مدعا بھی یکساں اہمیت کا حامل ہے؟؟ وکاس کو
اگر گرفتار کرنے کے بعد اس سے تفتیش کی جاتی اور اس کی مدد کرنے والے سارے
لوگوں کو کیفرِ کردار تک پہنچایا جاتا تو آئندہ سیاسی لوگ یا اعلیٰ افسران
اپنے مفادات کے حصول کی خاطر کسی جرائم پیشہ فرد کی مدد نہیں لیتے۔ وکاس کے
ماورائے عدالت قتل کرکے اس کا باب بند کردینےسے ایک طرف تو ان سب کو بچا نے
کی خاطر عدلیہ کو بلی کا بکرا بنا یا گیا اور یہ پیغام دینے کی کوشش کی گئی
انصاف اب عدالت سے نہیں بلکہ بندوق کی گولی سے ہوگا ۔ اس کا ایک نتیجہ تو
یہ نکلے گا کہ وکاس کے سیاسی آقا اب بلا خوف و خطر کوئی نیا وکاس ایجاد
کرکے اس کو استعمال کرنا شروع کردیں گے اور آگے چل کر اگر وہ بھی اپنے
حدود سے گزر جائے گا تو اس کا انکاونٹر کروا کر اپنے جرائم کی پردہ پوشی
کرلیں گے ۔اس طرح اقتدار کے زیرسایہ سماج میں بدمعاشی اور غنڈہ گردی فروغ
پاتی رہے گی۔ اس کے علاوہ نظام عدل کی کمزوری سے جوظلم و جبر کا بازار گرم
ہوگا وہ سماجی امن کو غارت کردے گا۔ ترقی و خوشحالی کی شرط اول امن و امان
ہے اسکے بغیر ترقی کا تصور بھی ممکن نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وکاس جیسے
لوگوں کے انکاونٹر کی آڑ میں اگر نظام ِ انصاف کو سولی پر چڑھا دیا گیا
معاشرہ ترقی کے بجائے تباہی و بربادی کی راہوں پر گامزن ہوجائے گا۔
|