مرکزی وزیر گجیندر سنگھ شیخاوت نےپچھلے دنوں ایک دلچسپ
ٹویٹ میں وزیر اعلیٰ اشوک گہلوت کو مخاطب کرکے لکھا کہ ’’یہ کورونا سے لڑنے
کا وقت تھا اور آپ بیت بازی کھیلنے لگے۔ یہ غریب کو کھانا دینے کا وقت تھا
اور آُپ اطالوی (پکوان) بنانا سیکھنے لگے ۔ راجستھا ن ہوشیار ہے اور سب
دیکھ رہا ہے‘‘۔ اس تبصرے میں اطالوی پکوان کا اشارہ غالباً سونیا گاندھی کی
جانب جو نصف صدی پہلے اپنے میکے کو خیر باد کہہ کر ہندوستان کے اندر اپنی
سسرال میں آگئیں تھیں ۔ کیا کسی بہو کے ساتھ یہ مہذب سلوک ہے اس طویل عرصے
کے بعد بھی اس کے آبائی وطن کا حوالہ دے کر لعن طعن کیا جائے ۔ پڑوس کے جن
لوگوں کو سی اے اے کے تحت ہندوستانی شہریت دینے کی بات کی جارہی ہے ان کے
لیے سونیا گاندھی میں ایک نشانِ عبرت ہے کہ اگر انہوں نے سنگھ پریوار کی
مخالفت کی تو ان کے ساتھ اسی طرح کا معاندانہ سلوک ہوگا ۔ سونیا گاندھی اس
ملک کی ایک شہری اور رکن پارلیمان ہیں لیکن افسوس کہ اب بھی ان بزدل لوگوں
کو اپنے حریف کے خلاف ایسا اوچھا حربہ استعمال کرنے کی ضرورت پیش آتی ہے ۔
اس لب و لہجے سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ انسان دولت اور جھوٹ کی مدد سے
الیکشن تو جیت سکتا ہے ۔ اپنے لیڈر کی چاپلوسی کرکے وزیر بھی بن سکتا ہے
لیکن اس کے باوجود اس کو کم ظرفی سے نجات نہیں ملتی ۔ بھیروں سنگھ شیخاوت
جیسے قدآور رہنما کے بیٹے سے یہ توقع نہیں تھی لیکن آج کل انہیں جو صحبت
میسر آئی ہے اس میں کوئی اور امکان بھی نہیں ہے۔ گجیندر سنگھ شیخاوت کے
ٹویٹ میں آخری فقرے سے بالکلیہ اتفاق ہے۔ اس میں یہ اضافہ ہونا چاہیے کہ
نہ صرف راجستھان اور ہندوستان بلکہ ساری دنیا میں اس اقتدار کے تماشے کو
بڑی دلچسپی سے دیکھا جا رہا ہے ۔ لوگ اس ملک کا حکمرانوں کی بے حسی پرحیرت
زدہ ہیں ۔ پچھلے 14 دنوں میں جب سے راجستھان کے اندر اقتدار کی رساکشی چل
رہی ہے، ملک کے اندر کورونا سے متاثرین کی تعداد 793,802 سے بڑھ کر (جمعہ
24 جولائی تک) 1,290,284 ہوچکی ہے یعنی 496,464 مریضوں کا اضافہ ہوا جو
62.54فیصد بنتا ہے یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے ۔ اس وبا سے مرنے والوں کی
تعداد پر نظر ڈالیں تو ۱۰ جولائی کو یہ تعداد صرف 21,604 تھی جبکہ اب
30,657 پر جا پہنچی ہے یعنی 42فیصد کی بڑھوتری یہ بھی کم نہیں ہے ۔ اس کے
باوجود ہمارے سیاستداں اقتدار کی بساط پر نت نئی چالیں چلنے میں مگن ہیں
اور اسی کے ساتھ کورونا کے نام پر مگر مچھ کے آنسو بھی بہا رہے ہیں۔
وطن عزیز کے اندر پچھلے ۶ سالوں سے مودی اور شاہ کی جوڑی نے جو دہشت کا
ماحول بنا کررکھا ہے اس میں کوئی صوبائی حکومت مرکزی وزیر کے خلاف کھلے عام
تو دور درپردہ اقدام کرنے کا خیال بھی اپنے دل میں نہیں لاتی اس تناظر میں
ایک مخالف جماعت کی جانب سے مرکزی وزیر گجندر سنگھ شیخاوت کے خلاف ایک چھوڑ
دو جانچ کا فیصلہ یقیناً خوشگوار اور صحتمند انحراف ہے۔ مودی یگ میں چائے
تو چائے کیتلی بھی اپنی گرمی دکھاتی ہے۔ ارکان اسمبلی کی خریدو فروخت کے
معاملے جب گجیندر سنگھ کا نام آیا تو وہ گھبرا کر لگے یہ بتانے کے کس طرح
ٹیپ کی آواز کا اور ان مارواڑی لہجہ مختلف ہے۔ اس صفائی سے بات نہیں بنی۔
ایس او جی نے ان کو نوٹس دے ہی دیا اور اپنی آواز کا نمونہ دینے کے لیے
کہا۔ گجیندر سنگھ تذبذب میں تھے کہ کیا کریں اور کیا نہ کریں ؟ کہ جے پور
کے ایڈیشنل ڈسٹرکٹ کورٹ نے پولس کو حکم دیا ۸۸۴ کروڈ کے کریڈٹ سوسائٹی والی
بدعنوانی میں گجیندر سنگھ کےخلاف لگائے جانے والے الزامات کی تفتیش کی
جائے۔ اس معاملے شیخاوت کی اہلیہ کا نامِ نامی بھی موجود ہے۔ اب تو شیخاوت
کو دن دہاڑے تارے نظر آنے لگے تھے اور شاہ جی کے بھی چودہ طبق روشن ہوگئے
تھے ۔ وہی شاہ جی جو آئے گہلوت کے ساتھیوں اور بھائی پر چھاپے مروا رہے
تھے ۔
یہ سنجیونی کریڈٹ سوسائٹی کا معاملہ ہے۔ 23 اگست سن 2019 کو جب ایف آئی
آر درج ہوئی تواس میں شیخاوت کا نام نہیں تھا ۔ اس کو شامل کرنے کی
درخواست مجسٹریٹ کورٹ میں خارج ہوگئی ۔ اس کے بعد معاملہ ایڈیشنل ڈسٹرکٹ
کورٹ میں پہنچا اور اس نے درخواست کو قبول کرلیا۔ سنجیونی بوٹی کو لانے کے
لیے ہنومان پورا پہاڑ اٹھا کر رام کی خدمت میں حاضر ہوگئے تھے اب سنجیونی
کریڈٹ سوسائٹی کا پہاڑ بی جے پی کے سر پر ہے ۔ اس سوسائٹی کی راجستھان میں
۲۱۱ اور گجرات میں ۲۶ شاخیں تھیں ۔ ان لوگوں نے زیادہ منافع کا لالچ دے کر
1,46,991لوگوں سے سرمایہ کاری کرائی اور گھپلا کردیا۔ اب حال یہ ہے کہ اس
پر55,000سرمایہ کاروں کا1,100 کروڈ قرض بقایا ہے۔ اس ادارے کے بانی اور
منتظم وکرم سنگھ کو پچھلے سال گرفتار کیا گیا ۔ یہ ایک زمانے میں گجیندر
سنگھ شیخاوت کے ساتھ زمینات کے کاروبار میں پارٹنر تھے ۔ ویسے بظاہر تو یہ
دونوں الگ ہوگئے لیکن شکایت کنندگان کاالزام ہے کہ بدعنوانی کی بڑی رقم
شیخاوت کے کھاتے میں منتقل ہوئی ہے۔
گجیندر سنگھ شیخاوت بی جے پی کے لیے کئی لحاظ سے نقصان دہ ہیں۔ کمل والے
گاندھی خاندان پر وراثتی سیاست کا الزام لگاتے ہیں ۔ گجنیدر کو سیاست وراثت
میں ملی ہے ۔ ان کے والد بھیروں سنگھ شیخاوت نہ صرف وزیر اعلیٰ بلکہنائب
صدر رہ چکے ہیں ۔ اس کے علاوہ ’’نہ کھاوں گا اور نہ کھانے دوں گا‘‘ والا
نعرہ بھی لوگوں کو یاد آتا ہے ۔ کاش کے مودی جی یہ نعرہ آدھا ہی لگاتے کہ
’’میں نہیں کھاوںگا‘‘ لیکن زیب داستاں کے لیے اسے طویل کردیا گیا ۔ انسان
کسی طرح اپنےبدعنوانی تو چھپا سکتا ہے لیکن دوسروں کی بھی کیسے چھپائے؟ اور
کتنوں کی چھپائے ؟ یہاں تو قدم قدم پر گھپلے باز موجود ہیں اور ان میں سے
سبھی کے کئی گھپلے ہیں کیونکہ ہر کسی رافیل جیسا سودہ کرکے یکمشت کمانے کا
موقع نہیں ملتا۔ اس معاملے سے یہ راز بھی افشاء ہوگیا کہ آخر بی جے پی کے
پاس باغیوں کو خریدنے کے لیے ہزاروں کروڈ روپئے آتے کہاں سے ہیں؟ اس کا
طریقہ یہ ہے کہ عوام کو فریب دینے والے گھپلے بازوں کے اشتراک سے عوام کا
روپیہ لوٹ کر ان کے نمائندوں پر لٹا دو ۔ یہ معاملہ اگر اسپہلے یا بعد میں
سامنے آتا تو اس کا یہ مقصد پوشیدہ رہ جاتا ۔
یہ حسنِ اتفاق ہے کہ اس بار خود کو راجہ ہریش چندر کا باپ بناکر پیش کرنے
والے وزیر اعظم کا پالہ ایک ایسے وزیر اعلیٰ سے پڑا ہے کہ تیسری مرتبہ
اقتدار سنبھالنے کے باوجود اس کا دامن بدعنوانی سے داغ سے پاک ہے۔ اشوک
گہلوت کی قوت کا سرچشمہ ان کا صاف ستھرا کردار ہے۔ وہ دنیا کی سب قیمتی
عینک یا قلم کا استعمال نہیں کرتے بلکہ ان کی سادگی کا احترام مخالفین بھی
کرتے ہیں ۔ اس دوران اشوک گہلوت نے ایک خط لکھ کر وزیر اعظم کو آئینہ
دکھانے کی کوشش کی ہے۔ اس میں صریح الزام لگایا ہے کہ صوبے میں دیگر بی جے
پی رہنماوں کی مدد سے مرکزی وزیر گجیندر سنگھ شیخاوت ، کانگریس کے رکن
اسمبلی بھنور لال شرما اور ازحد آرزو مند رہنما ریاستی حکومت کو گرانے کی
کوشش کررہے ہیں۔ انہوں نے اپنا احسان یاد دلاتے ہوئے لکھا کہ کسی زمانے میں
بھنور لال شرمابی جے پی میں تھے اور انہوں نے بھیروں سنگھ شیخاوت کی حکومت
گرانے کی کوشش کی تھی۔ اس وقت کانگریس کے صوبائی صدر کی حیثیت سے گہلوت نے
گورنر سے مل کر اس کی مخالفت کی تھی اور مرکز میں کانگریسی وزیر اعظم
نرسمہا راو کو اس سے آگاہ کیا تھا کیونکہ ایسی سازش عوام کے ساتھ دھوکہ ہے
۔ انہوں نے اپنے خط میں ایم پی اور کرناٹک کی مثال بھی دی ۔
گجیندر سنگھ نے اپنے ٹویٹ میں کورونا کے حوالے سے جس فکرمندی کا اظہار کیا
تھا اس کا جواب وزیر اعظم کو لکھے جانے والے خط میں اس طرح دیا گیا ہےکہ
’’مجھے اس بات کا ہمیشہ افسوس رہے گا کہ جہاں عام لوگوں کا روزگار بچانے کی
ذمہ دار مرکزی اور صوبائی حکومت پر ہے ، کیسے مرکزی حکومت کورونا کے
انتظامات کو چھوڑ کر کانگریس کی ریاستی سرکاروں کو گرانے میں اہم کردار
نبھا رہی ہے‘‘۔ گہلوت نے وزیر اعظم کوڈھیل دیتے ہوئے لکھا کہ ’’مجھے نہیں
پتہ آپ کو کس حدتک اس کی معلومات ہے یا گمراہ کیا گیا ہے ۔ تاریخ ایسے کام
میں حصہ دار بننے والوں کبھی معاف نہیں کرے گی‘‘۔ اشوک گہلوت کو ہر طرح کی
خوش گمانی کا حق ہے لیکن فی الحال ساری سازشیں وزیر اعظم کے اشارے پر چلتی
ہیں۔ اس بات کا امکان کم ہے کہ بی جے پی پر اس خط کا کوئی اثر ہو لیکن اگر
عوام کو ہوش آجائے تو یہ بھی بہت ہے۔ بی جے پی کی موجودہ قیادت پر تو
علامہ اقبال کا یہ شعر صادق آتا ہے؎
پھول کی پتی سے کٹ سکتا ہے ہیرے کا جگر
مردِ ناداں پر زبانِ نرم و نازک بے اثر
|