آج کل چین اور امریکہ کے درمیان اس کرہِ ارض کی بھاگ ڈور
سنبھالنے کا کانٹے دار مقابلہ سجا ہوا ہے جس سے ہر قوم خوفزدہ ہے ۔امریکہ
اپنی ایڑیوں تک زور لگا رہا ہے کہ کوئی اس کا مدِ مقابل پیدا نہ ہو جبکہ
چین بھی ترکی بہ ترکی جواب دے کر اپنی اہمیت واضح کر رہا ہے۔امریکہ نے چند
دن قبل اپنی سرزمین پر چینی قو نصل خانہ بند کیا تو چین نے بھی اپنے ملک سے
امریکی قونصل خانہ بند کرنے کے احکامات صادر کر کے حساب چکتا کر دیا ۔
امریکہ ایک قدم اٹھا تا ہے تو چین اسے ناکام بنانے میں پس وپیش نہیں کر تا
۔وہ اینٹ کا جواب پتھر سے دے رہا ہے جو اس بات کی غمازی کر رہاہے کہ اب چین
کو روکناامریکہ کیلئے مشکل تر ہو تا جا رہا ہے ۔سلامتی کونسل ہو، یا اقوامِ
متحدہ ہو چین ہر جگہ پوری قوت کے ساتھ امریکہ کے مدِ مقابل کھڑا ہو کر اسے
ہر مقام پر ناکوں چنے چبوا رہا ہے ۔امریکہ اور چین کی یہ جنگ دن بدن پھیلتی
جا رہی ہے جس سے عالمی امن کو شدید خطرات لا حق ہو گے ہیں ۔پاکستان اس لحاظ
سے خوش قسمت ہے کہ اس کی سرحدیں چین کے ساتھ جڑی ہوئی ہیں جس کی وجہ سے چین
اور اس کے درمیان گہری دوستی کی بنیادیں قائم ہیں ۔چین نے سلامتی کونسل میں
مسئلہ کشمیر پر پاکستان کی جس طرح مدد کی وہ کوئی سر بستہ راز نہیں ہے۔اور
پھر این ایف ڈی اے میں بلیک لسٹ میں ڈالے جانے کے خطرے کو روکنے میں چین نے
جو رول ادا کیا اس پر ہر محب ِ وطن پاکستانی چین کا ممنون و مشکور ہے ۔
بھارت کی ہوسِ ملک گیری پر چین نے بندھ باندھ کربھارت کو پوری دنیا میں
رسوا کر دیا ہے ۔ لداخ پر بھارت کو چین کے ہاتھوں جو زک پہنچی وہ بھارت کے
حیطہ ِ ادراک سے ماوراء تھی ۔اسے اپنی طاقت پر جو گھمنڈ تھا وہ لمحوں میں
ہوا ہو گیا۔چینی پٹائی نے بھارت کو اس کی اوقات یاد دلا دی جس سے بھارتی
بڑا ئی کاخود ساختہ زعم ٹوٹ کر بکھر گیا۔،۔
اس وقت یہ سوال اتنا اہم نہیں ہے کہ عالمی فیصلوں کا اختیار کس کے ہاتھ میں
ہو گا بلکہ اہم بات یہ ہے کہ دنیا پر جنگ کے جو سیاہ بادل چھا رہے ہیں ان
سے نجات کیسے ممکن ہو گی۔امریکی صدر ڈو لنڈ ٹرمپ سے بھلائی کی امید رکھنا
احمقوں کی جنت میں بسنے کے مترادف ہے۔ اس کے فیصلوں میں جو سطحی پن ہے وہ
امنِ عالم کیلئے شدید خطرہ ہے۔افغانستان میں طالبان سے امن معاہدہ کیا لیکن
اس کی روح پر عمل کرنے سے انکار کر دیا۔ امریکی فوجوں کا انخلاء اور قیدیوں
کی رہائی کا معاملہ آج بھی پہلے کی طرح لٹکا ہوا ہے۔امریکہ آج بھی افغا نی
صدر اشرف غنی کی حمائت سے دستبردار ہونے کو تیار نہیں ہے ۔ عبداﷲ عبداﷲ
بھارت سے مل کر نئی سے نئی سازش رچانے میں مصروف ہے ۔ طالبان نے افغانستان
میں امن کی بحالی کیلئے جو معا ہدہ ہواتھا اس کا کہیں کوئی وجود نہیں ہے
۔اب حالت یہ ہے کہ فغانستان ایک دفعہ پھر خود کش حملوں اور دھماکوں کی زد
میں ہے۔روز معصوم لوگ زند گی کی بازی ہار رہے ہیں جس کی ساری ذمہ داری
امریکہ کے کندھوں پر ہے ۔ امریکہ کو خونِ مسلمان کی ارزانی کا جو جنون ہے
اس کے پیشِ نظر وہ ہر اسلامی ملک میں انتشار ا، بغاوت اور کشت و خون کو
ترجیح دیتا ہے ۔ عرا ق ، لیبیا، شام ،یمن اور افغانستان اس کی زندہ مثالیں
ہیں۔ فلسطینیوں کی اسرائیل کے ہاتھوں جو درگت بنوائی جاتی ہے وہ علیحدہ
ہے۔کشمیر پر ظلم و جبر کے جو پہاڑ توڑے جا رہے ہیں وہ دل ہلا دینے کیلئے
کافی ہیں۔عالمی طاقتیں امریکہ کی ہاں میں ہاں ملاتی جاتی ہیں۔وہ بیان بازی
تو ضرور کر تی ہیں لیکن جب امریکہ اور اس کے ہمنوا بھارت کو عملی طور پر
روکنے کا معاملہ درپیش ہوتا ہے وہ اسمیں کوئی پیش رفت نہیں کرتیں۔ایک عالمی
سازش ہے جو مسلم امہ کے خلاف تیار کی گئی ہے جس کی شکلیں ہر بار بدلتی رہتی
ہیں۔جب سلطنتِ عثمانیہ تھی تو اس وقت اسے پارہ پارہ کرنے کی منصوبہ بندی کی
جاتی تھی ۔سلطنتِ عثمانیہ کے بکھر جانے کے بعد جو ممالک دنیا کے نقشہ پر
ابھرے وہ سب کے ساتھ امریکہ کے اطاعت گزار تھے۔چونکہ امریکہ نے ہی ان سب کو
تخلیق کیا تھا لہذو وہ امریکہ سے بغاوت کا تصور بھی نہیں کر سکتے
تھے۔پاکستان ایک ایسا ملک تھا جو جمہوری جدو جہدکے بعد معرضِ وجود میں آیا
تھا ۔اسلامی دنیا کو اس سے بڑی امیدیں وابستہ تھیں لیکن امریکہ ،روس اور
بھارتی گٹھ جو ڑھ نے محض چودہ سالوں کے بعد ہی اسے دو لخت کر دیا۔ ذولفقار
علی بھٹو نے امریکی تسلط کے خلاف لب کشائی کی جرات کی تو جنرل ضیا الحق کے
ذریعے ان کی جمہوری حکومت کا ٹختہ الٹ کر انھیں پابندِ سلاسل کر دیا اور
پھر انھیں ۴ اپریل ۱۹۷۹ کو سرِ دار کھینچ دیا گیا۔اب ایسے مقبول لیڈر کے
انجام کے بعد کس میں جرات ہو گی کہ وہ امریکہ کو چیلنج کرے؟نتیجہ یہ نکلا
کہ ہماری سار ی حکومتیں امریکہ بہادر کی غیر اعلانیہ غلام بن گئیں۔جارج
ڈبلیو بش کی یقین دہانیاں ہوں ، یا ڈولنڈ ٹرمپ کے اعلانات، یا پھر بل کلنٹن
کے وعدے وہ سب کے سب دکھاوے کے سوا کچھ بھی نہیں تھے۔امریکہ کا میلان بھارت
کی جانب ہے اور وہ پاکستان سے یہی توقع رکھتا ہے کہ وہ بھارت کے سامنے غیر
اعلانیہ اطاعت گزاری کا مظاہرہ کرے تا کہ اس خطہ میں کسی ممکنہ جنگ کو روکا
جا سکے ۔ اگر پاکستان نے بھارتی حکومت کے سامنے باغیانہ طرزِ عمل کا مظاہرہ
کیا تو پھر اس خطہ میں بھارتی یلغار کے علاوہ کو ئی دوسرا راستہ نہیں
ہوگا۔کشمیر پر پاکستان کی مجرمانہ خاموشی بھی اسی ا طاعت گزاری کا خاموش
اظہار ہے۔،۔
ساری دنیا کو علم ہے کہ بھارت نے ایک متنازعہ علاقے کو اپنی قلمرو میں شامل
کیا ہے لیکن کوئی اس پر بھارت کی کلائی نہیں مروڑتا ۔کشمیری دہائی دیتے
دیتے تھک گے ہیں کہ بھارت کی چیرہ دستیوں سے ہمیں نجات دلاؤ لیکن کوئی ان
کی فریاد سننے کیلئے آمادہ نہیں ہے۔ہماری حکومت اپوزیشن کے خلاف نئے سے نئے
بیانات داغتی رہتی ہے اور انھیں پابندِ سلاسل کرنے کے نئے نئے حربے تلاش
کرتی رہتی ہے لیکن وہ جو بھارتی جبر کے اسیر ہیں ان کی رہائی کی خاطر وہ
تنکا توڑنے کی بھی روادار نہیں ہے ۔ رہی سہی کسر کلبھوشن یادیو کومزید سہو
لیات مہیا کرنے سے عیاں ہو گئی ہے۔ سوال یہ نہیں ہے کہ ۵ اگست کو کشمیر پر
جو کرفیو لگایا گیا تھا وہ کب اٹھا یا جائیگا بلکہ اہم سوال یہ ہے کہ بھارت
کشمیر میں جس طرح کشمیریوں کی عصمت دری کر ہا ہے اس سے انھیں کون نجات
دلوائے گا؟ امریکہ تو بھارت کے کندھے سے اپنا کندھا ملائے ہو ئے ہے کیونکہ
چین کی معاشی اور تجارتی ترقی برتری کا خوف اسے بھارت سے پینگیں بڑھانے پر
مجبور کر رہا ہے۔ بھارت دنیا کی سب سے بڑی تجارتی منڈی ہے اور یہ منڈی
امریکہ کی مٹھی میں بند ہے۔وہ کشمیرپر ثالثی کے نام پر اسے اپنی مٹھی سے
گرنے نہیں دیگا۔امریکہ کیلئے کشمیر کی نہیں بلکہ تجارتی منڈی کی اہمیت ہے
جو نریندر مودی نے امریکہ کے نام کی ہوئی ہے۔ ایران نے بھارت سے چاہ بہار
کا معاہدہ کیا تھا لیکن امریکی خوشنودی کی خاطر بھارت اس سے دست کش ہو گیا
ہے۔اس کے بعد ایران نے چین کی جانب رجوع کیا تو چین نے ایران میں (۴۰۰ )ارب
ڈالر کی سرمایہ کاری کی پیش کش کر کے بھونچال پیدا کر دیا ۔ بھارت کی نظر
میں امریکی خوشنودی زیادہ اہم تھی لہذا اس نے ایران کے ساتھ اپنے معاہدہ کو
عملی جامہ نہیں پہنایا۔اس نے امریکی خوشنودی کی خاطر ایرانی تیل خریدنے سے
بھی معذرت کر لی کیونکہ بھارت سمجھتا ہے کہ امریکہ کا اتحادی بن کر وہ
عالمی سطح پر مزید فعال اور طاقتور ہو جائیگا۔امریکہ اور بھارت کا گٹھ جوڑھ
چین کی سپر میسی میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے جسے شکست دینا چین کیلئے فی الحال
ممکن نہیں ہے۔،۔ |