گزشتہ کچھ عرصہ سے کلرسیداں کے گر د ونواح میں قبضہ مافیا
کافی متحرک ہو چکا ہے اور اکثر اوقات یہ سننے اور پڑھنے میں آ چکا ہے کہ
فلاں شخص کی ملکیتی زمین پر کسی قبضہ مافیا نے ناجائز قبضہ جما لیا ہے ایسے
نافیا کا باقاعدہ ایک نیٹ ورک موجود ہے جس کو پولیس کی بھی اشیر باد حاصل
ہے اور وہ یہ سب کچھ غیر قانونی کام پولیس کی مدد سے کرتے ہیں چند روز قبل
کلرسیداں،چوکپنڈوڑی میں بھی قبضہ مافیا اپنا اثر دکھا چکا ہے شاہ باغ کے
گرد و نواح میں بھی ہوائی فائرنگ روز کا معمول بن چکا ہے جو کہ اہل علاقہ
کیلیئے کسی بڑے خطرے کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتی ہے قبضہ مافیا نہ تو کسی
کوگولیاں مارنے سے کتراتے ہیں اور نہ اس طرح کی کوئی اور حرکت کرنے سے
گھبراتے ہیں حتی کہ ضرورت پڑنے پر اپنے ہی کسی کارندہ کو گولی مار کر دوسری
فریق پر مقدمہ بنوا دیتے ہیں اور پھر بلیک میلنگ کا سلسہ شروع کر دیتے ہیں
جب کوئی شخص ان کے خلاف پولیس ہیلپ لائن پر کال کرتا ہے تو مقامی پولیس ان
کو پہلے ہی آ گاہ کر دیتی ہے کہ ہم آ رہے ہیں اور وہ لوگ پہلے ہی وہاں سے
رفوو چکر ہو جاتے ہیں جبکہ مقامی پولیس یہ ثابت کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے
کہ یہ اطلاع جھوٹی تھی اور جبکبھی دوبارہ وہی متاثرہ شخص پولیس ہیلپ لائن
پر کال کرتا ہے تو پولیس توہ ہی نہیں دیتی ہے کیوں کہ مقامی پولیس اس کی
پہلی شکایت ہی غلط ثابت کروا چکی ہوتی ہے ایک شریف شہری اس با اثر قبضہ
مافیا کا مقابلہ اتنی آسانی سے نہیں کر سکتا ہے اور جب قانون نافذ کرنے
والے ادارے بھی قابضہ مافیا کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کریں گئے تو غریب
اور شریف شہری کہاں جائیں گئے ان کیلیئے پھر ایک ہی حل باقی رہ جاتا ہے کہ
یا تو وہ خود کشی کر لیں یا پھر قبضہ مافیا کے سامنے گھٹنے ٹیک لیں اور
اپنی زمینیں ان کے حوالے کر دیں یہ اتہائی خطرناک سلسلہ چل پڑا ہے جس میں
قیمتی انسانی جانیں ضائع ہونے کے خدشات موجودہیں کلرسیداں سے تعلق رکھنے
والے زیادہ تر عوام شریف شہریوں کی طرز پر زندگی گزار رہے ہیں کسی بھی قسم
کے مافیاز سے مقابلہ ان کیلیئے مشکل ہے جب تک ہماری پولیس یا اس طرح کے
دیگر سرکاری ادارے ان کے مددگار نہیں بنیں گئے وہ قبضہ مافیا کے ہاتھوں
یرغمال بنتے رہیں گئے ضرورت اس امر کی ہے کہ محکمہ پولیس کے اعلی حکام کو
قبضہ مافیا کو کنٹرول کرنے کیلیئے ایک الگ سے فورس قائئم کرنی چاہیئے جو
شکایت پر فوری کاروائی عمل میں لائے تا کہ ایسے مافیا کو بروقت قابو میں
لایا جا سکے اور انکو نشان عبرت بنایا جا سکے اگر ایسا ممکن نہیں ہے تو
تھانوں میں ہی ایک الگ ڈیسک بنا دیا جائے جو صرف قبضہ مافیا کو کنٹرول کرے
پولیس کے اعلی حاکم کو اس حساس معاملے پر فوری نوٹس لینا ہو گا بصورت دیگر
شریف شہری طان کے ہاتھو ظلم و ستم کا شکارہوتے رہیں گئے
پاکستان تحریک انصاف کلرسیداں کے اہم رہنما اور صدر ویلفئیر ملک سہیل اشرف
نے اپنے عہدے سے استعفی دے دیا ہے تحریک انصاف کلرسیداں پہلے ہی بہت سی
مشکلات میں گھری ہوئی ہے اور اس ک کارکردگی عوام کی نظر میں بلکل غیر تسلی
بخش ہے اوپر سے ایک اہم رہنما کا ان حالات میں مستعفی ہونا اس بات کا واضح
ثبوت ہے کہ پی ٹی آئی کلرسیداں واقع ہی ڈگمگا رہی ہے ملک سہیل اشرف کی اپنی
پارٹی کیلیئے بہت ساری خدمات موجود ہیں تنظیمی معاملات میں ان کو اعتماد
میں نہ لینا پارٹی کیلیئے سخت نقصان دہ ثابت ہو گا ان کا اپنے عہدے سے
استعفی پارٹی کیلیئے بہت بڑا دھچکا ثابت ہو گا ان کا شمار ان گنے چنے
رہنماؤں میں ہوتا ہے جنہوں نے کلرسیداں میں اپنی جماعت کو سہارا دے رکھا ہے
اگر یہی رہنما اپنی پارٹی سے مایوس ہونا شروع ہو گئے ہیں تو عوام کا کیا
بنے گا جو پہلے ہی پی ٹی آئی کو کوس رہی ہے ان کا شمار بانی رہنماؤں میں
ہوتا ہے پاکستان تحریک انصاف نے جب سے ضلعی و تحصیل سطح پر تنظیم سازی کا
کام شروع کیا ہے اسی دن سے اس کے اپنے ہی کارکنوں پر مشتعل مختلف گروپ کھل
کر اختلافات کا اظہار کر رہے ہیں ان تمام باتوں کے پس پردہ حقائق کچھ اور
ہیں ان تمام اختلافات کی بنیاد پوٹھوہار ٹاؤن کی صدارت کی وجہ سے پیدا ہوئے
ہیں جہاں پر پی ٹی آئی کے دو اہم گروپ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے تھ پے
در پے تھے صداقت عباسی گروپ راجہ عبدال وحید قاسم کو پوٹھوہار ٹاؤن کا صدر
بنانے کا حامی تھا جبکہ خان سرور گروپ ان کا صدر بننے کے مخالفت کر رہا تھا
کافی کھینچا تانی اور سرد جنگ کے بعد صداقت علی عباسی گروپ اپنی جو جہد میں
کامیاب ہو گیا جس کے نتیجے میں راجہ عبدالوحید قاسم پوٹھوہارٹاؤن کے صدر
نامزد کر دیئے گئے ہیں ابھی ان اختلافات کی چنگاری سلگ ہی رہی تھی کہ وفاقی
وزیر ہوا بازی غلام سرور خان کا دورہ کہوٹہ جلتی پر تیلی ثات ہوا ہے جہاں
پر انہوں نے صداقت علی عباسی پر خوب تیر برسائے ہیں جن کی وجہ سے صداقت
عباسی گروپ ایک بار پھر طیش میں آ گیا ہے اور انہوں نے بھی اپنے مخالف گروپ
کو ٹارگٹ کرنا شروع کر دیا ہے اور ملک سہیل اشرف کا استعفی بھی اسی شاخسانے
کی ایک کڑی ہے اور آنے والے دنوں میں مزید استعفوں کی بھی توقع کی جا رہی
ہے اگر ان دو بڑے اور اہم ترین گروپوں کے درمیان جاری جنگ کو ختم نہیں
کروایاجا سکا تو پارٹی مزید نقصان کا متحمل ہو سکتی ہے ان کی آپس میں سرد
جنگ علاقے کی ترقی میں رکاوٹ پیدا کرے گی صداقت علی عباسی اور غلام سرور
خان کو ایک دوسرے کی اہمیت کو تسلیم کرنا ہو گا اور دونوں رہنماؤں کو باہمی
رضامندی سے راولپنڈی کی ترقی میں اپنا اہم کردار ادا کرنا ہو گا
|