وزیراعلیٰ یوگی نےاقتدار سنبھالنے کے بعد 2017میںاپنی
پہلی دیوالی ایودھیا میں مناکردنیا میں بلند ترین رام مورتی نصب کرنے اعلان
کیا تھا مگر اس کے لیے جو پہلی جگہ منتخب کی گئی اس کو بدلنا پڑا اور اب
دوسری پر تنازع جاری ہے۔یوگی حکومت کے اس فیصلے سے ساری دنیا کے رام بھکت
تو خوش ہوسکتے ہیں لیکن مقامی عوام ناراض ہے۔ یہ مجسمہ اب لکھنو سے
گورکھپور جانے والی سڑک پر سریو ندی کے کنارے کھڑا کرنے کا منصوبہ ہے۔ اس
مقصد کے تحت ماجھا برہٹا، میرا پوردوآبہ اور تہورا ماجھا نامی گاوں میں
زمینوں کی رجسٹری کا کام روک دیا گیا ہے۔اس گرام سبھا میں تین گاوں ہیں جن
میں 500 تا 600گھر اور لگ بھگ 1500کی آبادی ہے ۔ یہاں پر انتظامیہ 86ایکڑ
زمین کوقبضے میں لینا چاہتاہے ۔ سریو گھاٹ سے پانچ کلومیٹر کی دوری پر
واقعماجھا برہٹا کی زمین کوابھی سرکاری تحویل میں نہیں لیا جاسکا ہے۔ اس
راہ کا روڑہ ، گاوں والوں کا غم و غصہ ہے۔
ماجھا برہٹا میں رام چرن یادو کی 75 سالہ بیوی اندراوتی کو شکایت ہے کہ ان
کے پرکھوں کی اس زمین پر 5تا 6نسلوں کے بعد وہ پکا مکان بنانے کے قابل
ہوسکیں اوراب انتظامیہ کے کہنے پر اس کو کیسے چھوڑ دیں ؟4 بیٹوں اور
3بیٹیوں کی ماں اندراوتی کا سوال جائز ہے۔ وہ اس بھرے پورے خاندان کو لے کر
آخر کہاں جائے؟ حکومت اپنی سیاست چمکانے کے لیے مجسمہ تو بنانا چاہتی ہے
لیکن اس کو مقامی لوگوں کے مسائل میں کوئی دلچسپی نہیں ہے ۔ اندراوتی کہتی
ہیں کہ سانڈ ، بیل کی وجہ سے کاشتکاری یوں ہی بیکار ہوگئی ہے۔راجیو نام
کاانجنیر بیٹا زیر ملازمت ہے باقی یومیہ اجرت پر مزدوری کرتے ہیں ۔ الگ سے
گھر یا کھیتی لینے کے لیے پیسہ نہیں ہے۔اس لیے جب تک وہ زندہ ہے تب تک تو
زمین نہیں دیں گی۔ وہ نامہ نگاروں سے الٹا سوال کرتی ہیں کہ کیا رام ہمارے
نہیں ہیں ؟ اس میں یہ سوال بھی چھپا ہوا ہے کہ کیا وہ صرف یوگی اور مودی کے
ہیں؟
پڑوسی گاوں دھرمو کا پروا کی رہنے والی وملا تو اور بھی تندوتیز لہجے میں
پوچھتی ہیں ۔ کئی نسلوں سے وہاں آبالوگ گھر ، بچے اور مویشی کو چھوڑ کر وہ
کہاں جائیں؟ سرکار اگر زبردستی گھر لینا چاہتی ہے تو پورے خاندان کو مار
ڈالے تبھی وہ زمین لے سکے گی ۔ ایک رام بھکت نامہ نگار نے کہہ دیا کہ یہ
رام کا کام ہے تو وملا آپے سے باہر ہوگئیں۔ انہوں اس کے جواب میں کئی تلخ
سوال داغ دیئے مثلاًکیا رام بھگوان ہم سب کو بھول گئے ہیں؟ کیا ہم لوگ رام
کی پوجا نہیں کرتے ؟ کیا رام بھگوان کی مورتی یہاں لگائیں گے تو ہمیں اجاڑ
کر بھگا دیں گے؟ وملا کا غصہ جائز ہے کیونکہ ان کے 4بیٹے محنت مزدوری کرکے
گھر چلاتے ہیں ۔ اناج وغیرہ 10 بیگھا کھیت سے آتا ہے ۔ اب مجسمہ کے چکر
میں یہ سب جارہا ہے؟ گھر کے اندر کوئی سرکاری نوکر نہیں ہے۔ رام کے نام پر
سیاست کرنے والے وزیر اعلیٰ سےاس رام کی بھکت کو کوئی امید نہیں اس لیے وہ
برملا کہتی ہیں کہ کہیں کوئی سننے والا نہیں ہے۔
دھرمو کے پروا کاہمسایہ گاوں موجہنیا کے مزدور رام سیوک نے اپنی مفلسی اس
طرح بیان کی کہ بھیا مختصر سی زمین ہے اور ننھا سا ایک کمرے کا گھر ہے۔ یہ
سب مورتی کے چکر میں جارہا ہے ۔اب یہ سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ بال بچے
اور بوڑھے ماں باپ کو لے کر کہاں جاوں گا ؟ یعنی یہاں سوال تین نسلوں کا ہے۔
رام سیوک کو یہ شکایت ہے کہ افسر سن کر نہیں دیتے ۔ ان لوگوں نے متحد ہوکر
عدالت سے رجوع کیا تو فیصلہ ان کے حق میں آیا لیکن انتظامیہ سننے کے لیے
آمادہ نہیں ہے۔یہ بیچارہ رام سیوک دن رات اس ٹینشن میں گھلا جارہا ہے کہ
آگے کیا ہوگا؟ غیر مطمئن گاوں والوں کے رہنما اروند یادو نے انتظامیہ کی
مکاریوں کا راز فاش کرتے ہوئے بتایا 24 جنوری 2020 کو سرکاری تحویل میں
لینے کا نوٹیفکیشن جاری کرنے کے بعد اس پر اعتراض کرنے کا وقت کم دیا گیا ۔
28 جنوری کو وہ لوگ ہائی کورٹ میں گئے۔ وہاں پر یہ فیصلہ دیا گیا کہ 2013
میں جاری کئے گئے تحویل اراضی قانون کے تحت ہی زمین لی جائے ۔
زمینی حقیقت یہ ہے کہ کئی نسلوں سے اس سر زمین پر رہنے والوں کےمیراث کیچک
بندی آزادی کے 70 سال بعد بھی نہیں ہوسکی ہے ۔ اس کے سبب زیادہ تر کسانوں
کے پاس زمین کے کاغذات نہیں ہیں۔ اس معاملے میں 16جون کے دن ہائی کورٹ نے
انتظامیہ کو بندوبست کرنے کا حکم دیا۔ چک بندی سے قبل اس کارروائی کے تحت
کسان کی زرعی زمین ،مویشی ، بنجر زمین ، پیڑ اور پودوں وغیرہ کی معلومات
درج کی جاتی ہے۔ اروند کے مطابق یہاں کے کسانوں کی چھوٹی چھوٹی زمین ہے جس
پر کاشتکاری کرکے وہ اپنا گھر چلاتے ہیں۔ حکومت اگر ان کی زمین ہڑپ لے گی
تو ان کا گھر نہیں چلے گا۔وہ تو خیر کورونا کے سبب این پی آر اور این
آرسی کا کام رک گیا ورنہ پہلے تو یہ لوگ غیر ملکی قرار پاتے اور پھر
پاکستانی یا بنگلہ دیشی چور دروازے سے شہریت پاتے ۔ ایسے میں زمین بڑے
آرام سے مجسمہ لگانے کے لیے ان کی زمین ضبط کرلی جاتی ۔
عوام کی زمین کی املاک پر غاصبانہ قبضہ کرنےکے لیے انتظامیہ نےبڑی چالاکی
سے اس گرام سبھا کو نگر نگم میں شامل کرلیا۔ گاوں کے جن 259 قطعہ اراضی پر
نوٹیفکیشن جاری کی گئی ان میں سے174 مہارشی رامائنودیا پیٹھ ٹرسٹ کےنام پر
درج ہے۔ اس ٹرسٹ کے ساتھ ملی بھگت کرکے انتظامیہ گاوں والوں کو ان کی زمین
سے بے دخل کرنا چاہتا ہے۔ اس ٹرسٹ کے پیچھے بھی ایک فریب کی ایک داستان ہے
۔ مہارشی یوگی نے 1994-1995میں گاوں کے بھولے لوگوں سے اپنی زمین کالج اور
اسپتال کے لیے خیرات کرنے کی درخواست کی۔ گاوں والے جھانسے میں آگئے اور
ان لوگوں نے اپنی زمین دے دی ۔ اب چونکہ اسپتال یا کالج نہیں بنااس گاوں
والے اپنی زمین واپس لینا چاہتے ہیں اور یہ ان کا حق ہے۔
اصل جھگڑا یہ ہے کہ گاوں والے اپنی زمین دینا نہیں چاہتے اور انتظامیہ زور
زبردستی سے ان سے چھین لینا چاہتا ہے ۔ حقیقی رام بھکتوں پر یہ ظلم جعلی
رام بھکت حکومت رام کے نام پر کررہی ہے۔ اس طرح کا تنازع دوسری مرتبہ ہوا
ہے ۔ اس سے قبل نیشنل ہائی وے 28 اور ریلوے پل کے بیچ میں میرا پور دو آبہ
کی 61 ایکڑزمین کے لیے 5 جون 2019 کو نوٹیفکیشن جاری کیا گیا تھا۔ وہاں کے
باشندوں بھی اس کی مخالفت میں عدالت پہنچ گئے مگر انتظامیہ ٹس سے مس نہیں
ہوا۔ ریلوے پل کے ارتعاش کی وجہ اس مقام کو تبدیل کرنا پڑا ۔اس طرح یہ
مصیبت وہاں سے ٹل کر ماجھا برہٹا پہنچی ۔ یہ ہےمجوزہ بلند ترین رام مورتی
کے اندر کی کہانی،دنیا بھر کی حکومتیں جب عوام کے مسائل حل کرنے میں ناکام
ہوجاتی ہیں تو مجسمے بناکر ان کا دل بہلاتی ہیں۔
ایک زمانے تک دنیا کا سب اونچا مجسمہ ۹۳ میٹر اونچا امریکہ کا ’اسٹیچو آف
لبرٹی‘ تھا۔ اس کے بعد چین نے ۱۲۸ میٹر بلند گوتم بدھ کی مورتی بناکر اپنے
آپ کو امریکہ سے بڑا ثابت کرنے کی کوشش کی۔ مودی جی نے ۱۸۳ میٹر اونچا
سردار پٹیل کا مجسمہ چین بنوا کراپنا سر بلند کیا اوراب یوگی جی کے ساتھ مل
کر وہ 251 میٹر اونچی رام کی مورتی بنواکر عوام کو یہ سمجھانے کی کوشش کریں
گے ہندوستان اب چین اور امریکہ سے آگے نکل گیا ۔ بعید نہیں کہ ہندوستان کے
بھولے بھالے عوام ان کی جھانسے میں آکر اس خوش فہمی کا شکار ہوجائیں ۔
اتفاق سے رام کے مجسمہ کی نقاشی کا کام سردار پٹیل کی مورتی بنانے
والےمجسمہ ساز رام ستار کو دیا گیا ہے ۔ بی جے پی اپنی غلطیوں سے سبق نہیں
سیکھتی ۔ گجرات میں سردار پٹیل کا مجسمہ لگانے کے بعد وہ صوبائی انتخاب
ہارتے ہارتے بچی ۔ اس کے باوجود اب وہ ایودھیا میں رام کی مورتی سے یہ امید
باندھ رہی ہے کہ اس کی مدد سے انتخاب جیت جائے گی لیکن مقامی لوگوں کا غم و
غصہ داغ کا یہ شعر یاد دلاتا ہے؎
دل کے پھپھولے جل اٹھے سینے کے داغ سے
اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے |