شرجیل امام اور گوتم نولکھا جیسے لوگوں سے شروع ہونے والا
سلسلہ قاسم رسول الیاس اور پرشانت بھوشن تک پھیل گیا ہے۔ ان میں سے ہر ایک
کو گھیرنے کے لیے بظاہر مختلف وجوہات بتائی جارہی ہیں مثلاً گوتم نولکھا کو
بھیما کورے گاوں کے حوالے سے نکسلیوں کا ہمنوا بتاکر وزیر اعظم کے قتل کی
سازش میں شریک کردیا گیا۔ شرجیل امام پر سی اے اے کے خلاف تقریر کرتے ہوئے
ملک کو توڑنے اور بغاوت پر اکسانے کا الزام ہے۔ پرشانت بھوش کا گیارہ سال
پرانا سپریم کورٹ کی عدالتی توہین کا مقدمہ اچانک زندہ ہوگیا ہے اور سید
قاسم رسول الیاس کا نام دہلی کے فساد چاند باغ علاقہ میں فساد بھڑکانے کی
تقریر والی ایف آئی آر میں درج کرلیا گیا ہے۔ یہ ساری وجوہات بظاہر ایک
دوسرے سے یکسر مختلف ہے لیکن ان سب کے ذریعہ صرف اور صرف یہ پیغام دیا
جارہا ہے کہ اب اہل اقتدار میں اختلاف رائے کو برداشت کرنے کی سکت باقی
نہیں ہے۔اس کے پاس عوام کے سوالات کا جواب نہیں ہے اور بدنامی و ہڑبونگ کا
حربہ ناکام ہوچکا ہے۔ اس ایمرجنسی جیسے سرکاری جبر و استحصال پر حفیظ
میرٹھی کا یہ شعر صادق آتا ہے؎
آج کچھ ایسا طے پایا ہے حق کے اجارہ داروں میں
ہم پر جو ایمان نہ لائے چنوا دودیواروں میں
اس معاملے میں سب سے تازہ اضافہ دہلی یونیورسٹی کے پروفیسر ہنی بابو
موسلیار ویتیل تھارائیل کو گرفتار ی ہے۔ 26جولائی کو ایجنسی نے پروفیسر کو
ممبئی بھیما کوریگاؤں تشدد معاملہ میں انہیں نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی کی
خصوصی عدالت میں پیش کیا گیا اور تفتیش کے لئےپولیس تحویل میں دیئے جانے کی
اپیل کی جسے کورٹ نے قبول کر لیا اور ۴؍ اگست تک گرفتاری عمل میں آگئی۔
این آئی اے نے پروفیسر ہنی بابو پر الزام لگایا کہ ان کے گرفتار شدہ
ملزمان سے تعلقات ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ کیا کسی سے تعلق کی بناء پر کوئی جرم
میں شریک ہوجاتا ہے کجا کہ جن کو مجرم قرار دیا جارہا ہے وہ خود بے قصور
ہیں۔ پولیس ان کو ایک ایسے تشدد کی سازش کا حصہ دار بنا رہی ہے جس کا
ارتکاب کرنے والے سرکار کی پناہ میں کھلے گھوم رہے ہیں ۔ ایجنسی گرفتاری سے
قبل ۴؍ پانچ دنوں سے پوچھ تاچھ کرتی رہی ہے اس لئے اب مزید پولیس تحویل کی
ضرورت ہی نہیں ہے لیکن جن کی نیت ٹھیک نہ ہو ان کے بارے میں کچھ کہا نہیں
جاسکتا ۔ سچ تو یہ بھیما کورے گاوں کے نام بی جے پی حکومت نے جملہ ۱۲ ادیب
، شاعر اور وکلا کے خلاف ایجنسی نے کیس کیا جاچکا ہے ۔ اس طرح سنگھ اپنے
خلاف اٹھنے والی آوازوں کو کچل رہا ہے
شرجیل امام کے ساتھ حکومت نے جو رویہ اختیار کررکھا ہے اس کی مدد سے سرکاری
طریقۂ کار کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ جے این یو کے طالب علم شرجیل امام
کو 28 جنوری 2020کےدن دہلیپولسکی کرائم برانچ نےممبئی، پٹنہ اور دہلی میں
چھاپہ ماریکے بعد جہان آبادسےگرفتار کرلیا ۔ اس سے قبل پولیس نے ان کے
بھائی اور شاہین باغ میں جاری احتجاج کےکنوینر مزمل امام کو حراست میں لیا
تھا۔ ابتدا میں یہ خبر آئی کہ اس کی وجہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹیمیں کی گئی
تقریر ہے ۔ اس کے وائرل ویڈیومیں مبینہ طور پر شمال مشرق کی ریاست آسام کو
ہندوستان سے کاٹنے کےلئے ریلوے کی پٹری پر ملبہ ڈال دینےکا الزام لگایا گیا
تھا اور اشتعال انگیزی کی بنا پر ملک سے غداری کا مقدمہ درج کرلیا گیا ۔
گرفتاری کے بعد تین ماہ کے اندر چارج شیٹ داخل کرنا ہوتا اس میں سرکار
ناکام رہی تو توسیع کرائی گئی وہ بہ آسانی مل گئی ۔
اس کے بعد اپریل کی 18 تاریخ کو پولیس نےشرجیل امام کے خلاف ایک ضمنی چارج
شیٹ دائر کی اور علی گڑھ کی تقریر کے بجائے دہلی کے جامعہ ملیہ اسلامیہ میں
’’اشتعال انگیز تقریر‘‘ اور ’’فساد برپا‘‘ کرنے کا الزام لگا دیا۔ اے این
آئی کے مطابق دہلی پولیسنے شرجیل امام کو 13 دسمبر، 2019 کو کی جانے والی
ایک اشتعال انگیز تقریر کی وجہ سے جامعہ میں فسادات بھڑکانے اور اکسانے کے
الزام میں گرفتار کیا تھا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ علی گڑھ والا الزام بے
بنیاد تھا۔ اس طرح گویا جامعہ کے قریب برپا ہونے والے تشدد پر 18 فروری کو
جو چارج شیٹ داخل کی گئی تھی اس میں شرجیل امام کا نام بھی شامل کردیا گیا
۔ مذکورہ چارج شیٹ میں پولیس کا بیان ہے کہ ’’ہجوم نے بڑے پیمانے پر فسادات،
پتھراؤ اور آتش گیر کارروائی کی اور اس عمل میں متعدد سرکاری و نجی املاک
کو تباہ کردیا۔‘‘ حیرت کی بات یہ ہے جامعہ کے احاطے اور دارالمطالعہ میں
گھس کر پولس نے جو تشدد کیا اس کی ویڈیو تک محفوظ ہے اس کے باوجود اس کا نہ
کوئی نوٹس لیا گیا اور نہ اس پر کوئی کارروائی کی گئی۔
شرجیل امام کو گرفتار کرکے مودی سرکار سی اے اے اور این آر سی کے خلاف
چلنے والی تحریک کا حوصلہ پست کرنا چاہتی تھی مگر ایسا نہیں ہوا۔عدالتی
ضابطے کے مطابق 25 جولائی سے قبل شرجیل کو دہلی کی عدالت پیش کرنا لازمی
تھا اس لیے 17 جولائی کو دہلی پولیس کی ایک ٹیم اسے تحویل میںلے کر قومی
دارالحکومت لانے کے لیے گوہاٹی پہنچی۔ روانگی سے قبل دہلی واپس سمیت شرجیل
امام کا کورونا ٹیسٹ کیا گیاتو وہ متاثر پایا گیا۔ یہ گرفتاری اگر وبا کے
پھیلنے کے بعد ہوتی تو کہہ دیا جاتا کہ وہ بیماری کے ساتھ جیل گیا لیکن اب
یہ ممکن نہیں ہے۔ شرجیل کی بیماری پر معروف جہد کار کویتا کرشنن نے اپنے
ٹویٹ میں لکھا کہ "مودی حکومت ملک کی جیلوں کو ڈیتھ کیمپ بنا رہی ہے۔ ایسے
میں جے این یو طالب علم شرجیل کی جان کو خطرہ ہے۔ شرجیل امام کا نام ان
سیاسی قیدیوں کی فہرست میں شامل ہو گیا ہے جنھیں مودی حکومت میں فرضی
الزامات کو لے کر جیل میں بند کیا گیا اور وہاں انھیں کورونا وائرس ہو گیا۔
اس طالب علم کی جان خطرے میں ہے اور ایسا اس لیے ہواکیونکہ مودی حکومت نے
اس وبا کے دوران سیاسی زیر سماعت قیدیوں کے لیے جیلوں کو ڈیتھ کیمپ بنانے
کے ہتھیار کی شکل میں بدل دیا ہے‘‘۔ کویتا کرشنن اور ان جیسے سیکڑوں لوگوں
کے احتجاجی بیانات کا حکومت پر کوئی اثر نہیں ہوا۔
کورونا کی وباء کے بعد عدالت عظمیٰ نے انتظامیہ کو حکم دیا تھا کہ جیلوں
موجود ملزمین کی تعداد کم کی جائے اورقیدیوں کو بیماری سے محفوظ رکھنے کے
لیے پیرول پر رہا کیا جائے ۔ اس کے برعکس اپریل کے پہلے ہفتے میں جامعہ کے
طالبعلم میران حیدر کو گرفتار کیا گیا اور اس کے بعد تو ایک سلسلہ ہی چل
پڑا۔ حکومت ایک ایک کرکے اپنے مخالفین سے انتقام لے رہی ہے۔ خالد سیفی جیسے
سماجی جہد کاروں کو اوٹ پٹانگ الزامات کے تحت گرفتار کیا جاتا ہے اور جب
ضمانت ملنے لگتی ہے تو این ایس اے لگا دیا جاتا ہے ۔ یہی معاملہ آصف اقبال
اور دیگر لوگوں کے ساتھ ہوا۔ 25 جولائی کو دہلی پولس کی دائر کردہ چارج شیٹ
کے مطابق شرجیل امام اشتعال انگیز تقریریں کرتا ہے اور ایک برادری کو غیر
قانونی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے لیے اکساتا ہے۔ یہ قوم کی خودمختاری اور
سالمیت کے لیے نقصان دہ ہے۔اس چارج شیٹ میں یہ الزام بھی ہے کہ وہ آئین کو
ایک ’’فسطائی‘‘ دستاویز کہتاہے ۔ آئین کے تحفظ میں فسطائیت کے خلاف لڑنے
والے پر اس مضحکہ خیز الزام سے زیادہ احمقانہ بات اور کیا ہوسکتی ہے؟
شرجیل امام کو دہشت گرد سمجھنے والے نہیں جانتے کہ وہ آئی آئی ٹی(ممبئی)
سے کمپیوٹر سائنس میں انجینئرنگ کی سند حاصل کرنے کے بعد ایک اچھی آئی ٹی
کمپنی میں ملازمت کرچکا ہے۔ جے این یو میں تعلیمی سلسلہ جاری رکھنے کے
لیےاس نے ایک بہترین کیرئیر اور ایک خوشحال زندگی کی قربانی دی ہے۔ دہلی
فساد کے بہانے آج کل دارالخلافہ میں حکومت کے خلاف اٹھنے والی ہر
جرأتمندانہ آواز کو کچلا جارہا ہے۔ اس کی تازہ مثال ڈاکٹر سید قاسم رسول
الیاس کی ہے کہ جن کا نام چاند باغ فساد کی چارج شیٹ میں شامل کیا
گیاہے۔ڈاکٹر قاسم رسول الیاس کی زندگی آئینے کی مانند سب کے سامنے ہے۔
ڈاکٹر صاحب نہ صرف آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے معزز رکن ہیں بلکہ بورڈ
کی بابری مسجد کمیٹی کے کنونیر بھی رہے ہیں ۔ وہ جماعت اسلامی ہند کی اعلیٰ
ترین فیصلہ ساز مجلس شوریٰ کے بھی ممبر ہیں۔ پچھلے چالیس سالوں ان کا
ماہنامہ افکار ملی ملک میں عدل و انصاف کے قیام کے لیے جدوجہد کرتا رہا ہے،
فی الحال وہ ویلفیرپارٹی کے صدر نشین بھی ہیں۔ حکومت اس طرح کے بے بنیاد
الزامات لگا کر ڈاکٹر الیاس اور ان جیسے لوگوں ہراساں کرنا چاہتی ہے لیکن
اسے پتہ ہونا چاہیے کہ اس طرح گیدڑ بھپکیوں سے نہ تو یہ رہنما ڈریں گے اور
نہ امت خوفزدہ ہوگی کیونکہ بقول علامہ اقبال ( ترمیم کے ساتھ) ؎
باطل سےدبنے والے اے شاہ جی نہیں ہم
سوبار کر چکا ہے تو امتحاں ہمارا
|