کثیرالآبادی رکھنے والی دنیا کی دوبڑی طاقتیں بھارت
اورچین کے مابین تنازعات کی تاریخ اتنی ہی قدیم جتنی ان کی
عمر،3488کلومیٹرطویل سرحد رکھنے والے یہ دونوں ملک گزشتہ سترسال سے زمینی
تنازعات پر متعدد مرتبہ آمنے سامنے آچکے ہیں ۔دونوں کی باہمی تجارت کا حجم
90ارب ڈالر سالانہ سے زیادہ ہے۔ چین بھارت کو سالانہ 74ارب ڈالرکی برامدات
کرتاہے ۔اس سب کے باوجود ان دونوں کی باہمی چپقلش کو ساس اوربہوکی لڑائی تو
نہیں کہا جاسکتا نہ ہی بھائی بھائی کی لڑائی قرار دیا جاسکتاہے ۔دونوں کے
تہذیب وتمدن اورزبان میں خاصہ فرق ہے ۔دونوں مختلف دوست رکھتے ہیں بھارت
پاکستان کو اپنا ازلی دشمن سمجھتاہے جبکہ چین پاکستان کی دوستی ہمالیہ سے
بھی زیادہ بلندہے ۔بھارت ایشیاء کا کنگ بننا چاہتاہے جبکہ چین بین الاقوامی
دنیا میں اپنی معاشی دھاک بیٹھاچکاہے ۔بھارت کو میڈان انڈیا پر ناز ہے
تومیڈان چین دنیا میں اپنا لوہا منواچکی ہے۔چین اپنے مفادات کے اعتبار سے
آزاد خودمختار خارجہ پالیسی رکھتاہے جس کا اثرورسوخ دنیا میں قبول کیا
جاتاہے جبکہ بھارت کی خارجہ پالیسی ویسٹرن ممالک کے مفادات کے تابع ہے
۔بھارت چین کشیدگی کے پیچھے انہیں قوتوں کا ہاتھ ہے ۔روزبروزکشیدگی بڑھتی
جارہی ہے ۔امریکہ سمندری راستے سے بھارت کو سپورٹ کرنے اورچین کی سمندری
راستے کے ذریعے معاشی سرگرمیوں کو محدود کرنے کے لیے سمندر میں آن
پہنچاہے۔جنگ کے بادل منڈلارہے ہیں۔مسلسل بھارت کے غیرجانبدارانہ فیصلے
کشمیرکی خصوصی حیثیت کا خاتمہ پھر دوحصوں میں تقسیم بعدازاں سی پیک کو
نقصان پہنچانے کے لیے لداخ کے مغربی روٹ پر نقل وحمل بڑھانے کے لیے سٹرکوں
کی تعمیر۔یہ سب کس کی ایماپر ہورہا ہے؟۔یہ سب اوربھارت چین کے مابین بگڑتے
بنتے تعلقات کی تاریخ پرنظرڈالنا ازبس ضروری ہے ۔معروف صحافی سجاد اظہرنے
انڈیپنڈنٹ اردو کے حوالہ سے بھارت چین کشیدگی کی تاریخی کشمکش کو مفصل بیا
ن کیا ہے ۔دسمبر 1949غیر کمیونسٹ ممالک میں انڈیا، برما کے بعد دوسرا ملک
تھا جس نے چین کو تسلیم کیا۔اکتوبر 1950چینی افواج کی تبت کی جانب پیش
قدمی۔مئی 1951چین نے تبت کے گورنر کو گرفتار کر لیا۔مئی 1954چین اور بھارت
نے باہمی معاہدے پر دستخط کیے جس کا مقصد ایک دوسرے کی علاقائی خودمختاری
کا احترام تھا۔جون 1954چین کے وزیراعظم چو این لائی نے بھارت کا پہلا دورہ
کیا۔مارچ 1955بھارت نے یہ کہہ کر چین کے سرکاری نقشے پر اعتراض کر دیا کہ
اس میں بھارتی علاقے چین میں دکھائے گئے ہیں۔دسمبر 1956چینی شہریوں کو
بھارت نے لداخ سے نکال دیا۔ستمبر 1957نائب بھارتی صدر رادھا کرشنن نے چین
کا دورہ کیا۔جنوری 1959چین کے وزیراعظم چو این لائی نے لداخ اور ارونا چل
پردیش کے 40 ہزار مربع کلومیٹر علاقے پر ملکیت کا دعویٰ کیا۔اپریل
1959دلائی لامہ نے تبت کے علاقے لاہسا سے بھاگ کر بھارت میں سیاسی پناہ لے
لی جس پر چین نے شدید احتجاج کیا۔ستمبر 1959چین نے کہا کہ وہ برٹش انڈیا
دور کی سرحدیں نہیں مانتا کیوں کہ وہ برطانیہ اور انڈیا کے درمیان 1842 کے
اس معاہدے کا حصہ نہیں تھا جس میں سرحدوں کی حد بندی ہوئی تھی۔اپریل
1960چواین لائی اور نہرو کے درمیان نئی دہلی میں سرحدی تنازع حل کرنے پر
مذاکرات ہوئے جو نتیجہ خیز نہ ہو سکے۔فروری 1961چین نے سکم کے علاقے میں 12
ہزار مربع کلومیٹر علاقے پر قبضہ کر لیا۔اکتوبر 1961چین اور بھارت کی فوجیں
سرحدوں پر ایک دوسرے کے سامنے آ گئیں اور گشت شروع کر دیا۔دسمبر 1961بھارت
نے لداخ میں سرحدی چوکیاں قائم کرنا شروع کر دیں۔20 اکتوبر 1962دونوں ممالک
کے درمیان جنگ چھڑ گئی۔ پیپلز لبریشن آرمی نے دو اطراف سے حملہ کر کے ارونا
چل پردیش کے اہم علاقے توانگ پر قبضہ کر لیا۔ ایک ماہ بعد جنگ بندی تو ہو
گئی مگر سرحدی تنازع برقرار رہا،بھارت نے چین پر 33 ہزار کلومیٹر علاقہ
ہتھیانے کا الزام لگایا جبکہ چین نے دعوی ٰ کیا کہ ارونا چل پردیش کا تمام
علاقہ اس کی ملکیت ہے۔اگست 1965چین نے بھارتی افواج کی سکم میں موجودگی پر
احتجاج کیا۔نومبر 1965چین کی فوجیں بھی سکم میں گھس آئیں۔مئی 1974چین نے
بھارت کے ایٹمی دھماکوں پر شدید احتجاج کیا۔اپریل 1975چین نے سکم کو انڈیا
میں شامل کرنے پر احتجاج کیا۔اپریل 1976دونوں ممالک کے درمیان 15 سالوں سے
معطل سفارتی تعلقات بحال ہو گئے۔فروری 1979بھارتی وزیرخارجہ اٹل بہاری
واجپائی نے چین کا دورہ کیا۔دسمبر 1986چین نے ارونا چل پردیش کو انڈین
یونین میں شامل کرنے پر شدید احتجاج کیا۔دسمبر 1988 بھارتی وزیراعظم راجیو
گاندھی نے چین کا دورہ کیا جس میں تنازعات کے حل اور باہمی تعاون کی
یادداشتوں پر دستخط کیے گئے۔ستمبر 1993بھارتی وزیراعظم نرسیما راؤ نے چین
کے ساتھ باہمی تجارت کو فروغ دینے اور دونوں ممالک کی افواج کا جوائنٹ
ورکنگ گروپ بنانے کا معاہدہ کیا۔اگست 1995دونوں ممالک مشرقی سرحد پر
سمدورانگ چو وادی سے اپنی اپنی افواج کے انخلا پر رضامند ہو گئے۔نومبر
1996چینی صدر جیانگ زیمن نے بھارت کے ساتھ اعتماد سازی میں اضافے کے لیے
ایک معاہدے پر دستخط کیے۔مئی 1998چین نے بھارت کی جانب سے دوسری بار ایٹمی
دھماکے کرنے پر احتجاج کیا۔جون 1999چین نے بھارت سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنی
سرزمین پر دلائی لامہ کی علیحدگی کی سرگرمیوں کو روکے۔جنوری 2000چین نے
اکسائی چین کے علاقے میں سڑکیں بنانا شروع کر دیں۔ انڈیا نے الزام لگایا کہ
چین اس کے علاقے میں پانچ کلومیٹر اندر گھس آیا ہے۔جنوری 2000بھارت نے
دلائی لامہ کے بعد کرمپا کو بھی سیاسی پناہ دے دی جس پر چین نے ناراضگی کا
اظہار کیا۔جولائی 2006چین اور بھارت نے ناتھو لال پاس کھولنے کا اعلان کیا
جو 1962 کی جنگ سے بند تھا۔مئی 2007چین نے ارونا چل پردیش کے وزیراعلیٰ کو
یہ کہہ کر ویزا نہیں دیا کہ ارونا چل پردیش چین کا حصہ ہے اس لیے ویزے کی
ضرورت نہیں ہے۔جنوری 2009بھارتی وزیراعظم نے باہمی تجارت کا حجم 50 ارب
ڈالر بڑھنے پر چین کا دورہ کیا۔اکتوبر 2009 چین نے من موہن سنگھ کے دورہ
ارونا چل پردیش پر احتجاج کیا۔اگست 2010چین نے بھارتی جنرل بی ایس جسوال کو
یہ کہہ کر ویزا دینے سے انکار کر دیا کیونکہ وہ جموں و کشمیر میں بھارتی
افواج کے کمانڈر تھے۔نومبر 2010چین نے جموں و کشمیر کے شہریوں کو پاسپورٹ
کی بجائے کاغذ پر ویزوں کا اجرا شروع کر دیا۔اپریل 2013چینی افواج لداخ میں
13 کلومیٹر اندر تک گھس آئیں اور کہا کہ یہ اس کے صوبے زی جیانگ کا حصہ ہے
مگر پھر پیچھے ہٹ گئیں۔جولائی 2014بھارتی وزیراعظم مودی اورچینی صدر زی پنگ
کے درمیان پہلی بار برکس کے اجلاس منعقدہ برازیل میں ملاقات ہوئی۔ستمبر
2014چینی صدر زی پنگ اور مودی کے درمیان احمد آباد میں ایک معاہدے پر دستخط
ہوئے جس میں چین نے بھارت میں 20 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا وعدہ کیا۔مارچ
2015دونوں ممالک کے درمیان سرحدی تنازعات کے حل کے لیے مذاکرات کا 18 واں
دور ہوا۔مئی 2017بھارت نے چین کے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کے حوالے سے چین کی
دعوت رد کر دی اور اپنے تحفظات کا اظہار کیا۔جون 2017بھارت کو شنگھائی
تعاون تنظیم کی رکنیت مل گئی۔جولائی 2017دوکلام کے علاقے میں دونوں ممالک
کی فوجوں کے درمیان جھڑپیں ہوئیں۔اپریل 2018مودی اور زی پنگ کے درمیان
ملاقات ہوئی تاکہ دوکلام کے واقعے کے بعد تعلقات کو معمول پر لایا جا
سکے۔اکتوبر 2019 چین نے جموں و کشمیر پر آرٹیکل 370 کے اطلاق پر شدید
احتجاج کیا اور کہا کہ یہ کسی صورت قبول نہیں کیا جائے گا۔5 مئی 2020تبت
میں پنگانگ جھیل کے کناروں پر دونوں افواج میں ایک دوسرے سے ہاتھا پائی
ہوئی ہے چین پیش قدمی کررہاہے جس کے بعد گالوان، سکم اور دیمچوک کے مقامات
پر بھی جھڑپیں ہوئی ہیں۔ جہاں بھارت سڑکیں بچھا رہا ہے ایک جھڑپ میں بھارتی
اعداوشمار کے مطابق 23بھارتی فوجی ہلاک ہوئے ہیں ،دونوں ممالک نے لداخ میں
اپنی نقل وحمل بڑھا دی ہے ۔۔۔جاری ہے(قسط دوئم) |