امت مسلمہ کے انتشار کا غم ان لوگوں کو بھی ہے جو اس کارِ
خیر میں دن رات منہمک رہتے ہیں اور دامِ درہمِ سخن قدمے اپنا حصہ دانستہ و
نادانستہ ادا کرتے ہیں ۔ امت کے رہنما کبھی کبھار جوش خطابت میں ہندووں کے
اتحاد کی مثال دے کر عار بھی دلاتے ہیں لیکن وہاں بھی افتراق و انتشار اگر
زیادہ نہیں تو کم بھی نہیں ہے۔ ایودھیا میں رام مندر تعمیر کی سنگ بنیاد کے
لیے 5 اگستکی تاریخ مقرر کی گئی تو جگت گرو شنکراچاریہ سوروپانند سرسوتی نے
اس مہورت کو منحوس قرار دے دیا۔ شنکراچاریہ کا کہنا ہے کہ سناتن مذہب کا ہر
عمل یعنی 'یگیہ' پوری طرح 'کال' (وقت) کی شمارپر مبنی ہیں۔ اسی لیے سناتن
مذہب کا ہر پیروکار اپنے کام مبارک وقت یعنی 'شبھ مہورت' میں شروع کرتا ہے۔
شنکراچاریہ کا کہنا ہے کہ " 5 اگست 2020 کو 'دکشناین بھادرپد ماس کے دن
مندر تعمیر ممنوع ہے۔
شنکرآچاریہ کی اس دلیل کو سرکاری سنتوں اور مہنتوں نے ٹھکرا دیا ۔ ان
لوگوں میں کچھ نے کی سوروپانند کو مندر کی راستے میں رکاوٹ پیدا کرنے والا
شنکراچاریہ قرار دے کر ذاتی قسم کے رکیک حملے کیے۔ ایسے بھی سنت تھے جنہوں
سورپانند کو چیلنج کیا کہ وہ اس کو ثابت کریں اور مناظرے کی دھمکی دے دی
تاکہ دھرم گرنتھوں کی بنیاد پر اس کا مبارک ہونا ثابت کرسکیں ۔ کچھ لوگوں
کی سیدھی سادی منطق یہ تھی کہ پورا مہینہ شبھ ہے اور رام کے نام پر کیا
جانے والا ہر کام شبھ ہے وغیرہ ۔ دبے الفاظ وہ کہہ رہے تھے مودی جی ہاتھوں
کیا جانے والا ہر کام شبھ ہےاس لیے وہی ان کے آقا و مولیٰ ہیں۔ اس جھٹلانے
کے باوجود اب وزیر اعظم کی موجودگی کے درمیان 32شبھ سیکنڈ ڈھونڈ کر نکالے
گئے ہیں جن میں وہ سنگ بنیاد رکھیں گے اور باقی منحوس وقت میں اپنا بھاشن
دیں گے ویسے بھی مودی جی کے نوٹ بندی سے لے کر دیش بندی تک سارے بھاشن
منحوس ہی ثابت ہوئے ہیں ۔
شنکر آچاریہ سوروپانند کا جہاں تک سوال ہے ان کوتو مندر بنانے میں سیاست
پر بھی اعتراض ہے ۔ بی جے پی اگر ان کی یہ بات مان لیتی تو اس کا اقتدار
میں آنا ہی مشکل ہوجاتا ۔فی الحال مندر کے بغیر اس کو اقتدار میں رہنا
مشکل نظر آرہا ہے ۔ وہ رام مندر کا سنگ بنیاد دکھا کر بہار کا انتخاب
جیتنا چاہتی ہے حالانکہ عدالتِ عظمیٰ میں متنازع فیصلے کے بعد وہ جھارکھنڈ
کا انتخاب بری طرح ہار چکی ہے۔ جس مسئلہ کو اٹھا کر جھارکھنڈ میں کامیابی
نہیں ملی اس پر سیلاب زدہ بہار میں کیسے مل جائے گی ؟ یہ تو بی جے پی والے
ہی جانتے ہیں ۔ شنکراچاریہ کے مطابق سیاست کی وجہ سے ہی ہندوؤں کے کئی
مسائل کھٹائی میں پڑ جاتے ہیں۔ سچ تو یہ ہے غیر ہندووں کے بیشتر مسائل کی
جڑ میں بھی انتخابی سیاست کارفرما ہے اور دوسرے طبقات اس کی بڑی قیمت چکاتے
ہیں ۔ سوامی سوروپانند نے کاشی میں وشوناتھ مندر کے آس پاس کے مندروں کو
توڑتے وقت بھی متنبہ کیا تھا کہ یہ کام پوری دنیا کو پریشانی میں ڈالے گا،
وہ کورونا کو اس کی ان سنی کرنے کا نتیجہ مانتے ہیںلیکن جس طرح ہر کسی کا
تکہّ کبھی نہ کبھی لگ جاتا ہے اسی طرح کا معاملہ فی الھال سوروپانند کے
ساتھ ہوا۔
رام مندر کے شیلا نیاس کی تیاریاں شروع ہوتے ہی بی جے پی رہنماوں کے یکے
بعد دیگر ےکورونا سے متاثر ہونےکے واقعات میں تیزی سے اضافہ دیکھنے کو ملا۔
بی جے پی آج کل مغربی بنگال کو لے کر سب سے زیادہ فکر مند ہے ۔ اتفاق سے
سب سے پہلے جون کے مہینے میں مغربی بنگال کے60 سالہ بی جے پی رکن اسمبلی
تمونش گھوش کی کورونا کے سبب موت ہوگئی ۔ اس کے بعد بی جے پی کے بڑ بولے
ترجمان سمبت پاترا کاگلا کورونا نے دبا دیا لیکن وہ کسی طرح جان چھڑا کر
بھاگ آئے۔ اس ماہ مدھیہ پردیش کے وزیر اعلیٰ شیوراج سنگھ کے پوزیٹیو ہونے
کی خبر کے بعد تو پھر لائن ہی لگ گئی ۔ وہ ابھی اچھے ہوکر گھر بھی نہیں
پہنچے تھے کہ کرناٹک کے وزیر اعلی بی ایس یدی یورپا اپنی بیٹی کے ساتھ
کورونا پوزیٹیو پائےگئے ۔ ان کے ساتھ ہی بغل والے صوبے تمل ناڈو میں گورنر
بنواری لال پروہت کورونا متاثر پائے گئے ہیں ۔
اس معاملے میں سب سے برا حال اس اترپردیش کا ہے جہاں شیلانیاس ہونے جارہا
ہے۔ یوگی کابینہ کے اب تک 6وزراء کورونا سے متاثر ہوچکے ہیں حیرت کی بات یہ
ہے دہلی کی طرح سب سے پہلے وزیر صحت جئے پرتاپ سنگھ کو کورونا نے دھر دبوچا۔
جو وزیر خود اپنے آپ کو نہیں سنبھال سکا وہ بھلا صوبےکی صحت کا خیال کیسے
رکھے گا؟ ان کے بعد کھیل کود کے وزیر اوپندر تیواری کورونا کا شکار ہوئے
حالانکہ کھیل کود کے وزیر کو ورزش وغیر ہ کرکے تندرست رہنا چاہیے۔ گاوں کی
ترقی کے کابینی وزیر راجندر پرتاپ سنگھ کورونا کی زد میں آئے تو ہر طرف
ہنگامہ مچ گیا لیکن ان کو مات دی وزارت آیوش کے ذمہ دار دھرم سنگھ نے ۔ یہ
نیا قلمدان وزیر اعظم نریندر مودی نے طب و صحت کی تحقیق کے لیے قائم کیا ہے۔
اتفاق سے کورونا کی روک تھام اسی وزارت کے تحت آتی ہے اور اس کا وزیر
کورونا سے متاثر پایا گیا ۔ ان کے علاوہ ہوم گارڈ کے وزیر اور سابق کرکٹ
کھلاڑی چیتن چوہان کو بھی کورونا نے نہیں بخشا۔ اب آبی قوت کے وزیر مہندر
سنگھ کورونا کے تازہ ترین شکار ہیں ۔
آگرہ میں بی جے پی رکن اسمبلی یوگیندر اپادھیائے کے کورونا پوزیٹیو ہونے
کی خبر بڑی دلچسپ ہے۔ اسمبلی کے اندر ہنٹر کی مدد سے اپنی پارٹی کے ارکان
کو قابو میں رکھنا چیف وہپ کا کام ہوتا ہے۔ پچھلے ہفتے یوگی ادیتیہ ناتھ نے
آگرہ کے رکن اسمبلی اپادھیائے کو چیف وہپ مقرر کیا ۔ وہ خوشی سے اس قدر بے
قابو ہوئے کہ اپنےشہر لوٹ کر انہوں نے سیکڑوں حامیوں کے ساتھ جلوس نکالا۔
کورونا کے سبب جلوس پر پابندی تھی مگر یوگیندرکو روکنے کی ہمت کسی میں نہیں
تھی ۔ فی الحال وہ پورے خاندان سمیت کورونا کے شکنجے میں ہیں ۔ اپادھیائے
جی بھول گئے کہ ابتدائی دنوں میں ہی کورونا آگرہ میں داخل ہوگیاتھا ۔ اب
تکشہر میں 100 سے زیادہ لوگ اس وبا سے ہلاک ہوچکےہیں نیز 1800 سے زیادہ لوگ
اس کا شکار ہوئے ہیں۔ ویسے تو ہر صوبے میں وزراء اس وباء سے متاثر ہوئے
لیکن جو حال یوپی کا ہے وہ کسی جگہ کا نہیں ہے۔ یہاں پر بی جے پی کے
صدرسوتنتر دیو سنگھ بھی کورونا سے متاثر ہیں ۔ ایوان زیریں میں حزب اختلاف
کے رہنما گووند سنگھ چودھری سمیت سماجوادی کے ترجمان سنیل سنگھ یادو بھی
کورونا سے برسرِ جنگ ہیں ۔
ان میں سے بیشتر لوگ لازماً پچھلے ایک ہفتے میں وزیر اعلیٰ سے ملے ہوں گے
اس لیے ضابطے کے مطابق تو یوگی ادیتیہ ناتھ کو قرنطینہ میں ہونا چاہیے لیکن
بیچارےان کے اندر ہمت نہیں ہے کہ وزیر اعظم سے کہہ دیں کہ ’میں آپ کے دورے
میں غیر حاضر رہوں گا‘۔ یہ لوگ تو صرف متاثر ہیں اور بہت ممکن ہے کہ ان میں
سے بہت سارے صحت یاب ہوجائیں لیکن اتوار کو اتر پردیش کی وزیر برائے تکنیکی
تعلیم کمل رانی ورون کا کورونا کی وجہ سے انتقال ہو گیا ۔ 18جولائی کو
انہیں جانچ کے بعد اسپتال میں داخل کرایا گیا تھا۔ کمل رانی عمر صرف 58 سال
تھی ۔ وہ بھی وکاس دوبے کی طرح کانپور کی رہنے والی تھیں اور ان کی آخری
رسومات وکاس دوبے والے بھیروں گھاٹ میں ادا کی گئیں ۔ اتر پردیش مریضوں کے
معاملے میں 97ہزار سے آگے نکل چکا ہےاور ممکن ہے کل جب وزیر اعظم پوجا پاٹ
کررہے ہوں وہ ایک لاکھ کے پار نکل جائے۔
وزیر اعظم کے دورے کی بدولت ایودھیا میں یومیہ جانچ 600 سے بڑھا کر 2000
کردی گئی ہے حالانکہ 2 اگست تک کورونا سے متاثرین کی تعداد 1,141 تھی اس کے
باوجود 189 علاقوں کو متاثرہ علاقہ قرار دے کر پوری طرح سیل کردیا گیا ہے
تاکہ وہاں سے کوئی آکر وزیر اعظم کو متاثر نہ کردے۔ اس کے باوجود 3اگست
کو391 نئے مریضوں کا اضافہ ہوگیا اور 17 کا انتقال ہوگیا۔ اس سے گھبرا کر و
یر اعظم کے تحفظ کی خاطر ایک کلومیٹر تک کا علاقہ سینی ٹائیز کردیا گیا ۔
وزیر اعظم اور ان کے مہمانوں کا تو خاص خیال رکھا جارہا ہے مگر عام لوگوں
کے لیے ایودھیا کے راج رشی دشرتھ سوشاسی طبی یونیورسٹی میں بنے کووڈ اسپتال
کی ایک حالت دیکھ لینا دلچسپی سے خالی نہیں ہے۔ اس دواخانے کے باہر کھڑے
دیپک نام کے نوجوان نے ایک نامہ نگار کو بتایا کہ اس کی کورونا پوزیٹیو بہن
30تاریخ سے وہاں بھرتی ہے۔ اس کے ساتھ ۸ مہینے کا بچہ بھی ہے۔ دو دن سے
کوئی ڈاکٹر اس سے نہیں ملا۔ اس کو یہ تک نہیں بتایا گیاکہ وہ بچے کو دودھ
پلاسکتی ہے یا نہیں ۔ اس لیے پورا خاندان پریشان اور فکر مند ہے۔ حد تو یہ
ہے کہ پورے ایودھیا میں کورونا کا علاج کرنے والا کوئی اوردواخانہ نہیں ہے
۔ وہاں پر200 بستر میں سے صرف 104مریض ہیں اس کے باوجود یہ درگت ہے ۔
اس کا صورتحال کا اثر بی جے پی کی نام نہاد شعلہ بیان نائب صدر اوما بھارتی
پر یہ ہوا کہ وہ ایودھیا پہنچنے کے باوجود وزیر اعظم کے ساتھ تقریب میں
شرکت کی ہمت نہیں جٹا پارہی ہیں اور انہوں نے معذرت کرلی ہے ۔ اوما بھارتی
کے بزدلانہ رویہ سے اس نعرے کی قلعی کھل جاتی ہے جو وہ ایک زمانے میں لگایا
کرتی تھیں نعرہ یہ تھا :’’جس ہندو کا خون نہ کھولے خون نہیں وہ پانی ہے،
جنم بھومی کے کام نہ آئے وہ بیکار جوانی ہے‘۔ ساری دنیا جان گئی کہ اوما
بھارتی کی رگوں میں جوش مارنے والا خون نہیں بلکہ سریو ندی کا آلودہ پانی
ہے۔ اوما بھارتی نے بہانہ تو وزیر اعظم کی صحت کا بنایا ہے لیکن اصل میں ان
کو اپنی صحت کو لے کر پریشانی ہے اس لیے سب کے نکل جانے کے بعد تنہا درشن
کرنا چاہتی ہیں۔ ویسے کچھ لوگ ان کی غیر حاضری کو لال کرشن اڈوانی اور مرلی
منوہر جوشی کی عدم شرکت سے جوڑ کر ناراضگی کا اظہار بھی قرار دے رہے ہیں ۔
ان منافقوں کے دل میں کچھ اور زبان پر کچھ اور تو بہت پرانی بات ہے۔ اوما
بھارتی نے اپنے ٹویٹ میں مرکزی وزیر داخلہ کے کورونا پوزیٹیو ہونےپر چنتا
جتائی ہے ۔ مطلب صاف ہے چونکہ وزیر اعظم ان کے ساتھ کابینی نشست میں تھے اس
لیے وہ ان سے قریب جانے کا خطرہ کیونکر مول لے سکتی ہیں ۔ ویسے رام پر صرف
بی جے پی کی اجارہ داری نہیں کہہ کر اوما بھارتی نے ایک اور تنازع کھڑا
کردیا ہے۔مطلب یہ کہ دوری کے سبب اگر بی جے پی نکال دے تب بھی وہ اپنی جان
جوکھم میں نہیں ڈالیں گی، کیونکہ بقول مودی ’جان ہے تو جہان ہے‘۔
امیت شاہ چونکہ وزیر اعظم کے سب سے قریب ترین آدمی ہیں اس لیے کابینہ کی
نشست میں میں بھی دونوں کی کرسی بھی سب سے زیادہ نزدیک رہی ہوگی ۔ اب وزیر
داخلہ نے خود ٹویٹ کر کے اطلاع دیہے کہ جانچ میں وہ کورونا سے متاثر پائے
گئے ہیں اس لئے گزشتہ کچھ دنوں میں جو لوگ بھی ان سے رابطہ میں آئے ہیں وہ
اپنی کورونا جانچ کرا لیں۔ وزیر داخلہ کی حفاظت پر مقرر دستے کو اس بات کا
علم ہونا چاہیے کہ ان کے رابطے میں کون کون آیا تھا اس لیے زبدستی ان سب
کو پکڑ کر قرنطینہ مرکز میں دال دیا جانا چاہیے اس لیے کہ کئی مریضوں کی
علامات ظاہر نہیں ہوتیں ۔ امیت شاہ کی شخصیت کچھ ایسی ہے کہ وہ اگر بیمار
ہوجائیں تب بھی تنازع کھڑا ہوجاتا ہے۔ فی الحا ل وہ گروگرام کے میدانتا
اسپتال میں زیر علاج ہیں ۔ اس لیے پہلا سوال تو یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا
دہلی کے سب سے اچھے سرکاری اسپتال ایمس میں ان کے لیے بستر نہیں ہے؟ اگر ہے
تو انہوں نے ایک نجی اسپتال کو اس پر ترجیح کیوں دی ؟
اس سے بھی زیادہ اہم سوال یہ ہے کہ کیا امیت شاہ کو کو سرکاری اسپتال پر
اعتماد نہیں ہے؟ وزیر داخلہ کا ملک کے بہترین دواخانے پر اعتماد نہ کرنا
دراصل ایمس کی توہین ہے؟ یہ ہوسکتا ہے کہ کسی مخصوص ڈاکٹر کے سبب کوئی فرد
نجی دواخانہ کو فوقیت دینے پر مجبور ہوجائے لیکن ایسا بھی نہیں ہے۔ امیت
شاہ کا علاج تو ایمس کے ڈاکٹر رندیپ گلیریا کی ٹیم کررہی ہے۔ اس لیے یہ
سوال مزید اہمیت کا حامل ہوجاتا ہے کہ آخر وہ کیا چیز ہے جو ان کو میدانتا
لے گئی ؟ حیرت کی بات یہ ہے ان سے قبل دہلی کے وزیر صحت انیل جین اور سمبت
پاترا بھی میدانتا میں داخل ہوچکے ہیں ۔ یدورپا اور شیوراج چوہان نے سرکاری
دواخانوں پر نجی اسپتالوں کو ترجیح دی ہے ۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ
سرکاری دواخانے صرف غریب عوام کے لیے ہیں۔ ان کے نام نہاد نمائندے نجی عیش
گاہوں میں اپنا علاج کراتے ہیں؟ امیت شاہ اگر ایمس کے اندر اپنا علاج کراتے
تو رندیپ گلیریا کی ٹیم ان کے ساتھ ساتھ دوسرے عام مریضوں کا علاج بھی کرتی
اب تو ان کی خدمات صرف ایک فرد تک محدود ہوکر رہ گئی ہیں ۔ کیا یہ عوام کی
حق تلفی نہیں ہے؟ افسوس کی بات یہ ہے کہ کورونا کا قہر بھی ان سیاسی
رہنماوں کی عقل ٹھکانے لگانے میں ناکام ہوگیا ہےنیز کورونا کی وبا کے دوران
رام مندر شیلانیاس خود بی جےپی کے لیے بھی مصیبت بن گیا ہے۔ |