28 سال بعد پھرایک مرتبہ بھارت میں مسلمانوں کے زخموں پر
نمک چھڑکا گیا اور ایودھیا میں بابری مسجد کی جگہ پر رام مندر تعمیر کرنے
کی جو حسرت سنگھ پریوار کی برسوں پرانی تھی وہ کامیاب ہوگئی۔ قریب 80سالوں
سے ایودھیا میں رام مندر بنانے کا منصوبہ بنایا جاتا رہا ہے اسکے لئے ہر
حکومت اپنی جانب سے سہولت فراہم کرتی رہی اور ہر حکومت میں مسلمانوں کو
لالی پاپ دیا گیا اور ہندوؤں کو راستہ بنا کر دیا جاتا رہا ۔۔ لیکن ہم
ہمیشہ یہی کہتے رہے ہیں کہ بابری مسجد کو توڑنے میں سنگھ پریوار، وشواہندو
پریشد، کر سیوک، کانگریس، بی جے پی اور یس پی کا ہاتھ برابررہا ہے اور
مسلمانوں نے ہر دور میں اپنے آپ کو مظلوم قرار دیا ہے ۔ لیکن سوال یہ ہے
کہ کیا مسلمان واقعی میں مظلوم ہیں؟۔کیا بابری مسجد کے احاطے میں مورتیاں
رکھنے سے لے کر اسکی شہادت ،پھر اسکے بعد عدالتی کارروائیاں آخر میں رام
مندر کے سنگھ بنیاد رکھنے تک مسلمانوں کا دفاعی رول کتنا رہا کیا یہ کبھی
کسی نے سوچا ہے؟۔آزادی کے بعد سے اب تک کا عرصہ 75 سال سے زائد کا ہوچکا
ہے اور اس طویل عرصے میں ایک نسل کا خاتمہ ہو چکا ہے اور دوسری نسل اپنی
عمر کا ایک تہائی حصہ مکمل کر چکی ہے مگر جو حالات آزادی کے فوری بعد
مسلمانوں کے رہے ہیں وہی حالات آج بھی ہیں ۔ ہر مسلمان قائد نے مسلمانوں
کو نعروں کی بنیاد پر جذباتی تو بنایا ہے لیکن عملی طور پر مسلمانوں کو
تیار نہیں کیا ہے ۔ مسلمان آج بھی پہلے کی طرح سیاسی، اقتصادی،سماجی ،نوکر
شاہی طبقے میں پیچھے ہیں اور آگے آکر قیادت کرنے کی کوئی صورت نظر نہیں
آتی۔ ہم نے اب تک مسائل کو جانا نہیں ہے نہ ہی مسائل کے حل کو تلاش کیا ہے
۔ ہم پہلے بھی جذباتی تھے آج بھی جذباتی ہیں ۔ ہم پہلے اپنی بے بسی،
لاچاری اور برہمی کا اظہار اپنی گلیوں میں موجود کمپاؤنڈ اور دیواروں پر
جوشیلے نعرے لکھ کر کیا کرتے تھے اب واٹس اپ، فیس بک میں اسٹیٹس اور ڈی پی
ڈال کر کرتے ہیں ۔ پہلے ہم پمفلٹ اور پوسٹرس لگاکر اپنے غصے کا اظہار کیا
کرتے تھے اب ہمارا غصہ ذوم اور ویبینار کانفرنس میں نکل رہا ہے جبکہ اسکے
برعکس رام مندر بنانے کے لئے جس گروہ نے تیاری کی اس گروہ نے ہر شعبے میں
ہر مرحلے میں عملی کام کرنے والوں کو تیار کیا جس کا نتیجہ آج ہم دیکھ رہے
ہیں ۔ 1940 میں جب انگریزوں کی حکومت تھی اسی وقت سنگھ پریوار نے فیض آباد
کے کلکٹر کو بک کر لیا تھا اور جب انگریزوں نے کلکٹر کو ایودھیا جاکر جانچ
رپورٹ پیش کرنے کہا توکلکٹر نے اپنی پہلی ہی رپورٹ میں یہ بیان دیا تھا کہ
وہاں رام للاکا مندر ہے ۔ اس طرح سے سنگھ پریوار نے آہستہ آہستہ ملک کے
ایڈمنسٹریشن، لیجسلیچر، جوڈیشیل اور میڈیا میں اپنے نمائندوں کو تعینات کیا۔
جو بیج 75 سالوں سے بوئے جارہے ہیں وہی بیج آج تناور فصل بن کر ابھرچکے
ہیں ۔ ان 75 سالوں میں مسلمان کہاں ہیں؟ ۔ جہاں تھے وہیں پر ہیں ۔ ہم ہر
سال قوم مسلم کے 25 سے 50 امیدواروں کے یوپی یس سی امتحان میں کامیاب ہونے
پر جشن مناتے ہیں جس میں سے آدھے تو نوکری ملنے کے بعد اپنے آپ کو مسلمان
کے طور پر پہچان دلوانا بھی پسند نہیں کرتے جبکہ جتنے مسلمان اس امتحان میں
کامیاب ہوئے ہوتے ہیں اسکے دوگنے صرف برہمن کامیاب ہوئے ہوتے ہیں اور اسکی
اطلاع ہمیں کانوں تک نہیں ہوتی ۔ ایسے میں ہماری مسجدیں، ہمارے اوقافی
ادارے محفوظ رہیں گے بھی تو کیسے؟؟ہم مسلمان ہوشمندی سے کام کم کرتے رہے
ہیں اورجذبات سے زیادہ کام کیا ہے۔ سوچئے کہ اگر آج مسلمانوں نے اپنی
نسلوں کو خلیج کے پٹرو ڈالروں کی خاک مارنے کے لئے بھیجنے کے بجائے مستقبل
کے لئے چپراسی سے لے کر سرکاری افسر تک کی نوکری کے لئے اہمیت دی ہوتی تو
آج یہ نوبت نہ آئی ہوتی۔ آج بھی مسلمان وہی غلطی کررہا ہے جو پچھلے 75
سالوں سے کرتا آیا ہے ۔ ہم اپنے نوجوانوں کو میڈیا، بیوروکریٹ، وکیل
بنوانا نہیں چاہتے۔ جس دن ہم اپنے مسائل کو سمجھیں اور انکا حل نکالنے کا
طریقہ اختیار کریں تو بابری مسجد دوبارہ بنانے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ آج
ترکی کے آیا صوفیہ مسجد کی مثال دی جارہی ہے لیکن شاید ہی ہندوستانی
مسلمان یہ جانتے ہوں کہ ترکی میں آیاصوفیہ مسجد کو حاصل کرنے کے لئے وہاں
مسلمانوں کو سو سالوں سے تعلیم یافتہ ہوکر عدالت میں مقدمہ دائر کرتے ہوئے
حاصل کرنا پڑا۔ ترکی میں مسلمان حکمران، مسلمان افسران، مسلمان پولیس اور
مسلمان ججوں کے ہوتے ہوئے بھی اتنی تاخیر ہوئی ہے تو سوچئے کہ یہاں
مسلمانوں کو دوبارہ بابری مسجد حاصل کرنی ہے تو کس پیمانے پر جدوجہد کرنی
ہوگی اور کس طرح سے اپنی نسلوں کو تیار کرنا ہوگا ۔۔ صرف بابر تیری مسجد
میں ہم پھر سے اذاں دینگے اور لاٹھی گولی کھائینگے مسجد و ہیں بنائینگے
کہنے سے مسجد کی تعمیر نہیں ہوگی نہ ہی واٹس کا ڈی پی بلاک اور اسٹیٹس میں
رنگا رنگ مسجد کی تصویر اور نعرے لکھنے سے بنے گی ۔ اب مسجد بنانے کے لئے
ہماری سوچ اور فکر کی سر از نو تعمیر کرنی ہوگی۔ ہماری قیادت کو نیا لائحہ
عمل اختیار کرنا ہوگا۔ ہماری تنظیموں کو چاہیے ہوگا کہ اتحاد ملت، اتحاد
بین المذاہب کے عنوانات پر جلسے و جلوس نکال کر لاکھوں کروڑوں روپے برباد
کرنے کے بجائے نوجوانوں کی تعلیم پر خرچ کیا جائے، سرکاری نوکریاں حاصل
کرنے کے لئے انکی تربیت کی جائے، میڈیا سینٹرز بنائے جائیں اور جو میڈیا
مسلمانوں کی ترجمانی کررہا ہے اس پر خرچ کیا جائے ۔ 76 سالوں سے ہزاروں
جلسے بعنوان اتحاد بین المذاہب منعقد کئے گئے لیکن ہرجلسے کے بعد ہماری
پیٹھ میں چھرے ہی گھونپے گئے اور اتحاد کے بعد انتشار ہی پھیلایا گیا۔ جن
جن پر مسلمانوں نے بھروسہ کیا سب کے سب غدار ہی نکلے ۔ اب مسلمانوں کو کچھ
ہٹ کر سوچنا ہوگا تبھی جاکر کچھ کام ہوپائیگا۔
|