قائداعظم محمد علی جناح نے قیامِ پاکستان سے پہلے اور بعد
میں بھی جابجا اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کی یقین دہانی کرائی تھی۔ آپ کے
خطبات ، تقاریر اور انٹر ویو زشاہد ہیں کہ آپ جس طرح مسلم اکثریت کے حقوق
کی بات کرتے تھے، اسی طرح اقلیتوں کے حقوق کی بھی بات کرتے تھے ۔ بر صغیر
میں رہنے والی غیر مسلم اقلیتیں یعنی سکھ، ہندو اور عیسائیوں کو باور کراتے
تھے کہ مملکتِ پاکستان میں مذہب کی بنیاد پر کوئی ظلم اور ناانصافی نہیں کی
جائے گی بلکہ اسلامی تعلیمات کے مطابق عدل اور انصاف کیا جائے گا۔
جالندھر میں 15نومبر1942ء کو آل انڈیامسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے سالانہ
اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:’’اقلیتوں کایہ استحقاق ہے کہ انہیں واضح
ضمانت ہو۔ وہ دریافت کرتے ہیں کہ آپ کے ذہن میں پاکستان کا جو تصور ہے اس
میں ہماری صورت کیا ہوگی؟ یہ ایسا معاملہ ہے جس میں اقلیتوں کو قطعی اور
واضح ضمانت ملنی چاہیے۔ ہم ایسا کرچکے ہیں۔ ہم نے ایک قرار داد منظور کی ہے
کہ اقلیتوں کو پوری پوری حفاظت اور تحفظ ملنا چاہیے۔ میں نے پہلے کہا کوئی
مہذب حکومت بھی یہ کرے گی اور اسے کرنا چاہیے۔ جہاں تک ہمارا تعلق ہے‘
ہماری تاریخ اور ہمارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا واضح ترین ثبوت
پیش کردیا کہ غیر مسلموں کے ساتھ نہ صرف عادلانہ اور منصفانہ بلکہ فیاضانہ
سلوک روا رکھاگیا‘‘۔
دہلی میں 25اپریل 1943ء کو مجلس عامہ آل انڈیا مسلم لیگ سے بند کمرے میں
خطاب کرتے ہوئے فرمایا:’’اب میں بلوچستان کی اقلیتوں کے بارے میں چند الفاظ
کہناچاہتاہوں۔ یہاں سکھ ہیں، ہندو اور دیگر غیر مسلم اور عیسائی وغیرہ ہیں۔
جناب صدر! ہماری یہ عادت نہیں کہ ہم وہ بات کریں جو ہماری مراد نہ ہو یا
مطلب ایک بات سے ہو اور دوسری بات کہیں ۔ ہم نے اپنے مؤقف کی وضاحت کردی
ہے ، اب میں یہاں ہوں، میں سمجھتا ہوں کہ اگر یہ ضروری ہو اور اگر یقین
دہانی کی احتیاج ہو تو میں صدر آل انڈیا مسلم لیگ کی حیثیت سے اپنا مؤقف
دہراتاہوں۔ میں بلوچستان میں اقلیتوں سے کہتاہوں کہ ہم دیکھیں گے کہ
اقلیتوں کے ساتھ منصفانہ اور عادلانہ سلوک کیا جائے۔ ہم اس کا اہتمام کریں
گے کہ اقلیتوں میں تحفظ اور اعتماد کا شعور پیدا ہوجائے۔ میں سمجھتاہوں کہ
یہ کسی بھی مہذب حکومت کا بنیادی فریضہ ہے۔ ہمارے پیچھے ارفع ترین روایات
موجود ہیں اور اس امر کی شہادت مؤرخین نے دی ہے۔ صرف مسلمان مورخین نے
نہیں بلکہ غیر مسلم مؤرخین نے بھی دی ہے کہ عام طور سے جہاں کہیں بھی مسلم
حکمرانی تھی وہاں اقلیتوں کے ساتھ منصفانہ اور عادلانہ سلوک روا رکھاگیا۔
تازہ ترین مثال مصر کی ہے۔ مصر میں قبطی پانچ فیصد ہیں جبکہ مسلمانوں کی ۹۴
فیصد کی غالب اکثریت ہے۔ لیکن آپ وہاں جاکر دیکھ لیں کہ ان کے ساتھ حسنِ
سلوک کیا جاتا ہے۔ مصری حکومت کے تحت ان کے پاس اعلیٰ ترین عہدہ موجود ہے
اور ملازمتوں میں ان کا حصہ اب اور اس وقت تیس فیصد سے زیادہ ہے۔ لہٰذا یہ
تمام جھوٹا پروپیگینڈہ جسے کانگریس کی طرف سے تخلیق کیا گیا‘ اس کا مقصد
صرف اقلیتوں کو خوفزدہ کرناہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر مسلم اکثریتی حکومت قائم
ہوگئی تو اقلیتوں کا کیا ہوگا؟ اس طرح وہ ہر طرح کی دہشت کا تاثر دیتے ہیں۔
یہ کانگریس کے پروپگینڈے کا ایک اور ڈھب ہے کہ وہ اقلیتوں کو کان سے پکڑ کر
مسلمانوں کے خلاف کھڑا کردیں‘‘۔
بمبئی میں ایسوسی ایٹیڈ پریس آف امریکہ کے نمائندے سے ملاقات کرتے ہوئے
8نومبر1945ء کو ایک سوال کے جواب میں کہا: ’’پاکستان میں ہندو اقلیتوں کو
یہ یقین رکھنا چاہیے کہ ان کے حقوق کا تحفظ کیا جائے گا۔ اقلیتوں کو تحفظ
اور اعتماد کا مکمل شعور عطاکیے بغیر کوئی مہذب حکومت کامیابی کے ساتھ نہیں
چل سکتی۔ انہیںیہ احساس دلادینا چاہیے کہ کاروبار شہریاری میں وہ بھی شریک
ہیں اور ایسا کرنے کے لیے حکومت میں ان کی مناسب نمائندگی ہونی چاہیے۔
پاکستان انہیں یہ نمائندگی دے گا‘‘۔
11اکتوبر1947کو کراچی میں سول اور عسکری (بری، بحری اور فضائی ) افسروں سے
خطاب کرتے ہوئے فرمایا: ’’ایک دوسرا مسئلہ جو میرے ذہن میں ہلچل ڈال رہاہے،
و اقلیتوں کے ساتھ سلوک کا ہے۔ میں نے بار بار نجی طور پر بھی اور پبلک
بیانات میں بھی یہ واضح کیا ہے کہ ہم اقلیتوں کے ساتھ حسنِ سلوک سے پیش
آئیں گے۔ اور یہ تو میرے کبھی وہم و خیال میں بھی نہیں آیا کہ ہم انہیں
پَرے دھکیل دیں ۔ ۔۔۔ پاکستان میں اہم اقلیتوں کے جان و مال کی حفاظت کریں
گے اور ان سے پورا پورا انصاف کریں گے۔ ہم انہیں پاکستان چھوڑدینے پر مجبور
نہیں کریں گے ۔ جب تک وہ مملکت کے وفادار رہیں گے انہیں ان کے حقوق ملیں گے۔
ان سے ساتھ دیگر شہریوں جیسا برابر کا سلوک ہوگا۔‘‘
قائد اعظم نے 25اکتوبر 1947ء کو رائٹر کے نامہ نگار ڈنکن ہوپر کو ایک طویل
انٹر ویو دیا جس میں اقلیتوں کے تحفظ کے متعلق کہا: ’’مختلف عقائد کی حامل
اقلیتیں جو پاکستان یا ہندوستان میں رہتی ہیں ان کی متعلقہ ریاست کی شہریت
اس بناء پرختم نہیں ہوجاتی کہ وہ کسی خاص مذہب، عقیدے یا نسل سے تعلق رکھتی
ہیں ۔ میں نے بار بار اس امر کو واضح کیا ہے، خصوصاً دستور ساز اسمبلی میں
اپنی افتتاحی تقریر میں کہ پاکستان میں اقلیتوں سے اپنے شہریوں جیسا سلوک
ہوگا۔ اور انہیں وہ سب حقوق و مراعات حاصل ہوں گے جو کسی بھی فرقے کو حاصل
ہوں۔ پاکستان اس پالیسی پر عمل پیرا رہے گا اور ہر ممکن سعی کرے گا جس سے
پاکستان میں غیر مسلم اقلیتوں میں اعتماد اور تحفظ کا احساس پیدا ہو‘‘۔
اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ پر قائداعظم کا تصور عین اسلامی تعلیمات کے مطابق
ہے۔ چونکہ پاکستان ایک اسلامی ریاست ہے لہٰذا پاکستان کا آئین اقلیتوں کو
بھر پور تحفظ فراہم کرتا ہے۔ موجودہ حکومت کو بھی اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ
کے لیے عملاً کوشش کرنی چاہیے۔ لیکن اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کی آڑ میں
مسلم اکثریت کے حقوق غصب نہیں کرنے چاہئیں۔ بدقسمتی سے گذشتہ چند سالوں سے
یہی ہوتا آرہا ہے کہ اقلیتوںکے حقوق کی آڑ میں مسلم اکثریت کو نظر انداز
کیاجارہاہے۔ حکومتی سطح پر دینی مدارس کو تحفظ اور وسائل فراہم کرنے کے
بجائے انہیں دہشت گردی اور جاہلیت کی فیکٹریاں قرار دینا، گستاخانِ رسول کی
باعزت رہائی، ناموسِ رسالت کے پہرے داروں کی پھانسی ، ناموسِ رسالت کی
حفاظت کے لیے نکلنے والے علمائے کرام کی گرفتاریاں، مسلمانوں کے لیے حج
سبسڈی ختم کرکے سکھوں کے لیے کرتار پور راہداری کی تعمیر اور اسلام آباد
میں ایک طرف مسجد کی عمارت ڈھاکر دوسری طرف مندر کی تعمیر ۔ یہ سب مسلم
اکثریت پر ظلم ہے۔ لہٰذا مسلم اکثریت کے حقوق غصب کرکے اقلیتوں کے حقوق کا
ڈھنڈورا پیٹنا اسلامی مملکت کا شیوہ نہیں ہوسکتا۔ ریاستِ مدینہ کی نام لیوا
موجودہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ اپنا اعتماد بحال کرنے میں مثبت کردار
اداکرے۔ |