دولت کی چمک

اقتدار اور فراونیِ لال و زرو جواہر انسانی تکریم کے سب سے مضبوط ستون ہیں۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ انپڑھ، بد تہذیب، بے راہ رو،سمگلر ، اور رسہ گیر دولت کے بل بوتے پر معاشرے میں عظمت وتو قیر کی اعلی مسند پر سرفراز ہو جاتے جبکہ اہلِ علم محرومی اور بے اعتنائی کا شکار بنادئے جاتے ہیں۔ اہلِ ثروت طبقہ کے پاس چونکہ دولت کی ریل پیل ہوتی ہے اس لئے بہت سے ضرورت مند اپنی حاجات کی برو مندی کے لئے ان سے توقعات وابستہ کر لیتے ہیں جو کہ بنیادی طور ر غلط ہے۔کسی انسان سے ذاتی مفادات کے حوالے سے امیدوں کو پروان چڑھانا تذلیلِ انسانیت ہے اور اس سے انسانی معا شرہ بگاڑ کا شکار ہو جاتا ہے ۔دولت چونکہ ایک طاقت کا نام ہے اور اس طاقت کے سامنے عام انسانوں کے ساتھ ساتھ کئی خود ساختہ دانشور بھی سر نگوں ہو کر اہلِ زر کی مدح سرائی میں جٹ جاتے ہیں اس لئے معاشرے میں دولت کے حاملین کی حاشیہ برداری ضروری قرار پاتی ہے۔زرد صحافت اور لفافہ جرنلزم اسی کی جدید قسمیں ہیں جس میں چند دولت مند اپنی دولت کے بل بوتے پر انسانی ضمیروں کو خریدتے ہیں۔بکنے والے بکتے رہتے ہیں اور خریدنے والے خریدتے رہتے ہیں اور یہ سلسلہ نسلِ انسانی کے آخری انسان تک ایسے ہی چلتے رہنا ہے۔ با ضمیر اور اصول پسند اانسان اس روش کی مذمت کرتے رہتے ہیں لیکن دولت کی مقنا طا سیت کو شکست سے ہمکنار نہیں کر پا تے ۔ ئیہپ ایک ایسی کھائی ہے جسے پاٹنا ان کے بس میں نہیں ہو تا۔ یہ میرا ذاتی مشاہدہ ہے کہ خوشامدی ٹو لہ دولت مندوں میں فہم و فراست ، اعلی ادراک اور ذوق کے ایسے کئی پہلو تراش کر پیش کرنے کی سعی کرتا ہے جن کا ان کی ذات سے دور کابھی واسطہ نہیں ہو تا۔وہ افراد جھنیں دولت کی عدم موجودگی میں کوئی در خورِ اعتنا سمجھنے کے لئے راضی نہیں ہوتا ، دولت کی فراوانی کے باعث معاشرہ کے سرکردہ افراد بن جاتے ہیں۔لوگ ان سے مشورہ کرتے اور ان کی رائے کو مقدم جان کر اس پر عمل پیرا ہونے کی کوشش کرتے ہیں حالانکہ ان کی فکری اوڑان کسی میزان میں تولنے کے لائق نہیں ہو تی۔ذاتی مفادات کی وابستگی دولت مندوں کو معزز قرار دلواتی ہے وگرنہ ان کی حالت تو اس ڈھول کی مانند ہوتی ہے جس کی گن گرج توبہت ہوتی ہے لیکن جو اندر سے بالکل کھوکھلا ہوتا ہے۔،۔

قوموں کا مائنڈ سیٹ بھی انسانی معاشرے کے ان جیتے جاگتے کرداروں سے مختلف نہیں ہوتا ۔دولت مندوں کے ناز نخرے اٹھائے جانا ایک معمول کا عمل قرار پاتا ہے۔کسی زمانے میں عرب کے ر یگستا نوں میں پلنے والے عربوں کو کوئی بھی قوم اہمیت دینے کے لئے تیار نہیں تھی بلکہ جس کسی کو بھی فرصت ملتی تھی وہ انھیں فتح کر لیتا تھا۔پہلی جنگِ عظیم کے بعد سارا عرب فرانس ،برطانیہ اور اٹلی کا محکوم تھا اور عربوں کا تشخص بری طرح مجروح تھا۔ لیکن جیسے ہی ان کے ہاں تیل کے کنویں نکل آئے ہر کوئی ان کی کاسہ لیسی میں جٹ گیا۔وہی بدو جن کی غربت اور کسمپرسی کا مذاق اڑا یا جاتا تھا تیل کی دولت ہاتھ لگنے کے بعد ان کے ناز نخرے اٹھائے جانے لگے۔دنیا کی سب سے بڑی اسلامی ریاست کے وزیرِ اعظم کو عربوں کی نا راضگی کو رفع رنے کے لئے کئی دفعہ ان کی منت سما جت بھی کرنی پڑتی ہے حالانکہ دفاعی اور فوجی لحاظ سے ان میں کوئی موازنہ نہیں ہے ۔پاکستان کی جغرافیائی حیثیت اور پھر اس کی زرعی برتری کا ان سے کوئی مقابلہ نہیں ہے۔چار موسموں کی مو جود گی ، بپھرے ہوئے دریاؤں کی طغیانی ،جھیلوں کی خوبصورتی اوربلندو و بالا پہاڑوں کی ہیبت ہر پہلو سے لاجواب ہے لیکن اس کے باوجود بھی ہمیں درہم و دینار کے حاملین کی کاسہ لیسی کرنی پڑتی ہے کیونکہ ان کا شمار دولت مند ممالک میں ہوتا ہے۔ ہمارے منتخب وزیرِ اعظم کوتیل کی اسی دولت کی وجہ سے ان کی غیر منطقی ضد کو بھی شرفِ قبولیت عطا کرنا پرتا ہے کیونکہ ان کی نا راضگی ہمارے لئے کئی مصائب کھڑے کرسکتی ہے ، غر بت و بد حالی میں دھنسا ہوا ملک مزید خطِ غربت سے نیچے جا سکتا ہے اور بے روزگاری کئی معاشرتی جرائم کو جنم دینے کا باعث بن سکتی ہے اس لئے ناز نخرے اٹھانے میں ہی عافیت سمجھ جاتی ہے۔جن کے ناز اٹھائے جاتے ہیں وہ اسے اپنی فہم وفراست کا شاہکار گردانتے ہیں جبکہ ناز اٹھانے والے اسے اپنی مجبوری سے تعبیر کرتے ہیں۔اسے ہی دولت کی چمک اور غربت کی بے بسی سے موسوم کیا جا تا ہے ۔،۔

۱۹۷۰؁ کی دہائی میں پاکستان اور عربوں کے تعلقات کو نیا موڑذو لفقار علی بھٹو کے دورِ حکومت میں عطا ہو ا جب لاکھوں پاکستانی ان عرب ممالک میں تلاشِ روزگارکے لئے نکل کھڑے ہوئے۔ اس نئے بندھن سے پاکستانی معاشرے نے نئی کروٹ لی اور انتہائی پسماندہ اور غریب گھرانوں کے افراد نے سکھ کا سانس لیا۔ان کی بودو باش، رہن سہن اور طرزِ زندگی یکسر تبدیل ہو گیا اور وہ معاشرے میں قابلِ رشک نگاہوں سے دیکھے جانے لگے۔پاکستانی معیشت کی مضبوطی میں سمندر پار پاکستانیوں کا بہت بڑا کردار ہے ۔ان کی تر سیلِ زر سے زرِ مبادلہ کے ذخائر میں جو اضافہ ہو تا ہے اس پر ہماری در آمدات کا دارو مدار ہے۔سمندر پار پاکستانیوں کی ترسیلات سے پاکستان ڈیفالٹ ہونے سے محفوظ رہتاہے۔عربوں کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگا لیجئے کہ کسی زمانے میں پاکستان عرب ممالک کے سربراہوں کو اپنے ہاں دعوت دینا بھی اپنے لئے بوجھ تصور کرتا تھا۔در اصل وہ انتہائی چھوٹے چھوٹے ممالک تھے اور پاکستان کے سامنے ان کی کوئی اہمیت نہیں تھی لیکن تیل کی موجودگی نے سارے حجاب اٹھا دئے اور آخرِ کار انہی ساختہ سامانوں کیلئے مملکتِ خداداد کے ناخداؤں کو اپنے دیدہ و دل فرشِ راہ کرنے پڑے۔عربوں کی دولت مندی کی چمک نے سب کی نگاہوں کو خیرہ کر دیا۔ایشیا، عجم ،یورپ،امریکہ ،افریکہ،اسٹریلیا، نیوزی لینڈ،جاپان ،روس اور مشرقِ وسطی کی سب اقوام کی نظریں عربوں کی دلت پر مرکوز ہو گئیں۔ امریکہ نے اپنی عسکری اور سائنسی برتری کی بدولت پورے عرب کو اپنے حصا ر میں لے لیا اور دوسری اقوام کا عربوں میں داخلہ ممنوع قرار دے دیا ۔امریکہ کی چھتر چھایا میں نصف صدی کا یہ سفر اب اپنے انجام کی طرف بڑھ رہا ہے کیونکہ ایک نئی قوم جسے چینی کہا جاتا ہے ان تمام علاقوں میں جہاں امریکہ اور یورپ کی حاکمیت تھی اپنے حلقہ ِ دام میں لانے کے لئے بے قرار ہے ۔چینی بے قراریاں بڑھتی جا رہی ہیں، اور وہ شب و روز امریکہ اور یورپ کے قائم کردہ حصار کو ملیا میٹ کرنے میں جٹا ہوا ہے۔اسے کسی کا کوئی خوف نہیں ہے کیو نکہ اس کے پاس دولت کے انبار لگے ہوئے ہیں۔دنیا کی بے شمار دولت اس کے قبضہ میں ہے۔وہ ون بیلٹ ون روڈ سے دنیا کی تسخیر کے لئے بے کل ہے۔اس کے عدو کے قدم ڈگمگا رہے ہیں ، اس کی سانسیں پھولی ہوئی ہیں،اس کے اوسان خطا ہو رہے ہیں کیونکہ چین نے تجارتی محاذ پر جس طرح کی یلغار کر دی ہے اس سے عدو کے بچنے کے امکانات بہت کم ہیں۔ایران میں چار سو ارب ڈالر کی سرما یہ کاری کے اعلان نے دنیا کو انگشت بدندان کر دیا ہے۔اس یلغار کو اگر امریکہ نے اپنی حکمتِ عملی سے ناکام بنا دیا تو پھر چینی سپر میسی کے سفر کو ایسی زک پہنچے گی جس سے وہ سنبھل نہیں پائے گا لیکن اگر اس نے اپنے جرات مندانہ اعلان میں حقیقت کے رنگ بھر دئے تو پھر اس کی راہ روکنے والا کوئی نہیں ہو گا۔مشکل سفر، رکاوٹو ں،مکارپن ،سازشوں اور دھمکیوں کے تانوں بانوں میں چین کی فتح مندی ابھی غیر واضح ہے۔منزل تو واضح ہے لیکن دشمن بھی بہت تگڑا ہے ۔،۔

Tariq Hussain Butt
About the Author: Tariq Hussain Butt Read More Articles by Tariq Hussain Butt: 629 Articles with 515648 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.